ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا کہا کہ میں زہری سے سنا، انہوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کے متعلق سنا جس میں تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکی نازل کی۔ ان تمام لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کچھ کچھ ٹکڑا بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا کہ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکی نازل کر دے گا لیکن اگر تو آلودہ ہو گئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور میں توبہ کر (عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر کہا: اللہ کی قسم! میری اور آپ کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے (اور انہیں کی کہی ہوئی بات میں بھی دہراتی ہوں کہ) «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون»”سو صبر کرنا (ہی) اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکی میں سورۃ النور کی «إن الذين جاءوا بالإفك» سے آخر تک دس آیات اتاریں۔
Narrated Az-Zuhri: `Urwa bin Az-Zubair, Sa`id bin Al-Musaiyab, 'Al-Qama bin Waqqas and 'Ubaidullah bin `Abdullah related the narration of `Aisha, the wife the Prophet, when the slanderers had said about her what they had said and Allah later declared her innocence. Each of them related a part of the narration (wherein) the Prophet said (to `Aisha). "If you are innocent, then Allah will declare your innocence: but if you have committed a sin, then ask for Allah's Forgiveness and repent to him." `Aisha said, "By Allah, I find no example for my case except that of Joseph's father (when he said), 'So (for me) patience is most fitting.' " Then Allah revealed the ten Verses:-- "Verily those who spread the slander are a gang amongst you.." (24.11)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 212
(مرفوع) حدثنا موسى، حدثنا ابو عوانة، عن حصين، عن ابي وائل، قال: حدثني مسروق بن الاجدع، قال: حدثتني ام رومان وهي ام عائشة، قالت: بينا انا وعائشة اخذتها الحمى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لعل في حديث تحدث"، قالت: نعم، وقعدت عائشة، قالت: مثلي ومثلكم كيعقوب وبنيه، بل سولت لكم انفسكم امرا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون سورة يوسف آية 18.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَهْيَ أُمُّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا وَعَائِشَةُ أَخَذَتْهَا الْحُمَّى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّ فِي حَدِيثٍ تُحُدِّثَ"، قَالَتْ: نَعَمْ، وَقَعَدَتْ عَائِشَةُ، قَالَتْ: مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَيَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابووائل شقیق بن سلمہ نے، کہا کہ مجھ سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخار چڑھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً یہ ان باتوں کی وجہ ہوا ہو گا جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھ گئیں اور کہا کہ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی ہے اور آپ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔
Narrated Um Ruman: Who was `Aisha's mother: While I was with `Aisha, `Aisha got fever, whereupon the Prophet said, "Probably her fever is caused by the story related by the people (about her)." I said, "Yes." Then `Aisha sat up and said, "My example and your example is similar to that of Jacob and his sons:--'Nay, but your minds have made up a tale. So (for me) patience is most fitting. It is Allah (alone) Whose help can be sought against that which you assert.' (12.18)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 213
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور جس عورت کے گھر میں وہ تھے وہ اپنا مطلب نکالنے کو انہیں پھسلانے لگی اور دروازے بند کر لیے اور بولی کہ بس آ جا“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “And she, in whose house he was, sought to seduce him (to do an evil act). She closed the doors and said, ’Come on, O you.’ He said: ’I seek refuge in Allah (or Allah forbid)’...” (V.12:23)
وقال عكرمة: هيت لك بالحورانية هلم، وقال ابن جبير: تعاله.وَقَالَ عِكْرِمَةُ: هَيْتَ لَكَ بِالْحَوْرَانِيَّةِ هَلُمَّ، وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: تَعَالَهْ.
اور عکرمہ نے کہا «هيت لك» حورانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آ جاہے۔ سعید بن جبیر نے بھی یہی کہا ہے۔
(موقوف) حدثني احمد بن سعيد، حدثنا بشر بن عمر، حدثنا شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، عن عبد الله بن مسعود، قال: هيت لك سورة يوسف آية 23، قال: وإنما نقرؤها كما علمناها مثواه سورة يوسف آية 21، مقامه والفيا سورة يوسف آية 25: وجدا، الفوا آباءهم سورة الصافات آية 69: الفينا، وعن ابن مسعود، بل عجبت ويسخرون سورة الصافات آية 12.(موقوف) حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: هَيْتَ لَكَ سورة يوسف آية 23، قَالَ: وَإِنَّمَا نَقْرَؤُهَا كَمَا عُلِّمْنَاهَا مَثْوَاهُ سورة يوسف آية 21، مُقَامُهُ وَأَلْفَيَا سورة يوسف آية 25: وَجَدَا، أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ سورة الصافات آية 69: أَلْفَيْنَا، وَعَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ سورة الصافات آية 12.
