صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
حدیث نمبر: 4751
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سليمان، عن حصين، عن ابي وائل، عن مسروق، عن ام رومان ام عائشة، انها قالت:" لما رميت عائشة خرت مغشيا عليها".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ أُمِّ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" لَمَّا رُمِيَتْ عَائِشَةُ خَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن کثیر نے خبر دی، انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابووائل نے، انہیں مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب عائشہ نے تہمت کی خبر سنی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Um Ruman: Aisha's mother, When `Aisha was accused, she fell down Unconscious.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 275


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
8. بَابُ: {إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسِبُونَهُ هَيِّنًا وَهْوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ}:
8. باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا بڑا بھاری عذاب تو تم کو اس وقت پکڑتا جب تم اپنی زبانوں سے تہمت کو منہ در منہ بیان کر رہے تھے اور اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کی تمہیں کوئی تحقیق نہ تھی اور تم اسے ہلکا سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی“۔
(8) Chapter. “When you were propagating it with your tongues, and uttering with your mouths that whereof you had no knowledge...” (V.24:15)
حدیث نمبر: 4752
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم، قال ابن ابي مليكة: سمعت عائشة تقرا:" 0 إذ تلقونه بالسنتكم 0 4".(موقوف) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقْرَأُ:" 0 إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ 0 4".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ مذکورہ بالا آیت «إذ تلقونه بألسنتكم‏» (جب تم اپنی زبانوں سے اسے منہ در منہ نقل کر رہے تھے) پڑھ رہی تھیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: I heard `Aisha reciting: "When you invented a lie (and carry it) on your tongues." (24.15)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 276


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
8M. بَابُ: {وَلَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ}:
8M. باب: آیت کی تفسیر ”اور تم نے جب اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کیسے ایسی بات منہ سے نکالیں (پاک ہے تو یا اللہ!) یہ تو سخت بہتان ہے“۔
(8b) Chapter. “And why did you not, when you heard it, say: It is not right for us to speak of this...” (V.24:16)
حدیث نمبر: 4753
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن عمر بن سعيد بن ابي حسين، قال: حدثني ابن ابي مليكة، قال: استاذن ابن عباس قبل موتها على عائشة وهي مغلوبة، قالت:" اخشى ان يثني علي"، فقيل ابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم: ومن وجوه المسلمين، قالت: ائذنوا له، فقال: كيف تجدينك؟ قالت: بخير إن اتقيت، قال: فانت بخير إن شاء الله زوجة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم ينكح بكرا غيرك، ونزل عذرك من السماء، ودخل ابن الزبير خلافه، فقالت: دخل ابن عباس فاثنى علي، ووددت اني كنت نسيا منسيا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ:" أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ"، فَقِيلَ ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمِنْ وُجُوهِ الْمُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ، وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لیے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abu Mulaika: Ibn `Abbas asked permission to visit Aisha before her death, and at that time she was in a state of agony. She then said. "I am afraid that he will praise me too much." And then it was said to her, "He is the cousin of Allah's Messenger and one of the prominent Muslims." Then she said, "Allow him to enter." (When he entered) he said, "How are you?" She replied, "I am Alright if I fear (Allah)." Ibn `Abbas said, "Allah willing, you are Alright as you are the wife of Allah's Messenger and he did not marry any virgin except you and proof of your innocence was revealed from the Heaven." Later on Ibn Az-Zubair entered after him and `Aisha said to him, "Ibn `Abbas came to me and praised me greatly, but I wish that I was a thing forgotten and out of sight."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 277


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4754
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد، حدثنا ابن عون، عن القاسم، ان ابن عباس رضي الله عنه استاذن على عائشة نحوه، ولم يذكر نسيا منسيا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ نِسْيًا مَنْسِيًّا.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ «نسيا منسيا‏.‏» کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Qasim: Ibn `Abbas asked `Aisha's permission to enter. Al-Qasim then narrated the whole Hadith (as in 277) but did not mention: "Would that I had been forgotten and out of sight."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 278


