صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
39. سورة الزُّمَرِ:
39. باب: سورۃ الزمر کی تفسیر میں۔
(39) SURAT AZ-ZUMAR (The Groups)
حدیث نمبر: Q4810
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: افمن يتقي بوجهه: يجر على وجهه في النار، وهو قوله تعالى: افمن يلقى في النار خير ام من ياتي آمنا: يوم القيامة غير، ذي عوج: لبس، ورجلا سلما لرجل: مثل لآلهتهم الباطل والإله الحق، ويخوفونك بالذين من دونه: بالاوثان خولنا اعطينا، والذي جاء بالصدق: القرآن، وصدق به: المؤمن يجيء يوم القيامة، يقول: هذا الذي اعطيتني عملت بما فيه، وقال غيره: متشاكسون: الرجل الشكس العسر لا يرضى بالإنصاف ورجلا سلما، ويقال: سالما صالحا، اشمازت: نفرت، بمفازتهم: من الفوز، حافين: اطافوا به مطيفين بحفافيه بجوانبه، متشابها: ليس من الاشتباه ولكن يشبه بعضه بعضا في التصديق.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ: يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا: يَوْمَ الْقِيَامَةِ غَيْرَ، ذِي عِوَجٍ: لَبْسٍ، وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ: مَثَلٌ لِآلِهَتِهِمُ الْبَاطِلِ وَالْإِلَهِ الْحَقِّ، وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ: بِالْأَوْثَانِ خَوَّلْنَا أَعْطَيْنَا، وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ: الْقُرْآنُ، وَصَدَّقَ بِهِ: الْمُؤْمِنُ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: هَذَا الَّذِي أَعْطَيْتَنِي عَمِلْتُ بِمَا فِيهِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُتَشَاكِسُونَ: الرَّجُلُ الشَّكِسُ الْعَسِرُ لَا يَرْضَى بِالْإِنْصَافِ وَرَجُلًا سِلْمًا، وَيُقَالُ: سَالِمًا صَالِحًا، اشْمَأَزَّتْ: نَفَرَتْ، بِمَفَازَتِهِمْ: مِنَ الْفَوْزِ، حَافِّينَ: أَطَافُوا بِهِ مُطِيفِينَ بِحِفَافَيْهِ بِجَوَانِبِهِ، مُتَشَابِهًا: لَيْسَ مِنَ الْاشْتِبَاهِ وَلَكِنْ يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا فِي التَّصْدِيقِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «يتقي بوجهه‏» سے یہ مراد ہے کہ منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹا جائے گا جیسے اس آیت میں فرمایا «أفمن يلقى في النار خير أم من يأتي آمنا‏» الایۃ۔ «ذي عوج‏» کے معنی شبہ والا۔ «ورجلا سلما لرجل‏» یہ ایک مثال ہے مشرکین کے معبودان باطلہ کی اور معبود برحق کی۔ «ويخوفونك بالذين من دونه‏» میں «من دونه‏» سے مراد بت ہیں (یعنی مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے تجھ کو ڈراتے ہیں)۔ «خولنا» کے معنی ہم نے دیا۔ «والذي جاء بالصدق‏» سے قرآن مراد ہے اور «صدق‏» سے مسلمان مراد ہے جو قیامت کے دن پروردگار کے سامنے آ کر عرض کرے گا یہی قرآن ہے جو تو نے دنیا میں مجھ کو عنایت فرمایا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔ «متشاكسون‏»، «شكس» سے نکلا ہے «شكس» بدمزاج تکراری آدمی کو کہتے ہیں جو انصاف کی بات پسند نہ کرے۔ «سلما» اور «سالما» اچھے پورے آدمی کو کہتے ہیں۔ «اشمأزت‏» کے معنی نفرت کرتے ہیں، چڑتے ہیں۔ «بمفازتهم‏»، «فوز‏.‏‏» سے نکلا ہے مراد کامیابی ہے۔ «حافين‏» کے معنی گردا گرد اس کے چاروں طرف۔ «متشابها‏»، «اشتباه» سے نہیں بلکہ «تشابه» سے نکلا ہے یعنی اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔
1. بَابُ قَوْلِهِ: {يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}:
1. باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دو کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہ بخش دے گا، بیشک وہ بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: Say: “O Ibadi (My slaves) who have transgressed against themselves (by committing evil deeds and sins)! Despair not of the Mercy of Allah…" (V.39:53)
حدیث نمبر: 4810
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثني إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج، اخبرهم، قال يعلى: إن سعيد بن جبير اخبره، عن ابن عباس رضي الله عنهما: ان ناسا من اهل الشرك كانوا قد قتلوا، واكثروا، وزنوا، واكثروا، فاتوا محمدا صلى الله عليه وسلم، فقالوا: إن الذي تقول وتدعو إليه لحسن لو تخبرنا ان لما عملنا كفارة، فنزل: والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون سورة الفرقان آية 68، ونزل: قل يا عبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله سورة الزمر آية 53".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ، قَالَ يَعْلَى: إِنَّ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ كَانُوا قَدْ قَتَلُوا، وَأَكْثَرُوا، وَزَنَوْا، وَأَكْثَرُوا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّ الَّذِي تَقُولُ وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَنَزَلَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية 68، وَنَزَلَ: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ سورة الزمر آية 53".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا، انہیں سعید بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری بھی کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں (یعنی اسلام) یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون‏» اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ اور یہ آیت نازل ہوئی «قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏» آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: Some pagans who committed murders in great number and committed illegal sexual intercourse excessively, came to Muhammad and said, "O Muhammad! Whatever you say and invite people to, is good: but we wish if you could inform us whether we can make an expiration for our (past evil) deeds." So the Divine Verses came: 'Those who invoke not with Allah any other god, not kill such life as Allah has forbidden except for just cause, nor commit illegal sexual intercourse.' (25.68) And there was also revealed:-- 'Say: O My slaves who have transgressed against their souls! Despair not of the Mercy of Allah.' (39.53)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 334


