سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی طرف سے دو بکر یاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکر ی بطور عقیقہ کے قربان فرمائی۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله بن عامر الأسلمي
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن قيصر التجيبي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء شاب، فقال: يا رسول الله، اقبل وانا صائم؟ قال:" لا"، فجاء شيخ، فقال: اقبل وانا صائم؟ قال:" نعم"، قال: فنظر بعضنا إلى بعض، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد علمت لم نظر بعضكم إلى بعض، إن الشيخ يملك نفسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ قَيْصَرَ التُّجِيبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ شَابٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَ:" لَا"، فَجَاءَ شَيْخٌ، فَقَالَ: أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَنَظَرَ بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَلِمْتُ لِمَ نَظَرَ بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ، إِنَّ الشَّيْخَ يَمْلِكُ نَفْسَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! روزے کی حالت میں میں اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تھوڑی دیر بعد ایک بڑی عمر کا آدمی آیا اور اس نے بھی وہی سوال پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اس پر ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہے کہ تم ایک دوسرے کو کیوں دیکھ رہے ہو؟ دراصل عمر رسیدہ آدمی اپنے اوپر قابو رکھ سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على خلاف فى صحابيه، ابن لهيعة سيئ الحفظ
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، وداود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، مائتي مرة في كل يوم، لم يسبقه احد كان قبله، ولا يدركه احد بعده، إلا بافضل من عمله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَدَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، مِائَتَيْ مَرَّةٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ، لَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ كَانَ قَبْلَهُ، وَلَا يُدْرِكُهُ أَحَدٌ بَعْدَهُ، إِلَّا بِأَفْضَلَ مِنْ عَمَلِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص روزانہ دو سو مرتبہ یہ کلمات کہہ لے " اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا شریک نہیں حکومت بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے " اس پر کوئی پہلا سبقت نہیں لے جاسکے گا اور بعد والا اسے کوئی پا نہیں سکے گا الاّ یہ کہ اس سے افضل عمل سر انجام دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم قوما يتدارءون، فقال:" إنما هلك من كان قبلكم بهذا، ضربوا كتاب الله بعضه ببعض، وإنما نزل كتاب الله يصدق بعضه بعضا، فلا تكذبوا بعضه ببعض، فما علمتم منه فقولوا، وما جهلتم فكلوه إلى عالمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يَتَدَارَءُونَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا، ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا، وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنی کتابوں کے ایک حصے کو دوسرے حصے پر مارا قرآن اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کر لو اور جو معلوم نہ ہو تو اسے اس کے عالم سے معلوم کر لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من حمل علينا السلاح، فليس منا، ولا رصد بطريق، ومن قتل على غير ذلك، فهو شبه العمد، وعقله مغلظ، ولا يقتل صاحبه، وهو كالشهر الحرام، للحرمة والجوار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَلَا رَصَدَ بِطَرِيقٍ، وَمَنْ قُتِلَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، فَهُوَ شِبْهُ الْعَمْدِ، وَعَقْلُهُ مُغَلَّظٌ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَهُوَ كَالشَّهْرِ الْحَرَامِ، لِلْحُرْمَةِ وَالْجِوَارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو ہم پر اسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو شخص اس کے علاوہ صورت میں مارآ جائے تو اسے " شبہ عمد " کہا جاتا ہے اور اس کی دیت مغلظہ ہو گی، البتہ اس صورت میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور وہ حرمت اور پڑوس کے لئے حرمت والے مہینے کی طرح ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ جو شخص خطاء مارآ جائے اس کی دیت سو اونٹ ہو گی جن میں تیس بنت مخاض تیس بنت لبون، تیس حقے اور دس ابن لبون مذکر ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا بكر بن سوادة ، عن عبد الرحمن بن جبير ، ان عبد الله بن عمرو حدثه، ان نفرا من بني هاشم دخلوا على اسماء بنت عميس، فدخل