(موقوف) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت عبد الرحمن بن يزيد، قال: سمعت ابن مسعود رضي الله عنه، قال في بني إسرائيل، والكهف، ومريم:" إنهن من العتاق الاول، وهن من تلادي، فسينغضون إليك رءوسهم"، قال ابن عباس:" يهزون"، وقال غيره: نغضت سنك، اي تحركت.(موقوف) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَالْكَهْفِ، وَمَرْيَمَ:" إِنَّهُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ، وَهُنَّ مِنْ تِلَادِي، فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" يَهُزُّونَ"، وَقَالَ غَيْرُهُ: نَغَضَتْ سِنُّكَ، أَيْ تَحَرَّكَتْ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق عمرو بن عبیداللہ سبیعی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ الکہف اور سورۃ مریم کے متعلق کہا کہ یہ اول درجہ کی عمدہ نہایت فصیح و بلیغ سورتیں ہیں اور میری پرانی یاد کی ہوئی (آیت) «فسينغضون» کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اپنے سر ہلائیں گے اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ یہ «نغضت سنك» سے نکلا ہے یعنی تیرا دانت ہل گیا۔
اخبرناهم انهم سيفسدون، والقضاء على وجوه، وقضى ربك: امر ربك ومنه الحكم، إن ربك يقضي بينهم، ومنه الخلق، فقضاهن: سبع سموات خلقهن، نفيرا: من ينفر معه، وليتبروا: يدمروا، ما علوا، حصيرا: محبسا محصرا، حق: وجب، ميسورا: لينا، خطئا: إثما وهو اسم من خطئت والخطا مفتوح مصدره من الإثم خطئت بمعنى اخطات، تخرق: تقطع، وإذ هم نجوى: مصدر من ناجيت فوصفهم بها والمعنى يتناجون، رفاتا: حطاما، واستفزز: استخف، بخيلك: الفرسان والرجل والرجال الرجالة واحدها راجل مثل صاحب وصحب وتاجر وتجر، حاصبا: الريح العاصف والحاصب ايضا ما ترمي به الريح ومنه، حصب جهنم: يرمى به في جهنم وهو حصبها، ويقال حصب في الارض ذهب والحصب مشتق من الحصباء والحجارة، تارة: مرة وجماعته تيرة وتارات، لاحتنكن:، يقال: احتنك فلان ما عند فلان من علم استقصاه، طائره: حظه، قال ابن عباس: كل سلطان في القرآن فهو حجة، ولي من الذل: لم يحالف احدا.أَخْبَرْنَاهُمْ أَنَّهُمْ سَيُفْسِدُونَ، وَالْقَضَاءُ عَلَى وُجُوهٍ، وَقَضَى رَبُّكَ: أَمَرَ رَبُّكَ وَمِنْهُ الْحُكْمُ، إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ، وَمِنْهُ الْخَلْقُ، فَقَضَاهُنَّ: سَبْعَ سَمَوَاتٍ خَلَقَهُنَّ، نَفِيرًا: مَنْ يَنْفِرُ مَعَهُ، وَلِيُتَبِّرُوا: يُدَمِّرُوا، مَا عَلَوْا، حَصِيرًا: مَحْبِسًا مَحْصَرًا، حَقَّ: وَجَبَ، مَيْسُورًا: لَيِّنًا، خِطْئًا: إِثْمًا وَهُوَ اسْمٌ مِنْ خَطِئْتَ وَالْخَطَأُ مَفْتُوحٌ مَصْدَرُهُ مِنَ الْإِثْمِ خَطِئْتُ بِمَعْنَى أَخْطَأْتُ، تَخْرِقَ: تَقْطَعَ، وَإِذْ هُمْ نَجْوَى: مَصْدَرٌ مِنْ نَاجَيْتُ فَوَصَفَهُمْ بِهَا وَالْمَعْنَى يَتَنَاجَوْنَ، رُفَاتًا: حُطَامًا، وَاسْتَفْزِزْ: اسْتَخِفَّ، بِخَيْلِكَ: الْفُرْسَانِ وَالرَّجْلُ وَالرِّجَالُ الرَّجَّالَةُ وَاحِدُهَا رَاجِلٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ، حَاصِبًا: الرِّيحُ الْعَاصِفُ وَالْحَاصِبُ أَيْضًا مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ وَمِنْهُ، حَصَبُ جَهَنَّمَ: يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ وَهُوَ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ حَصَبَ فِي الْأَرْضِ ذَهَبَ وَالْحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنَ الْحَصْبَاءِ وَالْحِجَارَةِ، تَارَةً: مَرَّةً وَجَمَاعَتُهُ تِيَرَةٌ وَتَارَاتٌ، لَأَحْتَنِكَنَّ:، يُقَالُ: احْتَنَكَ فُلَانٌ مَا عِنْدَ فُلَانٍ مِنْ عِلْمٍ اسْتَقْصَاهُ، طَائِرَهُ: حَظَّهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُلُّ سُلْطَانٍ فِي الْقُرْآنِ فَهُوَ حُجَّةٌ، وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ: لَمْ يُحَالِفْ أَحَدًا.
