(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، وهشام، قالا: حدثنا قتادة، عن صفوان بن محرز، قال: بينا ابن عمر يطوف، إذ عرض رجل، فقال: يا ابا عبد الرحمن، او قال: يا ابن عمر، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم في النجوى، فقال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" يدنى المؤمن من ربه"، وقال هشام: يدنو المؤمن حتى يضع عليه كنفه، فيقرره بذنوبه، تعرف ذنب كذا، يقول: اعرف، يقول: رب اعرف، مرتين، فيقول: سترتها في الدنيا، واغفرها لك اليوم، ثم تطوى صحيفة حسناته، واما الآخرون او الكفار، فينادى على رءوس الاشهاد، هؤلاء الذين كذبوا على ربهم، الا لعنة الله على الظالمين سورة هود آية 18، وقال شيبان: عن قتادة، حدثنا صفوان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَهِشَامٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، قَالَ: بَيْنَا ابْنُ عُمَرَ يَطُوفُ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَوْ قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّجْوَى، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ"، وَقَالَ هِشَامٌ: يَدْنُو الْمُؤْمِنُ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، تَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، يَقُولُ: أَعْرِفُ، يَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، مَرَّتَيْنِ، فَيَقُولُ: سَتَرْتُهَا فِي الدُّنْيَا، وَأَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، ثُمَّ تُطْوَى صَحِيفَةُ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُونَ أَوِ الْكُفَّارُ، فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ، هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ سورة هود آية 18، وَقَالَ شَيْبَانُ: عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے صفوان بن محرز نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نام نامعلوم آپ کے سامنے آیا اور پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! یا یہ کہا کہ اے ابن عمر! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے متعلق کچھ سنا ہے (جو اللہ تعالیٰ مؤمنین سے قیامت کے دن کرے گا)۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ مومن اپنے رب کے قریب لایا جائے گا۔ اور ہشام نے «يدنو المؤمن»(بجائے «يدنى المؤمن» کہا) مطلب ایک ہی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا ایک جانب اس پر رکھے گا اور اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ فلاں گناہ تجھے یاد ہے؟ بندہ عرض کرے گا، یاد ہے، میرے رب! مجھے یاد ہے، دو مرتبہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمہارے گناہوں کو چھپائے رکھا اور آج بھی تمہاری مغفرت کروں گا۔ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے لوگ یا (یہ کہا کہ) کفار تو ان کے متعلق محشر میں اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ اور شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ ہم سے صفوان نے بیان کیا۔
Narrated Safwan bin Muhriz: While Ibn `Umar was performing the Tawaf (around the Ka`ba), a man came up to him and said, "O Abu `AbdurRahman!" or said, "O Ibn `Umar! Did you hear anything from the Prophet about An35 Najwa?" Ibn `Umar said, "I heard the Prophet saying, 'The Believer will be brought near his Lord." (Hisham, a sub-narrator said, reporting the Prophet's words), "The believer will come near (his Lord) till his Lord covers him with His screen and makes him confess his sins. (Allah will ask him), 'Do you know (that you did) 'such-and-such sin?" He will say twice, 'Yes, I do.' Then Allah will say, 'I concealed it in the world and I forgive it for you today.' Then the record of his good deeds will be folded up. As for the others, or the disbelievers, it will be announced publicly before the witnesses: 'These are ones who lied against their Lord."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 207
5. باب: آیت کی تفسیر ”اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے جو (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی دکھ دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے“۔