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
9. بَابُ: {يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا}:
9. باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ خبردار پھر اس قسم کی حرکت کبھی نہ کرنا“۔
(9) Chapter. The Statement of Allah: “And warns you not to repeat the like of it, forever." (V.24:17)
حدیث نمبر: 4755
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) 4385 4385 حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" جاء حسان بن ثابت يستاذن عليها، قلت: اتاذنين لهذا؟ قالت: اوليس قد اصابه عذاب عظيم، قال سفيان: تعني ذهاب بصره، فقال: حصان رزان ما تزن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل قالت: لكن انت".(موقوف) 4385 4385 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" جَاءَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا، قُلْتُ: أَتَأْذَنِينَ لِهَذَا؟ قَالَتْ: أَوَلَيْسَ قَدْ أَصَابَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ، قَالَ سُفْيَانُ: تَعْنِي ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قَالَتْ: لَكِنْ أَنْتَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرنے کی حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ انہیں بھی اجازت دیتی ہیں (حالانکہ انہوں نے بھی آپ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تھا) اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ کیا انہیں اس کی ایک بڑی سزا نہیں ملی ہے۔ سفیان نے کہا کہ ان کا اشارہ ان کے نابینا ہو جانے کی طرف تھا۔ پھر حسان نے یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ غافل اور پاکدامن عورتوں کا گوشت کھانے سے اکمل پرہیز کرتی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، لیکن تو نے ایسا نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Masruq: `Aisha said that Hassan bin Thabit came and asked permission to visit her. I said, "How do you permit such a person?" She said, "Hasn't he received a severely penalty?" (Sufyan, the subnarrator, said: She meant the loss of his sight.) Thereupon Hassan said the following poetic verse: "A chaste pious woman who arouses no suspicion. She never talks about chaste heedless women behind their backs.' On that she said, "But you are not so."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 279


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
10. بَابُ: {وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ}:
10. باب: آیت کی تفسیر ”اور اللہ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے“۔
(10) Chapter. The Statement Allah: “And Allah makes the Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelations, etc.) plain to you. And Allah is All-Knowing, All-Wise." (V.24:18)
حدیث نمبر: 4756
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، انبانا شعبة، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال:" دخل حسان بن ثابت على عائشة، فشبب، وقال: حصان رزان ما تزن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل، قالت: لست كذاك، قلت: تدعين مثل هذا يدخل عليك، وقد انزل الله: والذي تولى كبره منهم سورة النور آية 11، فقالت: واي عذاب اشد من العمى، وقالت: وقد كان يرد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:" دَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى عَائِشَةَ، فَشَبَّبَ، وَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ، قَالَتْ: لَسْتَ كَذَاكَ، قُلْتُ: تَدَعِينَ مِثْلَ هَذَا يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ سورة النور آية 11، فَقَالَتْ: وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى، وَقَالَتْ: وَقَدْ كَانَ يَرُدُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا، کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ لیکن اے حسان! تو ایسا نہیں ہے۔ بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کر چکا ہے «والذي تولى كبره منهم‏» کہ اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا۔ الخ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نابینا ہو جانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہو گا، پھر انہوں نے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے (کیا یہ شرف ان کے لیے کم ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Masruq: Hassan came to Aisha and said the following poetic Verse: 'A chaste pious woman who arouses no suspicion. She never talks against chaste heedless women behind their backs.' `Aisha said, "But you are not," I said (to `Aisha), "Why do you allow such a person to enter upon you after Allah has revealed: "...and as for him among them who had the greater share therein'?" (24.11) She said, "What punishment is worse than blindness?" She added, "And he used to defend Allah's Apostle against the pagans (in his poetry).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 280


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
11. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} وَقَوْلِهِ: {وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ}:
