(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا يونس بن عبيد ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن مطرف بن الشخير ، انه حدثهم، عن ابي برزة الاسلمي ، انه قال: كنا عند ابي بكر الصديق في عمله، فغضب على رجل من المسلمين، فاشتد غضبه عليه جدا، فلما رايت ذلك قلت: يا خليفة رسول الله، اضرب عنقه؟ فلما ذكرت القتل صرف عن ذلك الحديث اجمع إلى غير ذلك من النحو، فلما تفرقنا ارسل إلي بعد ذلك ابو بكر الصديق ، فقال: يا ابا برزة، ما قلت؟ قال: ونسيت الذي قلت، قلت: ذكرنيه، قال: اما تذكر ما قلت؟ قال: قلت: لا والله، قال: ارايت حين رايتني غضبت على الرجل، فقلت:" اضرب عنقه يا خليفة رسول الله؟ اما تذكر ذاك؟ اوكنت فاعلا ذاك؟ قال: قلت: نعم والله، والآن إن امرتني فعلت، قال: ويحك، او: ويلك، إن تلك والله ما هي لاحد بعد محمد صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فِي عَمَلِهِ، فَغَضِبَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَدَّ غَضَبُهُ عَلَيْهِ جِدًّا، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ قُلْتُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ، أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ فَلَمَّا ذَكَرْتُ الْقَتْلَ صَرَفَ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ أَجْمَعَ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ النَّحْوِ، فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا أَرْسَلَ إِلَيَّ بَعْدَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَرْزَةَ، مَا قُلْتَ؟ قَالَ: وَنَسِيتُ الَّذِي قُلْتُ، قُلْتُ: ذَكِّرْنِيهِ، قَالَ: أَمَا تَذْكُرُ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ، قَالَ: أَرَأَيْتَ حِينَ رَأَيْتَنِي غَضِبْتُ عَلَى الرَّجُلِ، فَقُلْتَ:" أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ؟ أَمَا تَذْكُرُ ذَاكَ؟ أَوَكُنْتَ فَاعِلًا ذَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ وَاللَّهِ، وَالْآنَ إِنْ أَمَرْتَنِي فَعَلْتُ، قَالَ: وَيْحَكَ، أَوْ: وَيْلَكَ، إِنَّ تِلْكَ وَاللَّهِ مَا هِيَ لِأَحَدٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی کام میں مشغول تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسی دوران ایک مسلمان پر کسی وجہ سے غصہ آ گیا اور وہ غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا، جب میں نے صورت حال دیکھی تو عرض کیا یا خیفۃ رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں گفتگو کا عنوان اور موضوع ہی بدل دیا۔ جب ہم لوگ وہاں سے فراغت کے بعد منتشر ہو گئے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ذریعے مجھے بھیجا اور فرمایا: ابوبرزہ! تم کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا: واللہ مجھے یاد نہیں ہے۔ فرمایا: یاد کرو جب تم نے مجھے ایک شخص پر غصہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا تو تم نے کہا تھا یا خلیفۃ رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ یاد آیا؟ کیا تم واقعی ایسا کر گزرتے؟ میں نے قسم کھا کر عرض کیا جی ہاں! اگر آپ اب بھی مجھے یہ حکم دیں تو میں اسے پورا کر گزروں، فرمایا: افسوس! اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا شعبة ، عن يعلى بن عطاء ، قال: سمعت عمرو بن عاصم بن عبد الله ، قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: قال ابو بكر : يا رسول الله، قل لي شيئا اقوله إذا اصبحت وإذا امسيت، قال:" قل: اللهم عالم الغيب والشهادة، فاطر السموات والارض، رب كل شيء ومليكه، اشهد ان لا إله إلا انت، اعوذ بك من شر نفسي، ومن شر الشيطان وشركه"، وامره ان يقوله إذا اصبح وإذا امسى، وإذا اخذ مضجعه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَاصِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْ لِي شَيْئًا أَقُولُهُ إِذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَيْتُ، قَالَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ"، وَأَمَرَهُ أَنْ يَقُولَهُ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا أَمْسَى، وَإِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ.
ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں صبح و شام پڑھ لیا کروں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہہ لیا کرو، «اللَّهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ»”اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ اور انہیں حکم دیا کہ صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کریں۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”یا خلیفۃ اللہ“ کہہ کر پکارا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ”خلیفۃ اللہ“ نہیں ہوں بلکہ ”خلیفہ رسول اللہ“ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، فإن ابن أبى مليكة لم يدرك أبا بكر
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا موسى بن داود ، حدثنا عبد الله بن المؤمل ، عن ابن ابي مليكة ، قال: كان ربما سقط الخطام من يد ابي بكر الصديق ، قال: فيضرب بذراع ناقته فينيخها فياخذه، قال: فقالوا له: افلا امرتنا نناولكه؟ فقال:" إن حبيبي رسول الله صلى الله عليه وسلم امرني ان لا اسال الناس شيئا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: كَانَ رُبَّمَا سَقَطَ الْخِطَامُ مِنْ يَدِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، قَالَ: فَيَضْرِبُ بِذِرَاعِ نَاقَتِهِ فَيُنِيخُهَا فَيَأْخُذُهُ، قَالَ: فَقَالُوا لَهُ: أَفَلَا أَمَرْتَنَا نُنَاوِلُكَهُ؟ فَقَالَ:" إِنَّ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي أَنْ لَا أَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا".