(5) Chapter. The Statement of Allah: “Such is the Seizure of your Lord when He seizes the (population of) towns while they are doing wrong. Verily, His Seizure is painful and severe.” (V.11:102)
«الرفد المرفود» مدد جو دی جائے (انعام جو مرحمت ہو)۔ عرب لوگ کہتے ہیں «رفدته» یعنی میں نے اس کی مدد کی۔ «تركنوا» کا معنی جھکو، مائل ہو۔ «فلولا كان» یعنی کیوں نہ ہوئے۔ «أترفوا» ہلاک کئے گئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «زفير» زور کی آواز کو اور «شهيق» پست آواز کو کہتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا صدقة بن الفضل، اخبرنا ابو معاوية، حدثنا بريد بن ابي بردة، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله ليملي للظالم حتى إذا اخذه لم يفلته، قال: ثم قرا وكذلك اخذ ربك إذا اخذ القرى وهي ظالمة إن اخذه اليم شديد سورة هود آية 102".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ، قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ سورة هود آية 102".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے برید بن ابی بردہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهى ظالمة إن أخذه أليم شديد»”اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے، جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے۔ جو (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی تکلیف دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے۔“
Narrated Abu Musa: Allah's Messenger said, "Allah gives respite to the oppressor, but when He takes him over, He never releases him." Then he recited:-- "Such is the seizure of your Lord when He seizes (population of) towns in the midst of their wrong: Painful indeed, and severe is His seizure.' (11.102)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 208
6. باب: آیت کی تفسیر ”اور تم نماز قائم کرو، دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں، بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے“۔
(6) Chapter. The Statement of Allah: “And perform As-Salat (Iqamat-as-Salat) at the two ends of the day, and in some hours of the night; [i.e., five compulsory Salat (prayers)]. Verily, the good deeds remove the evil deeds (small sins)...” (V.11:114)
وزلفا: ساعات بعد ساعات ومنه سميت المزدلفة الزلف، منزلة بعد منزلة، واما زلفى، فمصدر من القربى ازدلفوا اجتمعوا، ازلفنا: جمعنا.وَزُلَفًا: سَاعَاتٍ بَعْدَ سَاعَاتٍ وَمِنْهُ سُمِّيَتِ الْمُزْدَلِفَةُ الزُّلَفُ، مَنْزِلَةٌ بَعْدَ مَنْزِلَةٍ، وَأَمَّا زُلْفَى، فَمَصْدَرٌ مِنَ الْقُرْبَى ازْدَلَفُوا اجْتَمَعُوا، أَزْلَفْنَا: جَمَعْنَا.
«زلفا» یعنی گھڑی گھڑی اسی سے «مزدلفة» ہے۔ کیونکہ لوگ وہاں وقفہ وقفہ سے آتے رہتے ہیں اور «زلف» منزلوں کو بھی کہتے ہیں۔ «زلفى» کا لفظ جو سورۃ ص میں ہے جیسے «قربى» یعنی نزدیکی۔ «ازدلفوا» کا معنی جمع ہو گئے۔ «أزلفنا» متعدی ہے۔ یعنی ہم نے جمع کیا۔ ایک شخص کسی غیر عورت کو ہاتھ سے چھونے یا صرف بوسہ دے دینے کا مرتکب ہو گیا تھا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يزيد هو ابن زريع، حدثنا سليمان التيمي، عن ابي عثمان، عن ابن مسعود رضي الله عنه: ان رجلا اصاب من امراة قبلة، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فانزلت عليه: واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين سورة هود آية 114 قال الرجل: الي هذه؟ قال:" لمن عمل بها من امتي".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114 قَالَ الرَّجُلُ: أَلِيَ هَذِهِ؟ قَالَ:" لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کو بوسہ دے دیا اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اپنا گناہ بیان کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وأقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين»”اور تم نماز کی پابندی کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے۔“ ان صاحب نے عرض کیا یہ آیت صرف میرے ہی لیے ہے (کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ہر انسان کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے۔
