2. باب: آیت کی تفسیر ”اور یہ تمہارا گمان ہے“ آخر آیت تک۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “And that thought of yours which you thought about your Lord, has brought you to destruction, and you have become (this Day) of those utterly lost!” (V.41:23)
(موقوف) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا منصور، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن عبد الله رضي الله عنه، قال:" اجتمع عند البيت قرشيان وثقفي او ثقفيان وقرشي كثيرة شحم بطونهم قليلة فقه قلوبهم، فقال احدهم: اترون ان الله يسمع ما نقول، قال الآخر: يسمع إن جهرنا، ولا يسمع إن اخفينا، وقال الآخر: إن كان يسمع إذا جهرنا، فإنه يسمع إذا اخفينا، فانزل الله عز وجل: وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم ولا جلودكم سورة فصلت آية 22 الآية"، وكان سفيان يحدثنا بهذا، فيقول: حدثنا منصور، او ابن ابي نجيح، او حميد احدهم، او اثنان منهم، ثم ثبت على منصور، وترك ذلك مرارا غير مرة واحدة،(موقوف) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ كَثِيرَةٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ قَلِيلَةٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتُرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ، قَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا، وَلَا يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا، فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ"، وَكَانَ سُفْيَانُ يُحَدِّثُنَا بِهَذَا، فَيَقُولُ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، أَوْ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، أَوْ حُمَيْدٌ أَحَدُهُمْ، أَوِ اثْنَانِ مِنْهُمْ، ثُمَّ ثَبَتَ عَلَى مَنْصُورٍ، وَتَرَكَ ذَلِكَ مِرَارًا غَيْرَ مَرَّةٍ وَاحِدَةٍ،
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا، تمہارا کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت اتری «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم ولا جلودكم» کہ ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے گواہی دیں گے۔“ آخر آیت تک۔ سفیان ہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے اور کہا کہ ہم سے منصور نے یا ابن نجیح نے یا حمید نے ان میں سے کسی ایک نے یا کسی دو نے یہ حدیث بیان کی، پھر آپ منصور ہی کا ذکر کرتے تھے اور دوسروں کا ذکر ایک سے زیادہ مرتبہ نہیں کیا۔
Narrated `Abdullah: There gathered near the House (i.e. the Ka`ba) two Quraishi persons and a person from Thaqif (or two persons from Thaqif and one from Quraish), and all of them with very fat bellies but very little intelligence. One of them said, "Do you think that Allah hears what we say?" Another said, "He hears us when we talk in a loud voice, but He doesn't hear us when we talk in a low tone." The third said, "If He can hear when we talk in a loud tone, then He can also hear when we speak in a low tone." Then Allah, the Honorable, the Majestic revealed: 'And you have not been screening against yourself lest your ears, and eyes and your skins should testify against you....' (41.22-23)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 341
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔
ويذكر عن ابن عباس: {عقيما} لا تلد. {روحا من امرنا} القرآن. وقال مجاهد: {يذرؤكم فيه} نسل بعد نسل {لا حجة بيننا} لا خصومة. {طرف خفي} ذليل. وقال غيره: {فيظللن رواكد على ظهره} يتحركن ولا يجرين في البحر. {شرعوا} ابتدعوا.وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {عَقِيمًا} لاَ تَلِدُ. {رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا} الْقُرْآنُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ} نَسْلٌ بَعْدَ نَسْلٍ {لاَ حُجَّةَ بَيْنَنَا} لاَ خُصُومَةَ. {طَرْفٍ خَفِيٍّ} ذَلِيلٍ. وَقَالَ غَيْرُهُ: {فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ} يَتَحَرَّكْنَ وَلاَ يَجْرِينَ فِي الْبَحْرِ. {شَرَعُوا} ابْتَدَعُوا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے «عقيما» کے معنی بانجھ منقول ہیں۔ «روحا من أمرنا» میں «روح» سے قرآن مجید مراد ہے۔ اور مجاہد نے کہا «يذرؤكم فيه» کا مطلب یہ ہے ایک نسل کے بعد دوسری نسل پھیلاتا رہے گا۔ «لا حجة بيننا» یعنی اب ہم میں اور تم میں کوئی جھگڑا نہیں رہا۔ «طرف خفي» کمزور کی نگاہ سے، دزدیدہ نظر سے۔ اوروں نے کہا «فيظللن رواكد على ظهره» کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقام پر موجوں کے تھپیڑوں سے ہلتی رہیں نہ آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔ «شرعوا» نیا دین نکالا۔