مجھ سے احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے «هيت لك» پڑھا اور کہا کہ جس طرح ہمیں یہ لفظ سکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم پڑھتے ہیں۔ «مثواه» یعنی اس کا ٹھکانا، درجہ۔ «ألفيا» یعنی پایا اسی سے ہے۔ «ألفوا آباءهم» اور «ألفينا»(دوسری آیتوں میں) اور ابن مسعود سے (سورۃ الصافات) میں «بل عجبت ويسخرون» منقول ہے۔
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عبد الله رضي الله عنه: ان قريشا لما ابطئوا على النبي صلى الله عليه وسلم بالإسلام، قال:" اللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف"، فاصابتهم سنة حصت كل شيء، حتى اكلوا العظام، حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها مثل الدخان، قال الله: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10، قال الله: إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، افيكشف عنهم العذاب يوم القيامة، وقد مضى الدخان، ومضت البطشة؟.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْإِسْلَامِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا مِثْلَ الدُّخَانِ، قَالَ اللَّهُ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ اللَّهُ: إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَمَضَتِ الْبَطْشَةُ؟.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين»”تو آپ انتظار کیجئے اس روز کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔“ اور فرمایا «إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون»”بیشک ہم اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی (اپنی پہلی حالت پر) لوٹ آؤ گے۔“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔
Narrated `Abdullah (bin Mas`ud): When the Prophet realized that the Quraish had delayed in embracing Islam, he said, "O Allah! Protect me against their evil by afflicting them with seven (years of famine) like the seven years of (Prophet) Joseph." So they were struck with a year of famine that destroyed everything till they had to eat bones, and till a man would look towards the sky and see something like smoke between him and it. Allah said:-- "Then watch you (O Muhammad) for the day when the sky will produce a kind of smoke plainly visible." (44.10) And Allah further said:-- "Verily! We shall withdraw the punishment a little, Verily you will return (to disbelief)." (44.15) (Will Allah relieve them from torture on the Day of Resurrection?) (The punishment of) the smoke had passed and Al-Baltsha (the destruction of the pagans in the Badr battle) had passed too.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 215
5. باب: آیت کی تفسیر ”پھر جب قاصد ان کے پاس پہنچا تو یوسف علیہ السلام نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ چھری سے زخمی کر لیے تھے۔ بیشک میرا رب ان عورتوں کے فریب سے خوب واقف ہے (بادشاہ نے) کہا (اے عورتو!) تمہارا کیا واقعہ ہے جب تم نے یوسف علیہ السلام سے اپنا مطلب نکالنے کی خواہش کی تھی، وہ بولیں حاشاللہ! ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی عیب نہیں دیکھا“۔
(5) Chapter. The Statement of Allah: “But when the messenger came to him, [Yusuf (Joseph)] said, ’Return to your lord... (up to)... The women said: Allah forbid.’ ” (V.12:50,51)
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے بکر بن مضر نے، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لیے کہا تھا اور اگر میں قید خانے میں اتنے دنوں تک رہ چکا ہوتا جتنے دن یوسف علیہ السلام رہے تھے تو بلانے والے کی بات رد نہ کرتا اور ہم کو تو ابراہیم علیہ السلام کے بہ نسبت شک ہونا زیادہ سزاوار ہے۔ جب اللہ پاک نے ان سے فرمایا «أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي» کہ کیا تجھ کو یقین نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یقین تو ہے پر میں چاہتا ہوں کہ اور اطمینان ہو جائے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "May Allah bestow His Mercy on (Prophet) Lot. (When his nation troubled him) he wished if he could betake himself to some powerful support; and if I were to remain in prison for the period Joseph had remained, I would surely respond to the call; and we shall have more right (to be in doubt) than Abraham: When Allah said to him, "Don't you believe?' Abraham said, 'Yes, (I do believe) but to be stronger in faith; (2.260)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 216
