(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن الحبلي حدثه، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية، فغنموا، واسرعوا الرجعة، فتحدث الناس بقرب مغزاهم، وكثرة غنيمتهم، وسرعة رجعتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا ادلكم على اقرب منه مغزى، واكثر غنيمة، واوشك رجعة؟ من توضا، ثم غدا إلى المسجد لسبحة الضحى، فهو اقرب مغزى، واكثر غنيمة، واوشك رجعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَغَنِمُوا، وَأَسْرَعُوا الرَّجْعَةَ، فَتَحَدَّثَ النَّاسُ بِقُرْبِ مَغْزَاهُمْ، وَكَثْرَةِ غَنِيمَتِهِمْ، وَسُرْعَةِ رَجْعَتِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَقْرَبَ مِنْهُ مَغْزًى، وَأَكْثَرَ غَنِيمَةً، وَأَوْشَكَ رَجْعَةً؟ مَنْ تَوَضَّأَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لِسُبْحَةِ الضُّحَى، فَهُوَ أَقْرَبُ مَغْزًى، وَأَكْثَرُ غَنِيمَةً، وَأَوْشَكُ رَجْعَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ روانہ فرمایا: ”وہ مال غنیمت حاصل کر کے بہت جلدی واپس آگئے لوگ ان کے مقام جہاد کے قرب، کثرت غنیمت اور جلد واپسی کے متعلق باتیں کر نے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس سے زیادہ قریب کی جگہ کثرت غنیمت اور جلد واپسی کے متعلق نہ بتاؤں؟ جو شخص وضو کر کے چاشت کی نماز کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہو وہ اس سے بھی زیادہ قریب کی جگہ، کثرت غنیمت اور جلد واپسی والی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال جاء حمزة بن عبد المطلب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اجعلني على شيء اعيش به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا حمزة، نفس تحييها احب إليك ام نفس تميتها؟" قال: بل نفس احييها، قال:" عليك بنفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ جَاءَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْنِي عَلَى شَيْءٍ أَعِيشُ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا حَمْزَةُ، نَفْسٌ تُحْيِيهَا أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ نَفْسٌ تُمِيتُهَا؟" قَالَ: بَلْ نَفْسٌ أُحْيِيهَا، قَالَ:" عَلَيْكَ بِنَفْسِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ!! مجھے کسی کام پر مقر کر دیجئے، تاکہ میں اس کے ذریعے اپنی زندگی بسر کر سکوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ! کیا نفس کو زندہ رکھنا تمہیں زیادہ محبوب ہے یا مارنا؟ انہوں نے عرض کیا زندہ رکھنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اپنے نفس کو اپنے اوپر لازم پکڑو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي ابن عبد الله المعافري
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت پر صرف " دودھ " کا اندیشہ ہے کیونکہ شیطان " جھاگ " اور " خالص " کے درمیان ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما عمل الجنة؟ قال:" الصدق، وإذا صدق العبد بر، وإذا بر آمن، وإذا آمن، دخل الجنة"، قال: يا رسول الله، ما عمل النار؟ قال:" الكذب إذا كذب العبد فجر، وإذا فجر كفر، وإذا كفر دخل" يعني النار.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَمَلُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ:" الصِّدْقُ، وَإِذَا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ، وَإِذَا بَرَّ آمَنَ، وَإِذَا آمَنَ، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَمَلُ النَّارِ؟ قَالَ:" الْكَذِبُ إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ فَجَرَ، وَإِذَا فَجَرَ كَفَرَ، وَإِذَا كَفَرَ دَخَلَ" يَعْنِي النَّارَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ!! جنتی عمل کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ بولناجب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو ایمان لاتا ہے اور جب ایمان لے آیا تو جنت میں داخل ہو جائے گا پھر اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! جہنمی عمل کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ بولنا جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو کفر کرتا ہے اور جب کفر کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ شب برأت کے موقع پر اپنی مخلوق کو جھانک کر دیکھتا ہے اور اپنے سارے بندوں کو معاف کر دیتا ہے، سوائے دو آدمیوں کے، ایک تو آپس میں بغض و عداوت رکھنے والوں کو اور دوسرا قاتل کو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورت مائدہ اس حال میں نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار تھے، وہ سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے اترنا پڑا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا إبراهيم بن محمد ابو إسحاق الفزاري ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني ربيعة بن يزيد ، عن عبد الله بن الديلمي ، قال: دخلت على عبد الله بن عمرو، وهو في حائط له بالطائف، يقال له: الوهط، وهو مخاصر فتى من قريش، يزن بشرب الخمر، فقلت: بلغني عنك حديث انه من شرب شربة خمر لم يقبل الله له توبة اربعين صباحا، وان الشقي من شقي في بطن امه، وانه من اتى بيت المقدس لا ينهزه إلا الصلاة فيه، خرج من خطيئته مثل يوم ولدته امه، فلما سمع الفتى ذكر الخمر، اجتذب يده من يده، ثم انطلق، ثم قال عبد الله بن عمرو : إني لا احل لاحد ان يقول علي ما لم اقل، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من شرب من الخمر شربة لم تقبل له صلاة اربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد لم تقبل له صلاة اربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد" قال: فلا ادري في الثالثة او في الرابعة" فإن عاد كان حقا على الله ان يسقيه من ردغة الخبال يوم القيامة". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله عز وجل خلق خلقه في ظلمة، ثم القى عليهم من نوره يومئذ، فمن اصابه من نوره يومئذ، اهتدى، ومن اخطاه، ضل"، فلذلك اقول: جف القلم على علم الله عز وجل. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن سليمان بن داود عليه السلام سال الله ثلاثا، اعطاه اثنتين، ونحن نرجو ان تكون له الثالثة: فساله حكما يصادف حكمه، فاعطاه الله إياه، وساله ملكا لا ينبغي لاحد من بعده، فاعطاه إياه، وساله ايما رجل خرج من بيته لا يريد إلا الصلاة في هذا المسجد خرج من خطيئته مثل يوم ولدته امه، فنحن نرجو ان يكون الله عز وجل قد اعطاه إياه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهُوَ فِي حَائِطٍ لَهُ بِالطَّائِفِ، يُقَالُ لَهُ: الْوَهْطُ، وَهُوَ مُخَاصِرٌ فَتًى مِنْ قُرَيْشٍ، يُزَنُّ بِشُرْبِ الْخَمْرِ، فَقُلْتُ: بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ أَنَّه مَنْ شَرِبَ شَرْبَةَ خَمْرٍ لَمْ يَقْبَلْ اللَّهُ لَهُ تَوْبَةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، وَأَنَّ الشَّقِيَّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَأَنَّهُ مَنْ أَتَى بَيْتَ الْمَقْدِسِ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ فِيهِ، خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، فَلَمَّا سَمِعَ الْفَتَى ذِكْرَ الْخَمْرِ، اجْتَذَبَ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : إِنِّي لَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ شَرِبَ مِنَ الْخَمْرِ شَرْبَةً لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِنْ عَادَ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِنْ عَادَ" قَالَ: فَلَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ" فَإِنْ عَادَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ رَدْغَةِ الْخَبَالِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ يَوْمَئِذٍ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ نُورِهِ يَوْمَئِذٍ، اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ، ضَلَّ"، فَلِذَلِكَ أَقُولُ: جَفَّ الْقَلَمُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا، أَعْطَاهُ اثْنَتَيْنِ، وَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ تَكُونَ لَهُ الثَّالِثَةُ: فَسَأَلَهُ حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، فَأَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ، وَسَأَلَهُ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَسَأَلَهُ أَيُّمَا رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، فَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ يَكُونَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ".
عبداللہ بن دیلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اس وقت وہ طائف میں " وہط " نامی اپنے باغ میں تھے اور قریش کے ایک نوجوان کی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر اسے جھکا رہے تھے، اس نوجوان کو شراب پینے کی وجہ سے سزا ہو رہی تھی، میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے یہ حدیث معلوم ہوئی ہے کہ جو شخص شراب کا ایک گھونٹ پی لے اللہ چالیس دن تک اس کی توبہ کو قبول نہیں کرتا؟ اور یہ کہ اصل بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ سے ہی بدبخت آیا ہو اور یہ کہ جو شخص بیت المقدس حاضر ہو وہاں حاضری کا مقصد صرف وہاں نماز پڑھنا ہو تو وہ گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو جائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے جنم لے کر آیا ہو۔ وہ نوجوان شراب کا ذکر سنتے ہی اپنا ہاتھ چھڑا کر چلا گیا اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں کسی شخص کے لئے اس بات کو حلال نہیں کرتا کہ وہ میری طرف ایسی بات کو منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو، میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص شراب کا ایک گھونٹ پی لے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اگر دوبارہ شراب پیئے تو پھر چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی پھر اگر توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ”کہ اگر دوبارہ پیئے تو اللہ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اسے جہنمیوں کی پیپ پلائے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر اسی دن ان پر نور ڈالا، جس پر وہ نور پڑگیا وہ ہدایت پا گیا اور جسے وہ نور نہ مل سکا وہ گمراہ ہو گیا اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم کے مطابق لکھ کر قلم خشک ہوچکے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ سے تین دعائیں کیں جن میں سے اللہ نے دو کو قبول کر لیا اور ہمیں امید ہے کہ تیسری بھی ان کے حق میں ہو گی انہوں نے اللہ سے صحیح فیصلہ کر نے کی صلاحیت مانگی، اللہ نے انہیں وہ عطاء کر دی انہوں نے اللہ سے ایسی حکومت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ مل سکے، اللہ نے انہیں وہ بھی عطاء کر دی انہوں نے اللہ سے دعاء کی کہ جو شخص اپنے گھر سے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے ارادے سے نکلے تو وہ نماز کے بعد وہاں سے ایسے نکلے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو، ہمیں امید ہے کہ اللہ نے انہیں یہ بھی عطاء فرما دیا ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن إسحاق ، حدثنا يحيى بن ايوب ، حدثني ابو قبيل ، قال: كنا عند عبد الله بن عمرو بن العاص، وسئل اي المدينتين تفتح اولا القسطنطينية او رومية؟ فدعا عبد الله بصندوق له حلق، قال: فاخرج منه كتابا، قال: فقال عبد الله : بينما نحن حول رسول الله صلى الله عليه وسلم نكتب، إذ سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم اي المدينتين تفتح اولا قسطنطينية او رومية؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مدينة هرقل تفتح اولا" يعني قسطنطينية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي أَبُو قَبِيلٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص، وَسُئِلَ أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ بِصُنْدُوقٍ لَهُ حَلَقٌ، قَالَ: فَأَخْرَجَ مِنْهُ كِتَابًا، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكْتُبُ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا" يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھاقسطنطینہ اور رومیہ میں سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک صندوق منگوایا جس کے اردگردحلقے لگے ہوئے تھے اس میں سے ایک کتاب نکالی اور کہنے لگے کہ ہم ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر لکھ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ سوال ہوا کہ قسطنطنیہ اور رومیہ میں سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرقل کا شہر یعنی قسطنطنیہ پہلے فتح ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يحيي بن أيوب الغافقي مختلف فيه
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں فوت ہو جائے اللہ اسے قبر کی آزمائش سے بچا لیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بقية بن الوليد الحمصي