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ}:
2. باب: آیت کی تفسیر ”اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر و عظمت نہ پہچانی جیسی کہ اس کی قدر و عظمت پہچاننی چاہئے تھی“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “They made not a just estimate of Allah such as is due to Him..." (V.39:67)
حدیث نمبر: 4811
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شيبان، عن منصور، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: جاء حبر من الاحبار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا محمد، إنا نجد ان الله يجعل السموات على إصبع، والارضين على إصبع، والشجر على إصبع، والماء والثرى على إصبع، وسائر الخلائق على إصبع، فيقول: انا الملك، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه تصديقا لقول الحبر، ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم: وما قدروا الله حق قدره والارض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون سورة الزمر آية 67".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا مُحَمَّدُ، إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلَائِقِ عَلَى إِصْبَعٍ، فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ سورة الزمر آية 67".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون‏» اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے، وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: A (Jewish) Rabbi came to Allah's Messenger and he said, "O Muhammad! We learn that Allah will put all the heavens on one finger, and the earths on one finger, and the trees on one finger, and the water and the dust on one finger, and all the other created beings on one finger. Then He will say, 'I am the King.' Thereupon the Prophet smiled so that his pre-molar teeth became visible, and that was the confirmation of the Rabbi. Then Allah's Messenger recited: 'No just estimate have they made of Allah such as due to Him.' (39.67)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 335


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
3. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ}:
3. باب: آیت «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» کی تفسیر۔
(3) Chapter. The Statement of Allah: “...And on the Day of Resurrection, the whole of the earth will be grasped by His Hand and the heavens will be rolled up in His Right Hand...” (V.39:67)
حدیث نمبر: 4812
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عبد الرحمن بن خالد بن مسافر، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يقبض الله الارض ويطوي السموات بيمينه، ثم يقول: انا الملك اين ملوك الارض".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابوسلمہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ قیامت کے دن اللہ ساری زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا «أنا الملك،‏‏‏‏ أين ملوك الأرض» آج حکومت صرف میری ہے، دنیا کے بادشاہ آج کہاں ہیں؟

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I heard Allah's Messenger saying, "Allah will hold the whole earth, and roll all the heavens up in His Right Hand, and then He will say, 'I am the King; where are the kings of the earth?"'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 336


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ}:
4. باب: آیت کی تفسیر میں ”اور صور پھونکا جائے گا تو سب بیہوش ہو جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوا اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو پھر اچانک سب کے سب دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “And the Trumpet will be blown, and all who are in the heavens and all who are on earth will swoon away, except him whom Allah wills...” (V.39:68)
حدیث نمبر: 4813
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني الحسن، حدثنا إسماعيل بن خليل، اخبرنا عبد الرحيم، عن زكرياء بن ابي زائدة، عن عامر، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إني اول من يرفع راسه بعد النفخة الآخرة، فإذا انا بموسى متعلق بالعرش، فلا ادري اكذلك كان ام بعد النفخة".(مرفوع) حَدَّثَنِي الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنِّي أَوَّلُ مَنْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ بَعْدَ النَّفْخَةِ الْآخِرَةِ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى مُتَعَلِّقٌ بِالْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَذَلِكَ كَانَ أَمْ بَعْدَ النَّفْخَةِ".