(موقوف) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت له وهو يسالها عن قول الله تعالى: حتى إذا استياس الرسل سورة يوسف آية 110، قال: قلت: اكذبوا ام كذبوا؟ قالت عائشة: كذبوا، قلت: فقد استيقنوا ان قومهم كذبوهم، فما هو بالظن؟ قالت: اجل، لعمري لقد استيقنوا بذلك، فقلت لها: وظنوا انهم قد كذبوا، قالت: معاذ الله، لم تكن الرسل تظن ذلك بربها، قلت: فما هذه الآية؟ قالت: هم اتباع الرسل الذين آمنوا بربهم وصدقوهم، فطال عليهم البلاء، واستاخر عنهم النصر، حتى إذا استياس الرسل ممن كذبهم من قومهم، وظنت الرسل ان اتباعهم قد كذبوهم، جاءهم نصر الله عند ذلك .(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ لَهُ وَهُوَ يَسْأَلُهَا عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ سورة يوسف آية 110، قَالَ: قُلْتُ: أَكُذِبُوا أَمْ كُذِّبُوا؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: كُذِّبُوا، قُلْتُ: فَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، فَمَا هُوَ بِالظَّنِّ؟ قَالَتْ: أَجَلْ، لَعَمْرِي لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، فَقُلْتُ لَهَا: وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنْ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الْآيَةُ؟ قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنَّتِ الرُّسُلُ أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ قَدْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ عِنْدَ ذَلِكَ .
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا عروہ نے ان سے آیت «حتى إذا استيأس الرسل» کے متعلق پوچھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا تھا (آیت میں) «كذبوا»(تخفیف کے ساتھ) یا «كذبوا»(تشدیدکے ساتھ) اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ «كذبوا»(تشدید کے ساتھ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر «ظنوا» سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا اپنی زندگی کی قسم بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ میں نے کہا «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ پڑھیں تو کیا قباحت ہے۔ انہوں نے کہا معاذاللہ! کہیں پیغمبر اپنے پروردگار کی نسبت ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا ان کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہو گئے جنہوں نے ان کو جھٹلایا تھا اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کوجھوٹا سمجھنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔
Narrated `Urwa bin Az-Zubair: That when he asked `Aisha about the statement of Allah "Until when the Apostles gave up hope (of their people)." (12.110) she told him (its meaning), `Urwa added, "I said, 'Did they (Apostles) suspect that they were betrayed (by Allah) or that they were treated as liars by (their people)?' `Aisha said, '(They suspected) that they were treated as liars by (their people),' I said, 'But they were sure that their people treated them as liars and it was not a matter of suspicion.' She said, 'Yes, upon my life they were sure about it.' I said to her. 'So they (Apostles) suspected that they were betrayed (by Allah).' She said, "Allah forbid! The Apostles never suspected their Lord of such a thing.' I said, 'What about this Verse then?' She said, 'It is about the Apostles' followers who believed in their Lord and trusted their Apostles, but the period of trials was prolonged and victory was delayed till the Apostles gave up all hope of converting those of the people who disbelieved them and the Apostles thought that their followers treated them as liars; thereupon Allah's help came to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 217
