صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ}:
2. باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: "And glorify the praises of your Lord, before the rising of the sun and before (its) setting.
حدیث نمبر: 4851
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، عن جرير، عن إسماعيل، عن قيس بن ابي حازم، عن جرير بن عبد الله، قال: كنا جلوسا ليلة مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنظر إلى القمر ليلة اربع عشرة، فقال:" إنكم سترون ربكم كما ترون هذا، لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم ان لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا، ثم قرا: وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب سورة ق آية 39".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا لَيْلَةً مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا، ثُمَّ قَرَأَ: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ سورة ق آية 39".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے اسمٰعیل نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے چودہویں رات تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا کہ یقیناً تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کی رؤیت میں تم دھکم پیل نہیں کرو گے (بلکہ بڑے اطمینان سے ایک دوسرے کو دھکا دیئے بغیر دیکھو گے) اس لیے اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔ پھر آپ نے آیت «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب‏» اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے آفتاب نکلنے سے پہلے اور چھپنے سے پہلے۔ کی تلاوت کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jarir bin `Abdullah: We were in the company of the Prophet on a fourteenth night (of the lunar month), and he looked at the (full) moon and said, "You will see your Lord as you see this moon, and you will have no trouble in looking at Him. So, whoever can, should not miss the offering of prayers before sunrise (Fajr prayer) and before sunset (`Asr prayer)." Then the Prophet recited: 'And celebrate the praises of your Lord before the rising of the sun and before (its) setting.' (50.39)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 374


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4852
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا آدم، حدثنا ورقاء، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، قال ابن عباس:" امره ان يسبح في ادبار الصلوات كلها، يعني قوله:وادبار السجود سورة ق آية 40.(موقوف) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" أَمَرَهُ أَنْ يُسَبِّحَ فِي أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، يَعْنِي قَوْلَهُ:وَأَدْبَارَ السُّجُودِ سورة ق آية 40.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ورقہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے بیان کیا، کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں تمام نمازوں کے بعد تسبیح پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ آپ کا مقصد اللہ تعالیٰ کا ارشاد «وأدبار السجود‏» کی تشریح کرنا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Mujahid: Ibn `Abbas said, "Allah ordered His Prophet to celebrate Allah's praises after all prayers." He refers to His Statement: 'After the prayers.' (50.40)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 375


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
51. سورة {وَالذَّارِيَاتِ}:
51. باب: سورۃ الذاریات کی تفسیر۔
(51) SURAT ADH-DHARIYAT (The Winds that Scatter)
حدیث نمبر: Q4853-2
Save to word اعراب English
قال علي عليه السلام: الذاريات: الرياح، وقال غيره: تذروه تفرقه، وفي انفسكم: افلا تبصرون تاكل وتشرب في مدخل واحد ويخرج من موضعين، فراغ: فرجع، فصكت: فجمعت اصابعها، فضربت به جبهتها والرميم نبات الارض إذا يبس وديس، لموسعون: اي لذو سعة وكذلك على، الموسع قدره: يعني القوي خلقنا، زوجين: الذكر والانثى واختلاف الالوان حلو وحامض، فهما زوجان، ففروا إلى الله: معناه من الله إليه، وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون: ما خلقت اهل السعادة من اهل الفريقين إلا ليوحدون، وقال بعضهم: خلقهم ليفعلوا، ففعل بعض وترك بعض، وليس فيه حجة لاهل القدر والذنوب الدلو العظيم، وقال مجاهد: صرة: صيحة، ذنوبا: سبيلا العقيم التي لا تلد ولا تلقح شيئا، وقال ابن عباس: والحبك استواؤها وحسنها، في غمرة: في ضلالتهم يتمادون، وقال غيره: تواصوا تواطئوا، وقال: مسومة: معلمة من السيما قتل الإنسان لعن.قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام: الذَّارِيَاتُ: الرِّيَاحُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَذْرُوهُ تُفَرِّقُهُ، وَفِي أَنْفُسِكُمْ: أَفَلَا تُبْصِرُونَ تَأْكُلُ وَتَشْرَبُ فِي مَدْخَلٍ وَاحِدٍ وَيَخْرُجُ مِنْ مَوْضِعَيْنِ، فَرَاغَ: فَرَجَعَ، فَصَكَّتْ: فَجَمَعَتْ أَصَابِعَهَا، فَضَرَبَتْ بِهِ جَبْهَتَهَا وَالرَّمِيمُ نَبَاتُ الْأَرْضِ إِذَا يَبِسَ وَدِيسَ، لَمُوسِعُونَ: أَيْ لَذُو سَعَةٍ وَكَذَلِكَ عَلَى، الْمُوسِعِ قَدَرَهُ: يَعْنِي الْقَوِيَّ خَلَقْنَا، زَوْجَيْنِ: الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى وَاخْتِلَافُ الْأَلْوَانِ حُلْوٌ وَحَامِضٌ، فَهُمَا زَوْجَانِ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ: مَعْنَاهُ مِنَ اللَّهِ إِلَيْهِ، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ: مَا خَلَقْتُ أَهْلَ السَّعَادَةِ مِنْ أَهْلِ الْفَرِيقَيْنِ إِلَّا لِيُوَحِّدُونِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: خَلَقَهُمْ لِيَفْعَلُوا، فَفَعَلَ بَعْضٌ وَتَرَكَ بَعْضٌ، وَلَيْسَ فِيهِ حُجَّةٌ لِأَهْلِ الْقَدَرِ وَالذَّنُوبُ الدَّلْوُ الْعَظِيمُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَرَّةٍ: صَيْحَةٍ، ذَنُوبًا: سَبِيلًا الْعَقِيمُ الَّتِي لَا تَلِدُ وَلَا تُلْقِحُ شَيْئًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالْحُبُكُ اسْتِوَاؤُهَا وَحُسْنُهَا، فِي غَمْرَةٍ: فِي ضَلَالَتِهِمْ يَتَمَادَوْنَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَوَاصَوْا تَوَاطَئُوا، وَقَالَ: مُسَوَّمَةً: مُعَلَّمَةً مِنَ السِّيمَا قُتِلَ الْإِنْسَانُ لُعِنَ.
‏‏‏‏ علی علیہ السلام نے کہا کہ «الذاريات» سے مراد ہوائیں ہیں۔ ان سے غیر نے کہا کہ «تذروه» کا معنی یہ ہے کہ اس کو بکھیر دے (یہ لفظ سورۃ الکہف میں ہے) «الرياح‏» کی مناسبت سے یہاں لایا گیا۔ «وفي أنفسكم‏ افلا تبصرون» یعنی خود تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ کھانا پینا ایک راستے منہ سے ہوتا ہے لیکن وہ فضلہ بن کر دوسرے راستوں سے نکلتا ہے۔ «فراغ‏» لوٹ آیا (یا چپکے سے) چلا آیا۔ «فصكت‏» یعنی مٹھی باندھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ کو مارا۔ «الرميم» زمین کی گھاس جب خشک ہو جائے اور روند دی جائے۔ «لموسعون‏» کے معنی ہم نے اس کو کشادہ اور وسیع کیا ہے۔ (اور سورۃ البقرہ میں جو ہے) «على الموسع قدره‏» یہاں «موسع» کے معنی زور طاقت والا ہے۔ «زوجين‏» یعنی نر و مادہ یا الگ الگ رنگ یا الگ الگ مزے کی جیسے میٹھی کھٹی یہ دو قسمیں ہیں۔ «ففروا إلى الله‏» یعنی اللہ کی معصیت سے اس کی اطاعت کی طرف بھاگ کر آؤ۔ «إلا ليعبدون‏» یعنی جِن و انس میں جتنی بھی نیک روحیں ہیں انہیں میں نے صرف اپنی توحید کے لیے پیدا کیا۔ بعضوں نے کہا جِنوں اور آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو اسی مقصد سے کیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید کو مانیں لیکن کچھ نے مانا اور کچھ نے نہیں مانا۔ معتزلہ کے لیے اس آیت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ «الذنوب» کے معنی بڑے ڈول کے ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ «ذنوبا‏» بمعنی راستہ ہے۔ مجاہد نے کہا کہ «صرة‏» کے معنی چیخنا۔ «ذنوبا‏» کے معنی راستہ اور طریق کے ہیں۔ «العقيم» کے معنی جس کو بچہ نہ پیدا ہو بانجھ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الحبك» سے آسمان کا خوبصورت برابر ہونا مراد ہے۔ «في غمرة‏» یعنی اپنی گمراہی میں پڑے اوقات گزارتے ہیں۔ اوروں نے کہا «تواصوا» کا معنی یہ ہے کہ یہ بھی ان کے موافق کہنے لگے۔ «مسومة‏» نشان کئے گئے۔ یہ «سيما‏.‏» سے نکلا ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں۔ «قتل الخراصون» یعنی جھوٹے لعنت کئے گئے۔
52. سورة {وَالطُّورِ}:
52. باب: سورۃ الطور کی تفسیر۔
(52) SURAT AT-TUR (The Mount)
حدیث نمبر: Q4853
Save to word اعراب English
وقال قتادة: مسطور: مكتوب، وقال مجاهد: الطور الجبل بالسريانية، رق منشور: صحيفة، والسقف المرفوع: سماء، المسجور: الموقد، وقال الحسن: تسجر حتى يذهب ماؤها، فلا يبقى فيها قطرة، وقال مجاهد: التناهم: نقصنا، وقال غيره: تمور تدور، احلامهم: العقول، وقال ابن عباس: البر: اللطيف كسفا قطعا المنون الموت، وقال غيره: يتنازعون: يتعاطون.وَقَالَ قَتَادَةُ: مَسْطُورٍ: مَكْتُوبٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الطُّورُ الْجَبَلُ بِالسُّرْيَانِيَّةِ، رَقٍّ مَنْشُورٍ: صَحِيفَةٍ، وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ: سَمَاءٌ، الْمَسْجُورِ: الْمُوقَدِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: تُسْجَرُ حَتَّى يَذْهَبَ مَاؤُهَا، فَلَا يَبْقَى فِيهَا قَطْرَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَلَتْنَاهُمْ: نَقَصْنَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَمُورُ تَدُورُ، أَحْلَامُهُمْ: الْعُقُولُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْبَرُّ: اللَّطِيفُ كِسْفًا قِطْعًا الْمَنُونُ الْمَوْتُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَتَنَازَعُونَ: يَتَعَاطَوْنَ.
