عن ابن مسعود قال: لما نزلت: (الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم) شق ذلك على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقالوا: يا رسول اله: اينا لم يظلم نفسه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ذاك إنما هو الشرك الم تسمعوا قول لقمان لابنه: (يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم؟) في رواية: «ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه» . متفق عليه عَن ابْن مَسْعُود قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: (الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانهم بظُلْم) شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالُوا: يَا رَسُول اله: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ ذَاكَ إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ أَلَمْ تَسْمَعُوا قَوْلَ لُقْمَانَ لِابْنِهِ: (يَا بني لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ؟) فِي رِوَايَةٍ: «لَيْسَ هُوَ كَمَا تَظُنُّونَ إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَان لِابْنِهِ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت نازل ہوئی: ”جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی۔ “ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ پر گراں گزری اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے یہ مراد نہیں، بلکہ اس سے مراد شرک ہے، کیا تم نے لقمان ؑ کا قول نہیں سنا جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا: ”بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”ایسے نہیں جو تم گمان کرتے ہو، یہ تو وہ ہے جیسے لقمان ؑ نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4776) و مسلم (124/197)»
وعن ابي امامة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من شر الناس منزلة عند الله يوم القيامة عبد اذهب آخرته بدنيا غيره» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: «مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَبْدٌ أَذْهَبَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت مقام و مرتبے کے لحاظ سے وہ شخص بدترین ہو گا جس نے کسی کی دنیا (بنانے) کی خاطر اپنی آخرت ضائع کر لی۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (3966) [و حسنه البوصيري المتأخر!] ٭ فيه عبد الحکيم السدوسي لم يوثقه غير ابن حبان من المتقدمين وروي عنه جماعة.»
وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الدواوين ثلاثة: ديوان لا يغفره الله: الإشراك بالله. يقول الله عز وجل (إن الله لا يغفر ان يشرك به) وديوان لا يتركه الله: ظلم العباد فيما بينهم حتى يقتص بعضهم من بعض وديوان لا يعبا الله به ظلم العباد فيما بينهم وبين الله فذاك إلى الله فذاك إلى الله: إن شاء عذبه وإن شاء تجاوز عنه وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الدَّوَاوِينُ ثَلَاثَةٌ: دِيوَانٌ لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ. يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ (إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ) وَدِيوَانٌ لَا يَتْرُكُهُ اللَّهُ: ظُلْمُ الْعِبَادِ فِيمَا بَيْنَهُمْ حَتَّى يَقْتَصَّ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ وَدِيوَانٌ لَا يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِ ظُلْمُ الْعِبَادِ فِيمَا بينَهم وبينَ الله فَذَاك إِلَى اللَّهِ فَذَاكَ إِلَى اللَّهِ: إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِن شَاءَ تجَاوز عَنهُ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال نامے تین قسم کے ہیں، ایک وہ اعمال نامہ جسے اللہ معاف نہیں فرمائے گا، وہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”بے شک اللہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ “ ایک وہ اعمال نامہ ہے جسے اللہ نہیں چھوڑے گا، وہ ہے بندوں کا آپس میں ظلم کرنا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے سے بدلہ لے لیں، اور ایک وہ نامہ اعمال ہے جس کی اللہ پرواہ نہیں کرے گا، وہ ہے بندوں کا اپنے اور اللہ کے درمیان ظلم کرنا، یہ اللہ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے تو اسے عذاب دے دے اور اگر چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7473، نسخة محققة: 7069. 7070) [و أحمد (240/6 ح 26559)] ٭ صححه الحاکم (4/ 575) فتعقبه الذهبي، قال: ’’صدقة (بن موسي) ضعفوه و ابن بابنوس فيه جھالة‘‘ و صححه الحاکم مرة أخري حديثه الآخر (392/2) ووافقه الذهبي، قلت: صدقة بن موسي ضعفه الجمھور فھو ضعيف.»
وعن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إياك ودعوة المظلوم فإنما يسال الله تعالى حقه وإن الله لا يمنع ذا حق حقه» وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِيَّاكَ وَدَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّمَا يَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى حَقَّهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمْنَعُ ذَا حق حَقه»
علی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مظلوم کی بددعا سے بچو، وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے اور بے شک اللہ حق دار سے اس کا حق نہیں روکتا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7464، نسخة محققة: 7061) ٭ فيه صالح بن حسان (کمافي النسخة المحققة):وھو متروک جدًا.»
وعن اوس بن شرحبيل انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من مشى مع ظالم ليقويه وهو يعلم انه ظالم فقد خرج من الإسلام» وَعَن أوْسِ بن شَرحبيل أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ لِيُقَوِّيَهُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَام»
اوس بن شرحبیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص ظالم کے ساتھ چلتا ہے تا کہ وہ اس کو تقویت پہنچائے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7675، نسخة محققة: 7269) [والطبراني في الکبير (619)] ٭ قال الھيثمي: ’’و فيه عياش بن مؤنس و لم أجد من ترجمه‘‘ (مجمع الزوائد 205/4) قلت: و ثقه ابن حبان وحده فھو مجھول الحال و أبو الحسن نمران بن مخمر: مجھول الحال.»