11. باب: آیت کی تفسیر ”یقیناً جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنین کے درمیان بےحیائی کا چرچا رہے ان کے لیے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی درد ناک سزا ہے اللہ علم رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے اور اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق بڑا رحیم ہے (تو تم بھی نہ بچتے)“۔ تشیع بمعنی تظھر ہے یعنی ظا ہر ہو۔ آیت کی تفسیر ”یعنی اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں کو امداد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں، بلکہ ان کو چاہئے کہ وہ ان کی لغزشیں معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے۔ بیشک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے“۔
(11) Chapter. “Verily, those who like that (the crime of) illegal sexual intercourse should be propagated about those who believe... (up to)... And that Allah is full of kindness, Most Merciful.” (V.24:19,20) ۔ "And let not those among you who are blessed with grace and wealth swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, Al-Masakin (the poor)... (up to)... And Allah is Oft-Forgiving, Most Mercilful." (V.24:22)
حدیث نمبر: 4757
Save to word مکررات اعراب English
وقال ابو اسامة، عن هشام بن عروة، قال: اخبرني ابي، عن عائشة، قالت: لما ذكر من شاني الذي ذكر وما علمت به قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطيبا، فتشهد فحمد الله، واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد اشيروا علي في اناس ابنوا اهلي، وايم الله ما علمت على اهلي من سوء، وابنوهم بمن والله ما علمت عليه من سوء قط، ولا يدخل بيتي قط إلا وانا حاضر، ولا غبت في سفر إلا غاب معي، فقام سعد بن معاذ، فقال: ائذن لي يا رسول الله، ان نضرب اعناقهم، وقام رجل من بني الخزرج، وكانت ام حسان بن ثابت من رهط ذلك الرجل، فقال: كذبت اما والله ان لو كانوا من الاوس ما احببت ان تضرب اعناقهم حتى كاد ان يكون بين الاوس والخزرج شر في المسجد وما علمت، فلما كان مساء ذلك اليوم خرجت لبعض حاجتي ومعي ام مسطح، فعثرت، وقالت: تعس مسطح، فقلت: اي ام تسبين ابنك، وسكتت، ثم عثرت الثانية، فقالت: تعس مسطح، فقلت لها: اي ام اتسبين ابنك، فسكتت، ثم عثرت الثالثة، فقالت: تعس مسطح، فانتهرتها، فقالت: والله ما اسبه إلا فيك، فقلت: في اي شاني، قالت: فبقرت لي الحديث، فقلت: وقد كان هذا؟ قالت:، نعم والله، فرجعت إلى بيتي كان الذي خرجت له لا اجد منه قليلا ولا كثيرا ووعكت، فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارسلني إلى بيت ابي، فارسل معي الغلام، فدخلت الدار، فوجدت ام رومان في السفل، وابا بكر فوق البيت يقرا، فقالت امي: ما جاء بك يا بنية؟ فاخبرتها، وذكرت لها الحديث وإذا هو لم يبلغ منها مثل ما بلغ مني، فقالت: يا بنية، خففي عليك الشان، فإنه والله لقلما كانت امراة حسناء عند رجل يحبها لها ضرائر إلا حسدنها، وقيل فيها وإذا هو لم يبلغ منها ما بلغ مني، قلت وقد علم به ابي؟ قالت: نعم، قلت: ورسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: نعم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم واستعبرت، وبكيت، فسمع ابو بكر صوتي وهو فوق البيت يقرا، فنزل، فقال لامي: ما شانها؟ قالت: بلغها الذي ذكر من شانها، ففاضت عيناه، قال: اقسمت عليك اي بنية إلا رجعت إلى بيتك، فرجعت، ولقد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي، فسال عني خادمتي، فقالت: لا والله، ما علمت عليها عيبا إلا انها كانت ترقد حتى تدخل الشاة، فتاكل خميرها او عجينها، وانتهرها بعض اصحابه، فقال: اصدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اسقطوا لها به، فقالت: سبحان الله، والله ما علمت عليها إلا ما يعلم الصائغ على تبر الذهب الاحمر، وبلغ الامر إلى ذلك الرجل الذي قيل له، فقال: سبحان الله، والله ما كشفت كنف انثى قط، قالت عائشة: فقتل شهيدا في سبيل الله، قالت: واصبح ابواي عندي، فلم يزالا حتى دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد صلى العصر، ثم دخل، وقد اكتنفني ابواي عن يميني، وعن شمالي، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" اما بعد يا عائشة، إن كنت قارفت سوءا او ظلمت فتوبي إلى الله، فإن الله يقبل التوبة من عباده"، قالت: وقد جاءت امراة من الانصار فهي جالسة بالباب، فقلت: الا تستحي من هذه المراة ان تذكر شيئا، فوعظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالتفت إلى ابي، فقلت له: اجبه، قال: فماذا اقول؟ فالتفت إلى امي، فقلت: اجيبيه، فقالت: اقول ماذا؟ فلما لم يجيباه تشهدت فحمدت الله، واثنيت عليه بما هو اهله، ثم قلت: اما بعد، فوالله لئن، قلت لكم: إني لم افعل والله عز وجل يشهد إني لصادقة ما ذاك بنافعي عندكم لقد تكلمتم به واشربته قلوبكم، وإن قلت إني قد فعلت والله يعلم اني لم افعل، لتقولن قد باءت به على نفسها، وإني والله ما اجد لي ولكم مثلا، والتمست اسم يعقوب، فلم اقدر عليه إلا ابا يوسف حين، قال: فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون سورة يوسف آية 18، وانزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم من ساعته، فسكتنا، فرفع عنه وإني لاتبين السرور في وجهه، وهو يمسح جبينه، ويقول:" ابشري يا عائشة، فقد انزل الله براءتك"، قالت: وكنت اشد ما كنت غضبا، فقال لي ابواي: قومي إليه، فقلت: لا، والله لا اقوم إليه، ولا احمده، ولا احمدكما، ولكن احمد الله الذي انزل براءتي، لقد سمعتموه، فما انكرتموه، ولا غيرتموه، وكانت عائشة، تقول: اما زينب ابنة جحش، فعصمها الله بدينها، فلم تقل إلا خيرا، واما اختها حمنة، فهلكت فيمن هلك، وكان الذي يتكلم فيه مسطح، وحسان بن ثابت، والمنافق عبد الله بن ابي، وهو الذي كان يستوشيه ويجمعه، وهو الذي تولى كبره منهم هو وحمنة، قالت: فحلف ابو بكر ان لا ينفع مسطحا بنافعة ابدا، فانزل الله عز وجل: ولا ياتل اولو الفضل منكم سورة النور آية 22 إلى آخر الآية يعني ابا بكر والسعة ان يؤتوا اولي القربى والمساكين سورة النور آية 22 يعني مسطحا إلى قوله الا تحبون ان يغفر الله لكم والله غفور رحيم سورة النور آية 22 حتى، قال ابو بكر: بلى، والله يا ربنا، إنا لنحب ان تغفر لنا وعاد له بما كان يصنع"
وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا يَدْخُلُ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ نَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، وَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: أَيْ أُمِّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ، وَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعَسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمِّ أَتَسُبِّينَ ابْنَكِ، فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعَسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَأْنِي، قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، فَقُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا؟ قَالَتْ:، نَعَمْ وَاللَّهِ، فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي كَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا وَوُعِكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي، فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ، فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ، وَأَبَا بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ؟ فَأَخْبَرْتُهَا، وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مِثْلَ مَا بَلَغَ مِنِّي، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ، خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا، وَقِيلَ فِيهَا وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْبَرْتُ، وَبَكَيْتُ، فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا؟ قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، قَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكِ أَيْ بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ، فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ، فَتَأْكُلَ خَمِيرَهَا أَوْ عَجِينَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، وَبَلَغَ الْأَمْرُ إِلَى ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي، فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ، وَقَدِ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ، إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ مِنْ عِبَادِهِ"، قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِ مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، فَقُلْتُ لَهُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي، فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ، فَقَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا؟ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَاهُ تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ، وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَّا بَعْدُ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ، قُلْتُ لَكُمْ: إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ بِهِ وَأُشْرِبَتْهُ قُلُوبُكُمْ، وَإِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ، لَتَقُولُنَّ قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ، قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ، فَسَكَتْنَا، فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ، وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَيَقُولُ:" أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ"، قَالَتْ: وَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلَا أَحْمَدُهُ، وَلَا أَحْمَدُكُمَا، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ، فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ، وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا، فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ، قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ سورة النور آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ سورة النور آية 22 يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22 حَتَّى، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى، وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا، إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ"