Narrated Ibn Masud: A man kissed a woman and then came to Allah's Messenger and told him of that, so this Divine Inspiration was revealed to the Prophet 'And offer Prayers perfectly at the two ends of the day, and in some hours of the night; (i.e. (five) compulsory prayers). Verily, the good deeds remove the evil deeds (small sins) That is a reminder for the mindful.' (11.114) The man said, Is this instruction for me only?' The Prophet said, "It is for all those of my followers who encounter a similar situation."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 209
وقال فضيل: عن حصين، عن مجاهد، متكا: الاترج، قال فضيل: الاترج بالحبشية متكا، وقال ابن عيينة: عن رجل، عن مجاهد، متكا، قال: كل شيء قطع بالسكين، وقال قتادة: لذو علم: لما علمناه عامل بما علم، وقال سعيد بن جبير، صواع الملك مكوك الفارسي: الذي يلتقي طرفاه كانت تشرب به الاعاجم، وقال ابن عباس: تفندون: تجهلون، وقال غيره: غيابة كل شيء غيب عنك شيئا فهو غيابة، والجب الركية التي لم تطو، بمؤمن لنا: بمصدق، اشده: قبل ان ياخذ في النقصان، يقال: بلغ اشده، وبلغوا اشدهم، وقال بعضهم: واحدها شد، والمتكا ما اتكات عليه لشراب، او لحديث، او لطعام، وابطل الذي، قال: الاترج وليس في كلام العرب الاترج، فلما احتج عليهم بانه المتكا من نمارق فروا إلى شر منه، فقالوا: إنما هو المتك ساكنة التاء، وإنما المتك طرف البظر، ومن ذلك قيل لها: متكاء وابن المتكاء، فإن كان ثم اترج، فإنه بعد المتكإ، شغفها، يقال: بلغ شغافها، وهو غلاف قلبها، واما شعفها فمن المشعوف، اصب: اميل صبا مال، اضغاث احلام: ما لا تاويل له، والضغث ملء اليد من حشيش وما اشبهه ومنه، وخذ بيدك ضغثا لا من قوله اضغاث احلام واحدها ضغث، نمير: من الميرة، ونزداد كيل بعير: ما يحمل بعير، اوى إليه: ضم إليه السقاية مكيال، تفتا: لا تزال، حرضا: محرضا يذيبك الهم، تحسسوا: تخبروا، مزجاة: قليلة، غاشية من عذاب الله: عامة مجللة.وَقَالَ فُضَيْلٌ: عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، مُتَّكَأً: الْأُتْرُجُّ، قَالَ فُضَيْلٌ: الْأُتْرُجُّ بِالْحَبَشِيَّةِ مُتْكًا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ رَجُلٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، مُتْكًا، قَالَ: كُلُّ شَيْءٍ قُطِعَ بِالسِّكِّينِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: لَذُو عِلْمٍ: لِمَا عَلَّمْنَاهُ عَامِلٌ بِمَا عَلِمَ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، صُوَاعَ الْمَلِكِ مَكُّوكُ الْفَارِسِيِّ: الَّذِي يَلْتَقِي طَرَفَاهُ كَانَتْ تَشْرَبُ بِهِ الْأَعَاجِمُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُفَنِّدُونِ: تُجَهِّلُونِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: غَيَابَةٌ كُلُّ شَيْءٍ غَيَّبَ عَنْكَ شَيْئًا فَهُوَ غَيَابَةٌ، وَالْجُبُّ الرَّكِيَّةُ الَّتِي لَمْ تُطْوَ، بِمُؤْمِنٍ لَنَا: بِمُصَدِّقٍ، أَشُدَّهُ: قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَ فِي النُّقْصَانِ، يُقَالُ: بَلَغَ أَشُدَّهُ، وَبَلَغُوا أَشُدَّهُمْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَاحِدُهَا شَدٌّ، وَالْمُتَّكَأُ مَا اتَّكَأْتَ عَلَيْهِ لِشَرَابٍ، أَوْ لِحَدِيثٍ، أَوْ لِطَعَامٍ، وَأَبْطَلَ الَّذِي، قَالَ: الْأُتْرُجُّ وَلَيْسَ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الْأُتْرُجُّ، فَلَمَّا احْتُجَّ عَلَيْهِمْ بِأَنَّهُ الْمُتَّكَأُ مِنْ نَمَارِقَ فَرُّوا إِلَى شَرٍّ مِنْهُ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هُوَ الْمُتْكُ سَاكِنَةَ التَّاءِ، وَإِنَّمَا الْمُتْكُ طَرَفُ الْبَظْرِ، وَمِنْ ذَلِكَ قِيلَ لَهَا: مَتْكَاءُ وَابْنُ الْمَتْكَاءِ، فَإِنْ كَانَ ثَمَّ أُتْرُجٌّ، فَإِنَّهُ بَعْدَ الْمُتَّكَإِ، شَغَفَهَا، يُقَالُ: بَلَغَ شِغَافَهَا، وَهُوَ غِلَافُ قَلْبِهَا، وَأَمَّا شَعَفَهَا فَمِنَ الْمَشْعُوفِ، أَصْبُ: أَمِيلُ صَبَا مَالَ، أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ: مَا لَا تَأْوِيلَ لَهُ، وَالضِّغْثُ مِلْءُ الْيَدِ مِنْ حَشِيشٍ وَمَا أَشْبَهَهُ وَمِنْهُ، وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا لَا مِنْ قَوْلِهِ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَاحِدُهَا ضِغْثٌ، نَمِيرُ: مِنَ الْمِيرَةِ، وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ: مَا يَحْمِلُ بَعِيرٌ، أَوَى إِلَيْهِ: ضَمَّ إِلَيْهِ السِّقَايَةُ مِكْيَالٌ، تَفْتَأُ: لَا تَزَالُ، حَرَضًا: مُحْرَضًا يُذِيبُكَ الْهَمُّ، تَحَسَّسُوا: تَخَبَّرُوا، مُزْجَاةٍ: قَلِيلَةٍ، غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ: عَامَّةٌ مُجَلِّلَةٌ.