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ہو سکتا ہے یہ «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ ہو تو انہوں نے فرمایا، معاذاللہ! پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری۔
Narrated `Urwa: I told her (`Aisha): (Regarding the above narration), they (Apostles) were betrayed (by Allah). She said: Allah forbid or said similarly.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 218
وقال ابن عباس: كباسط كفيه: مثل المشرك الذي عبد مع الله إلها آخر غيره، كمثل العطشان الذي ينظر إلى ظل خياله في الماء من بعيد وهو يريد ان يتناوله ولا يقدر، وقال غيره: سخر: ذلل، متجاورات متدانيات، وقال غيره: المثلات: واحدها مثلة وهي الاشباه والامثال، وقال: إلا مثل ايام الذين خلوا، بمقدار: بقدر، يقال: معقبات: ملائكة حفظة تعقب الاولى منها الاخرى، ومنه قيل: العقيب، اي عقبت في إثره المحال العقوبة، كباسط كفيه إلى الماء: ليقبض على الماء، رابيا: من ربا يربو، او متاع زبد: مثله المتاع ما تمتعت به، جفاء، يقال: اجفات القدر إذا غلت فعلاها الزبد ثم تسكن فيذهب الزبد بلا منفعة فكذلك يميز الحق من الباطل المهاد: الفراش، يدرءون: يدفعون دراته عني دفعته، سلام عليكم: اي يقولون سلام عليكم، وإليه متاب: توبتي، افلم ييئس: افلم يتبين، قارعة: داهية، فامليت: اطلت من الملي والملاوة ومنه مليا، ويقال للواسع الطويل من الارض ملى من الارض، اشق: اشد من المشقة، معقب: مغير، وقال مجاهد: متجاورات: طيبها وخبيثها السباخ، صنوان: النخلتان او اكثر في اصل واحد، وغير صنوان: وحدها، بماء واحد: كصالح بني آدم وخبيثهم، ابوهم واحد، السحاب الثقال الذي فيه الماء، كباسط كفيه إلى الماء، يدعو الماء بلسانه، ويشير إليه بيده، فلا ياتيه ابدا، فسالت اودية بقدرها: تملا بطن كل واد، زبدا رابيا: الزبد زبد السيل، زبد مثله خبث الحديد والحلية.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ: مَثَلُ الْمُشْرِكِ الَّذِي عَبَدَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ غَيْرَهُ، كَمَثَلِ الْعَطْشَانِ الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى ظِلِّ خَيَالِهِ فِي الْمَاءِ مِنْ بَعِيدٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَتَنَاوَلَهُ وَلَا يَقْدِرُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَخَّرَ: ذَلَّلَ، مُتَجَاوِرَاتٌ مُتَدَانِيَاتٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْمَثُلَاتُ: وَاحِدُهَا مَثُلَةٌ وَهِيَ الْأَشْبَاهُ وَالْأَمْثَالُ، وَقَالَ: إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا، بِمِقْدَارٍ: بِقَدَرٍ، يُقَالُ: مُعَقِّبَاتٌ: مَلَائِكَةٌ حَفَظَةٌ تُعَقِّبُ الْأُولَى مِنْهَا الْأُخْرَى، وَمِنْهُ قِيلَ: الْعَقِيبُ، أَيْ عَقَّبْتُ فِي إِثْرِهِ الْمِحَالِ الْعُقُوبَةُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ: لِيَقْبِضَ عَلَى الْمَاءِ، رَابِيًا: مِنْ رَبَا يَرْبُو، أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ: مِثْلُهُ الْمَتَاعُ مَا تَمَتَّعْتَ بِهِ، جُفَاءً، يُقَالُ: أَجْفَأَتِ الْقِدْرُ إِذَا غَلَتْ فَعَلَاهَا الزَّبَدُ ثُمَّ تَسْكُنُ فَيَذْهَبُ الزَّبَدُ بِلَا مَنْفَعَةٍ فَكَذَلِكَ يُمَيِّزُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ الْمِهَادُ: الْفِرَاشُ، يَدْرَءُونَ: يَدْفَعُونَ دَرَأْتُهُ عَنِّي دَفَعْتُهُ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ: أَيْ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، وَإِلَيْهِ مَتَابِ: تَوْبَتِي، أَفَلَمْ يَيْئَسْ: أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ، قَارِعَةٌ: