(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس: ان النبي صلى الله عليه وسلم راى على عبد الرحمن بن عوف صفرة، فقال:"ما هذه الصفرة؟"، قال: تزوجت امراة على وزن نواة من ذهب، قال: "بارك الله لك، اولم ولو بشاة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ صُفْرَةً، فَقَالَ:"مَا هَذِهِ الصُّفْرَةُ؟"، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: "بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زرد رنگ دیکھا (یعنی بدن یا کپڑوں پر زعفران کا رنگ) تو فرمایا: ”یہ زردی کیسی ہے؟“ عرض کیا: میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی سونے پر شادی کی ہے (یعنی کھجور کی گٹھلی کے برابر سونے کے عوض جو تقریباً تین درہم کی ہوتی ہے)، فرمایا: ”الله برکت دے، ولیمہ کرو گرچہ ایک بکری کا ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2250]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2409، 5155]، [مسلم 1427]، [ترمذي 1094]، [نسائي 3372]، [ابن ماجه 1907]، [أبويعلی 3205]، [ابن حبان 4060]، [الحميدي 1252]
وضاحت: (تشریح حدیث 2240) ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو خاوند کی طرف سے شبِ زفاف کے بعد ہوتا ہے، اور یہ مسنون ہے۔ اصلی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک بکری ذبح کرے، اگر اتنی استطاعت نہیں ہے تو ستو اور جو اور مٹھائی پر بھی ولیمہ درست ہے، غرضیکہ ولیمہ ہر کھانے سے ہو سکتا ہے۔ بعض علماء نے ولیمہ کرنا واجب کہا ہے، حدیث میں بھی بصیغۂ امر وارد ہے «(أَؤْلِمْ)» اور امر وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے جب تک کہ وجوب سے استحباب و مندوب کی طرف لے جانے والا کوئی قرینہ نہ ہو۔ اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام سے لگاؤ، الفت و محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نئی چیز دیکھی تو سوال کیا ایسا کیوں ہے، نیز یہ کہ رنگ لگانا یا زعفران ملنا مرد کے لئے منع ہے۔ یہاں زعفران لگا جو دیکھا تو یہ دلہن کے پاس رہنے یا دلہن کے کپڑوں سے لگا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دلہن کے ابٹنا وغیرہ لگانا جائز ہے، دولہا کے لئے نہیں، مہر میں تین درہم کی مقدار کا سونا دینا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا، اور دولہا کو مبارکباد دینا بھی، نیز ولیمہ کرنا جس کی کوئی حد و مقدار نہیں، دولہا کی جتنی حیثیت و استطاعت ہو بلا تکلف ولیمہ کرنا چاہئے اور ولیمے کے لئے ریا و نمود، شان و شوکت دکھانا درست نہیں، خیر و برکت صرف سادگی اور امورِ اسلام کی پیروی میں ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عقبة بن خالد، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا دعي احدكم إلى وليمة، فليجب". قال ابو محمد: ينبغي ان يجيب وليس الاكل عليه بواجب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى وَلِيمَةٍ، فَلْيُجِبْ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَنْبَغِي أَنْ يُجِيبَ وَلَيْسَ الْأَكْلُ عَلَيْهِ بِوَاجِبٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت میں بلایا جائے تو اسے یہ دعوت قبول کرنی چاہیے“(یعنی اس میں ضرور جانا چاہیے)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کو دعوت قبول کرنی چاہیے لیکن کھانا اس کے لئے واجب نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2251]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5173]، [مسلم 1429]، [أبوداؤد 3736]، [ابن حبان 5294]
