(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حجاج ، عن عطاء ، عن جابر . وعن ابي الزبير ، عن جابر . وعن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل اليمن واهل تهامة يلملم، ولاهل الطائف، وهي نجد قرن، ولاهل العراق ذات عرق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ . وَعَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ . وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ وَأَهْلِ تِهَامَةَ يَلَمْلَمَ، وَلِأَهْلِ الطَّائِفِ، وَهِيَ نَجْدٌ قَرَن، وَلِأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ اہل یمن وتہامہ کے لئے یلملم اہل طائف (نجد) کے لئے قرن اور اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون ذكر ميقات أهل العراق فشاذ، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الحجاج
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی مقبول نہیں نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوکر کی گواہی اس کے مالکان کے حق میں قبول نہیں فرمائی البتہ دوسرے لوگوں کے حق میں قبول فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن راشد ، عن سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى ايما مستلحق استلحق بعد ابيه الذي يدعى له، ادعاه ورثته قضى إن كان من حرة تزوجها، او من امة يملكها، فقد لحق بما استلحقه، وإن كان من حرة او امة عاهر بها، لم يلحق بما استلحقه، وإن كان ابوه الذي يدعى له هو ادعاه، وهو ابن زنية، لاهل امه، من كانوا، حرة او امة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَيُّمَا مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ، ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ قَضَى إِنْ كَانَ مِنْ حُرَّةٍ تَزَوَّجَهَا، أَوْ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا، فَقَدْ لَحِقَ بِمَا اسْتَلْحَقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ حُرَّةٍ أَوْ أَمَةٍ عَاهَرَ بِهَا، لَمْ يَلْحَقْ بِمَا اسْتَلْحَقَهُ، وَإِنْ كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ، وَهُوَ ابْنُ زِنْيَةٍ، لِأَهْلِ أُمِّهِ، مَنْ كَانُوا، حُرَّةً أَوْ أَمَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو بچہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کے نسب میں شامل کیا جائے جس کا دعویٰ مرحوم کے ورثاء نے کیا ہو اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر وہ آزاد عورت سے ہو جس سے مرنے والے نے نکاح کیا ہو۔ یا اس کی مملوکہ باندی سے ہو تو اس کا نسب مرنے والے سے ثابت ہو جائے گا اور اگر وہ کسی آزاد عورت یا باندی سے گناہ کا نتیجہ ہے تو اس کا نسب مرنے والے سے ثابت نہ ہو گا اگرچہ خود اس کا باپ ہی اس کا دعویٰ کرے وہ زنا کی پیداوار اور اپنی ماں کا بیٹا ہے اور اس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ کوئی بھی لوگ ہوں آزاد ہوں یا غلام۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن لي ذوي ارحام، اصل ويقطعوني، واعفو ويظلمون، واحسن ويسيئون، افاكافئهم؟ قال:" لا إذا تتركون جميعا، ولكن خذ بالفضل وصلهم، فإنه لن يزال معك ظهير من الله عز وجل ما كنت على ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَأَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي ذَوِي أَرْحَامٍ، أَصِلُ وَيَقْطَعُونِي، وَأَعْفُو وَيَظْلِمُونَ، وَأُحْسِنُ وَيُسِيئُونَ، أَفَأُكَافِئُهُمْ؟ قَالَ:" لَا إِذًا تُتْرَكُونَ جَمِيعًا، وَلَكِنْ خُذْ بِالْفَضْلِ وَصِلْهُمْ، فَإِنَّهُ لَنْ يَزَالَ مَعَكَ ظَهِيرٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا كُنْتَ عَلَى ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتے دار ہیں میں ان سے رشتہ داری جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں میں ان سے درگزر کرتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برا کرتے ہیں کیا میں بھی ان کا بدلہ دے سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ورنہ تم سب کو چھوڑ دیا جائے گا تم فضیلت والا پہلو اختیار کرو اور ان سے صلہ رحمی کرو اور جب تک تم ایسا کرتے رہو گے اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ مستقل ایک معاون لگا رہے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الحجاج بن أرطاة
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن يوسف ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يحضر الجمعة ثلاثة: رجل حضرها بدعاء وصلاة، فذلك رجل دعا ربه، إن شاء اعطاه، وإن شاء منعه، ورجل حضرها بسكوت وإنصات، فذلك هو حقها، ورجل يحضرها يلغو، فذلك حظه منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ يُوسُفَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَحْضُرُ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ حَضَرَهَا بِدُعَاءٍ وَصَلَاةٍ، فَذَلِكَ رَجُلٌ دَعَا رَبَّهُ، إِنْ شَاءَ أَعْطَاهُ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا بِسُكُوتٍ وَإِنْصَاتٍ، فَذَلِكَ هُوَ حَقُّهَا، وَرَجُلٌ يَحْضُرُهَا يَلْغُو، فَذَلِكَ حَظُّهُ مِنْهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں ایک آدمی تو وہ ہے جو نماز اور دعاء میں شریک ہوتا ہے اس آدمی نے اپنے رب کو پکار لیا اب اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے عطاء کرے یا نہ کرے، دوسرا آدمی وہ ہے جو خاموشی کے ساتھ آکر اس میں شریک ہو جائے یہی اس کا حق ہے اور تیسرا آدمی وہ ہے جو بیکار کاموں میں لگا رہتا ہے یہ اس کا حصہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا انس بن عياض ، حدثنا ابو حازم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لقد جلست انا واخي مجلسا ما احب ان لي به حمر النعم، اقبلت انا واخي، وإذا مشيخة من صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوس عند باب من ابوابه، فكرهنا ان نفرق بينهم، فجلسنا حجرة، إذ ذكروا آية من القرآن، فتماروا فيها، حتى ارتفعت اصواتهم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا، قد احمر وجهه، يرميهم بالتراب، ويقول:" مهلا يا قوم، بهذا اهلكت الامم من قبلكم، باختلافهم على انبيائهم، وضربهم الكتب بعضها ببعض، إن القرآن لم ينزل يكذب بعضه بعضا، بل يصدق بعضه بعضا، فما عرفتم منه، فاعملوا به، وما جهلتم منه، فردوه إلى عالمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَقَدْ جَلَسْتُ أَنَا وَأَخِي مَجْلِسًا مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِ حُمْرَ النَّعَمِ، أَقْبَلْتُ أَنَا وَأَخِي، وَإِذَا مَشْيَخَةٌ مِنْ صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ عِنْدَ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِهِ، فَكَرِهْنَا أَنْ نُفَرِّقَ بَيْنَهُمْ، فَجَلَسْنَا حَجْرَةً، إِذْ ذَكَرُوا آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَتَمَارَوْا فِيهَا، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، قَدْ احْمَرَّ وَجْهُهُ، يَرْمِيهِمْ بِالتُّرَابِ، وَيَقُولُ:" مَهْلًا يَا قَوْمِ، بِهَذَا أُهْلِكَتْ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ، بِاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، وَضَرْبِهِمْ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ يَنْزِلْ يُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا، بَلْ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ، فَاعْمَلُوا بِهِ، وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ، فَرُدُّوهُ إِلَى عَالِمِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور میرا بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں ہے ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیا تو کچھ بزرگ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہم نے ان کے درمیان گھس کر تفریق کر نے کو اچھا نہیں سمجھا اس لئے ایک کونے میں بیٹھ گئے اس دوران صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ایک آیت کا تذکر ہ چھیڑا اور اس کی تفسیر میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہو کر باہر نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی پھینک رہے تھے اور فرما رہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے سامنے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کے ایک حصے کو دوسرے حصے پر مارا قرآن اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کر لو اور جو معلوم نہ ہو تو اسے اس کے عالم سے معلوم کر لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا انس بن عياض ، حدثنا ابو حازم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يؤمن المرء حتى يؤمن بالقدر خيره وشره"، قال ابو حازم: لعن الله دينا انا اكبر منه، يعني التكذيب بالقدر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ الْمَرْءُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لَعَنَ اللَّهُ دِينًا أَنَا أَكْبَرُ مِنْهُ، يَعْنِي التَّكْذِيبَ بِالْقَدَرِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا حجاج ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان العاص بن وائل نذر في الجاهلية ان ينحر مائة بدنة، وان هشام بن العاص نحر حصته، خمسين بدنة، وان عمرا سال النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟ فقال:" اما ابوك، فلو كان اقر بالتوحيد، فصمت، وتصدقت عنه، نفعه ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَنْحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ، وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ العاص نَحَرَ حِصَّتَهُ، خَمْسِينَ بَدَنَةً، وَأَنَّ عَمْرًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:" أَمَّا أَبُوكَ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ، فَصُمْتَ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ، نَفَعَهُ ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ قربان کر نے کی منت مانی تھی، اس کے ایک بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ قربان کر دئیے دوسرے بیٹے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کر لیا ہوتا تو تم اس کی طرف سے جو بھی روزہ اور صدقہ کرتے اسے ان کا نفع ہوتا (لیکن چونکہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا اس لئے اسے کیا فائدہ ہو گا)
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنا ہدیہ واپس نہ مانگے سوائے باپ اپنے بیٹے سے اور ہدیہ دے کرواپس لینے والا ایسے ہے جیسے قے کر کے اسے چاٹ لینے والا۔