مجھ سے حسن نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرحیم نے خبر دی، انہیں زکریا بن ابی زائدہ نے، انہیں عامر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری مرتبہ صور پھونکے جانے کے بعد سب سے پہلے اپنا سر اٹھانے والا میں ہوں گا لیکن اس وقت میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ عرش کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ پہلے ہی سے اسی طرح تھے یا دوسرے صور کے بعد (مجھ سے پہلے) اٹھ کر عرش الٰہی کو تھام لیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "I will be the first to raise my head after the second blowing of the trumpet and will see Moses hanging the Throne, and I will not know whether he had been in that state all the time or after the blowing of the trumpet."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 337


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4814
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: سمعت ابا صالح، قال: سمعت ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" بين النفختين اربعون"، قالوا: يا ابا هريرة، اربعون يوما؟ قال: ابيت، قال: اربعون سنة، قال: ابيت، قال: اربعون شهرا، قال: ابيت، ويبلى كل شيء من الإنسان إلا عجب ذنبه فيه يركب الخلق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ"، قَالُوا: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَرْبَعُونَ يَوْمًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ شَهْرًا، قَالَ: أَبَيْتُ، وَيَبْلَى كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا عَجْبَ ذَنَبِهِ فِيهِ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابوصالح سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا: کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا: چالیس سال؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: چالیس مہینے؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی، سوا ریڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Between the two blowing of the trumpet there will be forty." The people said, "O Abu Huraira! Forty days?" I refused to reply. They said, "Forty years?" I refused to reply and added: Everything of the human body will decay except the coccyx bone (of the tail) and from that bone Allah will reconstruct the whole body.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 338


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
40. سورة الْمُؤْمِنُ:
40. باب: سورۃ المومن۔
(40) SURAT GHAFIR or AL-MUMIN (The Forgiver or The Believer)
حدیث نمبر: Q4815
Save to word اعراب English
قال مجاهد: مجازها مجاز اوائل السور. ويقال بل هو اسم لقول شريح بن ابي اوفى العبسي يذكرني: حاميم والرمح شاجر ** فهلا تلا حاميم قبل التقدم الطول التفضل {داخرين} خاضعين. وقال مجاهد: {إلى النجاة} الإيمان {ليس له دعوة} يعني الوثن {يسجرون} توقد بهم النار. {تمرحون} تبطرون. وكان العلاء بن زياد يذكر النار، فقال رجل لم تقنط الناس قال وانا اقدر ان اقنط الناس والله عز وجل يقول: {يا عبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله} ويقول: {وان المسرفين هم اصحاب النار} ولكنكم تحبون ان تبشروا بالجنة على مساوئ اعمالكم، وإنما بعث الله محمدا صلى الله عليه وسلم مبشرا بالجنة لمن اطاعه، ومنذرا بالنار من عصاه.قَالَ مُجَاهِدٌ: مَجَازُهَا مَجَازُ أَوَائِلِ السُّوَرِ. وَيُقَالُ بَلْ هُوَ اسْمٌ لِقَوْلِ شُرَيْحِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْعَبْسِيِّ يُذَكِّرُنِي: حَامِيمَ وَالرُّمْحُ شَاجِرٌ ** فَهَلاَّ تَلاَ حَامِيمَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ الطَّوْلُ التَّفَضُّلُ {دَاخِرِينَ} خَاضِعِينَ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {إِلَى النَّجَاةِ} الإِيمَانِ {لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ} يَعْنِي الْوَثَنَ {يُسْجَرُونَ} تُوقَدُ بِهِمِ النَّارُ. {تَمْرَحُونَ} تَبْطَرُونَ. وَكَانَ الْعَلاَءُ بْنُ زِيَادٍ يُذَكِّرُ النَّارَ، فَقَالَ رَجُلٌ لِمَ تُقَنِّطُ النَّاسَ قَالَ وَأَنَا أَقْدِرُ أَنْ أُقَنِّطَ النَّاسَ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ} وَيَقُولُ: {وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ} وَلَكِنَّكُمْ تُحِبُّونَ أَنْ تُبَشَّرُوا بِالْجَنَّةِ عَلَى مَسَاوِئِ أَعْمَالِكُمْ، وَإِنَّمَا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبَشِّرًا بِالْجَنَّةِ لِمَنْ أَطَاعَهُ، وَمُنْذِرًا بِالنَّارِ مَنْ عَصَاهُ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «حم» کا معنی اللہ کو معلوم ہے جیسے دوسری سورتوں میں جو حروف مقطعات شروع میں آئے ہیں ان کے متعلق حقیقی معانی صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ بعضوں نے کہا «حم» قرآن یا سورت کا نام ہے جیسے شریح ابن ابی اوفی عبسی اس شعر میں کہتا ہے جبکہ نیزہ جنگ میں چلنے لگا۔ پڑھتا ہے «حم» پہلے پڑھنا تھا۔ «الطول» کے معنی احسان اور فضل کرنا۔ «داخرين‏» کے معنی ذلیل و خوار ہو کر۔ مجاہد نے کہا «ادعوکم الی النجاة» سے ایمان مراد ہے۔ «ليس له دعوة‏» یعنی بت کسی کی دعا قبول نہیں کر سکتا۔ «يسجرون‏» کے معنی وہ دوزخ کے ایندھن بنیں گے۔ «تمرحون‏» کے معنی تم اتراتے تھے۔ اور علاء بن زیاد مشہور تابعی و مشہور زاہد لوگوں کو دوزخ سے ڈرا رہے تھے، ایک شخص کہنے لگا لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا میں لوگوں کو اللہ کی رحمت سے ناامید کیسے کر سکتا ہوں میری کیا طاقت ہے۔ اللہ پاک تو فرماتا ہے «يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏» اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (گناہ کئے) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ اس کے ساتھ اللہ یوں بھی فرماتا ہے «وأن المسرفين هم أصحاب النار‏» کہ گنہگار دوزخی ہیں مگر میں سمجھ گیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ برے کام کرتے رہو اور جنت کی خوشخبری تم کو ملتی جائے۔ اللہ نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکیوں پر خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کے لیے دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
حدیث نمبر: 4815
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي، قال: حدثني يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني محمد بن إبراهيم التيمي، قال: حدثني عروة بن الزبير، قال: قلت لعبد الله بن عمرو بن العاص: اخبرني باشد ما صنع المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بفناء الكعبة إذ اقبل عقبة بن ابي معيط، فاخذ بمنكب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولوى ثوبه في عنقه، فخنقه به خنقا شديدا، فاقبل ابو بكر، فاخذ بمنكبه، ودفع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوَى ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ، فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ، وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، آپ نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: I asked `Abdullah bin `Amr bin Al-`As to inform me of the worst thing the pagans had done to Allah's Apostle. He said: "While Allah's Messenger was praying in the courtyard of the Ka`ba, `Uqba bin Abi Mu'ait came and seized Allah's Messenger by the shoulder and twisted his garment round his neck and throttled him severely. Abu Bakr came and seized `Uqba's shoulder and threw him away from Allah's Apostle and said, "Would you kill a man because he says: 'My Lord is Allah,' and has come to you with clear Signs from your Lord?" (40.28)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 339


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
41. سورة حم السَّجْدَةِ:
41. باب: سورۃ حم السجدۃ کی تفسیر۔
(41) SURAT HA MIM AS SAJDAH (The Prostration) or SURAT-FUSSILAT
حدیث نمبر: Q4816
Save to word اعراب English
وقال طاوس: عن ابن عباس، ائتيا طوعا، او كرها اعطيا، قالتا اتينا طائعين: اعطينا، وقال المنهال: عن سعيد بن جبير، قال: قال رجل لابن عباس: إني اجد في القرآن اشياء تختلف علي، قال: فلا انساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون، واقبل بعضهم على بعض يتساءلون، ولا يكتمون الله حديثا، والله ربنا ما كنا مشركين، فقد كتموا في هذه الآية: وقال ام السماء بناها إلى قوله دحاها سورة النازعات آية 27 - 30، فذكر خلق السماء قبل خلق الارض، ثم قال: ائنكم لتكفرون بالذي خلق الارض في يومين إلى قوله طائعين سورة فصلت آية 9 - 11، فذكر في هذه خلق الارض قبل خلق السماء، وقال: وكان الله غفورا رحيما، عزيزا حكيما