9. باب: آیت کی تفسیر ”یعنی (معراج کی رات میں) ہم نے جو جو مناظر دکھلائے تھے، ان کو ہم نے ان لوگوں کی آزمائش کا سبب بنا دیا“۔
(9) Chapter. “And We made not the vision which We showed you (O Muhammad as an actual eye-witness and not as a dream on the night of Al-Isra), but a trial for mankind...” (V.17:60)
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنه، وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60، قال:" هي رؤيا عين، اريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به، والشجرة الملعونة سورة الإسراء آية 60، شجرة الزقوم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ:" هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ سورة الإسراء آية 60، شَجَرَةُ الزَّقُّومِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» میں «رؤيا» سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے (بیداری میں نہ کہ خواب میں) یعنی وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں دکھایا گیا اور «شجرة الملعونة» سے تھوہڑ کا درخت مراد ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: Regarding: 'And We granted the vision (Ascension to the Heaven "Miraj") which We showed you (O Muhammad as an actual eye witness) but as a trial for mankind.' (17.60) It was an actual eyewitness which was shown to Allah's Messenger during the night he was taken on a journey (through the heavens). And the cursed tree is the tree of Az-Zaqqum (a bitter pungent tree which grows at the bottom of Hell).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 240
10. باب: آیت کی تفسیر یعنی ”بیشک صبح کی نماز (فرشتوں کی حاضری) کا وقت ہے“۔
(10) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, the recitation of the Quran in the early dawn (i.e., the morning - Fajr prayer) is ever witnessed (attended by the angels in charge of mankind of the day and the night)." (V.17:78)
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، وابن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" فضل صلاة الجميع على صلاة الواحد خمس وعشرون درجة، وتجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الصبح". يقول ابو هريرة: اقرءوا إن شئتم وقرءان الفجر إن قرءان الفجر كان مشهودا سورة الإسراء آية 78.(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فَضْلُ صَلَاةِ الْجَمِيعِ عَلَى صَلَاةِ الْوَاحِدِ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ دَرَجَةً، وَتَجْتَمِعُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ". يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَقُرْءَانَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْءَانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا سورة الإسراء آية 78.
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف اور سعید بن مسیب اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات کے اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا» یعنی فجر میں قرآت قرآن زیادہ کیا کرو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے۔
Narrated Ibn Al-Musaiyab: Abu Huraira said, "The Prophet said, 'A prayer performed in congregation is twenty-five times more superior in reward to a prayer performed by a single person. The angels of the night and the angels of the day are assembled at the time of the Fajr (Morning) prayer." Abu Huraira added, "If you wish, you can recite:-- 'Verily! The recitation of the Qur'an in the early dawn (Morning prayer) is ever witnessed (attended by the angels of the day and the night).' (17.78)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 241
11. باب: آیت کی تفسیر ”قریب ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود میں اٹھائے گا“۔
(11) Chapter. The Statement of Allah: “It may be that your Lord will raise you to Maqam Mahmud (a station of praise and glory, i.e., the honour of intercession on the Day of Resurrection).” (V.17:79)
(مرفوع) حدثني إسماعيل بن ابان، حدثنا ابو الاحوص، عن آدم بن علي، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، يقول:" إن الناس يصيرون يوم القيامة جثا كل امة تتبع نبيها، يقولون: يا فلان، اشفع يا فلان، اشفع حتى تنتهي الشفاعة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذلك يوم يبعثه الله المقام المحمود".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" إِنَّ النَّاسَ يَصِيرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا كُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَّهَا، يَقُولُونَ: يَا فُلَانُ، اشْفَعْ يَا فُلَانُ، اشْفَعْ حَتَّى تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ".
