2. باب: آیت کی تفسیر ”پھر جب ان لوگوں نے بادل کو اپنی وادیوں کے اوپر آتے دیکھا تو بولے کہ واہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا، نہیں بلکہ یہ تو وہ ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے، یعنی ایک آندھی جس میں درد ناک عذاب ہے“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “Then, when they saw it as a dense cloud coming towards their valleys...” (V.46:24)
(مرفوع) حدثنا احمد بن عيسى، حدثنا ابن وهب، اخبرنا عمرو، ان ابا النضر حدثه، عن سليمان بن يسار، عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا حتى ارى منه لهواته إنما كان يتبسم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ.
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آ جائے بلکہ آپ تبسم فرمایا کرتے تھے، بیان کیا کہ جب بھی آپ بادل یا ہوا دیکھتے تو (گھبراہٹ اور اللہ کا خوف) آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیا جاتا۔
Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet), I never saw Allah's Messenger laughing loudly enough to enable me to see his uvula, but he used to smile only. And whenever he saw clouds or winds, signs of deep concern would appear on his face. I said, "O Allah's Messenger ! When people see clouds they usually feel happy, hoping that it would rain, while I see that when you see clouds, one could notice signs of dissatisfaction on your face." He said, "O `Aisha! What is the guarantee for me that there will be no punishment in it, since some people were punished with a wind? Verily, some people saw (received) the punishment, but (while seeing the cloud) they said, 'This cloud will give us rain.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 353
(مرفوع) قالت: وكان إذا راى غيما او ريحا عرف في وجهه، قالت: يا رسول الله، إن الناس إذا راوا الغيم، فرحوا رجاء ان يكون فيه المطر واراك إذا رايته عرف في وجهك الكراهية، فقال:" يا عائشة، ما يؤمني ان يكون فيه عذاب عذب قوم بالريح وقد راى قوم العذاب، فقالوا: هذا عارض ممطرنا".(مرفوع) قَالَتْ: وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ، فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤْمِنِّي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب لوگ بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اس سے بارش برسے گی لیکن اس کے برخلاف آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھتے ہیں تو ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم (عاد) پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ انہوں نے جب عذاب دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔
{اوزارها} آثامها حتى لا يبقى إلا مسلم. {عرفها} بينها. وقال مجاهد: {مولى الذين آمنوا} وليهم. {عزم الامر} جد الامر. {فلا تهنوا} لا تضعفوا. وقال ابن عباس: {اضغانهم} حسدهم. {آسن} متغير.{أَوْزَارَهَا} آثَامَهَا حَتَّى لاَ يَبْقَى إِلاَّ مُسْلِمٌ. {عَرَّفَهَا} بَيَّنَهَا. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا} وَلِيُّهُمْ. {عَزَمَ الأَمْرُ} جَدَّ الأَمْرُ. {فَلاَ تَهِنُوا} لاَ تَضْعُفُوا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {أَضْغَانَهُمْ} حَسَدَهُمْ. {آسِنٍ} مُتَغَيِّرٍ.
«أوزارها» اپنے گناہ دھر دیئے یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کوئی باقی نہ رہے (اکثر لوگوں نے «أوزارها» کے معنی ہتھیاروں کے کئے ہیں)۔ «عرفها» اس کو بیان کر دے گا، بتلا دے گا۔ (ہر ایک بہشتی اپنا گھر پہچان لے گا)۔ مجاہد نے کہا «مولى الذين آمنوا» اس «مولى» سے ولی یعنی کارساز مراد ہے۔ «عزم الأمر» جب لڑائی کا ارادہ پکا ہو جائے۔ «فلا تهنوا» سستی نہ کرو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أضغانهم» کے معنی ان کا حسد کینہ۔ «آسن» سڑا ہوا پانی جس کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جائے۔
1. بَابُ: {وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ}:
1. باب: آیت کی تفسیر ”تم ناطہٰ رشتہ توڑ ڈالو گے“۔
(1) Chapter. “…And sever your ties of kinship.” (V.47:22)
(قدسي) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان، قال: حدثني معاوية بن ابي مزرد، عن سعيد بن يسار، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" خلق الله الخلق، فلما فرغ منه قامت الرحم، فاخذت بحقو الرحمن، فقال له: مه، قالت: هذا مقام العائذ بك من القطيعة، قال: الا ترضين ان اصل من وصلك واقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب، قال: فذاك"، قال ابو هريرة: اقرءوا إن شئتم: فهل عسيتم إن توليتم ان تفسدوا في الارض وتقطعوا ارحامكم سورة محمد آية 22.(قدسي) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي مُزَرِّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ، فَأَخَذَتْ بِحَقْوِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَهُ: مَهْ، قَالَتْ: هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ، قَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟ قَالَتْ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَذَاكِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ سورة محمد آية 22.