‏‏‏‏ قتادہ نے کہا «مسطور‏» بمعنی «مكتوب‏» یعنی لکھی ہوئی ہے۔ مجاہد نے کہا «الطور» سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں «رق منشور‏» یعنی صحیفہ کھلا ہوا ورق۔ «لسقف المرفوع‏» یعنی آسمان۔ «المسجور» یعنی گرم کیا گیا۔ حسن بصری نے کہا «مسجور» سے مراد یہ ہے کہ سمندر میں ایک دن طغیانی آ کر اس کا سارا پانی سوکھ جائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔ مجاہد نے کہا کہ «ألتناهم‏» کے معنی گھٹایا، کم کیا۔ مجاہد کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ «تمور‏» گھومے گا۔ «أحلامهم‏» کے معنی ان کی عقلیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «البر‏» کے معنی مہربان۔ «كسفا‏» کے معنی ٹکڑے۔ «المنون» کے معنی موت۔ اوروں نے کہا «يتنازعون‏» کا معنی ایک دوسرے سے جھپٹ لیں انہیں مذاق سے یا لڑائی سے۔
1. بَابٌ:
1. باب:۔۔۔
(1) Chapter.
حدیث نمبر: 4853
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن عروة، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام سلمة، قالت: شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اني اشتكي، فقال:" طوفي من وراء الناس وانت راكبة"، فطفت، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي إلى جنب البيت يقرا بالطور، وكتاب مسطور".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي، فَقَالَ:" طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ"، فَطُفْتُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ يَقْرَأُ بِالطُّورِ، وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (حج کے موقع پر) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرے چنانچہ میں نے طواف کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھتے ہوئے سورۃ والطور و کتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Um Salama: I complained to Allah's Messenger that I was sick, so he said, "Perform the Tawaf (of Ka`ba at Mecca) while riding behind the people (who are performing the Tawaf on foot)." So I performed the Tawaf while Allah's Messenger was offering the prayer by the side of the Ka`ba and was reciting: 'By the Mount (Saini) and by a Decree Inscribed.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 376


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4854
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: حدثوني عن الزهري، عن محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا في المغرب بالطور، فلما بلغ هذه الآية ام خلقوا من غير شيء ام هم الخالقون {35} ام خلقوا السموات والارض بل لا يوقنون {36} ام عندهم خزائن ربك ام هم المسيطرون {37} سورة الطور آية 35-37، قال: كاد قلبي ان يطير، قال سفيان: فاما انا، فإنما سمعت الزهري يحدث، عن محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم" يقرا في المغرب بالطور"، ولم اسمعه زاد الذي قالوا لي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثُونِي عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الْآيَةَ أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ {35} أَمْ خَلَقُوا السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لا يُوقِنُونَ {36} أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُسَيْطِرُونَ {37} سورة الطور آية 35-37، قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ، قَالَ سُفْيَانُ: فَأَمَّا أَنَا، فَإِنَّمَا سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ"، وَلَمْ أَسْمَعْهُ زَادَ الَّذِي قَالُوا لِي.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے اصحاب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۃ والطور پڑھ رہے تھے۔ جب آپ سورۃ والطور اس آیت پر پہنچے «أم خلقوا من غير شىء أم هم الخالقون * أم خلقوا السموات والأرض بل لا يوقنون * أم عندهم خزائن ربك أم هم المسيطرون‏» کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا کئے پیدا ہو گئے یا یہ خود (اپنے) خالق ہیں؟ یا انہوں نے آسمان اور زمین کو پیدا کر لیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان میں یقین ہی نہیں۔ کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ لوگ حاکم ہیں۔ تو میرا دل اڑنے لگا۔ سفیان نے بیان کیا لیکن میں نے زہری سے سنا ہے وہ محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کرتے تھے، ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں سورۃ والطور پڑھتے سنا (سفیان نے کہا کہ) میرے ساتھیوں نے اس کے بعد جو اضافہ کیا ہے وہ میں نے زہری سے نہیں سنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jubair bin Mut`im: I heard the Prophet reciting Surat at-Tur in the Maghrib prayer, and when he reached the Verse: 'Were they created by nothing, Or were they themselves the creators, Or did they create the Heavens and the Earth? Nay, but they have no firm belief Or do they own the treasures of Your Lord? Or have they been given the authority to do as they like...' (52.35-37) my heart was about to fly (when I realized this firm argument).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 377


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
53. سورة {وَالنَّجْمِ}:
53. باب: سورۃ النجم کی تفسیر۔
(53) SURAT AN-NAJM (The Star)
حدیث نمبر: Q4855
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: ذو مرة: ذو قوة، قاب قوسين: حيث الوتر من القوس، ضيزى: عوجاء، واكدى: قطع عطاءه، رب الشعرى: هو مرزم الجوزاء، الذي وفى: وفى ما فرض عليه، ازفت الآزفة: اقتربت الساعة، سامدون: البرطمة، وقال عكرمة: يتغنون بالحميرية، وقال إبراهيم: افتمارونه: افتجادلونه ومن قرا افتمرونه يعني افتجحدونه، وقال: ما زاغ البصر: بصر محمد صلى الله عليه وسلم، وما طغى: وما جاوز ما راى، فتماروا: كذبوا، وقال الحسن: إذا هوى: غاب، وقال ابن عباس: اغنى واقنى: اعطى فارضى.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذُو مِرَّةٍ: ذُو قُوَّةٍ، قَابَ قَوْسَيْنِ: حَيْثُ الْوَتَرُ مِنَ الْقَوْسِ، ضِيزَى: عَوْجَاءُ، وَأَكْدَى: قَطَعَ عَطَاءَهُ، رَبُّ الشِّعْرَى: هُوَ مِرْزَمُ الْجَوْزَاءِ، الَّذِي وَفَّى: وَفَّى مَا فُرِضَ عَلَيْهِ، أَزِفَتِ الْآزِفَةُ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ، سَامِدُونَ: الْبَرْطَمَةُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: يَتَغَنَّوْنَ بِالْحِمْيَرِيَّةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: أَفَتُمَارُونَهُ: أَفَتُجَادِلُونَهُ وَمَنْ قَرَأَ أَفَتَمْرُونَهُ يَعْنِي أَفَتَجْحَدُونَهُ، وَقَالَ: مَا زَاغَ الْبَصَرُ: بَصَرُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَغَى: وَمَا جَاوَزَ مَا رَأَى، فَتَمَارَوْا: كَذَّبُوا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا هَوَى: غَابَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَغْنَى وَأَقْنَى: أَعْطَى فَأَرْضَى.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ «ذو مرة‏» کے معنی زور دار، زبردست (یعنی جبرائیل علیہ السلام)۔ «قاب قوسين‏» یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔ «ضيزى‏» کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔ «وأكدى‏» اور دینا موقوف کر دیا۔ «الشعرى‏» وہ ستارہ ہے جسے «مرزم الجوزاء» بھی کہتے ہیں۔ «الذي وفى‏» یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔ «أزفت الآزفة‏» قیامت قریب آ گئی۔ «سامدون‏» کے معنی کھیل کرتے ہو۔ «برطمة‏.‏» ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا «حميري» زبان میں گانے کے معنی میں ہے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ «أفتمارونه‏» کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے «أفتمرونه» یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔ «ما زاغ البصر‏» سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔ «وما طغى‏» یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا (اس سے زیادہ نہیں بڑھے)۔ «فتماروا‏» سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔ (امام حسن بصری نے کہا «إذا هوى‏‏» یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أغنى وأقنى‏» کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔
1. بَابٌ:
1. باب:۔۔۔
(1) Chapter.
