سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجاہدین کا جو دستہ بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اسے مال غنیمت حاصل ہوتا ہے اسے اس کا دوتہائی اجر تو فوری طور پردے دیا جاتا ہے اور ایک تہائی ان کے لئے رکھ لیا جاتا ہے اور اگر انہیں مال غنیمت حاصل نہ ہو تو سارا اجر وثواب رکھ لیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا حيوة ، اخبرني ابو هانئ ، انه سمع ابا عبد الرحمن الحبلي ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة باربعين خريفا"، قال عبد الله: فإن شئتم اعطيناكم مما عندنا، وإن شئتم ذكرنا امركم للسلطان، قالوا: فإنا نصبر، فلا نسال شيئا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَإِنْ شِئْتُمْ أَعْطَيْنَاكُمْ مِمَّا عِنْدَنَا، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ، فَلَا نَسْأَلُ شَيْئًا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت کے دن فقراء مہاجرین مالداروں سے چالیس سال قبل جنت میں داخل ہوں گے سیدنا عبداللہ فرماتے تھے اگر تم چاہتے ہو تو ہم اپنے پاس سے تمہیں کچھ دے دیتے ہیں اور اگر تم چاہتے ہو تو بادشاہ سے تمہارا معاملہ ذکر کر دیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہم صبر کر یں گے اور کسی چیز کا سوال نہیں کر یں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے مخلوقات کی تقدیر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے رکھ دی تھی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جہنم کا تذکر ہ ہوئے فرمایا: ”کہ ہر بد اخلاق تندخو، متکبر جمع کر کے رکھنے والا اور نیکی سے روکنے والاجہنم میں ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ:4918، م: 2853، عن حارثة ابن وهب
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور ان لوگوں کو بھی سلام کرو جن سے جان پہچان ہو اور انہیں بھی جن سے جان پہچان نہ ہو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں فوت ہو جائے اللہ اسے قبر کی آزمائش سے بچالیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، وهو وهشام بن سعد ضعيفان
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، عن الصقعب بن زهير ، عن زيد بن اسلم ، قال حماد: اظنه عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل من اهل البادية، عليه جبة سيجان، مزرورة بالديباج، فقال: الا إن صاحبكم هذا قد وضع كل فارس ابن فارس! قال: يريد ان يضع كل فارس ابن فارس، ويرفع كل راع ابن راع! قال: فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمجامع جبته، وقال:" الا ارى عليك لباس من لا يعقل!"، ثم قال:" إن نبي الله نوحا صلى الله عليه وسلم لما حضرته الوفاة قال لابنه: إني قاص عليك الوصية آمرك باثنتين، وانهاك عن اثنتين، آمرك بلا إله إلا الله، فإن السموات السبع، والارضين السبع، لو وضعت في كفة، ووضعت لا إله إلا الله في كفة، رجحت بهن لا إله إلا الله، ولو ان السموات السبع، والارضين السبع، كن حلقة مبهمة، قصمتهن لا إله إلا الله، وسبحان الله وبحمده، فإنها صلاة كل شيء، وبها يرزق الخلق، وانهاك عن الشرك والكبر"، قال: قلت، او قيل: يا رسول الله، هذا الشرك قد عرفناه، فما الكبر؟ قال: ان يكون لاحدنا نعلان حسنتان لهما شراكان حسنان؟ قال:" لا"، قال: هو ان يكون لاحدنا حلة يلبسها؟، قال:" لا"، قال: الكبر هو ان يكون لاحدنا دابة يركبها؟، قال:" لا"، قال: افهو ان يكون لاحدنا اصحاب يجلسون إليه؟ قال:" لا"، قيل: يا رسول الله، فما الكبر؟ قال:" سفه الحق وغمص الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الصَّقْعَبِ بْنِ زُهَيْرٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ حَمَّادٌ: أَظُنُّهُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، عَلَيْهِ جُبَّةٌ سِيجَانٍ، مَزْرُورَةٌ بِالدِّيبَاجِ، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ وَضَعَ كُلَّ فَارِسٍ ابْنِ فَارِسٍ! قَالَ: يُرِيدُ أَنْ يَضَعَ كُلَّ فَارِسٍ ابْنِ فَارِسٍ، وَيَرْفَعَ كُلَّ رَاعٍ ابْنِ رَاعٍ! قَالَ: فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَجَامِعِ جُبَّتِهِ، وَقَالَ:" أَلَا أَرَى عَلَيْكَ لِبَاسَ مَنْ لَا يَعْقِلُ!"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ نُوحًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ لِابْنِهِ: إِنِّي قَاصٌّ عَلَيْكَ الْوَصِيَّةَ آمُرُكَ بِاثْنَتَيْنِ، وَأَنْهَاكَ عَنِ اثْنَتَيْنِ، آمُرُكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ، وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ، لَوْ وُضِعَتْ فِي كِفَّةٍ، وَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي كِفَّةٍ، رَجَحَتْ بِهِنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ، وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ، كُنَّ حَلْقَةً مُبْهَمَةً، قَصَمَتْهُنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ، وَبِهَا يُرْزَقُ الْخَلْقُ، وَأَنْهَاكَ عَنِ الشِّرْكِ وَالْكِبْرِ"، قَالَ: قُلْتُ، أَوْ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الشِّرْكُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الْكِبْرُ؟ قَالَ: أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا نَعْلَانِ حَسَنَتَانِ لَهُمَا شِرَاكَانِ حَسَنَانِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: هُوَ أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا حُلَّةٌ يَلْبَسُهَا؟، قَالَ:" لَا"، قَالَ: الْكِبْرُ هُوَ أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا دَابَّةٌ يَرْكَبُهَا؟، قَالَ:" لَا"، قَالَ: أَفَهُوَ أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا أَصْحَابٌ يَجْلِسُونَ إِلَيْهِ؟ قَالَ:" لَا"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الْكِبْرُ؟ قَالَ:" سَفَهُ الْحَقِّ وَغَمْصُ النَّاسِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی آدمی آیا جس نے بڑا قیمتی جبہ جس پر دیباج و ریشم کے بٹن لگے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اس ساتھی نے تو مکمل طور پر فارس ابن فارس (نسلی فارسی آدمی) کی وضع اختیار کر رکھی ہے ایسالگتا ہے کہ جسے اس کے یہاں فارسی نسل کے ہی بچے پیدا ہوں گے اور چرواہوں کی نسل ختم ہو جائے گی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جبے کو مختلف حصوں سے پکڑ کر جمع کیا اور فرمایا: ”کہ میں تمہارے جسم پر بیوقوفوں کالباس نہیں دیکھ رہا؟ پھر فرمایا: ”اللہ کے نبی سیدنا نوح (علیہ السلام) کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ”کہ میں تمہیں ایک وصیت کر رہا ہوں جس میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں حکم تو اس بات کا دیتا ہوں کہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے رہنا کیونکہ اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور لاالہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللہ والا پلڑا جھک جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک مبہم حلقہ ہوتیں تو لاالہ الا اللہ انہیں خاموش کر ا دیتا اور دوسرا یہ کہ و سبحان اللہ وبحمدہ کا ورد کرتے رہنا کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق ملتا ہے۔
اور روکتا شرک اور تکبر سے ہوں میں نے یا کسی اور نے پوچھا یا رسول اللہ! شرک تو ہم سمجھ گئے تکبر سے کیا مراد ہے؟ کیا تکبریہ ہے کہ کسی کے پاس دو عمدہ تسموں والے دو عمدہ جوتے ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں پھر پوچھا کیا تکبریہ ہے کہ کسی کا لباس اچھا ہو؟ فرمایا: ”نہیں سائل نے پھر پوچھا کیا تکبر یہ ہے کہ کسی کے پاس سواری ہو جس پر وہ سوارہو سکے؟ فرمایا: ”نہیں سائل نے پوچھا کیا تکبریہ ہے کہ کسی کے ساتھی ہوں جن کے پاس جا کروہ بیٹھا کرے؟ فرمایا: ”نہیں سائل نے پوچھا یا رسول اللہ! پھر تکبر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق بات کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ اس شخص کی طرح نہ ہوجانا جو قیام اللیل کے لئے اٹھتا تھا پھر اس نے اسے ترک کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد ، وابو نعيم ، قالا: حدثنا سفيان ، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر ، عن ابيه هذا في حديث ابي احمد الزبيري، قال: نزل رجل على مسروق، فقال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من لقي الله وهو لا يشرك به شيئا دخل الجنة، ولم تضر معه خطيئة، كما لو لقيه وهو مشرك به دخل النار، ولم تنفعه معه حسنة"، قال ابو نعيم في حديثه: جاء رجل او شيخ من اهل المدينة، فنزل على مسروق، فقال: سمعت عبد الله بن عمرو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من لقي الله لا يشرك به شيئا، لم تضره معه خطيئة، ومن مات وهو يشرك به، لم ينفعه معه حسنة"، قال عبد الله بن احمد: والصواب ما قاله ابو نعيم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، وَأَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ هَذَا فِي حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ، قَالَ: نَزَلَ رَجُلٌ عَلَى مَسْرُوقٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَلَمْ تَضُرَّ مَعَهُ خَطِيئَةٌ، كَمَا لَوْ لَقِيَهُ وَهُوَ مُشْرِكٌ بِهِ دَخَلَ النَّارَ، وَلَمْ تَنْفَعْهُ مَعَهُ حَسَنَةٌ"، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ فِي حَدِيثِهِ: جَاءَ رَجُلٌ أَوْ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، فَنَزَلَ عَلَى مَسْرُوقٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، لَمْ تَضُرَّهُ مَعَهُ خَطِيئَةٌ، وَمَنْ مَاتَ وَهُوَ يُشْرِكُ بِهِ، لَمْ يَنْفَعْهُ مَعَهُ حَسَنَةٌ"، قَالَ عَبْد اللَّهِ بن أحمد: وَالصَّوَابُ مَا قَالَهُ أَبُو نُعَيْمٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور اسے کوئی گناہ نقصان نہ پہنچاسکے گا جیسے اگر کوئی شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ مشرک ہو تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اسے کوئی نیکی نفع نہ پہنچا سکے گی۔