ابو بكر، وهي تحته يومئذ، فرآهم، فكره ذلك، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: لم ار إلا خيرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله قد براها من ذلك"، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فقال:" لا يدخل رجل بعد يومي هذا على مغيبة، إلا ومعه رجل او اثنان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا بَكر بن سوادة ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَدَّثَهُ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ دَخَلُوا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَهِيَ تَحْتَهُ يَوْمَئِذٍ، فَرَآهُمْ، فَكَرِهَ ذَلِكَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: لَمْ أَرَ إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَرَّأَهَا مِنْ ذَلِكَ"، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" لَا يَدْخُلْ رَجُلٌ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا عَلَى مُغِيبَةٍ، إِلَّا وَمَعَهُ رَجُلٌ أَوْ اثْنَانِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو ہاشم کے کچھ لوگ ایک مرتبہ سیدنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے ہوئے تھے ان کے زوج محترم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے چونکہ وہ ان کی بیوی تھیں اس لئے انہیں اس پر ناگواری ہوئی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے خیر ہی دیکھی (کوئی برا منظر نہیں دیکھا لیکن پھر بھی اچھا نہیں لگا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے انہیں بچا لیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”آج کے بعد کوئی شخص کسی ایک عورت کے پاس تنہا نہ جائے جس کا شوہر موجود نہ ہو الاّ یہ کہ اس کے ساتھ ایک یا دو آدمی ہوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی ذمی کو قتل کرے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا الحسين ، حدثني ابن ابي الزناد ، عن عبد الرحمن يعني ابن الحارث ، اخبرني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، انه سمع رجلا من مزينة سال رسول الله صلى الله عليه وسلم ماذا تقول: يا رسول الله، في ضالة الإبل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لك ولها؟ معها حذاؤها وسقاؤها"، قال: فضالة الغنم؟ قال:" لك او لاخيك او للذئب"، قال: فمن اخذها من مرتعها؟ قال:" عوقب وغرم مثل ثمنها، ومن استطلقها من عقال، او استخرجها من حفش وهي المظال فعليه القطع"، قال: يا رسول الله، فالثمر يصاب في اكمامه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس على آكل سبيل، فمن اتخذ خبنة غرم مثل ثمنها وعوقب، ومن اخذ شيئا منها بعد ان اوى إلى مربد او كسر عنها بابا، فبلغ ما ياخذ ثمن المجن، فعليه القطع"، قال: يا رسول الله، فالكنز نجده في الخرب وفي الآرام؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا"، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ"، قَالَ: فَمَنْ أَخَذَهَا مِنْ مَرْتَعِهَا؟ قَالَ:" عُوقِبَ وَغُرِّمَ مِثْلَ ثَمَنِهَا، وَمَنْ اسْتَطْلَقَهَا مِنْ عِقَالٍ، أَوْ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ حِفْشٍ وَهِيَ الْمَظَالُّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالثَّمَرُ يُصَابُ فِي أَكْمَامِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ عَلَى آكِلٍ سَبِيلٌ، فَمَنْ اتَّخَذَ خُبْنَةً غُرِّمَ مِثْلَ ثَمَنِهَا وَعُوقِبَ، وَمَنْ أَخَذَ شَيْئًا مِنْهَا بَعْدَ أَنْ أَوَى إِلَى مِرْبَدٍ أَوْ كَسَرَ عَنْهَا بَابًا، فَبَلَغَ مَا يَأْخُذُ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالْكَنْزُ نَجِدُهُ فِي الْخَرِبِ وَفِي الْآرَامِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آیاہوں کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ اس کا " سم " اور اس کا " مشکیزہ " ہوتا ہے اس نے پوچھا کہ گمشدہ بکر ی کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تم اسے لے جاؤ گے یا تمہارا کوئی بھائی لے جائے گا یا کوئی بھیڑیا لے جائے گا۔ اس نے پوچھا وہ محفوظ بکر ی جو اپنی چراگاہ میں ہو اسے چوری کر نے والے کے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت اور سزا اور جسے باڑے سے چرایا گیا ہو تو اس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھا لئے چھپا کر ان پر تو کوئی چیز واجب نہیں ہو گی لیکن جو پھل وہ اٹھا کر لے جائے تو اس کی دوگنی قیمت اور پٹائی اور سزا واجب ہو گی اور اگر وہ پھلوں کو خشک کر نے کی جگہ سے چوری کئے گئے اور ان کی مقدار کم از کم ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس خزانے کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی ویران یا آباد علاقے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