اور ابواسامہ حماد بن اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد و ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بدنام کیا ہے اور اللہ کی قسم! کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص (صفوان بن معطل) کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم! ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوا تو میری موجودگی ہی میں داخل ہوا اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتا اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس کے بعد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں حکم فرمایئے کہ ہم ایسے مردود لوگوں کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک صاحب (سعد بن عبادہ) کھڑے ہوئے، حسان بن ثابت کی والدہ اسی قبیلہ خزرج سے تھیں، انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ تم جھوٹے ہو، اگر وہ لوگ (تہمت لگانے والے) قبیلہ اوس کے ہوتے تو تم کبھی انہیں قتل کرنا پسند نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد ہی میں اوس و خزرج کے قبائل میں باہم فساد کا خطرہ ہو گیا، اس فساد کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی، اسی دن کی رات میں، میں قضائے حاجت کے لیے باہر نکلی، میرے ساتھ ام مسطح بھی تھیں۔ وہ (راستے میں) پھسل گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے کہا، آپ اپنے بیٹے کو کوستی ہیں، اس پر وہ خاموش ہو گئیں، پھر دوبارہ وہ پھسلیں اور ان کی زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے پھر کہا کہ اپنے بیٹے کو کوستی ہو، پھر وہ تیسری مرتبہ پھسلیں تو میں نے پھر انہیں ٹوکا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ کی قسم! میں تو تیری ہی وجہ سے اسے کوستی ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے کس معاملہ میں انہیں آپ کوس رہی ہیں؟ بیان کیا۔ کہ اب انہوں نے طوفان کا سارا قصہ بیان کیا میں نے پوچھا، کیا واقعی یہ سب کچھ کہا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! پھر میں اپنے گھر گئی۔ لیکن (ان واقعات کو سن کر غم کا یہ حال تھا کہ) مجھے کچھ خبر نہیں کہ کس کام کے لیے میں باہر گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں، ذرہ برابر بھی مجھے اس کا احساس نہیں رہا۔ اس کے بعد مجھے بخار چڑھ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے ذرا میرے والد کے گھر پہنچوا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک بچہ کو کر دیا۔ میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ام رومان نیچے کے حصہ میں ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاخانے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ والدہ نے پوچھا بیٹی اس وقت کیسے آ گئیں۔ میں نے وجہ بتائی اور واقعہ کی تفصیلات سنائیں ان باتوں سے جتنا غم مجھ کو تھا ایسا معلوم ہوا کہ ان کو اتنا غم نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا، بیٹی اتنا فکر کیوں کرتی ہو کم ہی ایسی کوئی خوبصورت عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور وہ اس سے حسد نہ کریں اور اس میں سو عیب نہ نکالیں۔ اس تہمت سے وہ اس درجہ بالکل بھی متاثر نہیں معلوم ہوتی تھیں جتنا میں متاثر تھی۔ میں نے پوچھا والد کے علم میں بھی یہ باتیں آ گئیں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی علم میں سب کچھ ہے۔ میں یہ سن کر رونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی میری آواز سن لی، وہ گھر کے بالائی حصہ میں قرآن پڑھ رہے تھے، اتر کر نیچے آئے اور والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تمام باتیں اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہیں۔ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا: بیٹی! تمہیں قسم دیتا ہوں، اپنے گھر واپس چلی جاؤ چنانچہ میں واپس چلی آئی۔ (جب میں اپنے والدین کے گھر آ گئی تھی تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی، البتہ ایسا ہو جایا کرتا تھا (کم عمری کی غفلت کی وجہ سے) کہ (آٹا گوندھتے ہوئے) سو جایا کرتیں اور بکری آ کر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کو معلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اللہ کی قسم! کہ میں نے آج تک کسی (غیر) عورت کا کپڑا نہیں کھولا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آ گئے اور میرے پاس ہی رہے۔ آخر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ میرے والدین مجھے دائیں اور بائیں طرف سے پکڑے ہوئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: امابعد! اے عائشہ! اگر تم نے واقعی کوئی برا کام کیا ہے اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ کرو، کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک انصاری خاتون بھی آ گئی تھیں اور دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے عرض کی، آپ ان خاتون کا لحاظ نہیں فرماتے کہیں یہ (اپنی سمجھ کے مطابق کوئی الٹی سیدھی) بات باہر کہہ دیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی، اس کے بعد میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہی جواب دیجئیے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا کہوں جب کسی نے میری طرف سے کچھ نہیں کہا تو میں نے شہادت کے بعد اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد و ثنا کی اور کہا: امابعد! اللہ کی قسم! اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی اور اللہ عزوجل گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچی ہوں، تو آپ لوگوں کے خیال کو بدلنے میں میری یہ بات مجھے کوئی نفع نہیں پہنچائے گی، کیونکہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں رچ بس گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے واقعتاً یہ کام کیا ہے حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے، تو آپ لوگ کہیں گے کہ اس نے تو جرم کا اقرار کر لیا ہے۔ اللہ کی قسم! میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» پس صبر ہی اچھا ہے اور تم لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ یعقوب علیہ السلام کا نام یاد آ جائے لیکن نہیں یاد آیا۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور ہم سب خاموش ہو گئے۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پسینہ سے) اپنی پیشانی صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکی نازل کر دی ہے۔ بیان کیا کہ اس وقت مجھے بڑا غصہ آ رہا تھا۔ میرے والدین نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی نہ آپ کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی، میں تو صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی جس نے میری برات نازل کی ہے۔ آپ لوگوں نے تو یہ افواہ سنی اور اس کا انکار بھی نہ کر سکے، اس کے ختم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دینداری کی وجہ سے اس تہمت میں پڑنے سے بچا لیا۔ میری بابت انہوں نے خیر کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ اس طوفان کو پھیلانے میں مسطح اور حسان اور منافق عبداللہ بن ابی نے حصہ لیا تھا۔ عبداللہ بن ابی منافق ہی تو کھود کھود کر اس کو پوچھتا اور اس پر حاشیہ چڑھاتا، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا۔ «وهو الذي تولى كبره» سے وہ اور حمنہ مراد ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ مسطح کو کوئی فائدہ آئندہ کبھی وہ نہیں پہنچائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم‏» اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں الخ، اس سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ قرابت والوں اور مسکینوں کو اس سے مراد مسطح ہیں۔ (دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں) اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم‏» کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے تک۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم تو اسی کے خواہشمند ہیں کہ تو ہماری مغفرت فرما۔ پھر وہ پہلے کی طرح مسطح کو جو دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Aisha: When there was said about me what was said which I myself was unaware of, Allah's Messenger got up and addressed the people. He recited Tashah-hud, and after glorifying and praising Allah as He deserved, he said, "To proceed: O people Give me your opinion regarding those people who made a forged story against my wife. By Allah, I do not know anything bad about her. By Allah, they accused her of being with a man about whom I have never known anything bad, and he never entered my house unless I was present there, and whenever I went on a journey, he went with me." Sa`d bin Mu`adh got up and said, "O Allah's Messenger Allow me to chop their heads off". Then a man from the Al-Khazraj (Sa`d bin 'Ubada) to whom the mother of (the poet) Hassan bin Thabit was a relative, got up and said (to Sa`d bin Mu`adh), "You have told a lie! By Allah, if those persons were from the Aus Tribe, you would not like to chop their heads off." It was probable that some evil would take place between the Aus and the Khazraj in the mosque, and I was unaware of all that. In the evening of that day, I went out for some of my needs (i.e. to relieve myself), and Um Mistah was accompanying me. On our return, Um Mistah stumbled and said, "Let Mistah. be ruined" I said to her, "O mother Why do you abuse your Son" On that Um Mistah became silent for a while, and stumbling again, she said, "Let Mistah be ruined" I said to her, "Why do you abuse your son?" She stumbled for the third time and said, "Let Mistah be ruined" whereupon I rebuked her for that. She said, "By Allah, I do not abuse him except because of you." I asked her, "Concerning what of my affairs?" So she disclosed the whole story to me. I said, "Has this really happened?" She replied, "Yes, by Allah." I returned to my house, astonished (and distressed) that I did not know for what purpose I had gone out. Then I became sick (fever) and said to Allah's Messenger "Send me to my father's house." So he sent a slave with me, and when I entered the house, I found Um Rum-an (my mother) downstairs while (my father) Abu Bakr was reciting something upstairs. My mother asked, "What has brought you, O (my) daughter?" I informed her and mentioned to her the whole story, but she did not feel it as I did. She said, "O my daughter! Take it easy, for there is never a charming lady loved by her husband who has other wives but that they feel jealous of her and speak badly of her." But she did not feel the news as I did. I asked (her), "Does my father know about it?" She said, "yes" I asked, Does Allah's Messenger know about it too?" She said, "Yes, Allah's Messenger does too." So the tears filled my eyes and I wept. Abu Bakr, who was reading upstairs heard my voice and came down and asked my mother, "What is the matter with her? " She said, "She has heard what has been said about her (as regards the story of Al-lfk)." On that Abu- Bakr wept and said, "I beseech you by Allah, O my daughter, to go back to your home". I went back to my home and Allah's Messenger had come to my house and asked my maid-servant about me (my character). The maid-servant