(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الحسن بن اتش ، اخبرني النعمان بن الزبير ، عن ايوب بن سلمان ، رجل من اهل صنعاء، قال: كنا بمكة، فجلسنا إلى عطاء الخراساني، إلى جنب جدار المسجد، فلم نساله، ولم يحدثنا، قال: ثم جلسنا إلى ابن عمر مثل مجلسكم هذا، فلم نساله، ولم يحدثنا، قال: فقال: ما بالكم لا تتكلمون ولا تذكرون الله؟! قولوا: الله اكبر، والحمد لله، وسبحان الله وبحمده، بواحدة عشرا، وبعشر مائة من زاد زاده الله، ومن سكت غفر له، الا اخبركم بخمس سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالوا: بلى، قال:" من حالت شفاعته دون حد من حدود الله، فهو مضاد الله في امره، ومن اعان على خصومة بغير حق، فهو مستظل في سخط الله حتى يترك، ومن قفا مؤمنا او مؤمنة، حبسه الله في ردغة الخبال، عصارة اهل النار، ومن مات وعليه دين، اخذ لصاحبه من حسناته، لا دينار ثم ولا درهم، وركعتا الفجر حافظوا عليهما، فإنهما من الفضائل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَتَشٍ ، أَخْبَرَنِي النُّعْمَانُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ سَلْمَانَ ، رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ صَنْعَاءَ، قَالَ: كُنَّا بِمَكَّةَ، فَجَلَسْنَا إِلَى عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، إِلَى جَنْبِ جِدَارِ الْمَسْجِدِ، فَلَمْ نَسْأَلْهُ، وَلَمْ يُحَدِّثْنَا، قَالَ: ثُمَّ جَلَسْنَا إِلَى ابْنِ عُمَرَ مِثْلَ مَجْلِسِكُمْ هَذَا، فَلَمْ نَسْأَلْهُ، وَلَمْ يُحَدِّثْنَا، قَالَ: فَقَالَ: مَا بَالُكُمْ لَا تَتَكَلَّمُونَ وَلَا تَذْكُرُونَ اللَّهَ؟! قُولُوا: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، بِوَاحِدَةٍ عَشْرًا، وَبِعَشْرٍ مِائَةً مَنْ زَادَ زَادَهُ اللَّهُ، وَمَنْ سَكَتَ غَفَرَ لَهُ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَمْسٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، فَهُوَ مُضَادُّ اللَّهِ فِي أَمْرِهِ، وَمَنْ أَعَانَ عَلَى خُصُومَةٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، فَهُوَ مُسْتَظِلٌّ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَتْرُكَ، وَمَنْ قَفَا مُؤْمِنًا أَوْ مُؤْمِنَةً، حَبَسَهُ اللَّهُ فِي رَدْغَةِ الْخَبَالِ، عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ، وَمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، أُخِذَ لِصَاحِبِهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ، لَا دِينَارَ ثَمَّ وَلَا دِرْهَمَ، وَرَكْعَتَا الْفَجْرِ حَافِظُوا عَلَيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا مِنَ الْفَضَائِلِ".
