(مرفوع) حدثنا محمد بن عرعرة، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:" كان عمر بن الخطاب رضي الله عنه يدني ابن عباس، فقال له عبد الرحمن بن عوف: إن لنا ابناء مثله، فقال: إنه من حيث تعلم، فسال عمر ابن عباس عن هذه الآية: إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر آية 1، فقال: اجل، رسول الله صلى الله عليه وسلم اعلمه إياه، فقال: ما اعلم منها إلا ما تعلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُدْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: إِنَّ لَنَا أَبْنَاءً مِثْلَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مِنْ حَيْثُ تَعْلَمُ، فَسَأَلَ عُمَرُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1، فَقَالَ: أَجَلُ، رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ آپ کو (مجالس میں) اپنے قریب بٹھاتے تھے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا کہ اس جیسے تو ہمارے بچے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ طرز عمل جس وجہ سے اختیار کیا، وہ آپ کو معلوم بھی ہے؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت (یعنی) «إذا جاء نصر الله والفتح» کے متعلق پوچھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تھی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے (آیت میں) اسی کی اطلاع دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو تم نے بتایا وہی میں بھی اس آیت کے متعلق جانتا ہوں۔
Narrated Ibn `Abbas: `Umar bin Al-Khattab used to let Ibn `Abbas sit beside him, so `AbdurRahman bin `Auf said to `Umar, "We have sons similar to him." `Umar replied, "(I respect him) because of his status that you know." `Umar then asked Ibn `Abbas about the meaning of this Holy Verse:-- "When comes the help of Allah and the conquest of Mecca . . ." (110.1) Ibn `Abbas replied, "That indicated the death of Allah's Apostle which Allah informed him of." `Umar said, "I do not understand of it except what you understand."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 713
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان، عن سليمان الاحول، عن سعيد بن جبير، قال: قال ابن عباس: يوم الخميس، وما يوم الخميس اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال:" ائتوني اكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ابدا، فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع"، فقالوا: ما شانه اهجر استفهموه، فذهبوا يردون عليه، فقال:" دعوني، فالذي انا فيه خير مما تدعوني إليه واوصاهم بثلاث، قال: اخرجوا المشركين من جزيرة العرب، واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم، وسكت عن الثالثة، او قال: فنسيتها.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ:" ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ"، فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" دَعُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ، قَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَ: فَنَسِيتُهَا.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا معلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوں کہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہو گیا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کیا آپ شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ (یہاں شور و غل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرنا جس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعید نے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔
Narrated Ibn `Abbas: Thursday! And how great that Thursday was! The ailment of Allah's Apostle became worse (on Thursday) and he said, fetch me something so that I may write to you something after which you will never go astray." The people (present there) differed in this matter, and it was not right to differ before a prophet. Some said, "What is wrong with him ? (Do you think ) he is delirious (seriously ill)? Ask him ( to understand his state )." So they went to the Prophet and asked him again. The Prophet said, "Leave me, for my present state is better than what you call me for." Then he ordered them to do three things. He said, "Turn the pagans out of the 'Arabian Peninsula; respect and give gifts to the foreign delegations as you have seen me dealing with them." (Sa`id bin Jubair, the sub-narrator said that Ibn `Abbas kept quiet as rewards the third order, or he said, "I forgot it.") (See Hadith No. 116 Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 716
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هلموا اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده"، فقال بعضهم: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله، فاختلف اهل البيت واختصموا، فمنهم من، يقول: قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده، ومنهم من يقول غير ذلك، فلما اكثروا اللغو والاختلاف، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قوموا"، قال عبيد الله: فكان يقول ابن عباس: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين ان يكتب لهم ذلك الكتاب لاختلافهم ولغطهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ"، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ، يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبُ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ غَيْرَ ذَلِكَ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُومُوا"، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِاخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہو سکو گے۔ اس پر (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا۔ جب شور و غل اور نزاع زیادہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔
Narrated Ubaidullah bin `Abdullah: Ibn `Abbas said, "When Allah's Apostle was on his deathbed and there were some men in the house, he said, 'Come near, I will write for you something after which you will not go astray.' Some of them ( i.e. his companions) said, 'Allah's Apostle is seriously ill and you have the (Holy) Qur'an. Allah's Book is sufficient for us.' So the people in the house differed and started disputing. Some of them said, 'Give him writing material so that he may write for you something after which you will not go astray.' while the others said the other way round. So when their talk and differences increased, Allah's Apostle said, "Get up." Ibn `Abbas used to say, "No doubt, it was very unfortunate (a great disaster) that Allah's Apostle was prevented from writing for them that writing because of their differences and noise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 717
(مرفوع) حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دعا النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة عليها السلام في شكواه الذي قبض فيه فسارها بشيء فبكت، ثم دعاها فسارها بشيء فضحكت، فسالنا عن ذلك، فقالت:" سارني النبي صلى الله عليه وسلم انه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبكيت، ثم سارني فاخبرني اني اول اهله يتبعه فضحكت".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَبَكَتْ، ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَضَحِكَتْ، فَسَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ:" سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَكَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ يَتْبَعُهُ فَضَحِكْتُ".