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معاویہ بن ابی مزرد نے بیان کیا، ان سے سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا، ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ایسا ہی ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامكم»”اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ دین میں فساد مچا دو گے اور آپس میں قطع تعلق کر لو گے۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah created His creation, and when He had finished it, the womb, got up and caught hold of Allah whereupon Allah said, "What is the matter?' On that, it said, 'I seek refuge with you from those who sever the ties of Kith and kin.' On that Allah said, 'Will you be satisfied if I bestow My favors on him who keeps your ties, and withhold My favors from him who severs your ties?' On that it said, 'Yes, O my Lord!' Then Allah said, 'That is for you.' " Abu Huraira added: If you wish, you can recite: "Would you then if you were given the authority. do mischief in the land and sever your ties of kinship. (47. 22)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 354
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو حاتم نے بیان کیا، ان سے معاویہ نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا ابوالحباب سعید بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سابقہ حدیث کی طرح۔ پھر (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو آیت «فهل عسيتم» اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، ان کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں معاویہ بن مزرد نے خبر دی، سابقہ حدیث کی طرح (اور یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تمہارا جی چاہے تو آیت اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔
وقال مجاهد: بورا هالكين، سيماهم في وجوههم: السحنة، وقال منصور: عن مجاهد، التواضع، شطاه: فراخه، فاستغلظ: غلظ، سوقه: الساق حاملة الشجرة ويقال، دائرة السوء: كقولك رجل السوء ودائرة السوء العذاب، تعزروه: تنصروه، شطاه: شطء السنبل تنبت الحبة عشرا او ثمانيا وسبعا فيقوى بعضه ببعض فذاك قوله تعالى: فآزره: قواه ولو كانت واحدة لم تقم على ساق وهو مثل ضربه الله للنبي صلى الله عليه وسلم إذ خرج وحده، ثم قواه باصحابه كما قوى الحبة بما ينبت منها.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بُورًا هَالِكِينَ، سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ: السَّحْنَةُ، وَقَالَ مَنْصُورٌ: عَنْ مُجَاهِدٍ، التَّوَاضُعُ، شَطْأَهُ: فِرَاخَهُ، فَاسْتَغْلَظَ: غَلُظَ، سُوقِهِ: السَّاقُ حَامِلَةُ الشَّجَرَةِ وَيُقَالُ، دَائِرَةُ السَّوْءِ: كَقَوْلِكَ رَجُلُ السَّوْءِ وَدَائِرَةُ السُّوءِ الْعَذَابُ، تُعَزِّرُوهُ: تَنْصُرُوهُ، شَطْأَهُ: شَطْءُ السُّنْبُلِ تُنْبِتُ الْحَبَّةُ عَشْرًا أَوْ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا فَيَقْوَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فَذَاكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَآزَرَهُ: قَوَّاهُ وَلَوْ كَانَتْ وَاحِدَةً لَمْ تَقُمْ عَلَى سَاقٍ وَهُوَ مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللَّهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ خَرَجَ وَحْدَهُ، ثُمَّ قَوَّاهُ بِأَصْحَابِهِ كَمَا قَوَّى الْحَبَّةَ بِمَا يُنْبِتُ مِنْهَا.
مجاہد نے کہا «بورا» کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ «سيماهم في وجوههم» کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا «سيما» سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔ «اخرج شطأه» اس نے اپنا خوشہ نکالا۔ «فاستغلظ» پس وہ موٹا ہو گیا۔ «سوق» درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔ «دائرة السوء» جیسے کہتے ہیں «رجل السوء.» ۔ «دائرة السوء» سے مراد عذاب ہے۔ «تعزروه» اس کی مدد کریں۔ «شطأه» سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔ «فآزره» سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير في بعض اسفاره وعمر بن الخطاب يسير معه ليلا، فساله عمر بن الخطاب عن شيء، فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ساله، فلم يجبه، ثم ساله، فلم يجبه، فقال عمر بن الخطاب: ثكلت ام عمر نزرت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات كل ذلك لا يجيبك، قال عمر: فحركت بعيري، ثم تقدمت امام الناس وخشيت ان ينزل في قرآن، فما نشبت ان سمعت صارخا يصرخ بي، فقلت: لقد خشيت ان يكون نزل في قرآن، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فقال:" لقد انزلت علي الليلة سورة لهي احب إلي مما طلعت عليه الشمس، ثم قرا: إنا فتحنا لك فتحا مبينا سورة الفتح آية 1".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا، فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْءٍ، فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ثَكِلَتْ أُمُّ عُمَرَ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلَّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُكَ، قَالَ عُمَرُ: فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ النَّاسِ وَخَشِيتُ أَنْ يُنْزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي، فَقُلْتُ: لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہو جائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الفتح کی تلاوت فرمائی۔
Narrated Aslam: While Allah's Messenger was proceeding at night during one of his journeys and `Umar bin Al-Khattab was traveling beside him, `Umar asked him about something but Allah's Messenger did not reply. He asked again, but he did not reply, and then he asked (for the third time) but he did not reply. On that, `Umar bin Al-Khattab said to himself, "Thakilat Ummu `Umar (May `Umar's mother lose her son)! I asked Allah's Messenger three times but he did not reply." `Umar then said, "I made my camel run faster and went ahead of the people, and I was afraid that some Qur'anic Verses might be revealed about me. But before getting involved in any other matter. I heard somebody calling me. I said to myself, 'I fear that some Qur'anic Verses have been revealed about me,' and so I went to Allah's Messenger and greeted him. He (Allah's Messenger ) said, 'Tonight a Sura has been revealed to me, and it is dearer to me than that on which the sun rises (i.e. the world)' Then he recited: "Verily, We have given you a manifest victory." (48.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 357
(موقوف) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، سمعت قتادة، عن انس رضي الله عنه:" إنا فتحنا لك فتحا مبينا سورة الفتح آية 1، قال: الحديبية".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1، قَالَ: الْحُدَيْبِيَةُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے سنا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سورۃ الفتح صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