(حديث مرفوع) حدثنا علي بن حفص ، اخبرنا ورقاء ، قال: وقال عطاء ، عن محارب بن دثار ، عن ابن عمر ، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الكوثر نهر في الجنة، حافتاه من ذهب، والماء يجري على اللؤلؤ وماؤه اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ ، أَخْبَرَنَا وَرْقَاءُ ، قَالَ: وَقَالَ عَطَاءٌ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكَوْثَرُ نَهَرٌ فِي الْجَنَّةِ، حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ، وَالْمَاءُ يَجْرِي عَلَى اللُّؤْلُؤِ وَمَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”کوثر جنت میں ایک نہر ہو گی جس کے دونوں کنارے سونے کے ہوں گے اور اس کا پانی موتیوں پر بہتا ہو گا، نیز اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہو گا۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، وهذا إسناد فيه ضعف ، فإن عطاء قد اختلط ، وراويه عنه هنا ورقاء ابن عمر اليشكري، وهو ممن روى عنه بعد الاختلاط، لكن سيأتي برقم : 5913 من طريق حماد بن زيد ، وهو ممن روى عن عطاء قبل الاختلاط.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ہے، (قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوالیے جائیں اور کچھ چھوڑ دیئے جائیں)۔
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن خالد بن ابي عمران ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول:" المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ويقول:" والذي نفس محمد بيده، ما تواد اثنان ففرق بينهما إلا بذنب يحدثه احدهما". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وكان يقول:" للمرء المسلم على اخيه من المعروف ست: يشمته إذا عطس، ويعوده إذا مرض، وينصحه إذا غاب، ويشهده، ويسلم عليه إذا لقيه، ويجيبه إذا دعاه، ويتبعه إذا مات"، ونهى عن هجرة المسلم اخاه فوق ثلاث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنِ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَيَقُولُ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا تَوَادَّ اثْنَانِ فَفُرِّقَ بَيْنَهُمَا إِلَّا بِذَنْبٍ يُحْدِثُهُ أَحَدُهُمَا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَكَانَ يَقُولُ:" لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ مِنَ الْمَعْرُوفِ سِتٌّ: يُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَنْصَحُهُ إِذَا غَابَ، وَيَشْهَدُهُ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيَتْبَعُهُ إِذَا مَاتَ"، وَنَهَى عَنْ هِجْرَةِ الْمُسْلِمِ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے رسوا کرتا ہے۔“ اور فرماتے تھے: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، جو دو آدمی بھی آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں اور ان دونوں کے درمیان جدائی ہو جائے تو وہ یقیناً ان میں سے کسی ایک کے گناہ کی وجہ سے ہو گی، اور فرماتے تھے کہ ایک مسلمان آدمی پر اپنے بھائی کے چھ حقوق ہیں، چھینک آنے پر اس کا جواب دے، بیمار ہونے پر اس کی عیادت کرے، اس کی غیر موجودگی میں خیرخواہی کرے، ملاقات ہونے پر اسے سلام کرے، دعوت دینے پر قبول کرے اور فوت ہو جانے پر اس کے جنازے میں شرکت کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد ضعيف ، لضعف ابن لهيعة .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام کو چھوڑ کر میری اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد کی نسبت ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد ضعيف ، لضعف عبدالله بن عمر .
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا الهذيل بن بلال ، عن ابن عبيد ، عن ابيه، انه جلس ذات يوم بمكة، وعبد الله بن عمر معه، فقال ابي : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن مثل المنافق يوم القيامة كالشاة بين الربيضين من الغنم، إن اتت هؤلاء نطحتها وإن اتت هؤلاء نطحتها"، فقال له ابن عمر : كذبت، فاثنى القوم على ابي خيرا، او معروفا، فقال ابن عمر: لا اظن صاحبكم إلا كما تقولون، ولكني شاهد نبي الله صلى الله عليه وسلم إذ قال:" كالشاة بين الغنمين"، فقال: هو سواء، فقال: هكذا سمعته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنِ ابْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ بِمَكَّةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مَعَهُ، فَقَالَ أَبِي : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مَثَلَ الْمُنَافِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالشَّاةِ بَيْنَ الرَّبِيضَيْنِ مِنَ الْغَنَمِ، إِنْ أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْتَهَا وَإِنْ أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْتَهَا"، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : كَذَبْتَ، فَأَثْنَى الْقَوْمُ عَلَى أَبِي خَيْرًا، أَوْ مَعْرُوفًا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا أَظُنُّ صَاحِبَكُمْ إِلَّا كَمَا تَقُولُونَ، وَلَكِنِّي شَاهِدٌ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ:" كَالشَّاةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ"، فَقَالَ: هُوَ سَوَاءٌ، فَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُهُ.