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی، میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔
Narrated `Aisha: The Prophet called Fatima during his fatal illness and told her something secretly and she wept. Then he called her again and told her something secretly, and she started laughing. When we asked her about that, she said, "The Prophet first told me secretly that he would expire in that disease in which he died, so I wept; then he told me secretly that I would be the first of his family to follow him, so I laughed ( at that time).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 718
(مرفوع) حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دعا النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة عليها السلام في شكواه الذي قبض فيه فسارها بشيء فبكت، ثم دعاها فسارها بشيء فضحكت، فسالنا عن ذلك، فقالت:" سارني النبي صلى الله عليه وسلم انه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبكيت، ثم سارني فاخبرني اني اول اهله يتبعه فضحكت".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَبَكَتْ، ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَضَحِكَتْ، فَسَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ:" سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَكَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ يَتْبَعُهُ فَضَحِكْتُ".
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی، میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔
Narrated `Aisha: The Prophet called Fatima during his fatal illness and told her something secretly and she wept. Then he called her again and told her something secretly, and she started laughing. When we asked her about that, she said, "The Prophet first told me secretly that he would expire in that disease in which he died, so I wept; then he told me secretly that I would be the first of his family to follow him, so I laughed ( at that time).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 718
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن عروة، عن عائشة، قالت:" كنت اسمع انه لا يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة، فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في مرضه الذي مات فيه واخذته بحة، يقول: مع الذين انعم الله عليهم سورة النساء آية 69 الآية، فظننت انه خير".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ، يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ سورة النساء آية 69 الْآيَةَ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا، آپ اپنے مرض الموت میں فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بھاری ہو چکی تھی۔ آپ آیت «مع الذين أنعم الله عليهم» کی تلاوت فرما رہے تھے (یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے) مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔
Narrated `Aisha: Used to hear (from the Prophet) that no Prophet dies till he is given the option to select either the worldly life or the life of the Hereafter. I heard the Prophet in his fatal disease, with his voice becoming hoarse, saying, "In the company of those on whom is the grace of Allah ..( to the end of the Verse )." (4.69) Thereupon I thought that the Prophet had been given the option.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 719
(مرفوع) حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، عن سعد، عن عروة، عن عائشة، قالت:" لما مرض النبي صلى الله عليه وسلم المرض الذي مات فيه جعل، يقول:" في الرفيق الاعلى".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرَضَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ جَعَلَ، يَقُولُ:" فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں باربار فرماتے تھے۔ ”( «اللهم») «الرفيق الأعلى» اے اللہ! مجھے میرے رفقاء (انبیاء اور صدیقین) میں پہنچا دے (جو اعلیٰ علیین میں رہتے ہیں)۔“
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، إن عائشة، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صحيح، يقول:" إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة، ثم يحيا او يخير"، فلما اشتكى وحضره القبض وراسه على فخذ عائشة غشي عليه، فلما افاق شخص بصره نحو سقف البيت، ثم قال:" اللهم في الرفيق الاعلى"، فقلت: إذا لا يجاورنا، فعرفت انه حديثه الذي كان يحدثنا وهو صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، إِنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَحِيحٌ، يَقُولُ:" إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، ثُمَّ يُحَيَّا أَوْ يُخَيَّرَ"، فَلَمَّا اشْتَكَى وَحَضَرَهُ الْقَبْضُ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِ عَائِشَةَ غُشِيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرُهُ نَحْوَ سَقْفِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى"، فَقُلْتُ: إِذًا لَا يُجَاوِرُنَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ حَدِيثُهُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِيحٌ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہ عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تندرستی کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھا دی گئی، پھر اسے اختیار دیا گیا (راوی کو شک تھا کہ لفظ «يحيا» ہے یا «يخير»، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور وقت قریب آ گیا تو سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر تھا اور آپ پر غشی طاری ہو گئی تھی، جب کچھ ہوش ہوا تو آپ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ «اللهم في الرفيق الأعلى» ۔ میں سمجھ گئی کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (یعنی دنیاوی زندگی کو) پسند نہیں فرمائیں گے۔ مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرستی کے زمانے میں فرمائی تھی۔