1. بَابُ: {إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى}:
1. باب: آیت کی تفسیر ”قرابتداری کی محبت کے سوا میں تم سے اور کچھ نہیں چاہتا“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “...Except to be kind to me for my kinship with you...” (V.42:23)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عبد الملك بن ميسرة، قال: سمعت طاوسا، عن ابن عباس رضي الله عنهما، انه سئل عن قوله: إلا المودة في القربى سورة الشورى آية 23، فقال سعيد بن جبير: قربى آل محمد صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عباس:" عجلت إن النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن بطن من قريش إلا كان له فيهم قرابة، فقال:" إلا ان تصلوا ما بيني وبينكم من القرابة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ: إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى سورة الشورى آية 23، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: قُرْبَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" عَجِلْتَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا كَانَ لَهُ فِيهِمْ قَرَابَةٌ، فَقَالَ:" إِلَّا أَنْ تَصِلُوا مَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنَ الْقَرَابَةِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا کہ میں نے طاؤس سے سنا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إلا المودة في القربى»”سوا رشتہ داری کی محبت کے“ متعلق پوچھا گیا تو سعید بن جبیر نے فرمایا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابتداری مراد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر کہا کہ تم نے جلد بازی کی۔ قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان میں موجود ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: That he was asked (regarding): "Except to be kind to me for my Kinship with you.' (42.23) Sa`id bin Zubair (who was present then) said, "It means here (to show what is due for) the relatives of Muhammad." On that Ibn `Abbas said: you have hurried in giving the answer! There was no branch of the tribe of Quraish but the Prophet had relatives therein. The Prophet said, "I do not want anything from (you ) except to be Kind to me for my Kinship with you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 343
وقال مجاهد: على امة: على إمام، وقيله يا رب: تفسيره ايحسبون انا لا نسمع سرهم ونجواهم ولا نسمع قيلهم، وقال ابن عباس: ولولا ان يكون الناس امة واحدة: لولا ان جعل الناس كلهم كفارا لجعلت لبيوت الكفار سقفا من فضة ومعارج من فضة وهي درج وسرر فضة، مقرنين: مطيقين، آسفونا: اسخطونا، يعش: يعمى، وقال مجاهد: افنضرب عنكم الذكر: اي تكذبون بالقرآن، ثم لا تعاقبون عليه، ومضى مثل الاولين: سنة الاولين وما كنا له، مقرنين: يعني الإبل والخيل والبغال والحمير، ينشا في الحلية: الجواري جعلتموهن للرحمن ولدا فكيف تحكمون، لو شاء الرحمن ما عبدناهم: يعنون الاوثان، يقول الله تعالى: ما لهم بذلك من علم: اي الاوثان إنهم لا يعلمون، في عقبه: ولده، مقترنين: يمشون معا، سلفا: قوم فرعون، سلفا: لكفار امة محمد صلى الله عليه وسلم، ومثلا: عبرة، يصدون: يضجون، مبرمون: مجمعون اول العابدين اول المؤمنين، وقال غيره: إنني براء مما تعبدون: العرب تقول نحن منك البراء والخلاء والواحد والاثنان والجميع من المذكر والمؤنث يقال فيه براء لانه مصدر، ولو قال بريء لقيل: في الاثنين بريئان وفي الجميع بريئون، وقرا عبد الله إنني بريء بالياء والزخرف الذهب ملائكة يخلفون يخلف بعضهم بعضا.