وضاحت: (تشریح حدیث 2241) یعنی شرکت تو کرے لیکن بسببِ شرعی اگر کھانا نہ کھائے جیسے وہاں منکرات دیکھے، گانے باجے اور رقص و سرور کی محفل ہو، یا شراب وغیرہ کا دور چلتا ہو، یا پرہیزی کھانا کھاتا ہو تو کھانا واجب نہیں ہے۔ والله اعلم۔ مذکورہ بالا حدیث شادی کے موقع پر کی جانے والی دعوتِ ولیمہ کو منظور و قبول کرنے کو واجب قرار دیتی ہے اور جمہور علماء کی رائے یہی ہے۔ انہوں نے وہ شرط ضرور لگائی ہے کہ وہاں تک پہنچنے میں کوئی امر مانع نہ ہو، مثلا کھانا ہی مشتبہ ہو، یا صرف مالداروں کو مدعو کیا گیا، یا باطل کام کے لئے تعاون و استعانت کے لئے اسے دعوت دی گئی ہو، وہاں ایسا کام ہو جو ناپسندیدہ ہو اور شرعاً منکر کی تعریف میں آتا ہو، ان حالات میں نہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو اس کا بھائی مدعو کرے تو اس کی دعوت کو قبول کرنا چاہے خواہ وہ شادی ہو یا اسی طرح کی کوئی اور دعوت، اس سے بھی معلوم ہوا کہ دعوت میں ضرور جانا چاہیے۔ مسلم شریف میں ہی ہے: اگرنفلی روزہ رکھے ہو تب بھی دعوت میں جانا چاہیے اور اسے اختیار ہے کہ کھانا کھائے یا نہ کھائے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں دعوت قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5174، 5175، 5179] ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف زیادہ جھکے وہ قیامت کے دن ایسے آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ مائل (جھکا) ہو گا (جیسے فالج کی وجہ سے جھک جاتا ہے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2252]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3133]، [ترمذي 1141]، [نسائي 3952]، [ابن ماجه 1969]، [ابن حبان 4207]، [الموارد الظمآن 1307]
وضاحت: (تشریح حدیث 2242) اس حدیث میں بیویوں کے درمیان نا انصافی کرنے والے کے لئے بڑی وعید ہے، اور اس میں عورت کو شقائق الرجال ہونے کی بڑی عمدہ مثال دی ہے۔ قیامت کے دن اس کی ایک شق گری ہوئی ہوگی، اللہ تعالیٰ اگر کئی بیویوں کی توفیق دے تو ان کے درمیان انصاف و عدل بہت ضروری ہے، عموماً دیکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص دوسری شادی کرتا ہے تو پہلی بیوی سے منہ موڑ لیتا ہے، یہ سراسرظلم ہے۔ آگے عورت کے حقوق پر اور کئی احادیث آ رہی ہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باری باری رہتے ہر بیوی کے پاس اور تمام بیویوں میں انصاف قائم رکھتے اور فرماتے تھے: ”اے اللہ یہ میرا کام ہے اس امر میں جس کا میں مالک ہوں، اور تو ملامت نہ کرنا مجھے اس امر میں جس کا تو مالک ہے اور میں اس کا مالک نہیں ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2253]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2134]، [ترمذي 1140]، [نسائي 3398]، [ابن ماجه 1971]، [ابن حبان 4205]، [الموارد 1305]
وضاحت: (تشریح حدیث 2243) یعنی باری باری ہر ایک کے پاس رہنے پر میں قادر ہوں، لیکن دل اگر کسی کی طرف زیادہ راغب ہے تو اس کا اختیار مجھے نہیں، اس پر میری پکڑ نہ کرنا کیونکہ یہ تیری طرف سے ہے۔ سبحان اللہ! عدل و انصاف کی کتنی شاندار تعلیم ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف سے رہنا چاہیے اور حتی الامکان کوشش کرے کہ کسی بھی معاملے میں کسی کے ساتھ کمی یا نا انصافی نہ ہو حتیٰ کہ باری کی تقسیم بھی برابر ہو، چاہے ایک بیوی جوان ہو دوسری بوڑھی ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر کوئی عورت اپنی طرف سے اپنی باری کسی دوسری بیوی کو ہبہ کر دے تو پھر شوہر اس کی باری میں دوسری بیوی کے پاس رہ سکتا ہے، جیسا کہ ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیدی تھی، دل کی محبت، لگاؤ، جماع کی خواہش اگر کسی ایک بیوی سے زیادہ ہو دوسری سے کم تو یہ چیز اختیاری نہیں، الله تعالیٰ کی طرف سے ہے، اسی لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہیں کہ ”اے الله! جس پر میرا اختیار ہے اس میں عدل و انصاف پر قائم ہوں، جس پر اختیار نہیں اس پر میری پکڑ نہ کرنا۔ “
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل، حدثنا ابن المبارك، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر، اقرع بين نسائه، فايتهن خرج سهمها، خرج بها معه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ، أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا، خَرَجَ بِهَا مَعَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کا قرعہ ڈالتے تھے اور جس کے نام کا قرعہ نكلتا اسی کو ساتھ لے کر سفر پر نکلتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2254]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2593، 5211]، [مسلم 2770]، [أبوداؤد 2138]، [ابن ماجه 1970]، [أبويعلی 4397]، [ابن حبان 4212]
