سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
حدیث نمبر: 2801
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، عن ابيه، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله، إلا ان فيه"زكاة ورحمة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّ فِيهِ"زَكَاةً وَرَحْمَةً".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی مروی ہے لیکن اس میں «زكاة و رحمة» ہے، یعنی میرے برا بھلا کہنے کو ان کے لئے پاکی اور رحمت بنا دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2808]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2602]، [أبويعلی 2271]، [ابن أبى شيبه 9601]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2799 سے 2801)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی کسی مؤمن پر لعنت نہیں کی، تواضعاً ایسا کہا کہ بتقاضائے بشریت اگر یہ امر سرزد ہوا ہو تو الله تعالیٰ اس کو اس مسلمان کے حق میں رحمت و نعمت اور قربت بنا دے۔
اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا ثابت ہوا، نیز یہ کہ ہر انسان بشر سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا صرف مسلمانوں کے لئے ہے، کافروں کے لئے نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
53. باب في قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَباً» :
53. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہوتا تو“
حدیث نمبر: 2802
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، قال: سمعت سويد بن الحارث، عن ابي ذر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "ما يسرني ان جبل احد لي ذهبا اموت يوم اموت عندي دينار او نصف دينار إلا لغريم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا يَسُرُّنِي أَنَّ جَبَلَ أُحُدٍ لِي ذَهَبًا أَمُوتُ يَوْمَ أَمُوتُ عِنْدِي دِينَارٌ أَوْ نِصْفُ دِينَارٍ إِلَّا لِغَرِيمٍ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: مجھے پسند نہیں ہے کہ میرے لئے جبلِ احد سونے کا ہو اور میں جس دن وفات پاؤں اس میں سے میرے پاس ایک یا آدھا دینار بھی باقی رہے سوائے اس کے جو میں قرض خواہ کے لئے بچائے رکھوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2809]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أحمد 148/5]، [ابن حبان 169]، [موارد الظمآن 10، وله شاهد عند البخاري 1408]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2801)
یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مال و دولت سے بے رغبتی اور جود و سخاوت پر دلالت کرتی ہے۔
مال جمع کرنا دنیا داروں کا کام ہے: «‏‏‏‏ ﴿وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ [الفجر: 20] » فخرِ کائنات کیسے اس کو پسند فرماتے، لیکن حوائجِ ضروریہ کے لئے پس انداز کرنا اور قرض کے لئے اٹھا رکھنا معیوب نہیں، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے: « ﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾ [الإسراء: 29] » یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادہ نہ کرو (یعنی اتنا خرچ نہ کرو) کہ تم خالی ہاتھ ہو کر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ۔
بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کرو، مال خرچ کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لو، یہی بہتر طریقہ ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
54. باب في الْمُوبِقَاتِ:
54. ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں کا بیان
حدیث نمبر: 2803
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الفضل، وسليمان بن حرب , قالا: حدثنا حماد هو: ابن زيد، قال: حدثنا ايوب، عن حميد بن هلال، عن عبادة بن قرط، قال: "إنكم لتاتون امورا هي ادق في اعينكم من الشعر، كنا نعدها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم من الموبقات". فذكر لمحمد يعني: ابن سيرين، فقال: صدق، فارى جر الإزار من ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ: ابْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ قُرْطٍ، قَالَ: "إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ أُمُورًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعْرِ، كُنَّا نَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُوبِقَاتِ". فَذُكِرَ لِمُحَمَّدٍ يَعْنِي: ابْنَ سِيرِينَ، فَقَالَ: صَدَقَ، فَأَرَى جَرَّ الْإِزَارِ مِنْ ذَلِكَ.