said, "By Allah, I do not know of any defect in her character except that she sleeps and let the sheep enter (her house) and eat her dough." On that, some of the Prophet's companions spoke harshly to her and said, "Tell the truth to Allah's Messenger ." Finally they told her of the affair (of the slander). She said, "Subhan Allah! By Allah, I know nothing against her except what goldsmith knows about a piece of pure gold." Then this news reached the man who was accused, and he said, "Subhan Allah! By Allah, I have never uncovered the private parts of any woman." Later that man was martyred in Allah's Cause. Next morning my parents came to pay me a visit and they stayed with me till Allah's Messenger came to me after he had offered the `Asr prayer. He came to me while my parents were sitting around me on my right and my left. He praised and glorified Allah and said, "Now then O `Aisha! If you have committed a bad deed or you have wronged (yourself), then repent to Allah as Allah accepts the repentance from his slaves." An Al-Ansari woman had come and was sitting near the gate. I said (to the Prophet). "Isn't it improper that you speak in such a way in the presence of this lady? Allah's Apostle then gave a piece of advice and I turned to my father and requested him to answer him (on my behalf). My father said, "What should I say?" Then I turned to my mother and asked her to answer him. She said, "What should I say?" When my parents did not give a reply to the Prophet, I said, "I testify that none has the right to be worshipped except Allah, and that Muhammad is His Apostle!" And after praising and glorifying Allah as He deserves, I said, "Now then, by Allah, if I were to tell you that I have not done (this evil action) and Allah is a witness that I am telling the truth, that would not be of any use to me on your part because you (people) have spoken about it and your hearts have absorbed it; and if I were to tell you that I have done this sin and Allah knows that I have not done it, then you will say, 'She has confessed herself guilty." By Allah, 'I do not see a suitable example for me and you but the example of (I tried to remember Jacob's name but couldn't) Joseph's father when he said; So (for me) "Patience is most fitting against that which you assert. It is Allah (alone) whose help can be sought.' At that very hour the Divine Inspiration came to Allah's Messenger and we remained silent. Then the Inspiration was over and I noticed the signs of happiness on his face while he was removing (the sweat) from his forehead and saying, "Have the good tidings O ' "Aisha! Allah has revealed your innocence." At that time I was extremely angry. My parents said to me. "Get up and go to him." I said, "By Allah, I will not do it and will not thank him nor thank either of you, but I will thank Allah Who has revealed my innocence. You have heard this story but neither did not deny it nor change it (to defend me)," (Aisha used to say:) "But as regards Zainab bint Jahsh, (the Prophet's wife), Allah protected her because of her piety, so she did not say anything except good (about me), but her sister, Hamna, was ruined among those who were ruined. Those who used to speak evil about me were Mistah, Hassan bin Thabit, and the hypocrite, `Abdullah bin Ubai, who used to spread that news and tempt others to speak of it, and it was he and Hamna who had the greater share therein. Abu Bakr took an oath that he would never do any favor to Mistah at all. Then Allah revealed the Divine Verse: "Let not those among you who are good and wealthy (i.e. Abu Bakr) swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, and those in need, (i.e. Mistah) ...Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful." (24.22) On that, Abu Bakr said, "Yes, by Allah, O our Lord! We wish that You should forgive us." So Abu Bakr again started giving to Mistah the expenditure which he used to give him before.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 281


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
12. بَابُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ}:
12. باب: آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» کی تفسیر۔
(12) Chapter. “...and to draw their veils all over their Juyubihinna (i.e., their bodies, faces, necks and bosoms)...” (V.24:31)
حدیث نمبر: 4758
Save to word مکررات اعراب English
وقال احمد بن شبيب: حدثنا ابي، عن يونس، قال ابن شهاب: عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: يرحم الله نساء المهاجرات الاول لما انزل الله: وليضربن بخمرهن على جيوبهن سورة النور آية 31 شققن مروطهن فاختمرن بها"وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ سورة النور آية 31 شَقَّقْنَ مُرُوطَهُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِهَا"