وضاحت: (تشریح حدیث 2244) جس عورت کا قرعہ نکلتا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی کو سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے اور باقی عورتوں کو مدینہ میں چھوڑ جاتے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمالِ انصاف تھا، ورنہ علمائے کرام نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم واجب نہ تھی اور الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دے دیا تھا جس عورت کے پاس چاہیں رہیں، فرمایا: « ﴿تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ .....﴾[الأحزاب: 51] » ترجمہ: ”ان میں سے جس کو آپ چاہیں علیحدہ کر دیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس رکھیں۔ “
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنواری کے لئے سات دن اور ثیبہ کے لئے تین دن ہیں۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2255]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5213]، [مسلم 1461]، [أبوداؤد 2124]، [ترمذي 1139]، [ابن ماجه 1916]، [أبويعلی 2823]، [ابن حبان 4208]
وضاحت: (تشریح حدیث 2245) شادی شدہ یا شوہر دیدہ عورت (ثیبہ) سے شادی کی ہو تو اس کے پاس متواتر تین دن تک رہنا اور کنواری لڑکی سے شادی کی ہو تو دوسری بیویوں کی موجودگی میں اس کے پاس سات دن تک متواتر رہنے کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، کیونکہ نئی بیوی خصوصاً کنواری لڑکی شروع میں وحشت زدہ ہوتی ہے، اتنے دن قیام سے اس کی وحشت دور ہو کر یگانگت اور انسیت بڑھے گی، پھر اس کے بعد سب کے ساتھ باری باری رہے تاکہ انصاف کے خلاف نہ ہو۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث متفق عليه
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو تین دن ان کے پاس رہے اور فرمایا: ”تمہارا درجہ میرے نزدیک کم نہیں ہے، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن تک رہ سکتا ہوں، پھر ہر بیوی کے ساتھ ایسے ہی سات سات دن تک رہوں گا۔“(اور پھر سب کے بعد تمہاری باری آئے گی، لیکن انہوں نے کہا: سب کے پاس باری باری ایک ایک دن رہ کر میرے پاس آیئے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2256]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1460]، [أبوداؤد 2122]، [ابن ماجه 1917]، [أبويعلی 6996]، [ابن حبان 4210]
وضاحت: (تشریح حدیث 2246) اس حدیث سے بھی پہلی حدیث کی تائید ہوتی ہے کہ ثیبہ کے پاس تین دن اور باکرہ کے پاس سات دن قیام رہنا چاہیے، پھر سب بیویوں کے درمیان باری باری متساوی تقسیم ہونی چاہیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم میرے نزدیک کم درجہ نہیں غالباً ان کی دلجوئی کے لئے تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شوہر کی وفات کے بعد شادی کی تھی جن سے وہ بہت محبت کرتی تھیں۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سارے کام چھوڑ کر پورے مہینے ہنی مون منانا بھی درست نہیں، جس کو عربی زبان میں شہر العسل کہتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں مجھ سے نکاح کیا اور شوال میں ہی مجھ سے صحبت کی، پھر کون سی بیوی مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب تھی؟ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ ان کی رشتہ دار عورتوں کی شوال میں رخصتی ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2257]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1423]، [ترمذي 1093]، [نسائي 3236]، [ابن ماجه 1990]، [أحمد 206/6، 54]، [ابن حبان 4058]
