(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا عبد الله بن هبيرة ، عن ابي سالم الجيشاني ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يحل ان ينكح المراة بطلاق اخرى، ولا يحل لرجل ان يبيع على بيع صاحبه حتى يذره، ولا يحل لثلاثة نفر يكونون بارض فلاة إلا امروا عليهم احدهم ولا يحل لثلاثة نفر يكونون بارض فلاة يتناجى اثنان دون صاحبهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ أَنْ يَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِطَلَاقِ أُخْرَى، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ حَتَّى يَذَرَهُ، وَلَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ وَلَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کسی عورت سے دوسری کو طلاق ہونے کی وجہ سے نکاح کرنا حلال نہیں کسی شخص کے لئے اپنے ساتھی کے بیع پر بیع کرنا حلال نہیں جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے اور ایسے تین آدمیوں کے لئے جو کسی اجنبی علاقے (جنگل) میں ہوں ضروری ہے کہ اپنے اوپر کسی ایک کو امیر مقرر کر لیں اور ایسے تین آدمیوں کے لئے جو کسی جنگل میں ہوں حلال نہیں ہے کہ ان میں سے دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر سرگوشی کر نے لگیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، إلا حديث الإمارة فحسن، و هذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک سیدھا مسلمان اپنے حسن اخلاق اور اپنی شرافت و مہربانی کی وجہ سے ان لوگوں کے درجے تک جاپہنچتا ہے جو روزہ دار اور شب زندہ دار ہوتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن جندب بن عبد الله ، انه سمع سفيان بن عوف ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ونحن عنده:" طوبى للغرباء"، فقيل: من الغرباء يا رسول الله؟ قال:" اناس صالحون، في اناس سوء كثير، من يعصيهم اكثر ممن يطيعهم". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وكنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما آخر، حين طلعت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سياتي اناس من امتي يوم القيامة، نورهم كضوء الشمس"، قلنا: من اولئك يا رسول الله؟ فقال:" فقراء المهاجرين، والذين تتقى بهم المكاره، يموت احدهم وحاجته في صدره، يحشرون من اقطار الارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ عَوْفٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَهُ:" طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، فَقِيلَ: مَنْ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أُنَاسٌ صَالِحُونَ، فِي أُنَاسِ سُوءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَكُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا آخَرَ، حِينَ طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَيَأْتِي أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نُورُهُمْ كَضَوْءِ الشَّمْسِ"، قُلْنَا: مَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، وَالَّذِينَ تُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ، يَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ خوشخبری ہے غرباء کے لئے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برے لوگ کے تم جم غفیر میں تھوڑے سے نیک لوگ جن کی بات ماننے والوں کی تعداد سے زیادہ نہ ماننے والوں کی تعداد ہو۔ اور ہم ایک دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس وقت سورج طلوع ہو رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ اس طرح آئیں گے کہ ان کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا ہم نے پوچھا یا رسول اللہ!! وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”فقراء مہاجرین جن کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا ہے وہ لوگ اپنی ضروریات اپنے سینے میں ہی لے کر مرجاتے تھے انہیں زمین کے کونے کونے سے جمع کر لیا جائے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ!! مجالس ذکر کی غنیمت کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذکر کی غنیمت جنت ہے جنت۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف، و راشد بن يحيي المعافري مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر چار چیزیں اور خصلتیں تمہارے اندر ہوں تو اگر ساری دنیا بھی چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں، امانت کی حفاظت، بات میں سچائی، اخلاق کی عمدگی اور کھانے میں پاکیزگی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين الحارث ابن زيد الحضرمي و بين عبد الله بن عمرو، وابن لهيعة سييء الحفظ، و روي الحديث موقوفا، وهو أصح
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا بكر بن عمرو ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" القلوب اوعية، وبعضها اوعى من بعض، فإذا سالتم الله عز وجل، ايها الناس، فاسالوه وانتم موقنون بالإجابة، فإن الله لا يستجيب لعبد دعاه عن ظهر قلب غافل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقُلُوبُ أَوْعِيَةٌ، وَبَعْضُهَا أَوْعَى مِنْ بَعْضٍ، فَإِذَا سَأَلْتُمْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، أَيُّهَا النَّاسُ، فَاسْأَلُوهُ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ لِعَبْدٍ دَعَاهُ عَنْ ظَهْرِ قَلْبٍ غَافِلٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دل برتنوں کے طرح ہوتے ہیں، بعض بعض سے گہرے ہوتے ہیں اس لئے اے لوگوں جب تم اللہ سے سوال کرو تو قبولیت کے یقین کے ساتھ مانگا کرو کیونکہ اللہ کسی ایسے بندے کی دعاء کو قبول نہیں کرتا جو غافل دل سے اسے پکارے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: توفي رجل بالمدينة، فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا ليته مات في غير مولده"، فقال رجل من الناس: لم يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إن الرجل إذا توفي في غير مولده قيس له من مولده إلى منقطع اثره، في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ بِالْمَدِينَةِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا لَيْتَهُ مَاتَ فِي غَيْرِ مَوْلِدِهِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا تُوُفِّيَ فِي غَيْرِ مَوْلِدِهِ قِيسَ لَهُ مِنْ مَوْلِدِهِ إِلَى مُنْقَطَعِ أَثَرِهِ، فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی اور فرمایا: ”کاش کہ یہ اپنے وطن میں نہ مرتا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! یہ کیوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اپنے وطن کے علاوہ کہیں اور مرے تو اس کے لئے اس کے وطن سے لے کر اس کے نشان قدم کی انتہاء تک جنت میں جگہ عطاء فرمائی جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة. وإن كان سييء الحفظ. توبع، وتنحصر علته فى حيي بن عبد الله المعافري ، وهو ضعيف