مجھ سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے آدم بن علی نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ قیامت کے دن امتیں گروہ در گروہ چلیں گی۔ ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور (انبیاء سے) کہے گی کہ اے فلاں! ہماری شفاعت کرو (مگر وہ سب ہی انکار کر دیں گے) آخر شفاعت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔
Narrated Ibn `Umar: On the Day of Resurrection the people will fall on their knees and every nation will follow their prophet and they will say, "O so-and-so! Intercede (for us with Allah), "till (the right) intercession is given to the Prophet (Muhammad) and that will be the day when Allah will raise him into a station of praise and glory (i.e. Al-Maqam -al-Mahmud).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 242
(مرفوع) حدثنا علي بن عياش، حدثنا شعيب بن ابي حمزة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة، والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة". رواه حمزة بن عبد الله، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ". رَوَاهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة".»”اے اللہ! اس کامل پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کیجؤ۔ جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔“ تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت ضروری ہو گی۔ اس حدیث کو حمزہ بن عبداللہ نے بھی اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Messenger said, "Whoever, after listening to the Adhan (for the prayer) says, 'O Allah, the Lord of this complete call and of this prayer, which is going to be established! Give Muhammad Al-Wasila and Al-Fadila and raise him to Al-Maqam-al-Mahmud which You have promised him,' will be granted my intercession for him on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 243
12. باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ کہہ دیں کہ حق (اب تو غالب) آ ہی گیا اور باطل مٹ ہی گیا، بیشک باطل تو مٹنے والا ہی تھا“ «يزهق» کے معنی ہلاک ہوا۔
(12) Chapter. “And say ’Truth (i.e., Islamic Monotheism or this Quran or Jihad against polytheists) has come and Batil (falsehood i.e., Satan or polytheism, etc.) has vanished...’ " (V.17:81)
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم مكة وحول البيت ستون وثلاث مائة نصب، فجعل يطعنها بعود في يده، ويقول:" جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَحَوْلَ الْبَيْتِ سِتُّونَ وَثَلَاثُ مِائَةِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ، وَيَقُولُ:" جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں (فتح کے بعد) داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ایک کو ٹکراتے جاتے اور پڑھتے جاتے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد» حق آیا اور جھوٹ نابود ہوا بیشک جھوٹ نابود ہونے والا ہی تھا۔
Narrated `Abdullah bin Masud: Allah's Messenger entered Mecca (in the year of the Conquest) and there were three-hundred and sixty idols around the Ka`ba. He then started hitting them with a stick in his hand and say: 'Truth (i.e. Islam) has come and falsehood (disbelief) vanished. Truly falsehood (disbelief) is ever bound to vanish.' (17.81) 'Truth has come and falsehood (Iblis) can not create anything.' (34.49)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 244
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، قال: حدثني إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله رضي الله عنه، قال:" بينا انا مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث وهو متكئ على عسيب، إذ مر اليهود، فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح؟ فقال: ما رايكم إليه؟ وقال بعضهم: لا يستقبلكم بشيء تكرهونه، فقالوا سلوه؟ فسالوه عن الروح، فامسك النبي صلى الله عليه وسلم، فلم يرد عليهم شيئا، فعلمت انه يوحى إليه، فقمت مقامي، فلما نزل الوحي، قال: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، إِذْ مَرَّ الْيَهُودُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ؟ فَقَالَ: مَا رَأْيُكُمْ إِلَيْهِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا سَلُوهُ؟ فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ مَقَامِي، فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو؟ دوسرا یہودی بولا۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں، جو تم کو ناپسند ہو۔ رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے۔ اس لیے میں وہیں کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا» کہ ”اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔“
Narrated `Abdullah: While I was in the company of the Prophet on a farm and he was reclining on a palm leave stalk, some Jews passed by. Some of them said to the others. "Ask him (the Prophet about the spirit." Some of them said, "What urges you to ask him about it" Others said, "(Don't) lest he should give you a reply which you dislike." But they said, "Ask him." So they asked him about the Spirit. The Prophet kept quiet and did not give them any answer. I knew that he was being divinely inspired so I stayed at my place. When the divine inspiration had been revealed, the Prophet said. "They ask you (O, Muhammad) concerning the Spirit, Say: "The spirit," its knowledge is with my Lord; and of knowledge you (mankind) have been given only a Little." (17.85)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 245