سیدنا عبادہ بن قرط رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک تم ایسے امور کا ارتکاب کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی انہیں حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناه شمار نہیں کرتے) لیکن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کو نہایت مہلک شمار کرتے تھے۔
محمد بن سیرین سے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو انہوں نے کہا: عبادہ نے سچ کہا اور میرا خیال ہے کہ ازار کو لٹکانا انہیں مہلک گناہوں میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2810]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6492]، [أحمد 470/3، 79/5]، [معجم الصحابة لابن قانع 690] و [مجمع الزوائد 404]۔ عبادہ بن قرط کو بعض محدثین نے عبادہ بن قرص کہا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2802)
چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہے، صغیرہ بھی بڑھتے بڑھتے کبیرہ ہو جاتا ہے، قطرے قطرے سے گڑھا بھر جاتا ہے، صغائر کو بھی صحابہ کرام ہلاکت میں ڈال دینے والے گناہ تصور کرتے تھے اور ان سے بچتے تھے۔
آج کبائر کی بھی مسلمان پرواہ نہیں کرتے، زنا کاری، چوری، شراب نوشی، جھوٹ، غیبت، حتیٰ کہ واجبات کی عدم ادائیگی پر بھی انہیں شرم نہیں آتی، کتنے ایسے مسلمان ملیں گے جو جمعہ کی جمعہ نماز ادا کرتے ہیں، اور کتنے بدنصیب تو صرف عید کی نماز پر اکتفا کرتے ہیں پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے، آمین۔
ٹخنے سے نچے ازار لٹکانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور ایسے شخص کے لئے احادیثِ شریفہ میں سخت وعید آئی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فَهُوَ فِي النَّارٍ.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
55. باب: «الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ» :
55. بخار جہنم کی بھاپ سے ہے
حدیث نمبر: 2804
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ابيه، عن عباية بن رفاعة، عن رافع بن خديج، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الحمى من فيح جهنم او من فور جهنم فابردوها بالماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ أَوْ مِنْ فَوْرِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخار جہنم کی بھاپ میں سے ہے یا جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے، پس اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2811]»
اس حدیث کی سند صحیح على شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5725]، [مسلم 84/2212]، [ترمذي 2073]، [ابن ماجه 3473]، [أحمد 141/4]، [طبراني 274/2، 4397، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2803)
اس سے مراد وہ بخار ہے جو صفراء کے جوش سے چڑھ آئے، اس میں ٹھنڈے پانی سے نہانا یا ہاتھ پاؤں کا دھونا مفید ہے، اسے آج کی ڈاکٹری نے بھی تسلیم کیا ہے، شدید بخار میں برف کا استعمال بھی اسی قبیل سے ہے، اور مروجہ ڈاکٹری کا ایک شعبۂ علاج پانی سے بھی ہے جو کافی ترقی پذیر ہے، ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالیٰ نے جمیع علومِ نافعہ کا خزانہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا، چنانچہ فنِ طبابت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ اصول اس قدر جامع ہیں کہ کوئی بھی عقل مند ان کی تردید نہیں کر سکتا۔
(مولانا راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
56. باب: الْمَرَضُ كَفَّارَةٌ:
56. بیماری کفارہ ہے
حدیث نمبر: 2805
Save to word اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن القاسم بن مخيمرة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما احد من المسلمين يصاب ببلاء في جسده، إلا امر الله الحفظة الذين يحفظونه، فقال: اكتبوا لعبدي في كل يوم وليلة مثل ما كان يعمل من الخير، ما كان محبوسا في وثاقي".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُصَابُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ، إِلَّا أَمَرَ اللَّهُ الْحَفَظَةَ الَّذِينَ يَحْفَظُونَهُ، فَقَالَ: اكْتُبُوا لِعَبْدِي فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ مِثْلَ مَا كَانَ يَعْمَلُ مِنَ الْخَيْرِ، مَا كَانَ مَحْبُوسًا فِي وِثَاقِي".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی مسلمان جسمانی مرض میں مبتلا کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لئے مقرر کئے گئے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کے ہر دن اور رات کا وہ عمل لکھتے رہو جو وہ (صحت کی حالت میں) کیا کرتا تھا جب تک کہ وہ میرے بندھن (مرض) میں قید رہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إذا كان القاسم سمعه من عبد الله بن عمرو، [مكتبه الشامله نمبر: 2812]»
اگر قاسم نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے سنا ہے تو اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 194/2، 198]، [مجمع الزوائد 3851، 3852]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2804)
یہ بھی الله تعالیٰ کا فضل و کرم اور رحمت و عدل ہے کہ بیماری کی حالت میں اگر نفل نماز یا دیگر کارِ خیر انجام نہ دے سکے تو اس کے لئے نماز اور دیگر کارِ خیر برابر لکھے جاتے رہیں گے جو صحت کی حالت میں انجام دیتا تھا۔
« ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ [الجمعة:4] » ۔
اور [بخاري شريف 2996] میں ہے: جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لئے اس کے مثل عمل لکھ دیئے جاتے ہیں جو وہ اقامت اور صحت کی حالت میں کیا کرتا تھا۔
