(مرفوع) حدثني إبراهيم بن المنذر، حدثنا معن، قال: حدثني مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" مفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله: لا يعلم ما في غد إلا الله، ولا يعلم ما تغيض الارحام إلا الله، ولا يعلم متى ياتي المطر احد إلا الله، ولا تدري نفس باي ارض تموت، ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ: لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ".
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی، کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں ہو گی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Messenger said, "The keys of Unseen are five which none knows but Allah: None knows what will happen tomorrow but Allah; none knows what is in the wombs (a male child or a female) but Allah; none knows when it will rain but Allah; none knows at what place one will die; none knows when the Hour will be established but Allah." (See The Qur'an 31:34.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 219
قال ابن عباس: هاد: داع، وقال مجاهد: صديد قيح ودم، وقال ابن عيينة: اذكروا نعمة الله عليكم: ايادي الله عندكم وايامه، وقال مجاهد: من كل ما سالتموه: رغبتم إليه فيه، يبغونها عوجا: يلتمسون لها عوجا، وإذ تاذن ربكم، اعلمكم آذنكم: ردوا ايديهم في افواههم، هذا مثل كفوا عما امروا به، مقامي: حيث يقيمه الله بين يديه، من ورائه: قدامه جهنم، لكم تبعا: واحدها تابع مثل غيب وغائب، بمصرخكم: استصرخني استغاثني يستصرخه من الصراخ، ولا خلال: مصدر خاللته خلالا ويجوز ايضا جمع خلة وخلال، اجتثت: استؤصلت.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَادٍ: دَاعٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَدِيدٌ قَيْحٌ وَدَمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ: أَيَادِيَ اللَّهِ عِنْدَكُمْ وَأَيَّامَهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ: رَغِبْتُمْ إِلَيْهِ فِيهِ، يَبْغُونَهَا عِوَجًا: يَلْتَمِسُونَ لَهَا عِوَجًا، وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ، أَعْلَمَكُمْ آذَنَكُمْ: رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ، هَذَا مَثَلٌ كَفُّوا عَمَّا أُمِرُوا بِهِ، مَقَامِي: حَيْثُ يُقِيمُهُ اللَّهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، مِنْ وَرَائِهِ: قُدَّامَهُ جَهَنَّمُ، لَكُمْ تَبَعًا: وَاحِدُهَا تَابِعٌ مِثْلُ غَيَبٍ وَغَائِبٍ، بِمُصْرِخِكُمْ: اسْتَصْرَخَنِي اسْتَغَاثَنِي يَسْتَصْرِخُهُ مِنَ الصُّرَاخِ، وَلَا خِلَالَ: مَصْدَرُ خَالَلْتُهُ خِلَالًا وَيَجُوزُ أَيْضًا جَمْعُ خُلَّةٍ وَخِلَالٍ، اجْتُثَّتْ: اسْتُؤْصِلَتْ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هاد» کا معنی بلانے والا، ہدایت کرنے والا (نبی و رسول مراد ہیں)۔ اور مجاہد نے کہا «صديد» کا معنی پیپ اور لہو۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہ «اذكروا نعمة الله عليكم» کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں ان کو یاد کرو اور جو جو اگلے واقعات اس کی قدرت کے ہوئے ہیں اور مجاہد نے کہا «من كل ما سألتموه» کا معنی یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی تم نے رغبت کی «يبغونها عوجا» اس میں کجی پیدا کرنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ «وإذ تأذن ربكم» جب تمہارے مالک نے تم کو خبردار کر دیا جتلا دیا۔ «ردوا أيديهم في أفواههم» یہ عرب کی زبان میں ایک مثل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا اس سے باز رہے، بجا نہ لائے۔ «مقامي» وہ جگہ جہاں اللہ پاک اس کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ «من ورائه» سامنے سے۔ «لكم تبعا»، «تبع»، «تابع» کی جمع ہے جیسے «غيب»، «غائب» کی۔ «بمصرخكم» عرب لوگ کہتے ہیں «استصرخني» یعنی اس نے میری فریاد سن لی۔ «يستصرخه» اس کی فریاد سنتا ہے دونوں «صراخ» سے نکلے ہیں ( «صراخ» کا معنی فریاد)۔ «ولا خلال»، «خاللته» کا مصدر ہے اور «خلة» کی جمع بھی ہو سکتا ہے (یعنی اس دن دوستی نہ ہو گی یا دوستیاں نہ ہوں گی) «اجتثت» جڑ سے اکھاڑ لیا گیا۔