اور فضیل بن عیاض (زاہد مشہور) نے حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے کہا «متكأ» کا معنی «لأترج» اور خود فضیل نے بھی کہا کہ «متكأ» حبشی زبان میں «لأترج» کو کہتے ہیں۔ اور سفیان بن عیینہ نے ایک شخص (نام نامعلوم) سے روایت کی اس نے مجاہد سے انہوں نے کہا۔ «متكأ» وہ چیز جو چھری سے کاٹی جائے (میوہ ہو یا ترکاری)۔ اور قتادہ نے کہا «ذو علم» کا معنی اپنے علم پر عمل کرنے والا۔ اور سعید بن جبیر نے کہا «صواع» ایک ماپ ہے جس کو «مكوك الفارسي» بھی کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح کا ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں۔ عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا «لو لا ان تفندون» اگر تم مجھ کو جاہل نہ کہو۔ دوسرے لوگوں نے کہا «غيابة» وہ چیز جو دوسری چیز کو چھپاوے غائب کر دے اور جب کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو۔ «وما انت بمؤمن لنا» یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں۔ «أشده» وہ عمر جو زمانہ انحطاط سے پہلے ہو (تیس سے چالیس برس تک) عرب بولا کرتے ہیں۔ «بلغ أشده وبلغوا أشدهم» یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے۔ بعضوں نے کہا «اشد»، «شد» کی جمع ہے۔ «متكأ» مسند، تکیہ جس پر تو پینے کھانے یا باتیں کرنے کے لیے ٹیکا دے۔ اور جس نے یہ کہا کہ «متكأ»، «لأترج» کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا۔ عربی زبان میں «متكأ» کے معنی «لأترج» کے بالکل نہیں آئے ہیں جب اس شخص سے جو «متكأ» کے معنی «لأترج» کہتا ہے اصل بیان کی گئی کہ «متكأ» مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو وہ اس سے بھی بدتر ایک بات کہنے لگا کہ یہ لفظ «المتك ساكنة التاء» ہے۔ حالانکہ «متك» عربی زبان میں عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں۔ جہاں عورت کو ختنہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی زبان میں «متكأ»( «متك» والی) کہتے ہیں اور آدمی کو «متكأ» کا پیٹ کہتے ہیں۔ اگر بالفرض زلیخا نے «لأترج» بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہو گا تو مسند تکیہ کے بعد دیا ہو گا۔ «شعفها» یعنی اس کے دل کے «شغاف»(غلاف) میں اس کی محبت سما گئی ہے۔ بعضوں نے «شعفها» عین مہملہ سے پڑھا ہے وہ «مشعوف» سے نکلا ہے۔ «أصب» کا معنی مائل ہو جاؤں گا جھک پڑوں گا۔ «أضغاث أحلام» پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جا سکے۔ اصل میں «أضغاث»، «ضغث» کی جمع ہے یعنی ایک مٹھی بھر گھاس تنکے وغیرہ اس سے ہے (سورۃ ص میں) «خذ بيدك ضغثا» یعنی اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے۔ اور «أضغاث أحلام» میں «ضغث» کے یہ معنی مراد نہیں ہیں۔ بلکہ پریشان خواب مراد ہے۔ «نمير»، «ميرة» سے نکلا ہے اس کے معنی کھانے کے ہیں۔ «ونزداد كيل بعير» یعنی ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے۔ «أوى إليه» اپنے سے ملا لیا۔ اپنے پاس بیٹھا لیا۔ «سقاية» ایک ماپ تھا (جس سے غلہ ماپتے تھے)۔ «تفتأ» ہمیشہ رہو گے۔ «فلما استياسوا» جب ناامید ہو گئے۔ «ولا تياسوا من روح الله» اللہ سے امید رکھو اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ «خلصوا نجيا» الگ جا کر مشورہ کرنے لگے۔ «نجي» کا معنی مشورہ کرنے والا۔ اس کی جمع «انجية» بھی آئی ہے اس سے بنا ہے «يتنا جون» یعنی مشورہ کر رہے ہیں۔ «نجي» مفرد کا صیغہ ہے اور تثنیہ اور جمع میں «نجي» اور «انجية» دونوں مستعمل ہیں۔ «حرضا» یعنی رنج و غم تجھ کو گلا ڈالے گا۔ «تحسسوا» یعنی خبر لو، لو لگاؤ، تلاش کرو۔ «مزجاة» تھوڑی پونجی۔ «غاشية من عذاب الله» اللہ کا عام عذاب جو سب کو گھیر لے۔