اور «قضاء» کے کئی معانی آئے ہیں۔ جیسے آیت «وقضى ربك ان لا تعبدوا» میں یہ معنی ہے کہ اللہ نے حکم دیا اور فیصلہ کرنے کے بھی معنی ہیں جیسے آیت «إن ربك يقضي بينهم» میں ہے اور پیدا کرنے کے بھی معنی میں ہے جیسے «فقضاهن سبع سموات» میں ہے۔ «نفيرا» وہ لوگ جو آدمی کے ساتھ لڑنے کو نکلیں۔ «وليتبروا ما علوا» یعنی جن شہروں سے غالب ہوں ان کو تباہ کریں۔ «حصيرا» قید خانہ، جیل حق واجب ہوا۔ «ميسورا» نرم، ملائم۔ «خطئا» گناہ یہ اسم ہے «خطئت» سے اور «خطئا» بالفتح مصدر ہے یعنی گناہ کرنا۔ «خطئت» بکسر طاء اور «اخطات» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی میں نے قصور کیا غلطی کی۔ «لن تخرق» تو زمین کو طے نہیں کر سکے گا۔ (کیونکہ زمین بہت بڑی ہے) «نجوى» مصدر ہے۔ «ناجيت» سے یہ ان لوگوں کی صفت بیان کی ہے۔ یعنی آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ «رفاتا» ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ۔ «واستفزز» دیوانہ کر دے گمراہ کر دے۔ «بخيلك» اپنے سواروں سے۔ «رجل» پیادے اس کا مفرد «راجل» ہے جیسے «صاحب» کی جمع «صحب» اور «تاجر» کی جمع «تجر.» ہے۔ «حاصبا» آندھی۔ «حاصب» اس کو بھی کہتے ہیں جو آندھی اڑا کر لائے (ریت کنکر وغیرہ) اسی سے ہے «حصب جهنم» یعنی جو جہنم میں ڈالا جائے گا وہی جہنم کا «حصب» ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حصب في الأرض» زمین میں گھس گیا یہ «حصب»، «حصباء» سے نکلا ہے۔ «حصباء» پتھروں سنگریزوں کو کہتے ہیں۔ «تارة» ایک بار۔ اس کی جمع «تيرة» اور «تارات» آتی ہے۔ «لأحتنكن» ان کو تباہ کر دوں گا، جڑ سے کھود ڈالوں گا۔ عرب لوگ کہتے ہیں «احتنك فلان ما عند فلان» یعنی اس کو جتنی باتیں معلوم تھیں وہ سب اس نے معلوم کر لیں کوئی بات باقی نہ رہی۔ «طائره» اس کا نصیبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جہاں جہاں «سلطان» کا لفظ آیا ہے اس کا معنی دلیل اور حجت ہے۔ «ولي من الذل» یعنی اس نے کسی سے اس لیے دوستی نہیں کی ہے کہ وہ اس کو ذلت سے بچائے۔
3. باب: آیت «أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام» کی تفسیر۔
(3) Chapter. The Statement of Allah: “Glorified (and Exalted) is He (Allah) [above all that (evil) they associate with Him], Who took His slave (Muhammad ) for a Journey by Night from AI-Masjid-al-Haram (at Makkah) to Al-Masjid-al-Aqsa (in Jerusalem)...” (V.17:1)
(مرفوع) حدثنا عبدان، حدثنا عبد الله، اخبرنا يونس. ح وحدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال ابن المسيب: قال ابو هريرة:" اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به بإيلياء بقدحين من خمر ولبن، فنظر إليهما، فاخذ اللبن، قال جبريل:" الحمد لله الذي هداك للفطرة، لو اخذت الخمر غوت امتك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلِيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَأَخَذَ اللَّبَنَ، قَالَ جِبْرِيلُ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس بن یزید نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معراج کی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger was presented with two cups one containing wine and the other milk on the night of his night journey at Jerusalem. He looked at it and took the milk. Gabriel said, "Thanks to Allah Who guided you to the Fitra (i.e. Islam); if you had taken the wine, your followers would have gone astray.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 232