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَلَى أُمَّةٍ: عَلَى إِمَامٍ، وَقِيلَهُ يَا رَبِّ: تَفْسِيرُهُ أَيَحْسِبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَلَا نَسْمَعُ قِيلَهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً: لَوْلَا أَنْ جَعَلَ النَّاسَ كُلَّهُمْ كُفَّارًا لَجَعَلْتُ لِبُيُوتِ الْكُفَّارِ سَقْفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ مِنْ فِضَّةٍ وَهِيَ دَرَجٌ وَسُرُرَ فِضَّةٍ، مُقْرِنِينَ: مُطِيقِينَ، آسَفُونَا: أَسْخَطُونَا، يَعْشُ: يَعْمَى، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ: أَيْ تُكَذِّبُونَ بِالْقُرْآنِ، ثُمَّ لَا تُعَاقَبُونَ عَلَيْهِ، وَمَضَى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ: سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ وَمَا كُنَّا لَهُ، مُقْرِنِينَ: يَعْنِي الْإِبِلَ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ، يَنْشَأُ فِي الْحِلْيَةِ: الْجَوَارِي جَعَلْتُمُوهُنَّ لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا فَكَيْفَ تَحْكُمُونَ، لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ: يَعْنُونَ الْأَوْثَانَ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ: أَيِ الْأَوْثَانُ إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ، فِي عَقِبِهِ: وَلَدِهِ، مُقْتَرِنِينَ: يَمْشُونَ مَعًا، سَلَفًا: قَوْمُ فِرْعَوْنَ، سَلَفًا: لِكُفَّارِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَثَلًا: عِبْرَةً، يَصِدُّونَ: يَضِجُّونَ، مُبْرِمُونَ: مُجْمِعُونَ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ: الْعَرَبُ تَقُولُ نَحْنُ مِنْكَ الْبَرَاءُ وَالْخَلَاءُ وَالْوَاحِدُ وَالِاثْنَانِ وَالْجَمِيعُ مِنَ الْمُذَكَّرِ وَالْمُؤَنَّثِ يُقَالُ فِيهِ بَرَاءٌ لِأَنَّهُ مَصْدَرٌ، وَلَوْ قَالَ بَرِيءٌ لَقِيلَ: فِي الِاثْنَيْنِ بَرِيئَانِ وَفِي الْجَمِيعِ بَرِيئُونَ، وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّنِي بَرِيءٌ بِالْيَاءِ وَالزُّخْرُفُ الذَّهَبُ مَلَائِكَةً يَخْلُفُونَ يَخْلُفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.
مجاہد نے کہا کہ «على أمة» کے معنی ایک امام پر یا ایک ملت پر یا ایک دین پر۔ «وقيله يا رب» کا معنی ہے کیا کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ باتیں اور ان کی کانا پھوسی اور ان کی گفتگو نہیں سنتے (یہ تفسیر اس قرآت پر ہے جب «وقیله» بہ نصب لام پڑھا جائے۔ اس حالت میں «وسرهم ونجواهم» پر عطف ہو گا اور مشہور قرآت «وقیله» بہ کسر لام ہے۔ اس صورت میں یہ «الساعة» پر عطف ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ ان کی گفتگو بھی جانتا ہے اور سنتا ہے)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولولا أن يكون الناس أمة واحدة» کا مطلب یہ ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگوں کو کافر ہی بنا ڈالتا تو میں کافروں کے گھروں میں چاندی کی چھتیں اور چاندی کی سیڑھیاں کر دیتا۔ «معارج» کے معنی سیڑھیاں، تخت وغیرہ۔ «مقرنين» زور والے۔ «آسفونا» ہم کو غصہ دلایا۔ «يعش» اندھا بن جائے۔ مجاہد نے کہا «أفنضرب عنكم الذكر» کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو گے اور ہم تم پر عذاب نہیں اتاریں گے (تم کو ضرور عذاب ہو گا)۔ «ومضى مثل الأولين» اگلوں کے قصے کہانیاں چل پڑیں۔ «وما کنا له مقرنين» یعنی اونٹ گھوڑے، خچر اور گدھوں پر ہمارا زور اور قابو نہ چل سکتا تھا۔ «ينشأ في الحلية» سے بیٹیاں مراد ہیں، یعنی تم نے بیٹی ذات کو اللہ کی اولاد ٹھہرایا، واہ واہ کیا اچھا حکم لگاتے ہو۔ «لو شاء الرحمن ما عبدناهم» میں «هم» کی ضمیر بتوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ آگے فرمایا «ما لهم بذلك من علم» یعنی بتوں کو جن کو یہ پوجتے ہیں کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو بالکل بے جان ہیں «في عقبه» اس کی اولاد میں۔ «مقترنين» ساتھ ساتھ چلتے ہوئے۔ «سلفا» سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کافر ہیں ان کے پیشوا یعنی اگلے لوگ تھے۔ «ومثلا للاخرین» یعنی پچھلوں کی عبرت اور مثال۔ «يصدون» چلانے لگے، شور و غل کرنے لگے۔ «مبرمون» ٹھاننے والے، قرار دینے والے۔ «أول العابدين» سب سے پہلے ایمان لانے والا۔ «إنني براء مما تعبدون» عرب لوگ کہتے ہیں ہم تم سے «براء» ہیں ہم تم سے «خلاء» ہیں یعنی بیزار ہیں، الگ ہیں، کچھ غرض واسطہ تم سے نہیں رکھتے۔ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر و مؤنث سب میں «براء» کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ «براء» مصدر ہے۔ اور اگر «بريء» پڑھا جائے جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت ہے تب تو تثنیہ میں «بريئان» اور جمع میں «بريئون» کہنا چاہئے۔ «الزخرف» کے معنی سونا۔ «ملائكة يخلفون» یعنی فرشتے جو ایک کے پیچھے ایک آتے رہتے ہیں۔
1. باب: آیت کی تفسیر ”جہنمی کہیں گے اے داروغہ جہنم! تمہارا رب ہمیں موت دیدے، وہ کہے گا تم اسی حال میں پڑے رہو“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And they will cry: ’O Malik (Keeper of Hell)! Let your Lord make an end of us’ He will say, ’Verily, you shall abide forever.’ ” (V.43:77)
(مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، عن عطاء، عن صفوان بن يعلى، عن ابيه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا على المنبر: ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك سورة الزخرف آية 77، وقال قتادة: مثلا للآخرين عظة لمن بعدهم، وقال غيره: مقرنين: ضابطين، يقال فلان مقرن لفلان ضابط له والاكواب الاباريق التي لا خراطيم لها، اول العابدين: اي ما كان فانا اول الآنفين وهما لغتان رجل عابد وعبد وقرا عبد الله: وقال الرسول يا رب، ويقال اول العابدين الجاحدين من عبد يعبد، وقال قتادة: في ام الكتاب جملة الكتاب اصل الكتاب.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ سورة الزخرف آية 77، وَقَالَ قَتَادَةُ: مَثَلًا لِلْآخِرِينَ عِظَةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُقْرِنِينَ: ضَابِطِينَ، يُقَالُ فُلَانٌ مُقْرِنٌ لِفُلَانٍ ضَابِطٌ لَهُ وَالْأَكْوَابُ الْأَبَارِيقُ الَّتِي لَا خَرَاطِيمَ لَهَا، أَوَّلُ الْعَابِدِينَ: أَيْ مَا كَانَ فَأَنَا أَوَّلُ الْآنِفِينَ وَهُمَا لُغَتَانِ رَجُلٌ عَابِدٌ وَعَبِدٌ وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ، وَيُقَالُ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ الْجَاحِدِينَ مِنْ عَبِدَ يَعْبَدُ، وَقَالَ قَتَادَةُ: فِي أُمِّ الْكِتَابِ جُمْلَةِ الْكِتَابِ أَصْلِ الْكِتَابِ.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك»”اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔“ اور قتادہ نے کہا «مثلا للآخرين» یعنی پچھلوں کے لیے نصیحت۔ دوسرے نے کہا «مقرنين» کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا «مقرن» ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے (اس کو قابو میں لایا ہے)۔ «أكواب» وہ کوزے جن میں ٹونٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پئے۔ «ان کان للرحمن ولد» کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (اس صورت میں «ان نافيه» ہے) «عابدين» سے «آنفين» مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے «عار» کرتا ہوں۔ اس میں دو لغت ہیں «عابد وعبد» اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو «وقال الرسول يا رب» پڑھا ہے۔ «أول العابدين» کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں۔ اس صورت میں «عابدين» باب «عبد يعبد.» سے آئے گا اور قتادہ نے کہا «في أم الكتاب» کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ میں)۔
افنضرب عنكم الذكر صفحا ان كنتم قوما مسرفين سورة الزخرف آية 5 مشركين والله لو ان هذا القرآن رفع حيث رده اوائل هذه الامة لهلكوا. {فاهلكنا اشد منهم بطشا ومضى مثل الاولين} عقوبة الاولين {جزءا} عدلا.أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ سورة الزخرف آية 5 مُشْرِكِينَ وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ رُفِعَ حَيْثُ رَدَّهُ أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهَلَكُوا. {فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الأَوَّلِينَ} عُقُوبَةُ الأَوَّلِينَ {جُزْءًا} عِدْلاً.
