(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، قال: قال عبد الله: إنما كان هذا لان قريشا لما استعصوا على النبي صلى الله عليه وسلم دعا عليهم بسنين كسني يوسف، فاصابهم قحط، وجهد حتى اكلوا العظام، فجعل الرجل ينظر إلى السماء، فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد، فانزل الله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11، قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: يا رسول الله، استسق الله لمضر، فإنها قد هلكت، قال لمضر:" إنك لجريء"، فاستسقى لهم، فسقوا، فنزلت: إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، فلما اصابتهم الرفاهية عادوا إلى حالهم حين اصابتهم الرفاهية، فانزل الله عز وجل: يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16، قال: يعني يوم بدر.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ، وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ، قَالَ لِمُضَرَ:" إِنَّكَ لَجَرِيءٌ"، فَاسْتَسْقَى لَهُمْ، فَسُقُوا، فَنَزَلَتْ: إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ (قحط) اس لیے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم»”تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔“ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مضر کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت «إنكم عائدون» نازل ہوئی (یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے (اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون»”جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔“ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔
Narrated `Abdullah: It (i.e., the imagined smoke) was because, when the Quraish refused to obey the Prophet, he asked Allah to afflict them with years of famine similar to those of (Prophet) Joseph. So they were stricken with famine and fatigue, so much so that they ate even bones. A man would look towards the sky and imagine seeing something like smoke between him and the sky because of extreme fatigue. So Allah revealed:-- 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people; this is a painfull of torment.' (44.10-11) Then someone (Abu Sufyan) came to Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger ! Invoke Allah to send rain for the tribes of Mudar for they are on the verge of destruction." On that the Prophet said (astonishingly) "Shall I invoke Allah) for the tribes of Mudar? Verily, you are a brave man!" But the Prophet prayed for rain and it rained for them. Then the Verse was revealed. 'But truly you will return (to disbelief).' (44.15) (When the famine was over and) they restored prosperity and welfare, they reverted to their ways (of heathenism) whereupon Allah revealed: 'On the Day when We shall seize you with a Mighty Grasp. We will indeed (then) exact retribution.' (44.16) The narrator said, "That was the day of the Battle of Badr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 346
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: دخلت على عبد الله، فقال: إن من العلم ان تقول لما لا تعلم الله اعلم إن الله، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، إن قريشا لما غلبوا النبي صلى الله عليه وسلم واستعصوا عليه، قال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم سنة اكلوا فيها العظام، والميتة من الجهد حتى جعل احدهم يرى ما بينه وبين السماء كهيئة الدخان من الجوع، قالوا: ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون سورة الدخان آية 12، فقيل له: إن كشفنا عنهم عادوا فدعا ربه، فكشف عنهم فعادوا فانتقم الله منهم يوم بدر فذلك قوله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله جل ذكره إنا منتقمون سورة الدخان آية 10 - 16.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّ اللَّهَ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْع يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ، وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ، قَالُوا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، فَقِيلَ لَهُ: إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا فَدَعَا رَبَّهُ، فَكَشَفَ عَنْهُمْ فَعَادُوا فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 10 - 16.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا کہ ”اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين» آخر تک میں بیان ہوا ہے۔
Narrated `Abdullah: It is a sign of having knowledge that, when you do not know something, you say: 'Allah knows better.' Allah said to his Prophet: 'Say: No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor am I one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist)' (38.86) When the Quraish troubled and stood against the Prophet he said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine like the seven years of Joseph." So they were stricken with a year of famine during which they ate bones and dead animals because of too much suffering, and one of them would see something like smoke between him and the sky because of hunger. Then they said: Our Lord! Remove the torment from us, really we are believers. (44.12) And then it was said to the Prophet (by Allah), "If we remove it from them. they will revert to their ways (of heathenism)." So the Prophet invoked his Lord, who removed the punishment from them, but later they reverted (to heathenism), whereupon Allah punished them on the day of the Battle of Badr, and that is what Allah's Statement indicates: 'Then watch for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible...we will indeed (then) exact retribution.' (44.10).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 347
4. باب: آیت کی تفسیر ”ان کو کب اس سے نصیحت ہوتی ہے حالانکہ ان کے پاس پیغمبر کھلے ہوئے دلائل کے ساتھ آ چکا ہے“۔
(4) Chapter. “How can there be for them an admonition (at the time when the torment has reached them), when a Messenger explaining things clearly, has already come to them?” (V.44:13)
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا جرير بن حازم، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: دخلت على عبد الله، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما دعا قريشا كذبوه، واستعصوا عليه، فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاصابتهم سنة حصت يعني كل شيء حتى كانوا ياكلون الميتة، فكان يقوم احدهم، فكان يرى بينه وبين السماء مثل الدخان من الجهد والجوع، ثم قرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب اليم حتى بلغ إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 10 - 15، قال عبد الله: افيكشف عنهم العذاب يوم القيامة، قال: والبطشة الكبرى يوم بدر.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا قُرَيْشًا كَذَّبُوهُ، وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ يَعْنِي كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى كَانُوا يَأْكُلُونَ الْمَيْتَةَ، فَكَانَ يَقُومُ أَحَدُهُمْ، فَكَانَ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ، ثُمَّ قَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ حَتَّى بَلَغَ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: وَالْبَطْشَةُ الْكُبْرَى يَوْمَ بَدْرٍ.
سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم»”تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف سے نظر آنے والا ایک دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیشک ہم چندے اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا قیامت کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے؟ فرمایا کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔
Narrated Masruq: I came upon `Abdullah and he said, "When Allah's Messenger invited Quraish (to Islam), they disbelieved him and stood against him. So he (the Prophet) said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years of Joseph.' So they were stricken with a year of drought that destroyed everything, and they started eating dead animals, and if one of them got up he would see something like smoke between him and the sky from the severe fatigue and hunger." `Abdullah then recited:-- 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people. This is a painful torment... (till he reached) ........ We shall indeed remove the punishment for a while, but truly you will revert (to heathenism): (44.10-15) `Abdullah added: "Will the punishment be removed from them on the Day of Resurrection?" He added," The severe grasp" was the Day of the Battle of Badr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 348
(مرفوع) حدثنا بشر بن خالد، اخبرنا محمد، حدثنا شعبة، عن سليمان، ومنصور، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: قال عبد الله، إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم، وقال: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى قريشا استعصوا عليه، فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم السنة حتى حصت كل شيء حتى اكلوا العظام والجلود، فقال احدهم: حتى اكلوا الجلود والميتة، وجعل يخرج من الارض كهيئة الدخان، فاتاه ابو سفيان: فقال: اي محمد إن قومك قد هلكوا، فادع الله ان يكشف عنهم، فدعا، ثم قال:" تعودون بعد هذا في حديث منصور"، ثم قرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى عائدون سورة الدخان آية 10 - 15 انكشف عذاب الآخرة فقد مضى الدخان، والبطشة، واللزام، وقال احدهم: القمر، وقال الآخر: والروم.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمُ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ، وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ: فَقَالَ: أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ، فَدَعَا، ثُمَّ قَالَ:" تَعُودُونَ بَعْدَ هَذَا فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ"، ثُمَّ قَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15 أَنَكْشِفُ عَذَابَ الْآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَالْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ، وَقَالَ أَحَدُهُمْ: الْقَمَرُ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَالرُّومُ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اور منصور نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» کہ ”کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔“ پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ ”اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔“(پھر) قحط پڑا اور پر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے (سلیمان اور منصور) راویان حدیث میں سے ایک نے بیان کیا کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين»”تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔“ «عائدون» تک۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا؟ ”دھواں“ اور ”سخت پکڑ“ اور ”ہلاکت“ گزر چکے۔ بعض نے ”چاند“ اور بعض نے ”غلبہ روم“ کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی گزر چکا ہے۔
Narrated `Abdullah: Allah sent (the Prophet) Muhammad and said:-- 'Say, No wage do I ask of you for this (Qur'an) nor am I one of the pretenders (i.e. a person who pretends things which do not exist). (38.68) When Allah's Messenger saw Quraish standing against him, he said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years (of famine) of Joseph. So they were afflicted with a year of drought that destroyed everything, and they ate bones and hides. (One of them said), "And they ate hides and dead animals, and (it seemed to them that) something like smoke was coming out of the earth. So Abu Sufyan came to the Prophet and said, "O Muhammad! Your people are on the verge of destruction! Please invoke Allah to relieve them." So the Prophet invoked Allah for them (and the famine disappeared). He said to them. "You will revert (to heathenism) after that." `Abdullah then recited: 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible.......but truly you will revert (to disbelief).' He added, "Will the punishment be removed from them in the Hereafter? The smoke and the grasp and the Al-Lizam have all passed." One of the sub-narrater said, "The splitting of the moon." And another said, "The defeat of the Romans (has passed).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 349
(موقوف) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عبد الله، قال:" خمس قد مضين اللزام، والروم، والبطشة، والقمر، والدخان".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ اللِّزَامُ، وَالرُّومُ، وَالْبَطْشَةُ، وَالْقَمَرُ، وَالدُّخَانُ".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پانچ (قرآن مجید کی پیشیں گوئیاں) گزر چکی ہیں۔ «اللزام»(بدر کی لڑائی کی ہلاکت)، «الروم»(غلبہ روم) «البطشة»(سخت پکڑ)، «القمر»(چاند کے ٹکڑے ہونا) اور «والدخان» دھواں، شدت فاقہ کی وجہ سے۔
جاثية: مستوفزين على الركب، وقال مجاهد: نستنسخ: نكتب، ننساكم: نترككم.جَاثِيَةً: مُسْتَوْفِزِينَ عَلَى الرُّكَبِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: نَسْتَنْسِخُ: نَكْتُبُ، نَنْسَاكُمْ: نَتْرُكُكُمْ.