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال ابو سلمة: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" لما كذبني قريش قمت في الحجر، فجلى الله لي بيت المقدس، فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر إليه. زاد يعقوب بن إبراهيم. حدثنا ابن اخي ابن شهاب، عن عمه: لما كذبني قريش حين اسري بي إلى بيت المقدس نحوه، قاصفا: ريح تقصف كل شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَّى اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ. زَادَ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ: لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ حِينَ أُسْرِيَ بِي إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ نَحْوَهُ، قَاصِفًا: رِيحٌ تَقْصِفُ كُلَّ شَيْءٍ.
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھ کو واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں (کعبہ کے) مقام حجر میں کھڑا ہوا تھا اور میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا تھا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ یعقوب بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا کہ ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا ابن شہاب سے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جب مجھے قریش نے بیت المقدس کے معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا، پھر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔ «قاصفا» وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "When the Quraish disbelieved me (concerning my night journey), I stood up in Al- Hijr (the unroofed portion of the Ka`ba) and Allah displayed Bait-ul-Maqdis before me, and I started to inform them (Quraish) about its signs while looking at it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 233
كرمنا: واكرمنا واحد، ضعف الحياة، عذاب الحياة وضعف الممات عذاب الممات خلافك، وخلفك سواء وناى، تباعد شاكلته، ناحيته، وهي من شكله صرفنا، وجهنا قبيلا، معاينة ومقابلة، وقيل القابلة لانها مقابلتها، وتقبل ولدها خشية الإنفاق، انفق الرجل املق ونفق الشيء ذهب قتورا، مقترا للاذقان، مجتمع اللحيين والواحد ذقن، وقال مجاهد موفورا، وافرا تبيعا، ثائرا وقال ابن عباس: نصيرا خبت، طفئت، وقال ابن عباس لا تبذر، لا تنفق في الباطل ابتغاء رحمة، رزق مثبورا، ملعونا لا تقف، لا تقل فجاسوا، تيمموا يزجي الفلك يجري الفلك يخرون للاذقان، للوجوه.كَرَّمْنَا: وَأَكْرَمْنَا وَاحِدٌ، ضِعْفَ الْحَيَاةِ، عَذَابَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ عَذَابَ الْمَمَاتِ خِلَافَكَ، وَخَلْفَكَ سَوَاءٌ وَنَأَى، تَبَاعَدَ شَاكِلَتِهِ، نَاحِيَتِهِ، وَهِيَ مِنْ شَكْلِهِ صَرَّفْنَا، وَجَّهْنَا قَبِيلًا، مُعَايَنَةً وَمُقَابَلَةً، وَقِيلَ الْقَابِلَةُ لِأَنَّهَا مُقَابِلَتُهَا، وَتَقْبَلُ وَلَدَهَا خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ، أَنْفَقَ الرَّجُلُ أَمْلَقَ وَنَفِقَ الشَّيْءُ ذَهَبَ قَتُورًا، مُقَتِّرًا لِلْأَذْقَانِ، مُجْتَمَعُ اللَّحْيَيْنِ وَالْوَاحِدُ ذَقَنٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ مَوْفُورًا، وَافِرًا تَبِيعًا، ثَائِرًا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَصِيرًا خَبَتْ، طَفِئَتْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا تُبَذِّرْ، لَا تُنْفِقْ فِي الْبَاطِلِ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ، رِزْقٍ مَثْبُورًا، مَلْعُونًا لَا تَقْفُ، لَا تَقُلْ فَجَاسُوا، تَيَمَّمُوا يُزْجِي الْفُلْكَ يُجْرِي الْفُلْكَ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ، لِلْوُجُوهِ.
