مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 419
Save to word اعراب
حدثنا إبراهيم بن نصر الترمذي ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عطاء بن يزيد ، عن حمران مولى عثمان: انه راى عثمان دعا بإناء... فذكر نحوه.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ: أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ دَعَا بِإِنَاءٍ... فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح وهو مكرر ما قبله، وهذا إسناد ضعيف إبراهيم بن نصر ضعفوه بل كذبه بعضهم
حدیث نمبر: 420
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو قطن ، حدثنا يونس يعني ابن ابي إسحاق ، عن ابيه ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، قال: اشرف عثمان من القصر، وهو محصور، فقال: انشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حراء إذ اهتز الجبل، فركله بقدمه، ثم قال:" اسكن حراء، ليس عليك إلا نبي، او صديق، او شهيد"، وانا معه؟ فانتشد له رجال. قال: انشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بيعة الرضوان، إذ بعثني إلى المشركين، إلى اهل مكة، قال:" هذه يدي، وهذه يد عثمان"، فبايع لي؟ فانتشد له رجال. قال: انشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من يوسع لنا بهذا البيت في المسجد، ببيت له في الجنة؟"، فابتعته من مالي فوسعت به المسجد؟ فانتشد له رجال. قال: وانشد بالله من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جيش العسرة، قال:" من ينفق اليوم نفقة متقبلة؟" فجهزت نصف الجيش من مالي؟ قال: فانتشد له رجال. وانشد بالله من شهد رومة يباع ماؤها ابن السبيل، فابتعتها من مالي، فابحتها لابن السبيل؟ قال: فانتشد له رجال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: أَشْرَفَ عُثْمَانُ مِنَ الْقَصْرِ، وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حِرَاءٍ إِذْ اهْتَزَّ الْجَبَلُ، فَرَكَلَهُ بِقَدَمِهِ، ثُمَّ قَالَ:" اسْكُنْ حِرَاءُ، لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ"، وَأَنَا مَعَهُ؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، إِذْ بَعَثَنِي إِلَى الْمُشْرِكِينَ، إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، قَالَ:" هَذِهِ يَدِي، وَهَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ"، فَبَايَعَ لِي؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يُوَسِّعُ لَنَا بِهَذَا الْبَيْتِ فِي الْمَسْجِدِ، بِبَيْتٍ لَهُ فِي الْجَنَّةِ؟"، فَابْتَعْتُهُ مِنْ مَالِي فَوَسَّعْتُ بِهِ الْمَسْجِدَ؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: وَأَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ، قَالَ:" مَنْ يُنْفِقُ الْيَوْمَ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً؟" فَجَهَّزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِي؟ قَالَ: فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. وَأَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رُومَةَ يُبَاعُ مَاؤُهَا ابْنَ السَّبِيلِ، فَابْتَعْتُهَا مِنْ مَالِي، فَأَبَحْتُهَا لِابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالَ: فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے بالاخانے سے جھانک کر فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر یوم حراء کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب جبل حراء ہلنے لگا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مبارک مار کر فرمایا: اے جبل حراء! ٹھہر جا، کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے کوئی نہیں ہے، اس موقع پر میں موجود تھا؟ اس پر کئی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر بیعت رضوان کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا اور اپنے ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے میرے خون کا انتقام لینے پر بیعت کی تھی؟ اس پر کئی لوگوں نے پھر ان کی تائید کی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: جنت میں مکان کے عوض ہماری اس مسجد کو کون وسیع کرے گا؟ تو میں نے اپنے مال سے جگہ خرید کر اس مسجد کو وسیع نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر جیش عسرۃ (جو غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے) کے حوالے سے پوچھتا ہوں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: آج کون خرچ کرے گا؟ اس کا دیا ہوا مقبول ہو گا، کیا میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سامان مہیا نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر بیر رومہ کے حوالے سے پوچھتا ہوں جن کا پانی مسافر تک کو بیچا جاتا تھا، میں نے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لئے بھی وقف کر دیا، کیا ایسا ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تائید کی۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، سلمة بن عبدالرحمن مختلف فى سماعه من عثمان، لكن صحح أحمد شاكر سماعه منه
حدیث نمبر: 421