ایوب بن سلیمان کہتے ہیں کہ ہم لوگ مکہ مکرمہ میں عطاء خراسانی رحمہ اللہ کے پاس مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ہم ان سے کچھ پوچھتے تھے اور نہ ہی وہ ہم سے کچھ بیان کرتے تھے، پھر ہم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھی اسی طرح بیٹھے رہے کہ ہم ان سے کچھ پوچھتے تھے اور نہ ہی وہ ہم سے کچھ بیان کرتے تھے، بالآخر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کیا بات ہے تم لوگ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ اور اللہ کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ اللہ اکبر، الحمدللہ اور سبحان اللہ وبحمدہ کہو ایک کے بدلے میں دس اور دس کے بدلے میں سونیکیاں عطاء ہوں گی، اور جو جتنا اس تعداد میں اضافہ کرتا جائے گا، اللہ اس کی نیکیوں میں اتناہی اضافہ کرتا جائے گا اور جو شخص سکوت اختیار کر لے اللہ اس کی بخشش فرمائے گا، کیا میں تمہیں پانچ باتیں نہ بتاؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں فرمایا: ”جس شخص کی سفارش اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے کسی ایک میں حائل ہو گئی تو گویا اس نے اللہ کے معاملے میں اللہ کے ساتھ ضد کی جو شخص کسی ناحق مقدمے میں کسی کی اعانت کرے وہ اللہ ناراضگی کے سائے تلے رہے گا جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے، جو شخص کسی مومن مرد و عورت کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرتا ہے اللہ اسے اہل جہنم کی پیپ کے مقام پر روک لے گا، جو شخص مقروض ہو کر مرے تو اس کی نیکیاں اس سے لے کر قرض خواہ کودے دی جائیں گی کیونکہ قیامت میں کوئی درہم و دینار نہ ہو گا اور فجر کی دو سنتوں کا خوب اہتمام کیا کرو کیونکہ یہ دو رکعتیں بڑے فضائل کی حامل ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أيوب بن سلمان الصنعاني
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الحسن بن اتش ، حدثنا جعفر بن سليمان ، عن هشام بن حسان ، عن ابن سيرين ، عن ابن عمر ، قال: خرج عمر بن الخطاب يريد النبي صلى الله عليه وسلم، فاتى على عطارد رجل من بني تميم، وهو يقيم حلة من حرير يبيعها، فاتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، رايت عطاردا يبيع حلته، فاشتريها تلبسها إذا اتاك وفود الناس، فقال:" إنما يلبس الحرير من لا خلاق له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَتَشٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى عَلَى عُطَارِدٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَهُوَ يُقِيمُ حُلَّةً مِنْ حَرِيرٍ يَبِيعُهَا، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ عُطَارِدًا يَبِيعُ حُلَّتَهُ، فَاشْتَرِيهَا تَلْبَسْهَا إِذَا أَتَاكَ وُفُودُ النَّاسِ، فَقَالَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے ارادے سے نکلے، راستے میں بنو تمیم کے ایک آدمی "عطارد" کے پاس سے ان کا گزر ہوا جو ایک ریشمی جوڑا فروخت کر رہا تھا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگے یا رسول اللہ! میں نے عطارد کو ایک ریشمی جوڑا فروخت کرتے ہوئے دیکھا ہے اگر آپ اسے خرید لیتے تو وفود کے سامنے پہن لیا کرتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 5841، م: 2068، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن الحسن بن أتش .
(حديث مرفوع) حدثنا مصعب بن سلام ، حدثنا محمد بن سوقة ، سمعت ابا جعفر ، يقول: كان عبد الله بن عمر إذا سمع من نبي الله صلى الله عليه وسلم شيئا، او شهد معه مشهدا، لم يقصر دونه او يعدوه، قال: فبينما هو جالس وعبيد بن عمير يقص على اهل مكة، إذ قال عبيد بن عمير مثل المنافق كمثل الشاة بين الغنمين، إن اقبلت إلى هذه الغنم نطحتها، وإن اقبلت إلى هذه نطحتها، فقال عبد الله بن عمر : ليس هكذا، فغضب عبيد بن عمير، وفي المجلس عبد الله بن صفوان، فقال: يا ابا عبد الرحمن، كيف قال رحمك الله؟ فقال:" مثل المنافق مثل الشاة بين الربيضين، إن اقبلت إلى ذا الربيض نطحتها، وإن اقبلت إلى ذا الربيض نطحتها"، فقال له: رحمك الله، هما واحد، قال: كذا سمعت، كذا سمعت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ ، سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ، يَقُولُ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، أَوْ شَهِدَ مَعَهُ مَشْهَدًا، لَمْ يُقَصِّرْ دُونَهُ أَوْ يَعْدُوهُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ وَعُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ يقص على أهل مكة، إذ قَالَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ، إِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى هَذِهِ الْغَنَمِ نَطَحَتْهَا، وَإِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى هَذِهِ نَطَحَتْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : لَيْسَ هَكَذَا، فَغَضِبَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَيْفَ قَالَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ فَقَالَ:" مَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ الشَّاةِ بَيْنَ الرَّبِيضَيْنِ، إِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى ذَا الرَّبِيضِ نَطَحَتْهَا، وَإِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى ذَا الرَّبِيضِ نَطَحَتْهَا"، فَقَالَ لَهُ: رَحِمَكَ اللَّهُ، هُمَا وَاحِدٌ، قَالَ: كَذَا سَمِعْتُ، كذا سمعتُ.