ابن عبید رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہاں تشریف فرما تھے، میرے والد صاحب کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن منافق کی مثال اس بکری کی سی ہو گی جو دو ریوڑوں کے درمیان ہو، اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں اور اس ریوڑ کے پاس جائے، تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ آپ کو غلطی لگی ہے، ادھر لوگ میرے والد صاحب کی تعریف کر نے لگے، تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں بھی تمہارے ساتھی کو ویسا ہی سمجھتا ہوں جیسے تم لوگ کہہ رہے ہو لیکن میں بھی اس مجلس میں موجود تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر «غنمين» کا لفظ استعمال کیا تھا، عبید نے فرمایا کہ یہ دونوں برابر ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابان بن يزيد ، حدثنا قتادة ، حدثني عبد الله بن بابي المكي ، قال: صليت إلى جنب عبد الله بن عمر ، قال: فلما قضى الصلاة ضرب بيده على فخذه، فقال:" الا اعلمك تحية الصلاة كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا؟" فتلا علي هؤلاء الكلمات، يعني: قول ابي موسى الاشعري في التشهد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَابَيْ الْمَكِّيُّ ، قَالَ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ، فَقَالَ:" أَلَا أُعَلِّمُكَ تَحِيَّةَ الصَّلَاةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا؟" فَتَلَا عَلَيَّ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، يَعْنِي: قَوْلَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ فِي التَّشَهُّدِ.
عبداللہ بن بابی المکی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے میری ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا: کیا میں تمہیں تحیۃ الصلوٰۃ نہ سکھاؤں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے تھے؟ یہ کہہ کر انہوں نے میرے سامنے تشہد کے وہ کلمات پڑھے جو سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، قال: اخبرنا ثابت ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل:" فعلت كذا وكذا؟" قال: لا، والذي لا إله إلا هو ما فعلت، قال: فقال له جبريل عليه السلام:" قد فعل، ولكن قد غفر له بقول لا إله إلا الله"، قال حماد: لم يسمع هذا من ابن عمر، بينهما رجل، يعني: ثابتا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:" فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا؟" قَالَ: لَا، وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا فَعَلْتُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام:" قَدْ فَعَلَ، وَلَكِنْ قَدْ غُفِرَ لَهُ بِقَوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، قَالَ حَمَّادٌ: لَمْ يَسْمَعْ هَذَا مِنَ ابْنِ عُمَرَ، بَيْنَهُمَا رَجُلٌ، يَعْنِي: ثَابِتًا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہا ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص سے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے یہ کام نہیں کیا، اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آ گئے اور کہنے لگے کہ وہ کام تو اس نے کیا ہے لیکن «لا اله الا الله» کہنے کی برکت سے اس کی بخشش ہو گئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه مابين ثابت البناني وبين ابن عمر .
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا حلف الرجل، فقال: إن شاء الله، فهو بالخيار، إن شاء فليمض، وإن شاء فليترك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ، فَقَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَاءَ فَلْيَمْضِ، وَإِنْ شَاءَ فَلْيَتْرُكْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لے اسے اختیار ہے، اگر اپنی قسم پوری کرنا چاہئے تو کر لے اور اگر اس سے رجوع کرنا چاہے تو حانث ہوئے بغیر رجوع کر لے۔