(مرفوع) حدثني عبيد بن إسماعيل، عن ابي اسامة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اخبروني بشجرة تشبه، او كالرجل المسلم، لا يتحات ورقها، ولا، ولا، ولا تؤتي اكلها كل حين"، قال ابن عمر: فوقع في نفسي انها النخلة، ورايت ابا بكر وعمر لا يتكلمان، فكرهت ان اتكلم، فلما لم يقولوا شيئا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هي النخلة"، فلما قمنا قلت لعمر: يا ابتاه، والله لقد كان وقع في نفسي انها النخلة، فقال: ما منعك ان تكلم، قال: لم اركم تكلمون فكرهت ان اتكلم، او اقول شيئا، قال عمر: لان تكون قلتها احب إلي من كذا، وكذا.(مرفوع) حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ تُشْبِهُ، أَوْ كَالرَّجُلِ الْمُسْلِمِ، لَا يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا، وَلَا، وَلَا، وَلَا تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ لَا يَتَكَلَّمَانِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَلَمَّا لَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ النَّخْلَةُ"، فَلَمَّا قُمْنَا قُلْتُ لِعُمَرَ: يَا أَبَتَاهُ، وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ وَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَكَلَّمَ، قَالَ: لَمْ أَرَكُمْ تَكَلَّمُونَ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، أَوْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ عُمَرُ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا، وَكَذَا.
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: بابا جان! اللہ کی قسم! میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا۔ میں نے کہا آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا۔ انہوں نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے (لال لال اونٹ کا) مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
Narrated Ibn `Umar: While we were with Allah's Messenger he said, "Tell me of a tree which resembles a Muslim man. Its leaves do not fall and it does not, and does not, and does not, and it gives its fruits every now and then." It came to my mind that such a tree must be the date palm, but seeing Abu Bakr and `Umar saying nothing, I disliked to speak. So when they did not say anything, Allah's Messenger said, "It is the date-palm tree." When we got up (from that place), I said to `Umar, "O my father! By Allah, it came to my mind that it must be the date palm tree." `Umar said, "What prevented you from speaking" I replied, "I did not see you speaking, so I misliked to speak or say anything." `Umar then said, "If you had said it, it would have been dearer to me than so-and-so."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 220
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، قال: اخبرني علقمة بن مرثد، قال: سمعت سعد بن عبيدة، عن البراء بن عازب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" المسلم إذا سئل في القبر، يشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، فذلك قوله: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْمُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے علقمہ بن مرثد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعد بن عبیدہ سے سنا اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان سے جب قبر میں سوال ہو گا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة»”اللہ ایمان والوں کی اس پکی بات (کی برکت) سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی)“ کا یہی مطلب ہے۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Messenger said, "When a Muslim is questioned in his grave, he will testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is Allah's Messenger , and that is what is meant by Allah's Statement:-- "Allah will keep firm those who believe with a Word that stands firm in this world and in the Hereafter." (14.27)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 221
الم تر: الم تعلم كقوله، الم تر كيف، الم تر إلى الذين خرجوا: البوار الهلاك بار يبور، قوما بورا: هالكين.أَلَمْ تَرَ: أَلَمْ تَعْلَمْ كَقَوْلِهِ، أَلَمْ تَرَ كَيْفَ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا: الْبَوَارُ الْهَلَاكُ بَارَ يَبُورُ، قَوْمًا بُورًا: هَالِكِينَ.