دَاهِيَةٌ، فَأَمْلَيْتُ: أَطَلْتُ مِنَ الْمَلِيِّ وَالْمِلَاوَةِ وَمِنْهُ مَلِيًّا، وَيُقَالُ لِلْوَاسِعِ الطَّوِيلِ مِنَ الْأَرْضِ مَلًى مِنَ الْأَرْضِ، أَشَقُّ: أَشَدُّ مِنَ الْمَشَقَّةِ، مُعَقِّبَ: مُغَيِّرٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُتَجَاوِرَاتٌ: طَيِّبُهَا وَخَبِيثُهَا السِّبَاخُ، صِنْوَانٌ: النَّخْلَتَانِ أَوْ أَكْثَرُ فِي أَصْلٍ وَاحِدٍ، وَغَيْرُ صِنْوَانٍ: وَحْدَهَا، بِمَاءٍ وَاحِدٍ: كَصَالِحِ بَنِي آدَمَ وَخَبِيثِهِمْ، أَبُوهُمْ وَاحِدٌ، السَّحَابُ الثِّقَالُ الَّذِي فِيهِ الْمَاءُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ، يَدْعُو الْمَاءَ بِلِسَانِهِ، وَيُشِيرُ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَلَا يَأْتِيهِ أَبَدًا، فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا: تَمْلَأُ بَطْنَ كُلِّ وَادٍ، زَبَدًا رَابِيًا: الزَّبَدُ زَبَدُ السَّيْلِ، زَبَدٌ مِثْلُهُ خَبَثُ الْحَدِيدِ وَالْحِلْيَةِ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كباسط كفيه» یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتا ہے جیسے پیاسا آدمی پانی کا تصور کر کے دور سے پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اس کو نہ لے سکے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «سخرا» کے معنی تابعدار کیا، مسخر کیا۔ «متجاورات» ایک دوسرے سے ملے ہوئے، قریب قریب۔ «المثلات»، «مثلة» کی جمع ہے یعنی جوڑا اور مشابہ۔ اور دوسری آیت میں ہے «إلا مثل أيام الذين خلوا» مگر مشابہ دنوں ان لوگوں کے جو پہلے گزر گئے «بمقدار» یعنی اندازے سے، جوڑ سے۔ «معقبات» نگہبان فرشتے جو ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں، اسی سے «عقيب.» کا لفظ نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «عقبت في إثره» یعنی میں اس کے نشان قدم پر پیچھے پیچھے گیا۔ «المحال» عذاب۔ «كباسط كفيه إلى الماء» جو دونوں ہاتھ بڑھا کر پانی لینا چاہے۔ «رابيا»، «ربا»، «يربو.» سے نکلا ہے یعنی بڑھنے والا یا اوپر تیرنے والا۔ «المتاع» جس چیز سے تو فائدہ اٹھائے اس کو کام میں لائے۔ «جفاء»، «أجفأت القدر» سے نکلا ہے یعنی ہانڈی نے جوش مارا جھاگ اوپر آ گیا پھر جب ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے تو پھین جھاگ بیکار سوکھ کر فنا ہو جاتاہے۔ حق باطل سے اسی طرح جدا ہو جاتا ہے۔ «المهاد» بچھونا۔ «يدرءون» دھکیلتے ہیں، دفع کرتے ہیں یہ «درأته» سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کو دور کیا، دفع کر دیا۔ «سلام عليكم» یعنی فرشتے مسلمانوں کو کہتے جائیں گے تم سلامت رہو۔ «وإليه متاب» میں اسی کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ «أفلم ييأس» کیا انہوں نے نہیں جانا۔ «قارعة» آفت، مصیبت۔ «فأمليت» میں نے ڈھیلا چھوڑا، مہلت دی یہ لفظ «ملي» اور «ملاوة» سے نکلا ہے۔ اسی سے نکلا ہے جو جبرائیل کی حدیث میں ہے۔ «فلبثت مليا»(یا قرآن میں ہے) «واهجرنى مليا» اور کشادہ لمبی زمین کو «ملا» کہتے ہیں۔ «أشق»، «افعل التفصيل» کا صیغہ ہے مشقت سے یعنی بہت سخت۔ «معقب لا معقب لحكمه» میں یعنی نہیں بدلنے والا اور مجاہد نے کہا «متجاورات» کا معنی یہ ہے کہ بعضے قطعے عمدہ قابل زراعت ہیں بعض خراب شور کھارے ہیں۔ «صنوان» وہ کھجور کے درخت جن کی جڑ ملی ہوئی ہو (ایک ہی جڑ پر کھڑے ہوں)۔ «غير صنوان» الگ الگ جڑ پر سب ہی ایک پانی سے اگتے ہیں (ایک ہی ہوا سے ایک ہی زمین میں) آدمیوں کی بھی یہی مثال ہے کوئی اچھا کوئی برا حالانکہ سب ایک باپ آدم کی اولاد ہیں۔ «السحاب الثقال» وہ بادل جن میں پانی بھرا ہوا ہو اور وہ پانی کے بوجھ سے بھاری بھر کم ہوں۔ «كباسط كفيه» یعنی اس شخص کی طرح جو دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی کو زبان سے بلائے، ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے اس صورت میں پانی کبھی اس کی طرف نہیں آئے گا۔ «سالت أودية بقدرها» یعنی نالے اپنے انداز سے بہتے ہیں یعنی پانی بھر کر «زبدا»، «رابيا» سے مراد بہتے پانی کا پھین جھاگ «زبد مثله» سے لو ہے، زیورات وغیرہ کا پھین جھاگ مراد ہے۔ لفظ «معقبات» سے مراد یہ ہے کہ رات کے فرشتے الگ اور دن کے الگ ہیں۔