اور احمد بن شبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد شبیب بن سعید نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن‏» اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔ (تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے) نازل کی، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان کے دوپٹے بنا لیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4759
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو نعيم، حدثنا إبراهيم بن نافع، عن الحسن بن مسلم، عن صفية بنت شيبة، ان عائشة رضي الله عنها كانت، تقول: لمانزلت هذه الآية: وليضربن بخمرهن على جيوبهن سورة النور آية 31 اخذن ازرهن، فشققنها من قبل الحواشي فاختمرن بها".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَتْ، تَقُولُ: لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ سورة النور آية 31 أَخَذْنَ أُزْرَهُنَّ، فَشَقَّقْنَهَا مِنْ قِبَلِ الْحَوَاشِي فَاخْتَمَرْنَ بِهَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے، ان سے صفیہ بنت شیبہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «وليضربن بخمرهن على جيوبهن‏» کہ اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں تو (انصار کی عورتوں نے) اپنے تہبندوں کو دونوں کنارے سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنا لیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Safiya bint Shaiba: `Aisha used to say: "When (the Verse): "They should draw their veils over their necks and bosoms," was revealed, (the ladies) cut their waist sheets at the edges and covered their faces with the cut pieces."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 282


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
25. سورة الْفُرْقَانِ:
25. باب: سورۃ الفرقان کی تفسیر۔
(25) SURAT AL-FURQAN (The Criterion)
حدیث نمبر: Q4760
Save to word اعراب English
وقال ابن عباس: هباء منثورا: ما تسفي به الريح، مد الظل: ما بين طلوع الفجر إلى طلوع الشمس، ساكنا: دائما، عليه دليلا: طلوع الشمس، خلفة: من فاته من الليل عمل ادركه بالنهار، او فاته بالنهار ادركه بالليل، وقال الحسن: هب لنا من ازواجنا: وذرياتنا قرة اعين في طاعة الله وما شيء اقر لعين المؤمن من ان يرى حبيبه في طاعة الله، وقال ابن عباس: ثبورا: ويلا، وقال غيره: السعير مذكر والتسعر والاضطرام التوقد الشديد، تملى عليه: تقرا عليه من امليت وامللت الرس المعدن جمعه رساس، ما يعبا، يقال: ما عبات به شيئا لا يعتد به، غراما: هلاكا، وقال مجاهد: وعتوا: طغوا، وقال ابن عيينة: عاتية: عتت عن الخزان.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَبَاءً مَنْثُورًا: مَا تَسْفِي بِهِ الرِّيحُ، مَدَّ الظِّلَّ: مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، سَاكِنًا: دَائِمًا، عَلَيْهِ دَلِيلًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ، خِلْفَةً: مَنْ فَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ عَمَلٌ أَدْرَكَهُ بِالنَّهَارِ، أَوْ فَاتَهُ بِالنَّهَارِ أَدْرَكَهُ بِاللَّيْلِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا: وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَمَا شَيْءٌ أَقَرَّ لِعَيْنِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ يَرَى حَبِيبَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُبُورًا: وَيْلًا، وَقَالَ غَيْرُهُ: السَّعِيرُ مُذَكَّرٌ وَالتَّسَعُّرُ وَالْاضْطِرَامُ التَّوَقُّدُ الشَّدِيدُ، تُمْلَى عَلَيْهِ: تُقْرَأُ عَلَيْهِ مِنْ أَمْلَيْتُ وَأَمْلَلْتُ الرَّسُّ الْمَعْدِنُ جَمْعُهُ رِسَاسٌ، مَا يَعْبَأُ، يُقَالُ: مَا عَبَأْتُ بِهِ شَيْئًا لَا يُعْتَدُّ بِهِ، غَرَامًا: هَلَاكًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَعَتَوْا: طَغَوْا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَاتِيَةٍ: عَتَتْ عَنِ الْخَزَّانِ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هباء منثورا‏» کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے (گرد و غبار وغیرہ)۔ «مد الظل‏» سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔ «ساكنا‏» کا معنی ہمیشہ۔ «عليه دليلا‏» میں «دليل» سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔ «خلفة‏» سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کر سکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کر سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا «قرة اعین» کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بن دے۔ مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثبورا‏» کے معنی ہلاکت خرابی۔ اوروں نے کہا «سعير» کا لفظ مذکر ہے، یہ «تسعر» سے نکلا ہے، «تسعر» اور «اضطرام» آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔ «تملى عليه‏» اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ «أمليت» اور «أمللت» سے نکلا ہے۔ «الرس»، «كان» کو کہتے ہیں اس کی جمع «رساس» آتی ہے۔ «كان» بمعنی «معدن ما يعبأ‏» عرب لوگ کہتے ہیں «ما عبأت به شيئا» یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ «غراما‏» کے معنی ہلاکت اور مجاہد نے کہا «عتوا‏» کا معنی شرارت کے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے کہا «عاتية‏» کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔

Previous    35    36    37    38    39    40    41    42    43    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.