«ألم تر» کا معنی «ألم تعلم» یعنی کیا تو نے نہیں جانا۔ «ألم تر كيف»، «ألم تر إلى الذين خرجوا» میں ہے۔ «البوار» ای «الهلاك» ۔ «بورا» کا معنی ہلاکت ہے جو «بار يبور» کا مصدر ہے۔ «قوما بورا» کے معنی ہلاک ہونے والی قوم کے ہیں۔
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، سمع ابن عباس: الم تر إلى الذين بدلوا نعمت الله كفرا سورة إبراهيم آية 28، قال:" هم كفار اهل مكة".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا سورة إبراهيم آية 28، قَالَ:" هُمْ كُفَّارُ أَهْلِ مَكَّةَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آیت «ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفرا» میں کفار سے اہل مکہ مراد ہیں۔
Narrated Ata: When Ibn `Abbas heard:-- "Have you not seen those who have changed the favor of Allah into disbelief?" (14.28) he said, "Those were the disbelieving pagans of Mecca."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 222
وقال مجاهد: صراط علي مستقيم: الحق يرجع إلى الله، وعليه طريقه لبإمام مبين على الطريق، وقال ابن عباس: لعمرك: لعيشك، قوم منكرون: انكرهم لوط، وقال غيره: كتاب معلوم: اجل، لو ما تاتينا: هلا تاتينا شيع امم وللاولياء ايضا شيع، وقال ابن عباس: يهرعون: مسرعين، للمتوسمين: للناظرين، سكرت: غشيت، بروجا: منازل للشمس والقمر، لواقح: ملاقح ملقحة، حمإ، جماعة حماة وهو الطين المتغير والمسنون المصبوب توجل تخف، دابر: آخر، لبإمام مبين: الإمام كل ما ائتممت واهتديت به، الصيحة: الهلكةوَقَالَ مُجَاهِدٌ: صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ: الْحَقُّ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ، وَعَلَيْهِ طَرِيقُهُ لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ عَلَى الطَّرِيقِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَعَمْرُكَ: لَعَيْشُكَ، قَوْمٌ مُنْكَرُونَ: أَنْكَرَهُمْ لُوطٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: كِتَابٌ مَعْلُومٌ: أَجَلٌ، لَوْ مَا تَأْتِينَا: هَلَّا تَأْتِينَا شِيَعٌ أُمَمٌ وَلِلْأَوْلِيَاءِ أَيْضًا شِيَعٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُهْرَعُونَ: مُسْرِعِينَ، لِلْمُتَوَسِّمِينَ: لِلنَّاظِرِينَ، سُكِّرَتْ: غُشِّيَتْ، بُرُوجًا: مَنَازِلَ لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، لَوَاقِحَ: مَلَاقِحَ مُلْقَحَةً، حَمَإٍ، جَمَاعَةُ حَمْأَةٍ وَهُوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ وَالْمَسْنُونُ الْمَصْبُوبُ تَوْجَلْ تَخَفْ، دَابِرَ: آخِرَ، لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ: الْإِمَامُ كُلُّ مَا ائْتَمَمْتَ وَاهْتَدَيْتَ بِهِ، الصَّيْحَةُ: الْهَلَكَةُ
مجاہد نے کہا «صراط على مستقيم» کا معنی سچا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ کی طرف جاتا ہے «لبإمام مبين» یعنی کھلے راستے پر۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لعمرك» کا معنی یعنی تیری زندگی کی قسم۔ «قوم منكرون» لوط نے ان کو اجنبی پردیسی سمجھا۔ دوسرے لوگوں نے کہا «كتاب معلوم» کا معنی معین میعاد۔ «لوما تاتينا» کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا۔ «شيع» امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی «شيع» کہتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يهرعون» کا معنی دوڑتے، جلدی کرتے۔ «للمتوسمين» دیکھنے والوں کے لیے۔ «سكرت» ڈھانکی گئیں۔ «بروجا»، «برج» یعنی سورج چاند کی منزلیں۔ «لواقح»، «ملاقح» کے معنی میں ہے جو «ملفحة» کی جمع یعنی حاملہ کرنے والی۔ «حما»، «حماة» کی جمع ہے بدبودار کیچڑ۔ «مسنون» قالب میں ڈھالی گئی۔ «لا توجل» مت ڈر۔ «دابر اخر»(دم)۔ «لبامام مبين» امام، وہ شخص جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے۔ «الصيحة» ہلاکت کے معنی میں ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عكرمة، عن ابي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا قضى الله الامر في السماء، ضربت الملائكة باجنحتها خضعانا، لقوله: كالسلسلة على صفوان"، قال علي: وقال غيره: صفوان ينفذهم ذلك، فإذا فزع عن قلوبهم، قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا: للذي قال الحق، وهو العلي الكبير، فيسمعها مسترقو السمع، ومسترقو السمع هكذا واحد فوق آخر، ووصف سفيان بيده وفرج بين اصابع يده اليمنى نصبها بعضها فوق بعض، فربما ادرك الشهاب المستمع قبل ان يرمي بها إلى صاحبه فيحرقه، وربما لم يدركه حتى يرمي بها إلى الذي يليه إلى الذي هو اسفل منه حتى يلقوها إلى الارض، وربما قال سفيان: حتى تنتهي إلى الارض، فتلقى على فم الساحر فيكذب معها مائة كذبة، فيصدق، فيقولون: الم يخبرنا يوم كذا، وكذا يكون كذا، وكذا، فوجدناه حقا للكلمة التي سمعت من السماء.