حدیث نمبر: 4855
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن عامر، عن مسروق، قال: قلت لعائشة رضي الله عنها: يا امتاه، هل راى محمد صلى الله عليه وسلم ربه؟ فقالت: لقد قف شعري مما قلت اين انت من ثلاث من حدثكهن، فقد كذب من حدثك ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه فقد كذب، ثم قرات: لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار وهو اللطيف الخبير سورة الانعام آية 103 وما كان لبشر ان يكلمه الله إلا وحيا او من وراء حجاب سورة الشورى آية 51، ومن حدثك انه يعلم ما في غد فقد كذب، ثم قرات وما تدري نفس ماذا تكسب غدا سورة لقمان آية 34، ومن حدثك انه كتم فقد كذب، ثم قرات يايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك سورة المائدة آية 67 الآية، ولكنه راى جبريل عليه السلام في صورته مرتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا أُمَّتَاهْ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا سورة لقمان آية 34، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67 الْآيَةَ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏» سے لے کر «من وراء حجاب‏» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏» یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Masruq: I said to `Aisha, "O Mother! Did Prophet Muhammad see his Lord?" Aisha said, "What you have said makes my hair stand on end ! Know that if somebody tells you one of the following three things, he is a liar: Whoever tells you that Muhammad saw his Lord, is a liar." Then Aisha recited the Verse: 'No vision can grasp Him, but His grasp is over all vision. He is the Most Courteous Well-Acquainted with all things.' (6.103) 'It is not fitting for a human being that Allah should speak to him except by inspiration or from behind a veil.' (42.51) `Aisha further said, "And whoever tells you that the Prophet knows what is going to happen tomorrow, is a liar." She then recited: 'No soul can know what it will earn tomorrow.' (31.34) She added: "And whoever tell you that he concealed (some of Allah's orders), is a liar." Then she recited: 'O Apostle! Proclaim (the Message) which has been sent down to you from your Lord..' (5.67) `Aisha added. "But the Prophet saw Gabriel in his true form twice."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 378


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
1M. بَابُ: {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} حَيْثُ الْوَتَرُ مِنَ الْقَوْسِ:
1M. باب: آیت کی تفسیر ”اتنا فاصلہ رہ گیا تھا جتنا کمان سے چلہ (یعنی تانت) میں ہوتا ہے“۔
(1b) Chapter. “And was at a distance of two bows’ length or (even) nearer.” (V.53:9)
حدیث نمبر: 4856
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو النعمان، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، قال: سمعت زرا، عن عبد الله، فكان قاب قوسين او ادنى {9} فاوحى إلى عبده ما اوحى {10} سورة النجم آية 9-10، قال: حدثنا ابن مسعود:" انه راى جبريل له ست مائة جناح".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ زِرًّا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى {9} فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى {10} سورة النجم آية 9-10، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ:" أَنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالوحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زر بن حبیش سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیت «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى‏» یعنی صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو کچھ بھی نازل کیا کے متعلق بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: Regarding the Verses: 'And was at a distance of but two bow-lengths or (even) nearer; So did (Allah) convey the Inspiration to His slave (Gabriel) and then he Gabriel) conveyed (that to Muhammad...' (53.9-10) Ibn Mas`ud narrated to us that the Prophet had seen Gabriel with six hundred wings.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 379


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
1M 1. بَابُ قَوْلِهِ: {فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى}:
1M 1. باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو بھی وحی کی“۔
(1b 1) Chapter. The Statement of Allah: “So (Allah) revealed to His slave [Muhammad through Jibril (Gabriel)] whatever He revealed.” (V.53:10)
حدیث نمبر: 4857
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا طلق بن غنام، حدثنا زائدة، عن الشيباني، قال: سالت زرا عن قوله تعالى: فكان قاب قوسين او ادنى {9} فاوحى إلى عبده ما اوحى {10} سورة النجم آية 9-10، قال: اخبرنا عبد الله: ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى جبريل له ست مائة جناح".(مرفوع) حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرًّا عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى {9} فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى {10} سورة النجم آية 9-10، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ: أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ".
ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، ان سے زائدہ بن قدامہ کوفی نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا کہ میں نے زر بن حبیش سے اس آیت کے بارے میں پوچھا «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى‏» الخ یعنی سو دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندے پر وحی کی جو کچھ بھی نازل کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا جن کے چھ سو پر تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ash-Shaibani: I asked Zirr about the Statement of Allah: 'And was at a distance of but two bow-lengths or (even) nearer. So did Allah convey the Inspiration to His slave (Gabriel) and then he (Gabriel) conveyed that to Muhammad.' (53.10) He said, "Abdullah (bin Mas`ud) informed us that Muhammad had seen Gabriel with six hundred wings."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 380


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    49    50    51    52    53    54    55    56    57    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.