ابوجعفر محمد بن علی رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیتے یا کسی موقع پر موجود ہوتے تو اس میں (بیان کرتے ہوئے) کمی بیشی بالکل نہیں کرتے تھے کہ ایک مرتبہ عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہاں تشریف فرما تھے، عبید بن عمیر کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”منافق کی مثال اس بکر ی کی سی ہے جو دور ریوڑوں کے درمیان ہو، اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں اور اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ حدیث اس طرح نہیں ہے اس پر عبید بن عمر کو ناگواری ہوئی، اس مجلس میں عبداللہ بن صفوان بھی تھے، وہ کہنے لگے کہ اے ابو عبدالرحمن! آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح فرمایا تھا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مذکورہ حدیث دوبارہ سنا دی اور اس میں «غنمين» کے بجائے «ربيضين» کا لفظ استعمال کیا تو عبداللہ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے اس دونوں کا مطلب تو ایک ہی ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، مصعب بن سلام من شيوخ أحمد، وثقه العجلي
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، سمعت ابن عمر ، يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى في البيت، وسياتي من ينهاكم عنه، فتسمعون منه!!"، قال: يعني: ابن عباس، قال: وكان ابن عباس جالسا قريبا منه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى فِي الْبَيْتِ، وَسَيَأْتِي مَنْ يَنْهَاكُمْ عَنْهُ، فَتَسْمَعُونَ مِنْهُ!!"، قَالَ: يَعْنِي: ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ جَالِسًا قَرِيبًا مِنْهُ.
سماک حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی ہے، لیکن ابھی تم ایک ایسے شخص کے پاس جاؤ گے اور ان کی باتیں سنو گے، جو اس کی نفی کر یں گے۔ مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تھے جو قریب ہی بیٹھے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قزع“ سے منع فرمایا ہے ”قزع“ کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا هارون الاهوازي ، حدثنا محمد بن سيرين ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" صلاة المغرب وتر صلاة النهار، فاوتروا صلاة الليل، وصلاة الليل مثنى مثنى، والوتر ركعة من آخر الليل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَارُونُ الْأَهْوَازِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةُ الْمَغْرِبِ وِتْرُ صَلَاةِ النَّهَارِ، فَأَوْتِرُوا صَلَاةَ اللَّيْلِ، وَصَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَالْوَتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مغرب کی نماز دن کا وتر ہیں، سو تم رات کا وتر بھی ادا کیا کرو اور رات کی نماز دو دو رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور وتر کی رات کے آخری حصے میں ایک رکعت ہوتی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله : «صلاة المغرب وتر صلاة النهار فأوتروا صلاة الليل» .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قزع“ سے منع فرمایا ہے۔ ”قزع“ کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوا لیے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك ، حدثنا هشام يعني ابن سعد ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، قال: دخلت مع ابن عمر على عبد الله بن مطيع، فقال: مرحبا بابي عبد الرحمن، ضعوا له وسادة، فقال: إنما جئتك لاحدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من نزع يدا من طاعة الله، فإنه ياتي يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وهو مفارق للجماعة، فإنه يموت ميتة جاهلية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ضَعُوا لَهُ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنَّمَا جِئْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ نَزَعَ يَدًا مَنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَهُوَ مَفَارِقٌ لِلْجَمَاعَةِ، فَإِنَّهُ يَمُوتُ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً".
