صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4412
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، وقال الليث: حدثني يونس، عن ابن شهاب، حدثني عبيد الله بن عبد الله، انعبد الله بن عباس رضي الله عنهما اخبره:" انه اقبل يسير على حمار ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس، فسار الحمار بين يدي بعض الصف، ثم نزل عنه فصف مع الناس".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ:" أَنَّهُ أَقْبَلَ يَسِيرُ عَلَى حِمَارٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ بِمِنًى فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَسَارَ الْحِمَارُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، ثُمَّ نَزَلَ عَنْهُ فَصَفَّ مَعَ النَّاسِ".
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شہاب نے بیان کیا (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔ ان کا گدھا صف کے کچھ حصے سے گزرا، پھر وہ اتر کر لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Abbas: That he came riding a donkey when Allah 's Apostle was standing at Mina during Hajjat-ul-Wada`, leading the people in prayer. The donkey passed in front of a part of the row (of the people offering the prayer). Then he dismounted from it and took his position in the row with the people.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 696


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4413
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن هشام، قال: حدثني ابي، قال: سئل اسامة وانا شاهد، عن سير النبي صلى الله عليه وسلم في حجته، فقال العنق:" فإذا وجد فجوة نص".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ وَأَنَا شَاهِدٌ، عَنْ سَيْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ، فَقَالَ الْعَنَقَ:" فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (سفر میں) رفتار کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیچ کی چال چلتے تھے اور جب کشادہ جگہ ملتی تو اس سے تیز چلتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Hisham's father: In my presence, Usama was asked about the speed of the Prophet during his Hajj. He replied, "It was Al-`Anaq (i.e. moderate easy speed) and if he encountered an open space, he used to increase his speed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 697


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4414
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عدي بن ثابت، عن عبد الله بن يزيد الخطمي، ان ابا ايوب اخبره:" انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع المغرب والعشاء جميعا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ:" أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے عبداللہ بن یزید خطمی نے اور انہیں ابوایوب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مغرب اور عشاء ملا کر ایک ساتھ پڑھی تھیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Yazid Al-Khatmi: That Abu Aiyub informed him that he offered the Maghrib and `Isha' prayers together with the Prophet during Hajjat-ul-Wada`.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 698


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
79. بَابُ غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ:
79. باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
(79) Chapter. The Ghazwa of Tabuk, which is also called Ghazwa AI-Usrah (i.e., the battle of hardship).
حدیث نمبر: 4415
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن بريد بن عبد الله بن ابي بردة، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: ارسلني اصحابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اساله الحملان لهم، إذ هم معه في جيش العسرة وهي غزوة تبوك، فقلت: يا نبي الله، إن اصحابي ارسلوني إليك لتحملهم، فقال:" والله لا احملكم على شيء"، ووافقته وهو غضبان ولا اشعر، ورجعت حزينا من منع النبي صلى الله عليه وسلم، ومن مخافة ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم وجد في نفسه علي، فرجعت إلى اصحابي فاخبرتهم الذي قال النبي صلى الله عليه وسلم، فلم البث إلا سويعة إذ سمعت بلالا ينادي: اي عبد الله بن قيس، فاجبته، فقال: اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوك، فلما اتيته، قال:" خذ هذين القرينين، وهذين القرينين لستة ابعرة، ابتاعهن حينئذ من سعد، فانطلق بهن إلى اصحابك، فقل: إن الله، او قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يحملكم على هؤلاء، فاركبوهن"، فانطلقت إليهم بهن، فقلت: إن النبي صلى الله عليه وسلم يحملكم على هؤلاء، ولكني والله لا ادعكم حتى ينطلق معي بعضكم إلى من سمع مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا تظنوا اني حدثتكم شيئا لم يقله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا لي: والله إنك عندنا لمصدق، ولنفعلن ما احببت، فانطلق ابو موسى بنفر منهم حتى اتوا الذين سمعوا قول رسول الله صلى الله عليه وسلم منعه إياهم، ثم إعطاءهم بعد، فحدثوهم بمثل ما حدثهم به ابو موسى.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ لَهُمْ، إِذْ هُمْ مَعَهُ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ وَهِيَ غَزْوَةُ تَبُوكَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابِي أَرْسَلُونِي إِلَيْكَ لِتَحْمِلَهُمْ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ"، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ وَلَا أَشْعُرُ، وَرَجَعْتُ حَزِينًا مِنْ مَنْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ عَلَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الَّذِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا سُوَيْعَةً إِذْ سَمِعْتُ بِلَالًا يُنَادِي: أَيْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ: أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوكَ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ:" خُذْ هَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ، وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ، ابْتَاعَهُنَّ حِينَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ، فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ: إِنَّ اللَّهَ، أَوْ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، فَارْكَبُوهُنَّ"، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِمْ بِهِنَّ، فَقُلْتُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدَعُكُمْ حَتَّى يَنْطَلِقَ مَعِي بَعْضُكُمْ إِلَى مَنْ سَمِعَ مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا تَظُنُّوا أَنِّي حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا لَمْ يَقُلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ إِنَّكَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ، فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى أَتَوْا الَّذِينَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْعَهُ إِيَّاهُمْ، ثُمَّ إِعْطَاءَهُمْ بَعْدُ، فَحَدَّثُوهُمْ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَهُمْ بِهِ أَبُو مُوسَى.
