عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنه تصيب امتي في آخر الزمان من سلطانهم شدائد لا ينجو منه إلا رجل عرف دين الله فجاهد عليه بلسانه ويده وقلبه فذلك الذي سبقت له السوابق ورجل عرف دين الله فصدق به ورجل عرف دين الله فسكت عليه فإن راى من يعمل الخير احبه عليه وإن راى من يعمل بباطل ابغضه عليه فذلك ينجو على إبطانه كله» عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ تُصِيبُ أُمَّتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ سُلْطَانِهِمْ شَدَائِدُ لَا يَنْجُو مِنْهُ إِلَّا رَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللَّهِ فَجَاهَدَ عَلَيْهِ بِلِسَانِهِ وَيَدِهِ وَقَلْبِهِ فَذَلِكَ الَّذِي سَبَقَتْ لَهُ السَّوَابِقُ وَرَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللَّهِ فَصَدَّقَ بِهِ وَرَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللَّهِ فَسَكَتَ عَلَيْهِ فَإِنْ رَأَى مَنْ يَعْمَلُ الْخَيْرَ أَحَبَّهُ عَلَيْهِ وَإِنْ رَأَى مَنْ يَعْمَلُ بِبَاطِلٍ أَبْغَضَهُ عَلَيْهِ فَذَلِكَ يَنْجُو على إبطانه كُله»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آخری دور میں میری امت کو ان کے بادشاہوں کی طرف سے مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان سے صرف وہی شخص بچے گا جو اللہ کے دین کو پہچان کر اپنی زبان، اپنے ہاتھ اور اپنے دل کے ذریعے اس کے خلاف جہاد کرے گا، یہ وہ شخص ہے جسے پہلی سعادتیں حاصل ہوں گی، اور وہ شخص جس نے اللہ کے دین کی معرفت حاصل کی اور اس کی تصدیق بھی کی، اور وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا لیکن اس (کے بیان و تفصیل) پر خاموشی اختیار کی، اگر اس نے کسی کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھا تو اس پر اس کو پسند کیا، اور اگر کسی کو برا کام کرتے ہوئے دیکھا تو اس پر اس سے ناراض ہوا۔ یہ شخص اپنی مخفی پسند و ناپسند پر کامیاب ہو گیا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7587، نسخة محققة بعد ح7180) ٭ فيه سھل بن عمار: ضعيف کما يظھر من ترجمته في لسان الميزان (143/3. 144) و جابر بن زيد عن عمر: منقطع.»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اوحى الله عز وجل إلى جبريل عليه السلام: ان اقلب مدينة كذا وكذا باهلها قال: يارب إن فيهم عبدك فلانا لم يعصك طرفة عين. قال: فقال: اقلبها عليه وعليهم فإن وجهه لم يتمعر في ساعة قط وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلى جبريلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: أَنِ اقْلِبْ مَدِينَةَ كَذَا وَكَذَا بِأَهْلِهَا قَالَ: يارب إِنَّ فِيهِمْ عَبْدَكَ فُلَانًا لَمْ يَعْصِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ. قَالَ: فَقَالَ: اقْلِبْهَا عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ فَإِنَّ وَجهه لم يتمعر فِي سَاعَة قطّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے جبریل ؑ کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں سمیت الٹ دو۔ اس نے عرض کیا: رب جی! ان میں تو تیرا فلاں بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر تیری نافرمانی نہیں کی۔ “ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس (شہر) کو اس پر اور ان پر الٹ دے، کیونکہ اس کا چہرہ میری خاطر کبھی لمحہ بھر کے لیے بھی متغیر نہیں ہوا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7595، نسخة محققة: 7189) ٭ فيه عبيد بن إسحاق العطار: ضعيف، و فيه علة أخري.»
وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل يسال العبد يوم القيامة فيقول: ما لك إذا رايت المنكر فلم تنكره؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيلقى حجته فيقول: يا رب خفت الناس ورجوتك «. روى البيهقي الاحاديث الثلاثة في» شعب الإيمان وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَسْأَلُ الْعَبْدَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: مَا لَكَ إِذَا رَأَيْتَ الْمُنْكَرَ فَلَمْ تُنْكِرْهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيُلَقَّى حُجَّتَهُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ خِفْتُ النَّاسَ وَرَجَوْتُكَ «. رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ فِي» شُعَبِ الْإِيمَانِ
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ عزوجل روز قیامت بندے سے سوال کرتے ہوئے فرمائے گا: تجھے کیا ہوا تھا کہ جب تو نے برائی دیکھی تو تُو نے اسے کیوں نہیں روکا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو اس کی دلیل سکھا دی جائے گی اور وہ عرض کرے گا: رب جی! میں لوگوں سے ڈر گیا اور تجھ سے امید رکھی۔ “ امام بیہقی نے تینوں احادیث شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7575، نسخة محققة: 7168) ٭ سفيان الثوري مدلس و لم يصرح بالسماع، و أخاف الإنقطاع في السند.»
وعن ابي موسى الاشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفس محمد بيده إن المعروف والمنكر خليقتان تنصبان للناس يوم القيامة فاما المعروف فيبشر اصحابه ويوعدهم الخير واما المنكر فيقول: إليكم إليكم وما يستطيعون له إلا لزوما «. رواه احمد والبيهقي في» شعب الإيمان وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ الْمَعْرُوفَ وَالْمُنْكَرَ خَلِيقَتَانِ تُنْصَبَانِ لِلنَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَمَّا الْمَعْرُوفُ فَيُبَشِّرُ أَصْحَابَهُ وَيُوعِدُهُمُ الْخَيْرَ وَأَمَّا الْمُنْكَرُ فَيَقُولُ: إِلَيْكُمْ إِلَيْكُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُ إِلَّا لُزُومًا «. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الإِيمان
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! بے شک نیکی اور برائی دو (الگ الگ) مخلوق ہیں، روز قیامت انہیں لوگوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، چنانچہ نیکی تو اپنے ساتھیوں (یعنی نیکوکاروں) کو خوشخبری دے گی اور ان سے خیر کا وعدہ کرے گی، جبکہ برائی کہے گی: دور رہو، دور رہو، لیکن وہ (برائی کرنے والے) اس سے جدا نہیں ہو سکیں گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (391/4 ح 19716) و البيھقي في شعب الإيمان (11180، نسخة محققة: 10666) ٭ قتادة والحسن مدلسان و عنعنا.»