«جاثية» یعنی خوف کی وجہ سے اہل محشر دو زانو ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ «نستنسخ» بمعنی «نكتب» ہے یعنی ہم لکھ لیتے ہیں۔ «ننساكم» ای «نترككم» ہم تم کو بھلا دیں گے یعنی چھوڑ دیں گے۔
(قدسي) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم يسب الدهر، وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار".(قدسي) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "Allah said, 'The son of Adam hurts me for he abuses Time though I am Time: in My Hands are all things, and I cause the revolution of day and night.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 351
وقال مجاهد: تفيضون، تقولون: وقال بعضهم: اثرة، واثرة، واثارة بقية من علم، وقال ابن عباس: بدعا من الرسل لست باول الرسل، وقال غيره: ارايتم هذه الالف إنما هي توعد إن صح ما تدعون لا يستحق ان يعبد وليس قوله ارايتم برؤية العين إنما هو اتعلمون ابلغكم ان ما تدعون من دون الله خلقوا شيئا.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تُفِيضُونَ، تَقُولُونَ: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَثَرَةٍ، وَأُثْرَةٍ، وَأَثَارَةٍ بَقِيَّةٌ مِنْ عِلْمٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ لَسْتُ بِأَوَّلِ الرُّسُلِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَرَأَيْتُمْ هَذِهِ الْأَلِفُ إِنَّمَا هِيَ تَوَعُّدٌ إِنْ صَحَّ مَا تَدَّعُونَ لَا يَسْتَحِقُّ أَنْ يُعْبَدَ وَلَيْسَ قَوْلُهُ أَرَأَيْتُمْ بِرُؤْيَةِ الْعَيْنِ إِنَّمَا هُوَ أَتَعْلَمُونَ أَبَلَغَكُمْ أَنَّ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ خَلَقُوا شَيْئًا.
مجاہد نے کہا «تفيضون» کا معنی جو تم زبان سے نکالتے ہو، کہتے ہو۔ بعضوں نے کہا «أثرة» اور «أثرة»(بضم ھمزہ) اور «أثارة»(تینوں قرآت ہیں) ان کا معنی باقی ماندہ علم ہے۔ (حدیث پر اسی سے «أثر» کا لفظ بولا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باقی ماندہ علم ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بدعا من الرسل» کا یہ معنی ہے کہ میں ہی کچھ پہلا پیغمبر دنیا میں نہیں آیا۔ اوروں نے کہا «أرأيتم»(الاحقاف: 4) میں ہمزہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ یعنی اگر تمہارا دعویٰ صحیح ہو تو یہ چیزیں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بتاؤ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟ «احقاف» قوم عاد کی زمین کا نام تھا جہاں ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ «احقاف»، «حقف» کی جمع ہے۔ «مطلق» ریت کے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس قوم پر بادل کے ساتھ تیز ہوا کا عذاب آیا تھا جس سے سب ہلاک ہو گئے۔
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ افسوس ہے تم پر، کیا تم مجھے یہ خبر دیتے ہو کہ میں قبر سے پھر دوبارہ نکالا جاؤں گا، مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں والدین اللہ سے فریاد کر رہے ہیں (اور اس اولاد سے کہہ رہے ہیں) ارے تیری کم بختی تو ایمان لا بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تو اس پر وہ کہتا کیا ہے کہ یہ بس اگلوں کے ڈھکوسلے ہیں“۔
(1) Chapter. “But he who says to his parents: Fie upon you both! Do you hold out the promise to me that I shall be raised up (again)... (up to)... the tales of the ancient." (V.46:17)
(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن يوسف بن ماهك، قال: كان مروان على الحجاز استعمله معاوية، فخطب، فجعل يذكر يزيد بن معاوية لكي يبايع له بعد ابيه، فقال له عبد الرحمن بن ابي بكر شيئا، فقال: خذوه، فدخل بيت عائشة، فلم يقدروا، فقال مروان: إن هذا الذي انزل الله فيه والذي قال لوالديه اف لكما اتعدانني سورة الاحقاف آية 17، فقالت عائشة من وراء الحجاب:" ما انزل الله فينا شيئا من القرآن إلا ان الله انزل عذري".(موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ، فَخَطَبَ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ لِكَيْ يُبَايَعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ: خُذُوهُ، فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ، فَلَمْ يَقْدِرُوا، فَقَالَ مَرْوَانُ: إِنَّ هَذَا الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي سورة الأحقاف آية 17، فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِي".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني» کہ ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔“ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔
Narrated Yusuf bin Mahak: Marwan had been appointed as the governor of Hijaz by Muawiya. He delivered a sermon and mentioned Yazid bin Muawiya so that the people might take the oath of allegiance to him as the successor of his father (Muawiya). Then `Abdur Rahman bin Abu Bakr told him something whereupon Marwan ordered that he be arrested. But `Abdur-Rahman entered `Aisha's house and they could not arrest him. Marwan said, "It is he (`AbdurRahman) about whom Allah revealed this Verse:-- 'And the one who says to his parents: 'Fie on you! Do you hold out the promise to me..?'" On that, `Aisha said from behind a screen, "Allah did not reveal anything from the Qur'an about us except what was connected with the declaration of my innocence (of the slander).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 352