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کر سکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد رضی اللہ عنہ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہو جاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کر لیں گے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa: My Companions sent me to Allah's Apostle to ask him for some animals to ride on as they were accompanying him in the army of Al-Usra, and that was the Ghazwa (Battle) of Tabuk, I said, "O Allah's Prophet! My companions have sent me to you to provide them with means of transportation." He said, "By Allah! I will not make you ride anything." It happened that when I reached him, he was in an angry mood, and I didn't notice it. So I returned in a sad mood because of the refusal the Prophet and for the fear that the Prophet might have become 'angry with me. So I returned to my companions and informed them of what the Prophet had said. Only a short while had passed when I heard Bilal calling, "O `Abdullah bin Qais!" I replied to his call. Bilal said, "Respond to Allah's Apostle who is calling you." When I went to him (i.e. the Prophet), he said, "Take these two camels tied together and also these two camels tied together,"' referring to six camels he had brought them from Sa`d at that time. The Prophet added, "Take them to your companions and say, 'Allah (or Allah's Apostle ) allows you to ride on these,' so ride on them." So I took those camels to them and said, "The Prophet allows you to ride on these (camels) but by Allah, I will not leave you till some of you proceed with me to somebody who heard the statement of Allah's Apostle. Do not think that I narrate to you a thing which Allah's Apostle has not said." They said to me, "We consider you truthful, and we will do what you like." The sub-narrator added: So Abu Musa proceeded along with some of them till they came to those who have heard the statement of Allah's Apostle wherein he denied them (some animals to ride on) and (his statement) whereby he gave them the same. So these people told them the same information as Abu Musa had told them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 699


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4416
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن الحكم، عن مصعب بن سعد، عن ابيه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى تبوك واستخلف عليا، فقال: اتخلفني في الصبيان والنساء، قال:" الا ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى؟ إلا انه ليس نبي بعدي"،وقال ابو داود: حدثنا شعبة، عن الحكم، سمعت مصعبا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، فَقَالَ: أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ، قَالَ:" أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي"،وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، سَمِعْتُ مُصْعَبًا.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sa`d: Allah's Apostle set out for Tabuk. appointing `Ali as his deputy (in Medina). `Ali said, "Do you want to leave me with the children and women?" The Prophet said, "Will you not be pleased that you will be to me like Aaron to Moses? But there will be no prophet after me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 700


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4417
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن سعيد، حدثنا محمد بن بكر، اخبرنا ابن جريج، قال: سمعت عطاء يخبر، قال: اخبرني صفوان بن يعلى بن امية،عن ابيه، قال: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم العسرة، قال: كان يعلى يقول تلك الغزوة اوثق اعمالي عندي، قال عطاء: فقال صفوان: قال يعلى: فكان لي اجير، فقاتل إنسانا فعض احدهما يد الآخر، قال عطاء: فلقد اخبرني صفوان ايهما عض الآخر فنسيته، قال: فانتزع المعضوض يده من في العاض، فانتزع إحدى ثنيتيه، فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فاهدر ثنيته، قال عطاء: وحسبت، انه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" افيدع يده في فيك تقضمها كانها في في فحل يقضمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يُخْبِرُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ،عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُسْرَةَ، قَالَ: كَانَ يَعْلَى يَقُولُ تِلْكَ الْغَزْوَةُ أَوْثَقُ أَعْمَالِي عِنْدِي، قَالَ عَطَاءٌ: فَقَالَ صَفْوَانُ: قَالَ يَعْلَى: فَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا يَدَ الْآخَرِ، قَالَ عَطَاءٌ: فَلَقَدْ أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ أَيُّهُمَا عَضَّ الْآخَرَ فَنَسِيتُهُ، قَالَ: فَانْتَزَعَ الْمَعْضُوضُ يَدَهُ مِنْ فِي الْعَاضِّ، فَانْتَزَعَ إِحْدَى ثَنِيَّتَيْهِ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، قَالَ عَطَاءٌ: وَحَسِبْتُ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَأَنَّهَا فِي فِي فَحْلٍ يَقْضَمُهَا".