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنا انعام تمہارے اوپر اور اولاد یعقوب پر پورا کرے گا جیسا کہ وہ اسے اس سے پہلے پورا کر چکا ہے، تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “...and perfect His Favour on you and on the offspring of Yaqub (Jacob)...” (V.12:6)
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے۔(علیہم الصلٰوۃ والسلام)۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet said, "The honorable, the son of the honorable the son of the honorable, i.e. Joseph, the son of Jacob, the son of Isaac, the son of Abraham."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 210
2. باب: آیت «لقد كان في يوسف وإخوته آيات للسائلين» کی تفسیر۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, in Yusuf (Joseph) and his brethren, there were Ayat (proofs, evidence, verses, lessons, signs, revelations, etc.) for those who ask." (V.12:7)
(مرفوع) حدثني محمد، اخبرنا عبدة، عن عبيد الله، عن سعيد بن ابي سعيد، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، اي الناس اكرم؟ قال:" اكرمهم عند الله اتقاهم"، قالوا: ليس عن هذا نسالك، قال:" فاكرم الناس يوسف نبي الله، ابن نبي الله، ابن نبي الله، ابن خليل الله"، قالوا: ليس عن هذا نسالك، قال:" فعن معادن العرب تسالوني؟" قالوا: نعم، قال:" فخياركم في الجاهلية، خياركم في الإسلام إذا فقهوا". تابعه ابو اسامة، عن عبيد الله.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ؟ قَالَ:" أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:" فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ، ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:" فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا". تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ انسانوں میں کون سب سے زیادہ شریف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف یوسف علیہ السلام ہیں «نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله» ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا یہ بھی مقصد نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، عرب کے خاندانوں کے متعلق تم معلوم کرنا چاہتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں، جبکہ دین کی سمجھ بھی انہیں حاصل ہو جائے۔ اس روایت کی متابعت ابواسامہ نے عبیداللہ سے کی ہے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger was asked, "Who are the most honorable of the people?" The Prophet said, "The most honorable of them in Allah's Sight are those who keep their duty to Allah and fear Him. They said, "We do not ask you about that." He said, "Then the most honorable of the people is Joseph, Allah's prophet, the son of Allah's prophet, the son of Allah's prophet, the son of Allah's Khalil i.e. Abraham) They said, "We do not ask you about that." The Prophet said, Do you ask about (the virtues of the ancestry of the Arabs?" They said, "Yes," He said, "Those who were the best amongst you in the Prelslamic Period are the best amongst you in Islam if they comprehend (the Islamic religion).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 211
3. باب: آیت کی تفسیر ”یعقوب نے کہا، تم نے اپنے دل سے خود ایک جھوٹی بات گھڑ لی ہے“۔
(3) Chapter. The Statement of Allah: “He said, ’Nay, but your ownselves have made up a tale. So (for me), patience is most fitting. And it is Allah (Alone) Whose help can be sought against that (lie) which you describe.’ ” (V.12:18)