سميعا بصيرا فكانه كان، ثم مضى، فقال: فلا انساب بينهم، في النفخة الاولى، ثم ينفخ في الصور فصعق من في السموات، ومن في الارض إلا من شاء الله فلا انساب بينهم عند ذلك ولا يتساءلون، ثم في النفخة الآخرة اقبل بعضهم على بعض يتساءلون واما قوله ما كنا مشركين، ولا يكتمون الله: حديثا فإن الله يغفر لاهل الإخلاص ذنوبهم، وقال المشركون: تعالوا نقول لم نكن مشركين فختم على افواههم فتنطق ايديهم فعند ذلك عرف ان الله لا يكتم حديثا وعنده، يود الذين كفروا الآية: وخلق الارض في يومين ثم خلق السماء ثم استوى إلى السماء فسواهن في يومين آخرين ثم دحا: الارض ودحوها ان اخرج منها الماء والمرعى وخلق الجبال والجمال والآكام، وما بينهما في يومين آخرين فذلك قوله دحاها وقوله: خلق الارض في يومين: فجعلت الارض وما فيها من شيء في اربعة ايام وخلقت السموات في يومين، وكان الله غفورا رحيما: سمى نفسه ذلك وذلك قوله اي لم يزل كذلك فإن الله لم يرد شيئا إلا اصاب به الذي اراد فلا يختلف عليك القرآن، فإن كلا من عند الله، قال ابو عبد الله، حدثني يوسف بن عدي، حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن زيد بن ابي انيسة، عن المنهال بهذا، وقال مجاهد: لهم اجر غير ممنون: محسوب، اقواتها: ارزاقها، في كل سماء امرها: مما امر به، نحسات: مشائيم، وقيضنا لهم قرناء: قرناهم بهم، تتنزل عليهم الملائكة: عند الموت، اهتزت: بالنبات، وربت: ارتفعت، من اكمامها: حين تطلع، ليقولن هذا لي اي بعملي انا محقوق بهذا، وقال غيره: سواء للسائلين: قدرها سواء، فهديناهم: دللناهم على الخير والشر كقوله: وهديناه النجدين، وكقوله: هديناه السبيل، والهدى الذي هو الإرشاد بمنزلة اصعدناه ومن ذلك قوله: اولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده، يوزعون: يكفون، من اكمامها: قشر الكفرى هي الكم، وقال غيره: ويقال للعنب إذا خرج ايضا كافور وكفرى، ولي حميم، القريب، من محيص: حاص عنه اي حاد، مرية: ومرية واحد اي امتراء، وقال مجاهد: اعملوا ما: شئتم هي وعيد، وقال ابن عباس: ادفع بالتي هي احسن: الصبر عند الغضب والعفو عند الإساءة فإذا فعلوه عصمهم الله وخضع لهم عدوهم كانه ولي حميم.وَقَالَ طَاوُسٌ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ائْتِيَا طَوْعًا، أَوْ كَرْهًا أَعْطِيَا، قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ: أَعْطَيْنَا، وَقَالَ الْمِنْهَالُ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي أَجِدُ فِي الْقُرْآنِ أَشْيَاءَ تَخْتَلِفُ عَلَيَّ، قَالَ: فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ، وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ، وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا، وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ، فَقَدْ كَتَمُوا فِي هَذِهِ الْآيَةِ: وَقَالَ أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا إِلَى قَوْلِهِ دَحَاهَا سورة النازعات آية 27 - 30، فَذَكَرَ خَلْقَ السَّمَاءِ قَبْلَ خَلْقِ الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ إِلَى قَوْلِهِ طَائِعِينَ سورة فصلت آية 9 - 11، فَذَكَرَ فِي هَذِهِ خَلْقَ الْأَرْضِ قَبْلَ خَلْقِ السَّمَاءِ، وَقَالَ: وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا، عَزِيزًا حَكِيمًا سَمِيعًا بَصِيرًا فَكَأَنَّهُ كَانَ، ثُمَّ مَضَى، فَقَالَ: فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ، فِي النَّفْخَةِ الْأُولَى، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ، وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ، ثُمَّ فِي النَّفْخَةِ الْآخِرَةِ أَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ وَأَمَّا قَوْلُهُ مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ، وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ: حَدِيثًا فَإِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ لِأَهْلِ الْإِخْلَاصِ ذُنُوبَهُمْ، وَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: تَعَالَوْا نَقُولُ لَمْ نَكُنْ مُشْرِكِينَ فَخُتِمَ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ فَتَنْطِقُ أَيْدِيهِمْ فَعِنْدَ ذَلِكَ عُرِفَ أَنَّ اللَّهَ لَا يُكْتَمُ حَدِيثًا وَعِنْدَهُ، يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا الْآيَةَ: وَخَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَاءَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ فِي يَوْمَيْنِ آخَرَيْنِ ثُمَّ دَحَا: الْأَرْضَ وَدَحْوُهَا أَنْ أَخْرَجَ مِنْهَا الْمَاءَ وَالْمَرْعَى وَخَلَقَ الْجِبَالَ وَالْجِمَالَ وَالْآكَامَ، وَمَا بَيْنَهُمَا فِي يَوْمَيْنِ آخَرَيْنِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ دَحَاهَا وَقَوْلُهُ: خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ: فَجُعِلَتِ الْأَرْضُ وَمَا فِيهَا مِنْ شَيْءٍ فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ وَخُلِقَتِ السَّمَوَاتُ فِي يَوْمَيْنِ، وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا: سَمَّى نَفْسَهُ ذَلِكَ وَذَلِكَ قَوْلُهُ أَيْ لَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُرِدْ شَيْئًا إِلَّا أَصَابَ بِهِ الَّذِي أَرَادَ فَلَا يَخْتَلِفْ عَلَيْكَ الْقُرْآنُ، فَإِنَّ كُلًّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ الْمِنْهَالِ بِهَذَا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ: مَحْسُوبٍ، أَقْوَاتَهَا: أَرْزَاقَهَا، فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا: مِمَّا أَمَرَ بِهِ، نَحِسَاتٍ: مَشَائِيمَ، وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ: قَرَنَّاهُمْ بِهِمْ، تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ: عِنْدَ الْمَوْتِ، اهْتَزَّتْ: بِالنَّبَاتِ، وَرَبَتْ: ارْتَفَعَتْ، مِنْ أَكْمَامِهَا: حِينَ تَطْلُعُ، لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي أَيْ بِعَمَلِي أَنَا مَحْقُوقٌ بِهَذَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ: قَدَّرَهَا سَوَاءً، فَهَدَيْنَاهُمْ: دَلَلْنَاهُمْ عَلَى الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَقَوْلِهِ: وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ، وَكَقَوْلِهِ: هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ، وَالْهُدَى الَّذِي هُوَ الْإِرْشَادُ بِمَنْزِلَةِ أَصْعَدْنَاهُ وَمِنْ ذَلِكَ قَوْلُهُ: أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ، يُوزَعُونَ: يُكَفُّونَ، مِنْ أَكْمَامِهَا: قِشْرُ الْكُفُرَّى هِيَ الْكُمُّ، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَيُقَالُ لِلْعِنَبِ إِذَا خَرَجَ أَيْضًا كَافُورٌ وَكُفُرَّى، وَلِيٌّ حَمِيمٌ، الْقَرِيبُ، مِنْ مَحِيصٍ: حَاصَ عَنْهُ أَيْ حَادَ، مِرْيَةٍ: وَمُرْيَةٌ وَاحِدٌ أَيِ امْتِرَاءٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: اعْمَلُوا مَا: شِئْتُمْ هِيَ وَعِيدٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ: الصَّبْرُ عِنْدَ الْغَضَبِ وَالْعَفْوُ عِنْدَ الْإِسَاءَةِ فَإِذَا فَعَلُوهُ عَصَمَهُمُ اللَّهُ وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ.
‏‏‏‏ طاؤس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا «ائتيا طوعا‏» کا معنی خوشی سے اطاعت قبول کرو۔ «قالتا أتينا طائعين‏» ہم نے خوشی خوشی اطاعت قبول کی۔ «أعطينا‏» ہم نے خوشی سے دیا۔ اور منہال بن عمرو اسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگا میں تو قرآن میں ایک کے ایک خلاف چند باتیں پاتا ہوں۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) بیان کر۔ وہ کہنے لگا ایک آیت میں تو یوں ہے «فلا أنساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون‏» قیامت کے دن ان کے درمیان کوئی رشتہ ناطہٰ باقی نہیں رہے گا اور نہ وہ باہم ایک دوسرے سے کچھ پوچھیں گے۔ دوسری آیت میں یوں ہے «وأقبل بعضهم على بعض يتساءلون‏» اور قیامت کے دن ان میں بعض بعض کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ (اس طرح دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک آیت میں یوں ہے «ولا يكتمون الله حديثا‏» وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے دوسری آیت میں ہے قیامت کے دن مشرکین کہیں گے «ربنا ما كنا مشركين‏» ہم اپنے رب اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مشرک ہونا چھپائیں گے (اس طرح ان دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک جگہ فرمایا «انتم اشد خلقا أم السماء بناها‏» آخر تک۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوا۔ پھر سورۃ حم سجدہ میں فرمایا «أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين‏» اس سے نکلتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے (اس طرح دونوں میں اختلاف ہے) اور فرمایا «وكان الله غفورا رحيما‏» اللہ بخشنے والا مہربان تھا «عزيزا حكيما»، «سميعا بصيرا» ان کے معانی سے نکلتا ہے کہ اللہ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا، اب نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں کہا کہ یہ جو فرمایا «فلا أنساب بينهم‏» اس دن کوئی ناطہٰ رشتہ باقی نہ رہے گا یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بیہوش ہو جائیں گے اس وقت رشتہ ناطہٰ کچھ باقی نہ رہے گا، نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے (دہشت کے مارے سب نفسی نفسی پکاریں گے) پھر یہ جو دوسری آیت میں ہے «أقبل بعضهم على بعض» ایک دوسرے کے سامنے آ کر پوچھ تاچھ کریں گے، یہ دوسری دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد کا حال ہے (جب میدان محشر میں سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور کسی قدر ہوش ٹھکانے آئے گا) اور یہ جو مشرکین کا قول نقل کیا ہے «ربنا ما كنا مشركين‏» ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے اور دوسری جگہ فرمایا «ولا يكتمون الله حديثا‏» اللہ سے وہ کوئی بات نہ چھپا سکیں گے تو بات یہ ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن خالص توحید والوں کے گناہ بخش دے گا اور مشرکین آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے کہ چلو ہم بھی چل کر دربار الٰہی میں کہیں کہ ہم مشرک نہ تھے۔ پھر اللہ پاک ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں بولنا شروع کر دیں گے۔ اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپ نہیں سکتی اور اسی وقت کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں مسلمان ہوتے (اس طرح یہ دونوں آیتیں مختلف نہیں ہیں) اور یہ جو فرمایا «وخلق الأرض في يومين» کہ زمین کو دو دن میں پیدا کیا اس کا مطلب یہ کہ اسے پھیلایا نہیں (صرف اس کا مادہ پیدا کیا) پھر آسمان کو پیدا کیا اور دو دن میں اس کو برابر کیا (ان کے طبقات مرتب کئے) اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور اس کا پھیلانا یہ ہے کہ اس میں سے پانی نکالا، گھاس چارہ پیدا کیا، پہاڑ، جانور، اونٹ وغیرہ ٹیلے جو جو ان کے بیچ میں ہیں وہ سب پیدا کئے۔ یہ سب دو دن میں کیا۔ «دحاها‏» کا مطلب یہ ہے کہ زمین دو دن میں پیدا ہوئی جیسے فرمایا «خلق الأرض في يومين‏» تو زمین مع اپنی سب چیزوں کے چار دن میں بنی اور آسمان دو دن میں بنے (اس طرح یہ اعتراض رفع ہوا) اب رہا یہ فرمانا کہ «وكان الله غفورا رحيما‏» میں «كان» کا مطلب ہے کہ اللہ پاک میں یہ صفات ازل سے ہیں اور یہ اس کے نام ہیں (غفور، رحیم، عزیز، حکیم، سمیع، بصیر وغیرہ) کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ حاصل کر لیتا ہے (حاصل یہ ہے کہ صفات سب قدیم ہیں گو ان کے تعلقات حادث ہوں جیسے «سمع الله» کا قدیم سے تھا مگر تعلق «سمع» کا اس وقت سے ہوا جب سے آوازیں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح اور صفات میں بھی کہیں گے) اب تو قرآن میں کوئی اختلاف نہیں رہا، اختلاف کیسے ہو گا۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے یوسف بن عدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمرو نے، انہوں نے زید بن ابی انیسہ سے، انہوں نے منہال سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (یہی روایت جو ادھر گزری ہے)۔ مجاہد نے کہا «ممنون‏» کا معنی حساب ہے۔ «أقواتها‏» یعنی بارش کا اندازہ مقرر کیا کہ ہر ملک میں کتنی بارش مناسب ہے۔ «فی کل سمآء امرها» یعنی جو حکم (اور انتظام کرنا تھا) وہ ہر آسمان سے متعلق (فرشتوں کو) بتلا دیا۔ «نحسات‏» منحوس، نامبارک۔ «وقيضنا لهم قرناء‏» کا معنی ہم نے کافروں کے ساتھ شیطان کو لگا دیا۔ «تتنزل عليهم الملائكة‏» یعنی موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہیں۔ «اهتزت‏» یعنی سبزی سے لہلہانے لگتی ہے۔ «وربت‏» پھول جاتی ہے، ابھر آتی ہے۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «من أكمامها‏» یعنی جب پھل گابھوں سے نکلتے ہیں۔ «ليقولن هذا لي‏» یعنی یہ میرا حق ہے، میرے نیک کاموں کا بدلہ ہے۔ «سواء للسائلين‏» سب مانگنے والوں کے لیے اس کو یکساں رکھا۔ «فهديناهم‏» سے یہ مراد ہے کہ ہم نے ان کو اچھا برا دکھلایا، بتلا دیا جیسے دوسری جگہ فرمایا «وهديناه النجدين‏» (سورۃ البلد میں اور سورۃ الدہر میں) فرمایا «هديناه السبيل‏» لیکن ہدایت کا وہ معنی سیدھے اور سچے راستے پر لگا دینا، وہ «واصعاد» (یا «اسعاد») کے معنی میں ہے (سورۃ الانعام) «أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده‏» میں یہی معنی مراد ہیں۔ «يوزعون‏» روکے جائیں گے۔ «من أكمامها‏» میں «كم» کہتے ہیں گابھا کے چھلکے کو (یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے) اوروں نے کہا انگور جب نکلتے ہیں تو اس کو بھی «فور» اور «كفرى» کہتے ہیں۔ «ولي حميم‏» قریبی دوست۔ «من محيص‏»، «حاص» سے نکلا ہے «حاص» کے معنی نکل بھاگا، الگ ہو گیا۔ «مرية‏» بکسر میم اور «مرية‏» بضم میم (دونوں قراتیں ہیں) دونوں کا ایک ہی معنی شک و شبہ کے ہیں اور مجاہد نے کہا «عملوا ما شئتم‏» میں وعید ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ادفع التي هي أحسن‏» سے یہ مراد ہے کہ غصے کے وقت صبر کر لو اور برائی کو معاف کر دو جب لوگ ایسے اخلاق اختیار کریں گے تو اللہ ان کو ہر آفت سے بچائے رکھے گا اور ان کے دشمن بھی عاجز ہو کر ان کے دلی دوست بن جائیں گے۔
1. بَابُ: {وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لاَ يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ}:
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں گواہی دیں گی، بلکہ تمہیں تو یہ خیال تھا کہ اللہ کو بہت سی ان چیزوں کی خبر ہی نہیں ہے جنہیں تم کرتے رہے“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And you have not been hiding yourself (in the world), lest your ears, and your eyes, and your skins should testify against you...” (V.41:22)
حدیث نمبر: 4816
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا يزيد بن زريع، عن روح بن القاسم، عن منصور، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن ابن مسعود، وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم سورة فصلت آية 22 الآية، قال:" كان رجلان من قريش وختن لهما من ثقيف او رجلان من ثقيف وختن لهما من قريش في بيت، فقال بعضهم لبعض: اترون ان الله يسمع حديثنا، قال بعضهم: يسمع بعضه، وقال بعضهم: لئن كان يسمع بعضه لقد يسمع كله، فانزلت: وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم سورة فصلت آية 22 الآية".(موقوف) حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ، قَالَ:" كَانَ رَجُلَانِ مِنْ قُرَيْشٍ وَخَتَنٌ لَهُمَا مِنْ ثَقِيفَ أَوْ رَجُلَانِ مِنْ ثَقِيفَ وَخَتَنٌ لَهُمَا مِنْ قُرَيْشٍ فِي بَيْتٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَتُرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ حَدِيثَنَا، قَالَ بَعْضُهُمْ: يَسْمَعُ بَعْضَهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَئِنْ كَانَ يَسْمَعُ بَعْضَهُ لَقَدْ يَسْمَعُ كُلَّهُ، فَأُنْزِلَتْ: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح بن قاسم نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت «وما كنتم تستترون أن يشهد،‏‏‏‏ عليكم سمعكم‏» اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان گواہی دیں گے۔ الخ کے متعلق کہا کہ قریش کے دو آدمی اور بیوی کی طرف سے ان کے قبیلہ ثقیب کا کوئی رشتہ دار یا ثقیف کے دو افراد تھے اور بیوی کی طرف قریش کا کوئی رشتہ دار، یہ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہو گا ایک نے کہا کہ بعض باتیں سنتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ اگر بعض باتیں سن سکتا ہے تو سب سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم‏» اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں گواہی دیں گی۔ آخر آیت «وذلكم ظنكم‏» تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Mas`ud: (regarding) the Verse: 'And you have not been screening against yourself lest your ears, and your eyes and your skins should testify against you..' (41.22) While two persons from Quraish and their brotherin- law from Thaqif (or two persons from Thaqif and their brother-in-law from Quraish) were in a house, they said to each other, "Do you think that Allah hears our talks?" Some said, "He hears a portion thereof" Others said, "If He can hear a portion of it, He can hear all of it." Then the following Verse was revealed: 'And you have not been screening against yourself lest your ears, and your eyes and your skins should testify against you...' (41.22)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 340


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    43    44    45    46    47    48    49    50    51    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.