«كرمنا» اور «أكرمنا» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ «ضعف الحياة» زندگی کا عذاب۔ «ضعف الممات» موت کا عذاب۔ «خلافك» اور «خلفك»(دونوں قرآتیں ہیں) دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی تمہارے بعد۔ «نأى» کے معنی دور ہوا۔ «شاكلته» اپنے راستے پر (یا اپنی زینت پر) یہ «شكل» سے نکلا ہے یعنی جوڑ اور شبیہ۔ «صرفنا» سامنے لائے بیان کئے۔ «قبيلا» آنکھوں کے سامنے روبرو بعضوں نے کہا یہ «قابلة» سے نکلا ہے جس کے معنی دائی، جنانے والی کے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی جناتے وقت عورت کے مقابل ہوتی ہے اس کا بچہ قبول کرتی ہے یعنی سنبھالتی ہے۔ «الإنفاق» کے معنی مفلس ہو جانا۔ کہتے ہیں «أنفق الرجل» جب وہ مفلس ہو جائے اور «نفق الشىء» جب کوئی چیز تمام ہو جائے۔ «قتورا» کے معنی بخیل۔ «أذقان»، «ذقن» کی جمع ہے جہاں دونوں جبڑے ملتے ہیں یعنی ٹھڈی۔ مجاہد نے کہا «موفورا وافرا» کے معنی میں ہے (یعنی پورا) «تبيعا» بدلہ لینے والا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لا تبذر» کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں اپنا پیسہ مت خرچ کر «ابتغاء رحمة» روزی کی تلاش میں «مثبورا» کے معنی ملعون کے ہیں۔ «لا تقف» مت کہہ «فجاسوا» قصد کیا۔ «يزجي الفلك» کے معنی چلاتا ہے۔ «يخرون للأذقان» کے معنی منہ کے بل گر پڑتے ہیں (سجدہ کرتے ہیں)۔
4M. باب: آیت «إذا أردنا أن نهلك قرية أمرنا مترفيها» کی تفسیر۔
(4b) Chapter. “And when We decide to destroy a town (population), We (first) send a definite order (to obey Allah and be righteous) to those among them [or We (first) increase in number those of its population] who lead a life of luxury. Then they transgress therein...” (V.17:16)
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابووائل نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ «أمر بنو فلان.»(یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا)۔ ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور اس روایت میں انہوں نے بھی لفظ «أمر.» کا ذکر کیا۔
Narrated `Abdullah: During the Pre-lslamic period of ignorance if any tribe became great in number, we used to say, "Amira the children of so-and-so." Narrated Al-Humaidi: Sufyan narrated to us something and used the word 'Amira'.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 234, 235
(قدسي) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا ابو حيان التيمي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلحم، فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه، فنهش منها نهشة، ثم قال:" انا سيد الناس يوم القيامة، وهل تدرون مم ذلك؟ يجمع الله الناس الاولين والآخرين في صعيد واحد، يسمعهم الداعي، وينفذهم البصر، وتدنو الشمس، فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون، ولا يحتملون، فيقول الناس: الا ترون ما قد بلغكم، الا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم؟، فيقول بعض الناس لبعض: عليكم بآدم، فياتون آدم عليه السلام، فيقولون له: انت ابو البشر خلقك الله بيده، ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، الا ترى إلى ما قد بلغنا، فيقول آدم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد نهاني عن الشجرة، فعصيته نفسي نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى نوح، فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح، إنك انت اول الرسل إلى اهل الارض، وقد سماك الله عبدا شكورا، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول: إن ربي عز وجل قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد كانت لي دعوة دعوتها على قومي نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيقولون: يا إبراهيم، انت نبي الله وخليله من اهل الارض اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول لهم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد كنت كذبت ثلاث كذبات، فذكرهن ابو حيان في الحديث نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى موسى، فياتون موسى، فيقولون: يا موسى، انت رسول الله، فضلك الله برسالته وبكلامه على الناس، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد قتلت نفسا لم اومر بقتلها نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى عيسى ابن مريم، فياتون عيسى، فيقولون: يا عيسى، انت رسول الله وكلمته القاها إلى مريم وروح منه، وكلمت الناس في المهد صبيا اشفع لنا إلى ربك الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول عيسى: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله قط، ولن يغضب بعده مثله، ولم يذكر ذنبا نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى محمد، فياتون محمدا، فيقولون: يا محمد، انت رسول الله وخاتم الانبياء، وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فانطلق فآتي تحت العرش، فاقع ساجدا لربي عز وجل، ثم يفتح الله علي من محامده، وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه على احد قبلي، ثم يقال: يا محمد، ارفع راسك سل تعطه، واشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: امتي يا رب، امتي يا رب، امتي يا رب، فيقال: يا محمد، ادخل من امتك من لا حساب عليهم من الباب الايمن من ابواب الجنة، وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الابواب، ثم قال: والذي نفسي بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة كما بين مكة وحمير، او كما بين مكة وبصرى". (قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً، ثُمَّ قَالَ:" أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان (یحییٰ بن سعید) تیمی نے خبر دی۔ انہیں ابوزرعہ (ہرم) بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے ”شکر گزار بندہ“(عبد شکور) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔
Narrated Abu Huraira: Some (cooked) meat was brought to Allah Apostle and the meat of a forearm was presented to him as he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know the reason for it? Allah will gather all the human being of early generations as well as late generation on one plain so that the announcer will be able to make them all-hear his voice and the watcher will be able to see all of them. The sun will come so close to the people that they will suffer such distress and trouble as they will not be able to bear or stand. Then the people will say, 'Don't you see to what state you have reached? Won't you look for someone who can intercede for you with your Lord' Some people will say to some others, 'Go to Adam.' So they will go to Adam and say to him. 'You are the father of mankind; Allah created you with His Own Hand, and breathed into you of His Spirit (meaning the spirit which he created for you); and ordered the angels to prostrate before you; so (please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are? Don't you see what condition we have reached?' Adam will say, 'Today my Lord has become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. He forbade me (to eat of the fruit of) the tree, but I disobeyed Him . Myself! Myself! Myself! (I am preoccuied with my own problems). Go to someone else; go to Noah.' So they will go to Noah and say (to him), 'O Noah! You are the first (of Allah's Messengers) to the people of the earth, and Allah has named you a thankful slave; please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say.' Today my Lord has become angry as He has never become nor will ever become thereafter. I had (in the world) the right to make one definitely accepted invocation, and I made it against my nation. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Abraham.' They will go to Abraham and say, 'O Abraham! You are Allah's Messenger and His Khalil from among the people of the earth; so please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say to them, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. I had told three lies (Abu Haiyan (the sub-narrator) mentioned them in the Hadith) Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Moses.' The people will then go to Moses and say, 'O Moses! You art Allah's Messenger and Allah gave you superiority above the others with this message and with His direct Talk to you; (please) intercede for us with your Lord Don't you see in what state we are?' Moses will say, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will become thereafter, I killed a person whom I had not been ordered to kill. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Jesus.' So they will go to Jesus and say, 'O Jesus! You are Allah's Messenger and His Word which He sent to Mary, and a superior soul created by Him, and you talked to the people while still young in the cradle. Please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' Jesus will say. 'My Lord has today become angry as He has never become before nor will ever become thereafter. Jesus will not mention any sin, but will say, 'Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Muhammad.' So they will come to me and say, 'O Muhammad ! You are Allah's Messenger and the last of the prophets, and Allah forgave your early and late sins. (Please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?" The Prophet added, "Then I will go beneath Allah's Throne and fall in prostration before my Lord. And then Allah will guide me to such praises and glorification to Him as He has never guided anybody else before me. Then it will be said, 'O Muhammad Raise your head. Ask, and it will be granted. Intercede and It (your intercession) will be accepted.' So I will raise my head and Say, 'My followers, O my Lord! My followers, O my Lord'. It will be said, 'O Muhammad! Let those of your followers who have no accounts, enter through such a gate of the gates of Paradise as lies on the right; and they will share the other gates with the people." The Prophet further said, "By Him in Whose Hand my soul is, the distance between every two gate-posts of Paradise is like the distance between Mecca and Busra (in Sham).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 236
(مرفوع) حدثني إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" خفف على داود القراءة، فكان يامر بدابته لتسرج، فكان يقرا قبل ان يفرغ" يعني القرآن.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ الْقِرَاءَةُ، فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَابَّتِهِ لِتُسْرَجَ، فَكَانَ يَقْرَأُ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ" يَعْنِي الْقُرْآنَ.