سیدنا ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اگر اونٹنی کی لگام چھوٹ کر گر جاتی، تو آپ اپنی اونٹنی کے اگلے پاؤں پر ہاتھ مارتے، وہ بیٹھ جاتی تو خود اس کی لگام اٹھاتے، ہم عرض کرتے کہ آپ ہمیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ ہم آپ کو پکڑا دیں؟ فرماتے: میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبد الله بن المؤمل ضعيف، وابن أبى مليكة لم يدرك أبابكر
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي بكر ، قال: قام ابو بكر، بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بعام، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الاول، فقال:" إن ابن آدم لم يعط شيئا افضل من العافية، فاسالوا الله العافية، وعليكم بالصدق والبر فإنهما في الجنة، وإياكم والكذب والفجور فإنهما في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَامٍ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ، فَقَالَ:" إِنَّ ابْنَ آدَمَ لَمْ يُعْطَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنَ الْعَافِيَةِ، فَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ وَالْبِرِّ فَإِنَّهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ وَالْفُجُورَ فَإِنَّهُمَا فِي النَّارِ".
سیدنا ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے پورے ایک سال بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، سچائی اور نیکی اختیار کرو کیونکہ یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يدرك أبا بكر
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يزيد ، قال: اخبرنا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فإذا قالوها عصموا مني دماءهم واموالهم، إلا بحقها، وحسابهم على الله تعالى"، قال: فلما كانت الردة، قال عمر لابي بكر : تقاتلهم، وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كذا وكذا؟ قال: فقال ابو بكر: والله لا افرق بين الصلاة والزكاة، ولاقاتلن من فرق بينهما، قال: فقاتلنا معه، فراينا ذلك رشدا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى"، قَالَ: فَلَمَّا كَانَتْ الرِّدَّةُ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ : تُقَاتِلُهُمْ، وَقَدْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَا أُفَرِّقُ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، وَلَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: فَقَاتَلْنَا مَعَهُ، فَرَأَيْنَا ذَلِكَ رَشَدًا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ «لا اله الا الله» نہ کہہ لیں، لیکن جب وہ یہ کلمہ کہہ لیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر کوئی حق ان کی طرف متوجہ ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، باقی ان کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہے۔ جب فتنہ ارتداد پیش آیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کس طرح قتال کر سکتے ہیں جب کہ آپ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن رکھی ہے؟ فرمایا: بخدا! میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق نہیں کروں گا اور جو ان دونوں کے درمیان تفریق کرے گا، میں اس سے ضرور قتال کروں گا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان کے ساتھ اس قتال میں شریک ہو گئے تب ہمیں جا کر احساس ہوا کہ اسی میں رشد و ہدایت تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6924، م: 20، سفيان حسين وثقوه إلا فى رواية عن الزهري، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، قال: اخبرنا إسماعيل ، عن ابي بكر بن ابي زهير ، قال: اخبرت ان ابا بكر قال: يا رسول الله، كيف الصلاح بعد هذه الآية: ليس بامانيكم ولا اماني اهل الكتاب من يعمل سوءا يجز به سورة النساء آية 123، فكل سوء عملنا جزينا به؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" غفر الله لك يا ابا بكر، الست تمرض؟ الست تنصب؟ الست تحزن؟ الست تصيبك اللاواء؟" قال: بلى، قال:" فهو ما تجزون به".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلَاحُ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ: لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123، فَكُلَّ سُوءٍ عَمِلْنَا جُزِينَا بِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ أَلَسْتَ تَنْصَبُ؟ أَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَلَسْتَ تُصِيبُكَ اللَّأْوَاءُ؟" قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَهُوَ مَا تُجْزَوْنَ بِهِ".
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد «لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ»[4-النساء:123]”کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا . . .“ تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر! اللہ آپ کی بخشش فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا یہی تو بدلہ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين أبى بكر بن أبى زهير وبين أبى بكر الصديق، ثم إن أبا بكر بن أبى زهير مستور
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: حدثنا ابن ابي خالد ، عن ابي بكر بن ابي زهير ، اظنه قال ابو بكر : يا رسول الله، كيف الصلاح بعد هذه الآية؟ قال:" يرحمك الله يا ابا بكر، الست تمرض؟ الست تحزن؟ الست تصيبك اللاواء؟" قال: بلى، قال:" فإن ذاك بذاك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، أظنه قَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلَاحُ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ؟ قَالَ:" يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ أَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَلَسْتَ تُصِيبُكَ اللَّأْوَاءُ؟" قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّ ذَاكَ بِذَاكَ".
سیدنا ابوبکر صدیق عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے «لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ» کہ ”تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا . . .“ تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟“ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: ”یہی تو بدلہ ہے۔“
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