زید بن اسلم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے یہاں گیا، اس نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خوش آمدید کہا، اور لوگوں کو حکم دیا کہ انہیں تکیہ پیش کرو، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص صحیح حکمران وقت سے ہاتھ کھینچتا ہے، قیامت کے دن اس کی کوئی حجت قبول نہ ہو گی اور جو شخص "جماعت " کو چھوڑ کر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا يحيى بن قيس الماربي ، حدثنا ثمامة بن شراحيل ، قال:" خرجت إلى ابن عمر ، فقلنا: ما صلاة المسافر؟ فقال: ركعتين ركعتين، إلا صلاة المغرب ثلاثا، قلت: ارايت إن كنا بذي المجاز، قال: وما ذو المجاز؟ قلت: مكانا نجتمع فيه ونبيع فيه، ونمكث عشرين ليلة، او خمس عشرة ليلة، قال: يا ايها الرجل، كنت باذربيجان، لا ادري قال: اربعة اشهر او شهرين، فرايتهم يصلونها ركعتين ركعتين، ورايت نبي الله صلى الله عليه وسلم نصب عيني يصليهما ركعتين ركعتين، ثم نزع هذه الآية لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21"، حتى فرغ من الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ ، حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ شَرَاحِيلَ ، قَالَ:" خَرَجْتُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ ، فَقُلْنَا: مَا صَلَاةُ الْمُسَافِرِ؟ فَقَالَ: رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، إِلَّا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ ثَلَاثًا، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ كُنَّا بِذِي الْمَجَازِ، قَالَ: وَمَا ذُو الْمَجَازِ؟ قُلْتُ: مَكَانًا نَجْتَمِعُ فِيهِ وَنَبِيعُ فِيهِ، وَنَمْكُثُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، أَوْ خَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، قَالَ: يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ، كُنْتُ بِأَذْرَبِيجَانَ، لَا أَدْرِي قَالَ: أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ أَوْ شَهْرَيْنِ، فَرَأَيْتُهُمْ يُصَلُّونَهَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُصْبَ عَيْنِي يُصَلِّيهِمَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَزَعَ هَذِهِ الْآيَةَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21"، حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ.
ثمامہ بن شراجیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے ان سے مسافر کی نماز کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ اس کی دو دو رکعتیں ہیں سوائے مغرب کے, کہ اس کی تین ہی رکعتیں ہیں"، میں نے پوچھا اگر ہم ”ذی المجاز“ میں ہوں تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے پوچھا: ”ذوالمجاز“ کس چیز کا نام ہے؟ میں نے کہا کہ ایک جگہ کا نام ہے جہاں ہم لوگ اکٹھے ہوتے ہیں خریدو فروخت کرتے ہیں اور بیس پچیس دن وہاں گزارتے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اے شخص میں آذر بائجان میں تھا وہاں چار یا دو ماہ رہا (یہ یاد نہیں) میں نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو وہاں دو دو رکعتیں ہی پڑھتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اپنی آنکھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران سفر دو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی کہ " تمہارے لئے پیغمبر اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، حدثنا حنظلة بن ابي سفيان ، سمعت سالما ، يقول: عن عبد الله بن عمر ، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" رايته عند الكعبة مما يلي المقام، رجل آدم سبط الراس، واضعا يده على رجلين، يسكب راسه او يقطر، فسالت من هذا؟ فقيل: عيسى ابن مريم؟ او المسيح ابن مريم لا ادري اي ذلك قال، ثم رايت وراءه رجلا احمر، جعد الراس، اعور عين اليمنى، اشبه من رايت منه ابن قطن، فسالت: من هذا؟ فقيل: المسيح الدجال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، سَمِعْتُ سالِمًا ، يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رَأَيْتُهُ عِنْدَ الْكَعْبَةِ مِمَّا يَلِي الْمَقَامَ، رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الرَّأْسِ، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى رَجُلَيْنِ، يَسْكُبُ رَأْسُهُ أَوْ يَقْطُرُ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ؟ أَوْ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَ، ثُمَّ رَأَيْتُ وَرَاءَهُ رَجُلًا أَحْمَرَ، جَعْدَ الرَّأْسِ، أَعْوَرَ عَيْنِ الْيُمْنَى، أَشْبَهُ مَنْ رَأَيْتُ مِنْهُ ابْنُ قَطَنٍ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے ایک مرتبہ خواب میں خانہ کعبہ کے قریب مقام ابراہیم کے پاس گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والے ایک آدمی کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ دو آدمیوں پر رکھا ہوا تھا، اس کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے“، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ پتہ چلا کہ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر ان کے پیچھے میں نے سرخ رنگ کے گھنگھریالے بالوں والے دائیں آنکھ سے کانے اور میری دید کے مطابق ابن قطن سے انتہائی مشابہہ شخص کو دیکھا، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو پتہ چلا کہ یہ مسیح دجال ہے۔