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا اور ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام پر زبور کی تلاوت آسان کر دی گئی تھی۔ آپ گھوڑے پر زین کسنے کا حکم دیتے اور اس سے پہلے کہ زین کسی جا چکے، تلاوت سے فارغ ہو جاتے تھے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The recitation of Psalms (David's Qur'an) was made light and easy for David that he used to have his ridding animal be saddled while he would finish the recitation before the servant had saddled it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 237
7. باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہئے تم جن کو اللہ کے سوا معبود قرار دے رہے ہو، ذرا ان کو پکارو تو سہی، سو نہ وہ تمہاری کوئی تکلیف ہی دور کر سکتے ہیں اور نہ وہ (اسے) بدل ہی سکتے ہیں“۔
(7) Chapter. “Say (O Muhammad ): ’Call upon those besides Him whom you pretend (to be gods)...’ ” (V.17:56)
مجھ سے عمرو بن علی بن فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا ہم سے سفیان نے، کہا مجھ سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبداللہ بن معمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے(آیت) «إلى ربهم الوسيلة» کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، لیکن وہ جِن بعد میں مسلمان ہو گئے اور یہ مشرک (کم بخت) ان ہی کی پرستش کرتے جاہلی شریعت پر قائم رہے۔ عبیداللہ اشجعی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا اور ان سے اعمش نے بیان کیا، اس میں یوں ہے کہ اس آیت «قل ادعوا الذين زعمتم» کا شان نزول یہ ہے آخر تک۔
Narrated `Abdullah: Regarding the explanation of the Verse: 'Those whom they call upon (worship) (like Jesus the Son of Mary, angels etc.) desire (for themselves) means of access to their Lord (Allah) as to which of them should be the nearer and they hope for His Mercy and fear His torment.' (17.57) They themselves (e.g. Angels, saints, Apostles, Jesus, etc.,) worshipped Allah, Those Jinns who were worshipped by some Arabs became Muslims (embraced Islam), but those human beings stuck to their (old) religion. Al- A`mash said extra: 'Say, (O Muhammad): Call unto those besides Him whom you assume (to be gods).' (17.56)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 238
8. باب: آیت کی تفسیر ”یہ لوگ جن کو یہ (مشرکین) پکار رہے ہیں وہ (خود ہی) اپنے پروردگار کا تقرب تلاش کر رہے ہیں“۔
(8) Chapter.The Statement of Allah: “Those whom they call upon [like Isa (Jesus) the son of Maryam (Mary), Uzair (Ezra) angels, etc.] desire (for themselves) means of access to their Lord (Allah)...” (V.17:57)
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں ابومعمر نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت «الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة» کی تفسیر میں کہا کہ کچھ جِن ایسے تھے جن کی آدمی پرستش کیا کرتے تھے پھر وہ جِن مسلمان ہو گئے۔
Narrated `Abdullah: Regarding the Verse: 'Those whom they call upon (worship) (like Jesus the Son of Mary or angels etc.) desire (for themselves) means of access, to their Lord....' (17.57) (It was revealed regarding) some Jinns who used to be worshipped (by human beings). They later embraced Islam (while those people kept on worshipping them).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 239