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عطاء بن يزيد الليثي ، عن حمران بن ابان ، قال: رايت عثمان بن عفان توضا، فافرغ على يديه ثلاثا، فغسلهما، ثم مضمض واستنثر، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلاثا، ثم اليسرى مثل ذلك، ثم مسح براسه، ثم غسل قدمه اليمنى ثلاثا، ثم اليسرى مثل ذلك، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضا نحوا من وضوئي هذا، ثم قال:" من توضا وضوئي هذا، ثم صلى ركعتين لا يحدث فيهما نفسه، غفر له ما تقدم من ذنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ تَوَضَّأَ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثًا، فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى إِلَى الْمِرْفَقِ ثَلَاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ نَحْوًا مِنْ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا، پھر دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے تین تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 159، م: 226
حدیث نمبر: 422
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ايوب ، عن نافع ، عن نبيه بن وهب ، قال: ارسل عمر بن عبيد الله إلى ابان بن عثمان:" ايكحل عينيه وهو محرم؟ او: باي شيء يكحلهما وهو محرم؟ فارسل إليه: ان يضمدهما بالصبر، فإني سمعت عثمان بن عفان يحدث ذلك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ:" أَيُكَحِّلُ عَيْنَيْهِ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ أَوْ: بِأَيِّ شَيْءٍ يُكَحِّلُهُمَا وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ: أَنْ يُضَمِّدَهُمَا بِالصَّبِرِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يُحَدِّثُ ذَلِكَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کروایا کہ کیا محرم آنکھوں میں سرمہ لگا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1204
حدیث نمبر: 423
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، قال: حدثنا عبيد الله بن عمر ، حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا عمران بن حدير ، عن عبد الملك بن عبيد ، عن حمران بن ابان ، عن عثمان بن عفان ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من علم ان الصلاة حق واجب، دخل الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ عَلِمَ أَنَّ الصَّلَاةَ حَقٌّ وَاجِبٌ، دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ نماز برحق اور واجب ہے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالملك بن عبيد
حدیث نمبر: 424
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثني ابو معشر يعني البراء واسمه يوسف بن يزيد ، حدثنا ابن حرملة ، عن سعيد بن المسيب ، قال: حج عثمان، حتى إذا كان في بعض الطريق، اخبر علي : ان عثمان نهى اصحابه عن التمتع بالعمرة، والحج، فقال علي لاصحابه: إذا راح، فروحوا، فاهل علي واصحابه بعمرة، فلم يكلمهم عثمان، فقال علي:" الم اخبر انك نهيت عن التمتع، الم يتمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فما ادري ما اجابه عثمان".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنِي أبو معشر يعني البراء وَاسْمُهُ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ حَرْمَلَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: حَجَّ عُثْمَانُ، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، أُخْبِرَ عَلِيٌّ : أَنَّ عُثْمَانَ نَهَى أَصْحَابَهُ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ، وَالْحَجِّ، فقال علي لأصحابه: إذا راح، فروحوا، فأهل علي وأصحابه بعمرة، فلم يكلمهم عثمان، فقال علي:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ التَّمَتُّعِ، أَلَمْ يَتَمَتَّعْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَمَا أَدْرِي مَا أَجَابَهُ عُثْمَانُ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے نکلے، جب راستے کا کچھ حصہ طے کر چکے تو کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا ہے، یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: جب وہ روانہ ہوں تو تم بھی کوچ کرو، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی، بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود ہی ان سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ حج تمتع سے روکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع نہیں کیا تھا؟ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کیا جواب دیا۔

حكم دارالسلام: صحيح، م: 1223، ابن حرملة مختلف فيه، روي له مسلم حديثاً واحداً فى القنوت متابعة
حدیث نمبر: 425
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: ارسل إلي عمر بن الخطاب، فبينا انا كذلك، إذ جاءه مولاه يرفا، فقال: هذا عثمان ، وعبد الرحمن ، وسعد ، والزبير بن العوام ، قال: ولا ادري اذكر طلحة ام لا، يستاذنون عليك، قال: ائذن لهم، ثم مكث ساعة، ثم جاء، فقال: هذا العباس ، وعلي ، يستاذنان عليك، قال: ائذن لهما، فلما دخل العباس، قال: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا، وهما حينئذ يختصمان فيما افاء الله على رسوله من اموال بني النضير، فقال القوم: اقض بينهما يا امير المؤمنين، وارح كل واحد من صاحبه، فقد طالت خصومتهما، فقال عمر : انشدكم الله الذي بإذنه تقوم السموات والارض، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث، ما تركنا صدقة"؟ قالوا: قد قال ذلك، وقال لهما مثل ذلك، فقالا: نعم، قال: فإني ساخبركم عن هذا الفيء، إن الله عز وجل خص نبيه صلى الله عليه وسلم منه بشيء لم يعطه غيره، فقال: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب سورة الحشر آية 6، وكانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة، والله ما احتازها دونكم، ولا استاثر بها عليكم، لقد قسمها بينكم، وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، فكان ينفق على اهله منه سنة، ثم يجعل ما بقي منه مجعل مال الله، فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعده، اعمل فيها بما كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ، إِذْ جَاءَهُ مَوْلَاهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَذَا عُثْمَانُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَسَعْدٌ ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ، قَالَ: وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ طَلْحَةَ أَمْ لَا، يَسْتَأْذِنُونَ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُمْ، ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَذَا الْعَبَّاسُ ، وَعَلِيٌّ ، يَسْتَأْذِنَانِ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَ الْعَبَّاسُ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: اقْضِ بَيْنَهُمَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَرِحْ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبِهِ، فَقَدْ طَالَتْ خُصُومَتُهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"؟ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، وَقَالَ لَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي سَأُخْبِرُكُمْ عَنْ هَذَا الْفَيْءِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَصَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ غَيْرَهُ، فَقَالَ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، وَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ قَسَمَهَا بَيْنَكُمْ، وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ مِنْهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ، أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، عبدالرحمن، سعد اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے نجات عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس، علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال پوچھا: اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «وما افاء الله على رسول منهم فما او جفتم عليه من خيل ولا ركا ب» اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں اور میں اس میں وہی طریقہ اختیار کروں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2904، م: 1757
حدیث نمبر: 426
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسماعيل ابو معمر ، حدثنا يحيى بن سليم الطائفي ، عن إسماعيل بن امية ، عن موسى بن عمران بن مناح ، عن ابان بن عثمان ، عن عثمان : انه راى جنازة فقام إليها، وقال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم راى جنازة، فقام لها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ بْنِ مَنَّاحٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ : أَنَّهُ رَأَى جَنَازَةً فَقَامَ إِلَيْهَا، وَقَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جَنَازَةً، فَقَامَ لَهَا".
ابان بن عثمان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے بھی اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يحيي بن سليم
حدیث نمبر: 427
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن سعيد بن عبد الله بن قارظ ، عن ابي عبيد ، قال: شهدت عليا ، وعثمان رضي الله عنهما، في يوم الفطر والنحر يصليان، ثم ينصرفان، فيذكران الناس، فسمعتهما يقولان:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم هذين اليومين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا ، وَعُثْمَانَ رضي الله عنهما، في يوم الفطر والنحر يصليان، ثم ينصرفان، فيذكران الناس، فسمعتهما يقولان:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ".
ابوعبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 428
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، حدثني ابن شهاب ، عن عطاء بن يزيد الجندعي ، انه سمع حمران مولى عثمان بن عفان، قال: رايت امير المؤمنين عثمان يتوضا، فاهراق على يديه ثلاث مرات، ثم استنثر ثلاث مرات ومضمض ثلاثا، وذكر الحديث مثل معنى حديث معمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ الْجُنْدَعِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ يَتَوَضَّأُ، فَأَهْرَاقَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ اسْتَنْثَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ مَعْمَرٍ.
حمران جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی بہایا، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ کلی کی اور مکمل حدیث ذکر کی جو پیچھے گزر چکی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 159، م: 226

Previous    39    40    41    42    43    44    45    46    47    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.