وعن ابي هريرة انه سمع رجلا يقول: إن الظالم لا يضر إلا نفسه فقال ابو هريرة: بلى والله حتى الحبارى لتموت في وكرها هزلا لظلم الظالم. روى البيهقي الاحاديث الاربعة في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: إِنَّ الظَّالِمَ لَا يَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: بَلَى وَاللَّهِ حَتَّى الْحُبَارَى لَتَمُوتُ فِي وَكْرِهَا هُزْلًا لِظُلْمِ الظَّالِمِ. رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الْأَرْبَعَةَ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ ظالم شخص اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں، اللہ کی قسم! حتیٰ کہ سرخاب ظالم کے ظلم کی وجہ سے دبلی پتلی ہو کر اپنے آشیانے ہی میں مر جاتی ہے۔ امام بیہقی نے چاروں احادیث شعب الایمان میں روایت کی ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7479، نسخة محققة: 7075) ٭ عمر بن جابر الحنفي: مقبول أي مجھول الحال و ثقه ابن حبان وحده و إسماعيل بن حکيم الخزاعي لم أجد من وثقه و أما نعيم بن حماد فھو صدوق حسن الحديث و لم يصب من ضعفه.»
عن ابي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من راى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك اضعف الإيمان» . رواه مسلم عَن أبي سعيدٍ الخدريِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فبقلبه وَذَلِكَ أَضْعَف الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر وہ طاقت نہ رکھے تو پھر اپنی زبان سے، اگر وہ (اس کی بھی) استطاعت نہ رکھے تو پھر اپنے دل سے (بدلنے کے لیے منصوبہ بندی کرے اور اس سے نفرت رکھے)، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (78/ 49)»
وعن النعمان بن بشير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مثل المدهن في حدود الله والواقع فيها مثل قوم استهمواسفينة فصار بعضهم في اسفلها وصار بعضهم في اعلاها فكان الذي في اسفلها يمر بالماء على الذين في اعلاها فتاذوا به فاخذ فاسا فجعل ينقر اسفل السفينة فاتوه فقالوا: مالك؟ قال: تاذيتم بي ولا بد لي من الماء. فإن اخذوا على يديه انجوه ونجوا انفسهم وإن تركوه اهلكوه واهلكوا انفسهم. رواه البخاري وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: مثلُ المدهنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ استهمواسفينة فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ فَأَتَوْهُ فَقَالُوا: مَالك؟ قَالَ: تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلَا بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ. فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی حدود (قائم کرنے) میں سستی کرنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے شخص کی مثال اس قوم کی مثل ہے جنہوں نے ایک کشتی (میں سوار ہونے) کے متعلق قرعہ اندازی کی تو ان میں سے بعض اس کی نچلی منزل پر اور بعض بالائی منزل پر بیٹھ گئے، جو نچلی منزل میں تھے وہ پانی لینے کے لیے بالائی منزل والوں کے اوپر سے گزرتے، جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کرتے، لہذا نچلی منزل والوں نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگے، چنانچہ اوپر والے ان کے پاس آئے اور پوچھا: تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ (ہمارے اوپر جانے سے) تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور پانی بھی ہماری مجبوری ہے، اگر اوپر والوں نے اس کے ہاتھ روک لیے تو وہ اسے بھی بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیں گے، اور اگر اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیں گے تو وہ اسے بھی ہلاک کر دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر لیں گے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6286)»
وعن اسامة بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق اقتابه في النار فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه فيجتمع اهل النار عليه فيقولون: اي فلان ما شانك؟ اليس كنت تامرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر؟ قال: كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه وانهاكم عن المنكر وآتيه. متفق عليه وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ فَيَطْحَنُ فِيهَا كَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلَانُ مَا شَأْنُكَ؟ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ؟ قَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ. مُتَّفق عَلَيْهِ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت ایک آدمی لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں آگ میں نکل آئیں گی، وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے، جہنمی اس پر جمع ہو جائیں گے، اور اس سے دریافت کریں گے: اے فلاں! تمہیں کیا ہوا؟ کیا تو ہمیں نیکی کرنے کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی کرنے سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا: میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا، اور میں تمہیں برائی سے روکتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2267) و مسلم (51/ 2989)»
عن حذيفة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والذي نفسي بيده لتامرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر او ليوشكن الله ان يبعث عليكم عذابا من عنده ثم لتدعنه ولا يستجاب لكم» . رواه الترمذي عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ عِنْدِهِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهُ وَلَا يُسْتَجَاب لكم» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل کر دے، پھر تم اس سے دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہ ہوں گی۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (2169 وقال: حسن)»