وضاحت: (تشریح حدیث 2247) شوال کا مہینہ عید کی خوشی کا مہینہ ہے اس وجہ سے اس میں نکاح کرنا بہتر ہے، اور دورِ جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس جانتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور کو مٹانے کے لئے شوال میں نکاح کیا اور شبِ زفاف بھی منائی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس باطل تصور کے بطلان کے لئے کافی ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مہینہ میں نکاح اور صحبت کی، اور میں ہی سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی تھی اور سب سے زیادہ محظوظ بھی، شادی گو ہر مہینے اور کسی بھی دن و تاریخ میں کی جا سکتی ہے مگر جو چیز کافروں فاسقوں کے اوہام و خیالات، عورتوں کی جہالت، شرعی دلیل کے بغیر رائج ہو، عوام اس کو منحوس سمجھیں، اسی مہینہ میں نکاح اور خوشی کرنی چاہیے تاکہ عوام کے دل سے یہ بے اصل بات نکل جائے، شرع کی رو سے شوال کا مہینہ، اسی طرح محرم یا صفر کا مہینہ کوئی بھی منحوس نہیں، بے کھٹکے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہیے، اور تیرہ تیزی کا تصور و عقیدہ بالکل لغو جاہل عورتوں کی ایجاد ہے۔ (وحیدی بتصرف)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن منصور، عن سالم، عن كريب، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما يمنع احدكم ان يقول حين يجامع اهله: بسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا"، فإن قضى الله ولدا، لم يضره الشيطان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ أَنْ يَقُولَ حِينَ يُجَامِعُ أَهْلَهُ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا"، فَإِنْ قَضَى اللَّهُ وَلَدًا، لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی جب اپنی بیوی سے جماع کرے تو کون سی چیز یہ دعا کرنے سے اسے مانع ہوتی ہے (یعنی جماع کے وقت یہ دعا کرنی چاہیے) «بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا»“ اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں، اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجہ میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد اس جماع سے میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2258]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 141، 3271]، [مسلم 1434]، [أبوداؤد 2161]، [ترمذي 1092]، [ابن ماجه 1919]، [طيالسي 1587]، [أحمد 220/1، 243]، [ابن السني 608، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2248) اس حدیث سے جماع کے وقت اس دعا کے پڑھنے کا ثبوت ملا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ خود میاں بیوی اور آنے والی روح سب ہی شیطان کے شر سے محفوظ رہیں گے، نقصان و ضرر سے مراد ہر قسم کا ضرر ہے خواہ دینی ہو یا دنیاوی، حسی ہو یا معنوی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شیطان ذکرِ الٰہی کرنے والوں سے دور رہتا ہے اور اس کا قابو ان پر نہیں چل پاتا، بصورت دیگر وہ ہر وقت ہر انسان کے ساتھ لگا رہتا ہے اور کسی حالت میں اس سے جدا نہیں ہوتا، اس لئے کسی بھی حال میں اللہ کے ذکر سے غافل نہ رہنا چاہیے۔ آج بہت سے لوگ اس حدیث پر عمل نہیں کرتے، اکثر کو تو یہ دعا بھی یاد نہ ہوگی اسی لئے اولاد بہت بے ادب و شریر اور نالائق ہوتی ہے۔ عرفِ عام میں بھی جو لڑکا زیادہ شرارت کرتا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بغیر بسم اللہ کی اولاد ہے۔ لہٰذا اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے، اس میں سنّت کی پیروی بھی ہے اور دینی و دنیاوی فائدہ بھی، دینی یہ کہ اولاد نیک صالح اور یہ کام بھی عبادت کے زمرے میں ہے، دنیاوی فائدہ یہ کہ اس کی برکت سے باذن اللہ انسان بیماری وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”بیشک اللہ تعالیٰ سچی بات کہنے سے نہیں شرماتا، مت جماع کرو عورتوں سے ان کے دبر میں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2259]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1924]، [ابن حبان 4198]، [موارد الظمآن 1299، 1300]
وضاحت: (تشریح حدیث 2249) تمام علمائے حدیث اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت سے اس کے دبر میں وطی کرنا حرام ہے، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، گرچہ یہ بات باعثِ شرم و حیا ہے لیکن دین کے معاملے میں نہ اللہ تعالیٰ نے گندی چیز ذکر کرنے سے شرم کی ہے اور نہ اس کے رسول نے، اور نہ مسلمان مرد عورت میں جماع و شہوت سے متعلق مسائل معلوم کرنے میں شرم ہونی چاہیے۔ دبر میں جماع کے سلسلہ میں اور بھی متعدد احادیث وارد ہیں۔ کچھ ضعیف ہیں اور کچھ صحیح، بہرحال یہ بہت قبیح فعل ہے اس سے بچنا چاہیے۔