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا هشيم، حدثنا ابو بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، في قوله تعالى: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110، قال:" نزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، كان إذا صلى باصحابه رفع صوته بالقرآن، فإذا سمعه المشركون سبوا القرآن، ومن انزله، ومن جاء به، فقال الله تعالى لنبيه صلى الله عليه وسلم: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 اي بقراءتك، فيسمع المشركون، فيسبوا القرآن، ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك، فلا تسمعهم، وابتغ بين ذلك سبيلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ:" نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَإِذَا سَمِعَهُ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ، وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلَا تُسْمِعُهُمْ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها»”اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھئے اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے“ کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں (کافروں کے ڈر سے) چھپے رہتے تو اس زمانہ میں جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے، مشرکین سنتے تو قرآن کو بھی گالی دیتے اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ نماز نہ تو بہت پکار کر پڑھیں (یعنی قرآت خوب جہر کے ساتھ نہ کریں) کہ مشرکین سن کر گالیاں دیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں، بلکہ درمیانی آواز میں پڑھا کریں۔
Narrated Ibn `Abbas: (regarding): 'Neither say your, prayer aloud, nor say it in a low tone.' (17.110) This Verse was revealed while Allah's Messenger was hiding himself in Mecca. When he prayed with his companions, he used to raise his voice with the recitation of Qur'an, and if the pagans happened to hear him, they would abuse the Qur'an, the One who revealed it and the one who brought it. Therefore Allah said to His Prophet : 'Neither say your prayer aloud.' (17.110) i.e. do not recite aloud lest the pagans should hear you, but follow a way between.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 246
مجھ سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ آیت دعا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
وقال مجاهد: تقرضهم: تتركهم، وكان له ثمر: ذهب وفضة، وقال غيره: جماعة الثمر، باخع، مهلك، اسفا: ندما الكهف الفتح في الجبل، والرقيم الكتاب مرقوم مكتوب من الرقم، ربطنا على قلوبهم: الهمناهم صبرا، لولا ان ربطنا على قلبها شططا: إفراطا الوصيد الفناء جمعه، وصائد ووصد، ويقال الوصيد الباب، مؤصدة: مطبقة آصد الباب، واوصد، بعثناهم: احييناهم، ازكى: اكثر، ويقال: احل، ويقال: اكثر ريعا، قال ابن عباس: اكلها ولم تظلم: لم تنقص، وقال سعيد، عن ابن عباس: الرقيم اللوح من رصاص كتب عاملهم اسماءهم، ثم طرحه في خزانته، فضرب الله على آذانهم فناموا، وقال غيره: والت تئل تنجو، وقال مجاهد: موئلا: محرزا، لا يستطيعون سمعا: لا يعقلون.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَقْرِضُهُمْ: تَتْرُكُهُمْ، وَكَانَ لَهُ ثُمُرٌ: ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَمَاعَةُ الثَّمَرِ، بَاخِعٌ، مُهْلِكٌ، أَسَفًا: نَدَمًا الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ، وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنَ الرَّقْمِ، رَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ: أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا، لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا شَطَطًا: إِفْرَاطًا الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ جَمْعُهُ، وَصَائِدُ وَوُصُدٌ، وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ، مُؤْصَدَةٌ: مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ، وَأَوْصَدَ، بَعَثْنَاهُمْ: أَحْيَيْنَاهُمْ، أَزْكَى: أَكْثَرُ، وَيُقَالُ: أَحَلُّ، وَيُقَالُ: أَكْثَرُ رَيْعًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُكْلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ: لَمْ تَنْقُصْ، وَقَالَ سَعِيدٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: الرَّقِيمُ اللَّوْحُ مِنْ رَصَاصٍ كَتَبَ عَامِلُهُمْ أَسْمَاءَهُمْ، ثُمَّ طَرَحَهُ فِي خِزَانَتِهِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَلَتْ تَئِلُ تَنْجُو، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَوْئِلًا: مَحْرِزًا، لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا: لَا يَعْقِلُونَ.
مجاہد نے کہا «تقرضهم» کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔ «وكان له ثمر» میں «ثمر» سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا «ثمر» یعنی پھل کی جمع ہے۔ «باخع» کا معنی ہلاک کرنے والا۔ «أسفا» ندامت اور رنج سے۔ «كهف» پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ «الرقيم» کے معنی لکھا ہوا بمعنی «مرقوم» یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے «رقم» سے۔ «ربطنا على قلوبهم» ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورۃ قصص میں ہے۔ «لولا أن ربطنا على قلبها»(وہاں بھی صبر کے معنی ہیں)۔ «شططا» حد سے بڑھ جانا۔ «مرفقا» جس چیز پر تکیہ لگائے۔ «تزاور» زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے «ازور» ہے بہت جھکنے والا۔ «فجوة» کشادہ جگہ اس کی جمع «فجوات» اور «فجاء» آتی ہے جیسے «زكوة» کی جمع «زكاء» ہے۔ اور «وصيدا» آنگن، صحن اس کی جمع «وصائد» اور «وصد» ہے۔ بعضوں نے کہا «وصيد» کے معنی دروازہ۔ «مؤصدة» کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں «آصد الباب» یعنی اس نے دروازہ بند کر دیا۔ «بعثناهم» ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کر دیا۔ «أزكى طعاما» اور «أوصد الباب» یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ «أكلها» اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔ «ولم تظلم» میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا۔ «رقيم» وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔ «فضرب الله على آذانهم» اللہ نے ان کے کان بند کر دیئے۔ (ان پر پردہ ڈال دیا) وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔ «موئلا» وال «يئل» سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا «موئل» محفوظ مقام۔ «لا يستطيعون سمعا» کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