سبحان اللہ! کیا فضلِ الٰہی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے مراد ایسے اعمالِ صالحہ ہیں جو ایک مسلمان استحباب اور نفل کے طور پر کرتا ہے، ورنہ فرائض کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إذا كان القاسم سمعه من عبد الله بن عمرو
57. باب أَجْرِ الْمَرِيضِ:
57. بیمار کے اجر و ثواب کا بیان
حدیث نمبر: 2806
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى بن عبيد، حدثنا الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن الحارث بن سويد، عن عبد الله، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يوعك، فوضعت يدي عليه، فقلت: يا رسول الله، إنك لتوعك وعكا شديدا، فقال: "إني اوعك كما يوعك رجلان منكم"، قال: قلت: ذلك بان لك اجرين؟، قال:"اجل، وما من مسلم يصيبه اذى، او مرض فما سواه، إلا حط عنه من سيئاته كما تحط الشجرة ورقها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، فَقَالَ: "إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ"، قَالَ: قُلْتُ: ذَلِكَ بِأَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ؟، قَالَ:"أَجَلْ، وَمَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى، أَوْ مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ، إِلَّا حُطَّ عَنْهُ مِنْ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار میں مبتلا تھے، میں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو شدید بخار کی تکلیف ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تنہا ایسا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمی کو ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یہ اس لئے کہ آپ کا اجر بھی دوگنا ہے؟ فرمایا: ہاں (ایسا ہی ہے) اور کسی بھی مسلمان کو کسی مرض کی یا اور کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2813]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5647]، [مسلم 2571]، [أبويعلی 5164]، [ابن حبان 2937]، [موارد الظمآن 701]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2805)
اس حدیث میں تمام مؤمنین کے لیے تسلی اور اطمینان کی تعلیم اور بشارت ہے کہ جب سید الانبیاء بھی شدت میں مبتلا ہیں تو کسی بھی مؤمن کو مصیبت و پریشانی آ سکتی ہے، اس پر انہیں صبر کرنا چاہیے، کیونکہ جتنا قربِ الٰہی زیادہ ہوگا تکالیف و مصائب زیادہ آئیں گے، اور نیک لوگوں کے درجات بلند ہوتے رہیں گے، اور گناہ معاف ہوتے رہیں گے، اور بیمار کو بیماری کی حالت میں بھی جو وہ اچھے کام صحت کی حالت میں کیا کرتا تھا ان کا ثواب ملتا رہے گا۔
مزید تفصیل رقم (2818) میں آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
58. باب في فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
58. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2807
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا إسماعيل بن جعفر المدني، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من صلى علي صلاة واحدة، صلى الله عليه عشرا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایک مرتبہ میرے لئے درود و سلام بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمتیں نازل فرمائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2814]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 408]، [أبوداؤد 1530]، [ترمذي 485]، [نسائي 1295]، [أبويعلی 6495]، [ابن حبان 905]، [ابن أبى عاصم 53]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2806)
«صلاة» کے معنی دعا و سلام، درود، عبادت، رحمتیں، نوازشات وغیرہ ہیں۔
قاضی عیاض کا بیان ہے: الله تعالیٰ ایک بار درود پڑھنے والے پر دس مرتبہ اپنی رحمتیں نازل کرے گا، یا دس گنا زیادہ اس کو ثواب عنایت کرے گا، جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جو کوئی نیکی کا ایک کام کرے گا تو الله تعالیٰ اس کو دس گنا سے بھی زیادہ اچھائیاں عنایت کرے گا۔
واضح رہے کہ «صلاة على النبي» سے مراد وہی درود ہے جو نماز میں پڑھی جاتی ہے یا جو احادیث میں مذکور ہے، خود ساختہ بنائی ہوئی درود اور سلام کہنا یا پڑھنا، نماز اور اذان کے وقت اجتماعی طور پر گا گا کر السلام علیک یا رسول اللہ کہنا بدعتِ قبیحہ ہیں، جس کا حکم نہ اللہ نے دیا نہ اللہ کے رسول نے۔
الله تعالیٰ سب کو سنّت کی پیروی کرنے اور بدعت سے بچنے کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2808
Save to word اعراب
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن سليمان مولى الحسن بن علي، عن عبد الله بن ابي طلحة، عن ابيه، قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم يوما وهو يرى البشر في وجهه، فقيل: يا رسول الله، إنا نرى في وجهك بشرا لم نكن نراه؟، قال:"اجل، إن ملكا اتاني، فقال لي: يا محمد إن ربك يقول لك: اما يرضيك ان لا يصلي عليك احد من امتك، إلا صليت عليه عشرا، ولا يسلم عليك، إلا سلمت عليه عشرا؟، قال: قلت:"بلى".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يُرَى الْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرَى فِي وَجْهِكَ بِشْرًا لَمْ نَكُنْ نَرَاهُ؟، قَالَ:"أَجَلْ، إِنَّ مَلَكًا أَتَانِي، فَقَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ لَكَ: أَمَا يُرْضِيكَ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ، إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْكَ، إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟، قَالَ: قُلْتُ:"بَلَى".