«مسرفين» سے مراد مشرکین ہیں۔ واللہ اگر یہ قرآن اٹھا لیا جاتا جب کہ ابتداء میں قریش نے اسے رد کر دیا تھا تو سب ہلاک ہو جاتے۔ «فأهلكنا أشد منهم بطشا ومضى مثل الأولين» میں «مثل» سے عذاب مراد ہے۔ «جزءا» بمعنی «عدلا» یعنی شریک۔
وقال مجاهد: رهوا: طريقا يابسا، ويقال: رهوا ساكنا، على علم على العالمين: على من بين ظهريه، وزوجناهم بحور: عين انكحناهم حورا عينا يحار فيها الطرف، فاعتلوه: ادفعوه ويقال ان، ترجمون: القتل، وقال ابن عباس: كالمهل: اسود كمهل الزيت، وقال غيره: تبع: ملوك اليمن كل واحد منهم يسمى تبعا لانه يتبع صاحبه والظل يسمى تبعا لانه يتبع الشمس.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رَهْوًا: طَرِيقًا يَابِسًا، وَيُقَالُ: رَهْوًا سَاكِنًا، عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ: عَلَى مَنْ بَيْنَ ظَهْرَيْهِ، وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ: عِينٍ أَنْكَحْنَاهُمْ حُورًا عِينًا يَحَارُ فِيهَا الطَّرْفُ، فَاعْتُلُوهُ: ادْفَعُوهُ وَيُقَالُ أَنْ، تَرْجُمُونِ: الْقَتْلُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَالْمُهْلِ: أَسْوَدُ كَمُهْلِ الزَّيْتِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تُبَّعٍ: مُلُوكُ الْيَمَنِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ يُسَمَّى تُبَّعًا لِأَنَّهُ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ وَالظِّلُّ يُسَمَّى تُبَّعًا لِأَنَّهُ يَتْبَعُ الشَّمْسَ.
مجاہد نے کہا «رهوا» کا معنی راستہ۔ «على العالمين» سے مراد ان کے زمانے کے لوگ ہیں۔ «فاعتلوه» کے معنی ان کو ڈھکیل دو۔ «وزوجناهم بحور» کا مطلب ہم نے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا جوڑا ملا دیا جن کا جمال دیکھنے سے آنکھوں کو حیرت ہوتی ہے۔ «ترجمون» مجھ کو قتل کرو۔ «رهوا» تھما ہوا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كالمهل» یعنی کالا تلچھٹ کی طرح۔ اوروں نے کہا «تبع» سے یمن کے بادشاہ مراد ہیں۔ ان کو «تبع» اس لیے کہا جاتا تھا کہ ایک کے بعد ایک بادشاہ ہوتا اور سایہ کو بھی «تبع» کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کے ساتھ رہتا ہے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ(قیامت کی) پانچ علامتیں گزر چکی ہیں «الدخان» دھواں، «الروم» غلبہ روم، «القمر» چاند کا ٹکڑے ہونا، «والبطشة» پکڑ اور «واللزام» ہلاکت اور قید۔
Narrated `Abdullah: Five things have passed, i.e. the smoke, the defeat of the Romans, the splitting of the moon, Al-Batsha (the defeat of the infidels in the battle of Badr) and Al-Lizam (the punishment)'.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 345