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا، لِقَوْلِهِ: كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ"، قَالَ عَلِيٌّ: وَقَالَ غَيْرُهُ: صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ، وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ الْيُمْنَى نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَيُحْرِقَهُ، وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الْأَرْضِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْأَرْضِ، فَتُلْقَى عَلَى فَمْ السَّاحِرِ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُصَدَّقُ، فَيَقُولُونَ: أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا، وَكَذَا يَكُونُ كَذَا، وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملائکہ عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے (مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے «صفوان» کے بعد «ينفذهم ذلك»(جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے) کے الفاظ کہے ہیں۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں (ایک پر ایک) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے۔ (کبھی سفیان نے یوں کہا) پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہو گا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "When Allah has ordained some affair in the Heaven, the angels beat with their wings in obedience to His statement, which sounds like a chain dragged over a rock." (`Ali and other sub-narrators said, "The sound reaches them.") "Until when fear is banished from their (angels) hearts, they (angels) say, 'What was it that your Lord said? They say, 'The truth; And He is the Most High, the Most Great.' (34.23) Then those who gain a hearing by stealing (i.e. devils) will hear Allah's Statement:-- 'Those who gain a hearing by stealing, (stand one over the other like this). (Sufyan, to illustrate this, spread the fingers of his right hand and placed them one over the other horizontally.) A flame may overtake and burn the eavesdropper before conveying the news to the one below him; or it may not overtake him till he has conveyed it to the one below him, who in his turn, conveys it to the one below him, and so on till they convey the news to the earth. (Or probably Sufyan said, "Till the news reaches the earth.") Then the news is inspired to a sorcerer who would add a hundred lies to it. His prophecy will prove true (as far as the heavenly news is concerned). The people will say. 'Didn't he tell us that on such-and-such a day, such-and-such a thing will happen? We have found that is true because of the true news heard from heaven."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 223
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی اس میں یوں ہے جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور «ساحر» کے بعد اس روایت میں «كاهن.» کا لفظ زیادہ کیا۔ علی نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور اس روایت میں «على فم الساحر.» کا لفظ ہے۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ تم نے عمرو بن دینار سے خود سنا، وہ کہتے تھے میں نے عکرمہ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا ہاں۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا۔ ایک آدمی (نام نامعلوم) نے تو تم سے یوں روایت کی تم نے عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «فزع» پڑھا۔ سفیان نے کہا میں نے عمرو کو اس طرح پڑھتے سنا اب میں نہیں جانتا انہوں نے عکرمہ سے سنا یا نہیں سنا۔ سفیان نے کہا ہماری بھی قرآت یہی ہے۔
Narrated Abu Huraira: (The same Hadith above, starting: 'When Allah has ordained some affair...') In this narration the word foreteller is added to the word wizard.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 224