Narrated Aisha: When Allah 's Apostle was in good health, he used to say, "Never does a prophet die unless he is shown his place in Paradise ( before his death ), and then he is made alive or given option." When the Prophet became ill and his last moments came while his head was on my thigh, he became unconscious, and when he came to his senses, he looked towards the roof of the house and then said, "O Allah! (Please let me be) with the highest companion." Thereupon I said, "Hence he is not going to stay with us? " Then I came to know that his state was the confirmation of the narration he used to mention to us while he was in good health.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 721
(مرفوع) حدثنا محمد، حدثنا عفان، عن صخر بن جويرية، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة:" دخل عبد الرحمن بن ابي بكر على النبي صلى الله عليه وسلم وانا مسندته إلى صدري ومع عبد الرحمن سواك رطب يستن به، فابده رسول الله صلى الله عليه وسلم بصره، فاخذت السواك فقصمته ونفضته وطيبته، ثم دفعته إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستن به، فما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم استن استنانا قط احسن منه، فما عدا ان فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع يده او إصبعه، ثم قال:" في الرفيق الاعلى ثلاثا"، ثم قضى، وكانت، تقول: مات بين حاقنتي وذاقنتي".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ صَخْرِ بْنِ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ:" دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُسْنِدَتُهُ إِلَى صَدْرِي وَمَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سِوَاكٌ رَطْبٌ يَسْتَنُّ بِهِ، فَأَبَدَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ، فَأَخَذْتُ السِّوَاكَ فَقَصَمْتُهُ وَنَفَضْتُهُ وَطَيَّبْتُهُ، ثُمَّ دَفَعْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ بِهِ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَنَّ اسْتِنَانًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ، فَمَا عَدَا أَنْ فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَهُ أَوْ إِصْبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ:" فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ثَلَاثًا"، ثُمَّ قَضَى، وَكَانَتْ، تَقُولُ: مَاتَ بَيْنَ حَاقِنَتِي وَذَاقِنَتِي".
ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے صخر بن جویریہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد (قاسم بن محمد) نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ(ان کے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک استعمال کے لیے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسواک کی طرف دیکھتے رہے۔ چنانچہ میں نے ان سے مسواک لے لی اور اسے اپنے دانتوں سے چبا کر اچھی طرح جھاڑنے اور صاف کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ آپ نے وہ مسواک استعمال کی جتنے عمدہ طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسواک کر رہے تھے، میں نے آپ کو اتنی اچھی طرح مسواک کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ مسواک سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھائی اور فرمایا۔ «في الرفيق الأعلى» تین مرتبہ، اور آپ کا انتقال ہو گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان میں تھا۔
Narrated Aisha: `Abdur-Rahman bin Abu Bakr entered upon the Prophet while I was supporting the Prophet on my chest. `AbdurRahman had a fresh Siwak then and he was cleaning his teeth with it. Allah's Apostle looked at it, so I took the Siwak, cut it (chewed it with my teeth), shook it and made it soft (with water), and then gave it to the Prophet who cleaned his teeth with it. I had never seen Allah's Apostle cleaning his teeth in a better way. After finishing the brushing of his teeth, he lifted his hand or his finger and said thrice, "O Allah! Let me be with the highest companions," and then died. `Aisha used to say, "He died while his head was resting between my chest and chin."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 722
(مرفوع) حدثني حبان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة، ان عائشة رضي الله عنها اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان إذا اشتكى نفث على نفسه بالمعوذات، ومسح عنه بيده، فلما اشتكى وجعه الذي توفي فيه، طفقت انفث على نفسه بالمعوذات التي كان ينفث، وامسح بيد النبي صلى الله عليه وسلم عنه".(مرفوع) حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ".
مجھ سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کرتی تھی۔
Narrated Aisha: Whenever Allah's Apostle became ill, he used to recite the Muawidhatan (i.e. the last two surahs of the Qur'an) and blow his breath over himself (after their recitation ) and rubbed his hands over his body. So when he was afflicted with his fatal illness. I started reciting the Muawidhatan and blowing my breath over him as he used to do and then I rubbed the hand of the Prophet over his body.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 723