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہم آپ کے چہرے پر خوشی کی دمک دیکھ رہے ہیں، جو ہم نے پہلے نے نہیں دیکھی؟ فرمایا: ہاں، ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اے محمد! آپ کا رب فرماتا ہے: کیا آپ راضی نہیں ہوتے اس سے کہ جو آپ پر ایک بار درود بھیجے گا میں اس پر دس بار رحمتیں بھیجوں گا، اور جو آپ پر (ایک بار) سلام کرے گا میں اس پر دس بار سلامتی نازل کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہا: ہاں (یقیناً میں خوش ہوؤں گا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2815]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 1282، 1294]، [ابن حبان 915]، [الموارد 2391]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث جيد
حدیث نمبر: 2809
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن السائب، عن زاذان، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن لله ملائكة سياحين في الارض يبلغوني عن امتي السلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین پر پھرا کرتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2816]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 1281]، [أبويعلی 5213]، [ابن حبان 914]، [موارد الظمآن 2392]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2807 سے 2809)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود سے درود و سلام نہیں سنتے بلکہ فرشتے مقرر ہیں جو دنیا کے ہر کونے میں گھومتے رہتے ہیں اور جو بھی نماز میں کہتا ہے: «اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النِّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَكَاتُهُ» تو اس کا سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں۔
سمیع و علیم صفت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے لائق و زیبا ہے، کسی بھی نبی یا ولی کو اس میں شریک کرنا کھلا ہوا شرک ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو سمجھنے کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
59. باب في أَسْمَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
59. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کا بیان
حدیث نمبر: 2810
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، قال: اخبرني محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "إن لي اسماء: انا محمد، وانا احمد، وانا الماحي الذي يمحو الله بي الكفر، وانا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي، وانا العاقب، والعاقب الذي ليس بعده احد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "إِنَّ لِي أَسْمَاءً: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ أَحَدٌ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، احمد ہوں، میرا نام ماحی ہے کہ میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا (قیامت کے دن) میرے بعدحشر ہوگا، اور میں عاقب ہوں (یعنی خاتم النبیین ہوں) اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی (نبی) نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2817]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3532]، [مسلم 2354]، [ترمذي 2840]، [أبويعلی 7395]، [ابن حبان 6313]، [الحميدي 565]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2809)
صحیح بخاری کی روایت ہے: میرے پانچ نام ہیں، اور پھر یہی نام مذکور ہیں جو بالا حدیث میں مذکور ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نام محمد اور احمد ہیں، صفاتی نام بشیر، نذیر، مبین، امین وغیرہ بہت سے ہیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، ننانوے ناموں کی کوئی قید نہیں، سو سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں، اور محمد اللہ کی بہت حمد و ثنا کرنے والے کو کہتے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میں پورے کمال کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتے ہیں۔
بعض لوگوں نے ننانویں (99) نام اللہ کے اور الله تعالیٰ کی برابری میں ننانویں ہی نام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنا ڈالے ہیں جو سراسر تکلف اور عدم حجت پر مبنی ہیں۔
بیشک الله تعالیٰ اور اس کے رسول کے متعدد صفاتی نام ہیں لیکن ان کی تعداد محل نظر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.