وعن ابن عمر قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ما يوجب الحج؟ قال: «الزاد والراحلة» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟ قَالَ: «الزَّادُ وَالرَّاحِلَة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! وجوبِ حج کی شرط کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زادراہ اور سواری۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (813 وقال: حسن) و ابن ماجه (2896) ٭ إبراھيم بن يزيد الخوزي ضعيف و للحديث طرق ضعيفة عن أنس و عائشة وغيرهما.»
وعنه قال: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما الحاج؟ فقال: «الشعث النفل» . فقام آخر فقال: يا رسول الله اي الحج افضل؟ قال: «العج والثج» . فقام آخر فقال: يا رسول الله ما السبيل؟ قال: «زاد وراحلة» رواه في شرح السنة. وروى ابن ماجه في سننه إلا انه لم يذكر الفصل الاخير وَعَنْهُ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا الْحَاج؟ فَقَالَ: «الشعث النَّفْل» . فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «الْعَجُّ وَالثَّجُّ» . فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا السَّبِيلُ؟ قَالَ: «زَادٌ وَرَاحِلَةٌ» رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ. وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ فِي سُنَنِهِ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يذكر الْفَصْل الْأَخير
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا: حاجی کی صفت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پراگندہ، بکھرے ہوئے بال اور میل کچیل۔ “ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! کون سا حج افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلند آواز سے تکبیریں کہنا اور قربانی کا خون بہانا۔ “ پھر ایک اور کھڑا ہوا تو اس نے عرض کیا، راستے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زادراہ اور سواری۔ “ شرح السنہ، اور امام ابن ماجہ نے اسے اپنی سنن میں روایت کیا لیکن انہوں نے آخری بات (راستے سے کیا مراد ہے؟) ذکر نہیں کی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البغوی شرح السنہ و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (14/7 ح 1847) و ابن ماجه (2896) ٭ إبراهيم بن يزيد الخوزي ضعيف و انظر الحديث السابق (2526)»
وعن ابي رزين العقيلي انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن ابي شيخ كبير لا يستطيع الحج ولا العمرة ولا الظعن قال: «حج عن ابيك واعتمر» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وَعَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ قَالَ: «حُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرے کی استطاعت رکھتے ہیں نہ سواری کر سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ کر۔ “ ترمذی، ابوداؤد، نسائی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (930) و أبو داود (1810) والنسائي (111/5 ح 2622) [و صححه ابن خزيمة (3040) و ابن حبان (961) و ابن الجارود (500) والحاکم (481/1) علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي.]»
مرفوع وعن ابن عباس قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يقول لبيك عن شبرمة قال: «من شبرمة» قال: اخ لي او قريب لي قال: «احججت عن نفسك؟» قال: لا قال: «حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة» . رواه الشافعي وابو داود وابن ماجه مَرْفُوع وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لَبَّيْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ قَالَ: «مَنْ شُبْرُمَةُ» قَالَ: أَخٌ لِي أَوْ قَرِيبٌ لِي قَالَ: «أَحَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ» . رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَأَبُو دَاوُد وابنُ مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی آدمی کو شُبرمہ کی طرف سے تلبیہ (لبیک) کہتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شبرمہ کون ہے؟“ اس نے کہا: میرا بھائی ہے یا میرا کوئی قریبی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے خود حج کیا ہوا ہے؟“ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ “ حسن، رواہ الشافعی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الشافعي في الأم (123/2) و أبو داود (1811) و ابن ماجه (2903)»
وعنه قال: وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المشرق العقيق. رواه الترمذي وابو داود وَعَنْهُ قَالَ: وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات قرار دیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (832) و أبو داود (1740) ٭ فيه يزيد بن أبي زياد ضعيف مدلس.»
وعن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقت لاهل العراق ذات عرق. رواه ابو داود والنسائي وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات قرار دیا۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1739) والنسائي (125/5 ح 2657)»
وعن ام سلمة قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اهل بحجة او عمرة من المسجد الاقصى إلى المسجد الحرام غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر او وجبت له الجنة. رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ أَوْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھے تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں یا اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1741) و ابن ماجه (3001. 3002) ٭ حکيمة و ثقھا ابن حبان وحده و الحديث ضعفه البخاري و غيره وھو الراجح.»
عن ابن عباس قال: كان اهل اليمن يحجون فلا يتزودون ويقولون: نحن المتوكلون فإذا قدموا مكة سالوا الناس فانزل الله تعالى: (وتزودوا فإن خير الزاد التقوى) رواه البخاري عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْيَمَنِ يَحُجُّونَ فَلَا يَتَزَوَّدُونَ وَيَقُولُونَ: نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (وتزَوَّدُوا فإِنَّ خيرَ الزَّادِ التَّقوى) رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اہل یمن حج کرتے تو وہ زادراہ ساتھ نہیں لیتے تھے اور وہ کہتے تھے ہم توکل کرنے والے ہیں۔ لیکن جب وہ مکہ پہنچ جاتے تو پھر لوگوں سے سوال کرتے، تب اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی: ”زادراہ لے لیا کرو، اور بہترین زادراہ تقویٰ ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1523)»
وعن عائشة قالت: قلت: يا رسول الله على النساء جهاد؟ قال: نعم عليهن جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة. رواه ابن ماجه وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى النِّسَاءِ جِهَادٌ؟ قَالَ: نَعَمْ عَلَيْهِنَّ جِهَادٌ لَا قِتَالَ فِيهِ: الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ان پر جہاد فرض ہے لیکن ان میں قتال نہیں، اور وہ جہاد حج و عمرہ ہے۔ “ صحیح، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه ابن ماجه (2901)»