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے صفوان بن یعلٰی بن امیہ نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ عسرت میں شریک تھا۔ بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنے تمام عملوں میں اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے۔ عطاء نے بیان کیا، ان سے صفوان نے بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نے ایک مزدور بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ وہ ایک شخص سے لڑ پڑا اور ایک نے دوسرے کا ہاتھ دانت سے کاٹا۔ عطاء نے بیان کیا کہ مجھے صفوان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ان دونوں میں سے کس نے اپنے مقابل کا ہاتھ کاٹا تھا، یہ مجھے یاد نہیں ہے۔ بہرحال جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے جو کھینچا تو کاٹنے والے کے آگے کا ایک دانت بھی ساتھ چلا آیا۔ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت کے ٹوٹنے پر کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ عطاء نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا وہ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ رہنے دیتا تاکہ تو اسے اونٹ کی طرح چبا جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Safwan bin Ya`la bin Umaiya: that his father said, "I participated in Al-Usra (i.e. Tabuk) along with the Prophet." Ya`la added, "(My participation in) that Ghazwa was the best of my deeds to me." Ya`la said, "I had a laborer who quarrelled with somebody, and one of the two bit the hand of the other (`Ata', the sub-narrator, said, "Safwan told me who bit whom but I forgot it"), and the one who was bitten, pulled his hand out of the mouth of the biter, so one of the incisors of the biter was broken. So we came to the Prophet and he considered the biter's claim as invalid (i.e. the biter did not get a recompense for his broken incisor). The Prophet said, "Should he leave his hand in your mouth so that you might snap it as if it were in the mouth of a male camel to snap it?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 701


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
80. بَابُ حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ:
80. باب: کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا بیان۔
(80) Chapter. The narration of Kab bin Malik.
حدیث نمبر: Q4418
Save to word اعراب English
وقول الله عز وجل: {وعلى الثلاثة الذين خلفوا}.وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا}.
‏‏‏‏ (جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے) اور اللہ عزوجل کا ارشاد اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا۔
حدیث نمبر: 4418
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، ان عبد الله بن كعب بن مالك وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث حين تخلف عن قصة تبوك، قال كعب:" لم اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها إلا في غزوة تبوك، غير اني كنت تخلفت في غزوة بدر، ولم يعاتب احدا تخلف عنها، إنما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد، ولقد شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلام، وما احب ان لي بها مشهد بدر، وإن كانت بدر اذكر في الناس منها كان من خبري اني لم اكن قط اقوى ولا ايسر حين تخلفت عنه في تلك الغزاة، والله ما اجتمعت عندي قبله راحلتان قط حتى جمعتهما في تلك الغزوة، ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد غزوة إلا ورى بغيرها حتى كانت تلك الغزوة غزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في حر شديد، واستقبل سفرا بعيدا، ومفازا وعدوا كثيرا، فجلى للمسلمين امرهم ليتاهبوا اهبة غزوهم، فاخبرهم بوجهه الذي يريد والمسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كثير، ولا يجمعهم كتاب حافظ يريد الديوان، قال كعب: فما رجل يريد ان يتغيب إلا ظن ان سيخفى له ما لم ينزل فيه وحي الله، وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الغزوة حين طابت الثمار والظلال، وتجهز رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه، فطفقت اغدو لكي اتجهز معهم، فارجع ولم اقض شيئا، فاقول في نفسي: انا قادر عليه، فلم يزل يتمادى بي حتى اشتد بالناس الجد، فاصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه ولم اقض من جهازي شيئا، فقلت: اتجهز بعده بيوم او يومين ثم الحقهم، فغدوت بعد ان فصلوا لاتجهز، فرجعت ولم اقض شيئا، ثم غدوت، ثم رجعت، ولم اقض شيئا، فلم يزل بي حتى اسرعوا وتفارط الغزو وهممت ان ارتحل فادركهم وليتني فعلت، فلم يقدر لي ذلك، فكنت إذا خرجت في الناس بعد خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم فطفت فيهم احزنني اني لا ارى إلا رجلا مغموصا عليه النفاق، او رجلا ممن عذر الله من الضعفاء، ولم يذكرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلغ تبوك، فقال وهو جالس في القوم بتبوك:" ما فعل كعب؟" فقال رجل من بني سلمة: يا رسول الله، حبسه برداه ونظره في عطفه، فقال معاذ بن جبل: بئس ما قلت، والله يا رسول الله، ما علمنا عليه إلا خيرا، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال كعب بن مالك: فلما بلغني انه توجه قافلا حضرني همي وطفقت اتذكر الكذب واقول بماذا اخرج من سخطه غدا؟ واستعنت على ذلك بكل ذي راي من اهلي، فلما قيل: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اظل قادما، زاح عني الباطل، وعرفت اني لن اخرج منه ابدا بشيء فيه كذب، فاجمعت صدقه، واصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما، وكان إذا قدم من سفر بدا بالمسجد، فيركع فيه ركعتين، ثم جلس للناس، فلما فعل ذلك جاءه المخلفون، فطفقوا يعتذرون إليه ويحلفون له وكانوا بضعة وثمانين رجلا، فقبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم، وبايعهم واستغفر لهم ووكل سرائرهم إلى الله، فجئته فلما سلمت عليه تبسم تبسم المغضب، ثم قال:" تعال"، فجئت امشي حتى جلست بين يديه، فقال لي:" ما خلفك؟ الم تكن قد ابتعت ظهرك؟"، فقلت: بلى، إني والله لو جلست عند غيرك من اهل الدنيا لرايت ان ساخرج من سخطه بعذر، ولقد اعطيت جدلا، ولكني والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب ترضى به عني ليوشكن الله ان يسخطك علي، ولئن حدثتك حديث صدق تجد علي فيه إني لارجو فيه عفو الله، لا والله ما كان لي من عذر والله ما كنت قط اقوى ولا ايسر مني حين تخلفت عنك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما هذا فقد صدق، فقم حتى يقضي الله فيك"، فقمت وثار رجال من بني سلمة فاتبعوني، فقالوا لي: والله ما علمناك كنت اذنبت ذنبا قبل هذا، ولقد عجزت ان لا تكون اعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بما اعتذر إليه المتخلفون، قد كان كافيك ذنبك استغفار رسول الله صلى الله عليه وسلم لك، فوالله ما زالوا يؤنبوني حتى اردت ان ارجع فاكذب نفسي، ثم قلت لهم: هل لقي هذا معي احد؟ قالوا: نعم رجلان، قالا مثل ما قلت، فقيل لهما: مثل ما قيل لك، فقلت: من هما، قالوا: مرارة بن الربيع العمري، وهلال بن امية الواقفي، فذكروا لي رجلين صالحين قد شهدا بدرا فيهما اسوة، فمضيت حين ذكروهما لي، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا ايها الثلاثة من بين من تخلف عنه، فاجتنبنا الناس وتغيروا لنا حتى تنكرت في نفسي الارض، فما هي التي اعرف، فلبثنا على ذلك خمسين ليلة، فاما صاحباي فاستكانا وقعدا في بيوتهما يبكيان، واما انا فكنت اشب القوم واجلدهم، فكنت اخرج فاشهد الصلاة مع المسلمين واطوف في الاسواق ولا يكلمني احد، وآتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاسلم عليه وهو في مجلسه بعد الصلاة، فاقول في نفسي: هل حرك شفتيه برد السلام علي ام لا؟ ثم اصلي قريبا منه، فاسارقه النظر، فإذا اقبلت على صلاتي اقبل إلي، وإذا التفت نحوه اعرض عني حتى إذا طال علي ذلك من جفوة الناس مشيت حتى تسورت جدار حائط ابي قتادة وهو ابن عمي واحب الناس إلي، فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام، فقلت: يا ابا قتادة، انشدك بالله هل تعلمني احب الله ورسوله؟ فسكت، فعدت له فنشدته، فسكت، فعدت له فنشدته، فقال: الله ورسوله اعلم، ففاضت عيناي وتوليت حتى تسورت الجدار، قال: فبينا انا امشي بسوق المدينة إذا نبطي من انباط اهل الشام ممن قدم بالطعام يبيعه بالمدينة، يقول: من يدل على كعب بن مالك؟ فطفق الناس يشيرون له حتى إذا جاءني دفع إلي كتابا من ملك غسان فإذا فيه: اما بعد، فإنه قد بلغني ان صاحبك قد جفاك ولم يجعلك الله بدار هوان ولا مضيعة، فالحق بنا نواسك، فقلت: لما قراتها وهذا ايضا من البلاء، فتيممت بها التنور فسجرته بها حتى إذا مضت اربعون ليلة من الخمسين إذا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيني، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك ان تعتزل امراتك، فقلت: اطلقها ام ماذا افعل؟ قال: لا، بل اعتزلها ولا تقربها، وارسل إلى صاحبي مثل ذلك، فقلت لامراتي: الحقي باهلك، فتكوني عندهم حتى يقضي الله في هذا الامر، قال كعب: فجاءت امراة هلال بن امية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن هلال بن امية شيخ ضائع ليس له خادم، فهل تكره ان اخدمه؟ قال:" لا، ولكن لا يقربك"، قالت: إنه والله ما به حركة إلى شيء، والله ما زال يبكي منذ كان من امره ما كان إلى يومه هذا، فقال لي بعض اهلي: لو استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراتك كما اذن لامراة هلال بن امية ان تخدمه، فقلت: والله لا استاذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما يدريني ما يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استاذنته فيها وانا رجل شاب، فلبثت بعد ذلك عشر ليال حتى كملت لنا خمسون ليلة من حين نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كلامنا، فلما صليت صلاة الفجر صبح خمسين ليلة وانا على ظهر بيت من بيوتنا، فبينا انا جالس على الحال التي ذكر الله قد ضاقت علي نفسي وضاقت علي الارض بما رحبت سمعت صوت صارخ اوفى على جبل سلع باعلى صوته: يا كعب بن مالك، ابشر، قال: فخررت ساجدا وعرفت ان قد جاء فرج وآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر، فذهب الناس يبشروننا وذهب قبل صاحبي مبشرون، وركض إلي رجل فرسا وسعى ساع من اسلم فاوفى على الجبل وكان الصوت اسرع من الفرس، فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشرني نزعت له ثوبي فكسوته إياهما ببشراه، والله ما املك غيرهما يومئذ واستعرت ثوبين فلبستهما، وانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيتلقاني الناس فوجا فوجا يهنوني بالتوبة، يقولون: لتهنك توبة الله عليك، قال كعب: حتى دخلت المسجد، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس حوله الناس، فقام إلي طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهناني، والله ما قام إلي رجل من المهاجرين غيره ولا انساها لطلحة، قال كعب: فلما سلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يبرق وجهه من السرور:" ابشر بخير يوم مر عليك منذ ولدتك امك"، قال: قلت: امن عندك يا رسول الله، ام من عند الله؟ قال:" لا، بل من عند الله"، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سر استنار وجهه حتى كانه قطعة قمر، وكنا نعرف ذلك منه، فلما جلست بين يديه، قلت: يا رسول الله، إن من توبتي ان انخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امسك عليك بعض مالك فهو خير لك"، قلت: فإني امسك سهمي الذي بخيبر، فقلت: يا رسول الله، إن الله إنما نجاني بالصدق، وإن من توبتي ان لا احدث إلا صدقا ما بقيت، فوالله ما اعلم احدا من المسلمين ابلاه الله في صدق الحديث منذ ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم احسن مما ابلاني ما تعمدت منذ ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا كذبا، وإني لارجو ان يحفظني الله فيما بقيت، وانزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم: لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار إلى قوله: وكونوا مع الصادقين سورة التوبة آية 117 - 119، فوالله ما انعم الله علي من نعمة قط بعد ان هداني للإسلام اعظم في نفسي من صدقي لرسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا اكون كذبته فاهلك كما هلك الذين كذبوا، فإن الله قال للذين كذبوا حين انزل الوحي شر ما قال لاحد، فقال تبارك وتعالى: سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إلى قوله: فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين سورة التوبة آية 95 - 96، قال كعب: وكنا تخلفنا ايها الثلاثة عن امر اولئك الذين قبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حلفوا له فبايعهم، واستغفر لهم، وارجا رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا حتى قضى الله فيه، فبذلك قال الله: وعلى الثلاثة الذين خلفوا سورة التوبة آية 118 وليس الذي ذكر الله مما خلفنا عن الغزو إنما هو تخليفه إيانا وإرجاؤه امرنا عمن حلف له واعتذر إليه فقبل منه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ، قَالَ كَعْبٌ:" لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهَا، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا كَانَ مِنْ خَبَرِي أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ، وَاللَّهِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِي قَبْلَهُ رَاحِلَتَانِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ غَزْوَةً إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ غَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا، وَمَفَازًا وَعَدُوًّا كَثِيرًا، فَجَلَّى لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابٌ حَافِظٌ يُرِيدُ الدِّيوَانَ، قَالَ كَعْبٌ: فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيُ اللَّهِ، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلَالُ، وَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ، فَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي: أَنَا قَادِرٌ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اشْتَدَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا، فَقُلْتُ: أَتَجَهَّزُ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُوا لِأَتَجَهَّزَ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، ثُمَّ غَدَوْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ، وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَلَمْ يَزَلْ بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ وَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ وَلَيْتَنِي فَعَلْتُ، فَلَمْ يُقَدَّرْ لِي ذَلِكَ، فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطُفْتُ فِيهِمْ أَحْزَنَنِي أَنِّي لَا أَرَى إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ النِّفَاقُ، أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ:" مَا فَعَلَ كَعْبٌ؟" فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَنَظَرُهُ فِي عِطْفِهِ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: بِئْسَ مَا قُلْتَ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّهُ تَوَجَّهَ قَافِلًا حَضَرَنِي هَمِّي وَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا؟ وَاسْتَعَنْتُ عَلَى ذَلِكَ بِكُلِّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا، زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ، وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَخْرُجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَيْءٍ فِيهِ كَذِبٌ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ، وَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ، وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ، فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ:" تَعَالَ"، فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي:" مَا خَلَّفَكَ؟ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ؟"، فَقُلْتُ: بَلَى، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَيَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ، لَا وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي مِنْ عُذْرٍ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ"، فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ إِلَيْهِ الْمُتَخَلِّفُونَ، قَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ، فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأُكَذِّبَ نَفْسِي، ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ: هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي أَحَدٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ رَجُلَانِ، قَالَا مِثْلَ مَا قُلْتَ، فَقِيلَ لَهُمَا: مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ، فَقُلْتُ: مَنْ هُمَا، قَالُوا: مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيُّ، وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ، فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ، فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي، وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَتَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ فِي نَفْسِي الْأَرْضُ، فَمَا هِيَ الَّتِي أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلَاةَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَأَطُوفُ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي: هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ عَلَيَّ أَمْ لَا؟ ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ، فَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي أَقْبَلَ إِلَيَّ، وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا قَتَادَةَ، أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُنِي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ؟ فَسَكَتَ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ، فَسَكَتَ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ، فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي بِسُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّأْمِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ، يَقُولُ: مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ؟ فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ حَتَّى إِذَا جَاءَنِي دَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ فَإِذَا فِيهِ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ، فَقُلْتُ: لَمَّا قَرَأْتُهَا وَهَذَا أَيْضًا مِنَ الْبَلَاءِ، فَتَيَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً مِنَ الْخَمْسِينَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: لَا، بَلِ اعْتَزِلْهَا وَلَا تَقْرَبْهَا، وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ مِثْلَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَتَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ كَعْبٌ: فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ لَا يَقْرَبْكِ"، قَالَتْ: إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْءٍ، وَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا، فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي: لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يُدْرِينِي مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ، فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِنَا، فَلَمَّا صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صُبْحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي وَضَاقَتْ عَلَيَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَى عَلَى جَبَلِ سَلْعٍ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ، أَبْشِرْ، قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ، وَرَكَضَ إِلَيَّ رَجُلٌ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ فَأَوْفَى عَلَى الْجَبَلِ وَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُ إِيَّاهُمَا بِبُشْرَاهُ، وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنُّونِي بِالتَّوْبَةِ، يَقُولُونَ: لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ، قَالَ كَعْبٌ: حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّانِي، وَاللَّهِ مَا قَامَ إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ، قَالَ كَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ:" أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ"، قَالَ: قُلْتُ: أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ"، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ، فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا نَجَّانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِيتُ، فَوَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيتُ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ إِلَى قَوْلِهِ: وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 117 - 119، فَوَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا، فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْيَ شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَى قَوْلِهِ: فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ سورة التوبة آية 95 - 96، قَالَ كَعْبٌ: وَكُنَّا تَخَلَّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا لَهُ فَبَايَعَهُمْ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ، وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّهُ فِيهِ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ: وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118 وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا عَنِ الْغَزْوِ إِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے، ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے، (جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تو ان کے لڑکوں میں وہ ہی کعب رضی اللہ عنہ کو راستے میں پکڑ کر چلا کرتے تھے) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتایا کہ غزوہ تبوک کے سوا اور کسی غزوہ میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہوا ہوں۔ البتہ غزوہ بدر میں بھی شریک نہیں ہوا تھا لیکن جو لوگ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی خفگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر صرف قریش کے قافلے کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی پہلی تیاری کے بغیر، آپ کی دشمنوں سے ٹکر ہو گئی اور میں لیلہ عقبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ یہ وہی رات ہے جس میں ہم نے (مکہ میں) اسلام کے لیے عہد کیا تھا اور مجھے تو یہ غزوہ بدر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اگرچہ بدر کا لوگوں کی زبانوں پر چرچہ زیادہ ہے۔ میرا واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں کبھی اتنا قوی اور اتنا صاحب مال نہیں ہوا تھا جتنا اس موقع پر تھا۔ جبکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک کے غزوے میں شریک نہیں ہو سکا تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اونٹ جمع نہیں ہوئے تھے لیکن اس موقع پر میرے پاس دو اونٹ موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی غزوے کے لیے تشریف لے جاتے تو آپ اس کے لیے ذومعنی الفاظ استعمال کیا کرتے تھے لیکن اس غزوہ کا جب موقع آیا تو گرمی بڑی سخت تھی، سفر بھی بہت لمبا تھا، بیابانی راستہ اور دشمن کی فوج کی کثرت تعداد! تمام مشکلات سامنے تھیں۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے اس غزوہ کے متعلق بہت تفصیل کے ساتھ بتا دیا تھا تاکہ اس کے مطابق پوری طرح سے تیاری کر لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سمت کی بھی نشاندہی کر دی جدھر سے آپ کا جانے کا ارادہ تھا۔ مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت تھے۔ اتنے کہ کسی رجسٹر میں سب کے ناموں کا لکھنا بھی مشکل تھا۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کوئی بھی شخص اگر اس غزوے میں شریک نہ ہونا چاہتا تو وہ یہ خیال کر سکتا تھا کہ اس کی غیر حاضری کا کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ سوا اس کے کہ اس کے متعلق وحی نازل ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس غزوہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو پھل پکنے کا زمانہ تھا اور سایہ میں بیٹھ کر لوگ آرام کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تیاریوں میں مصروف تھے اور آپ کے ساتھ مسلمان بھی۔ لیکن میں روزانہ سوچا کرتا تھا کہ کل سے میں بھی تیاری کروں گا اور اس طرح ہر روز اسے ٹالتا رہا۔ مجھے اس کا یقین تھا کہ میں تیاری کر لوں گا۔ مجھے آسانیاں میسر ہیں، یوں ہی وقت گزرتا رہا اور آخر لوگوں نے اپنی تیاریاں مکمل بھی کر لیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ بھی ہو گئے۔ اس وقت تک میں نے تیاری نہیں کی تھی۔ اس موقع پر بھی میں نے اپنے دل کو یہی کہہ کر سمجھا لیا کہ کل یا پرسوں تک تیاری کر لوں گا اور پھر لشکر سے جا ملوں گا۔ کوچ کے بعد دوسرے دن میں نے تیاری کے لیے سوچا لیکن اس دن بھی کوئی تیاری نہیں کی۔ پھر تیسرے دن کے لیے سوچا اور اس دن بھی کوئی تیاری نہیں کی۔ یوں ہی وقت گزر گیا اور اسلامی لشکر بہت آگے بڑھ گیا۔ غزوہ میں شرکت میرے لیے بہت دور کی بات ہو گئی اور میں یہی ارادہ کرتا رہا کہ یہاں سے چل کر انہیں پا لوں گا۔ کاش! میں نے ایسا کر لیا ہوتا لیکن یہ میرے نصیب میں نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے بڑا رنج ہوتا کیونکہ یا تو وہ لوگ نظر آتے جن کے چہروں سے نفاق ٹپکتا تھا یا پھر وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور اور ضعیف قرار دے دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن جب آپ تبوک پہنچ گئے تو وہیں ایک مجلس میں آپ نے دریافت فرمایا کہ کعب نے کیا کیا؟ بنو سلمہ کے ایک صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس کے غرور نے اسے آنے نہیں دیا۔ (وہ حسن و جمال یا لباس پر اترا کر رہ گیا) اس پر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بولے تم نے بری بات کہی۔ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! ہمیں ان کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لا رہے ہیں تو اب مجھ پر فکر سوار ہوا اور میرا ذہن کوئی ایسا جھوٹا بہانہ تلاش کرنے لگا جس سے میں کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی سے بچ سکوں۔ اپنے گھر کے ہر عقلمند آدمی سے اس کے متعلق میں نے مشورہ لیا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے بالکل قریب آ چکے ہیں تو غلط خیالات میرے ذہن سے نکل گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہو چکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جو غزوہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرما لیا، ان سے عہد لیا۔ ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا۔ اس کے بعد میں حاضر ہوا۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ، میں چند قدم چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی؟ میں نے عرض کیا، میرے پاس سواری موجود تھی۔ اللہ کی قسم! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دنیادار شخص کے سامنے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کر لوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اس کے بجائے اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی بات بیان کر دوں تو یقیناً آپ کو میری طرف سے خفگی ہو گی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے۔ نہیں، اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذر نہیں تھا، اللہ کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی۔ اچھا اب جاؤ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کر دے۔ میں اٹھ گیا اور میرے پیچھے بنو سلمہ کے کچھ لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہے اور تم نے بڑی کوتاہی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ویسا ہی کوئی عذر نہیں بیان کیا جیسا دوسرے نہ شریک ہونے والوں نے بیان کر دیا تھا۔ تمہارے گناہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کافی ہو جاتا۔ اللہ کی قسم! ان لوگوں نے مجھے اس پر اتنی ملامت کی کہ مجھے خیال آیا کہ واپس جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی جھوٹا عذر کر آؤں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کیا میرے علاوہ کسی اور نے بھی مجھ جیسا عذر بیان کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں دو حضرات نے اسی طرح معذرت کی جس طرح تم نے کی ہے اور انہیں جواب بھی وہی ملا ہے جو تمہیں ملا۔ میں نے پوچھا کہ ان کے نام کیا ہیں؟ انہوں نے بتا کیا کہ مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما۔ ان دو ایسے صحابہ کا نام انہوں نے لے دیا تھا جو صالح تھے اور بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا۔ چنانچہ انہوں نے جب ان بزرگوں کا نام لیا تو میں اپنے گھر چلا آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے، ان میں سے صرف ہم تین تھے! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھوما کرتا تھا لیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضر ہوتا تھا، آپ کو سلام کرتا، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں بیٹھتے، میں اس کی جستجو میں لگا رہتا تھا کہ دیکھوں سلام کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہونٹ ہلے یا نہیں، پھر آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتا جب میں اپنی نماز میں مشغول ہو جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے لیکن جونہی میں آپ کی طرف دیکھتا آپ رخ مبارک پھیر لیتے۔ آخر جب اس طرح لوگوں کی بےرخی بڑھتی ہی گئی تو میں (ایک دن) ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت گہرا تعلق تھا، میں نے انہیں سلام کیا، لیکن اللہ کی قسم! انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا، ابوقتادہ! تمہیں اللہ کی قسم! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسول سے مجھے کتنی محبت ہے۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اللہ کی قسم دے کر لیکن اب بھی وہ خاموش تھے، پھر میں نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے یہی سوال کیا۔ اس مرتبہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ اس پر میرے آنسو پھوٹ پڑے۔ میں واپس چلا آیا اور دیوار پر چڑھ کر (نیچے، باہر اتر آیا) انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ شام کا ایک کاشتکار جو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا، پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کہاں رہتے ہیں؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تو وہ میرے پاس آیا اور ملک غسان کا ایک خط مجھے دیا، اس خط میں یہ تحریر تھا۔ امابعد! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہار ے صاحب (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے ساتھ زیادتی کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کوئی ذلیل نہیں پیدا کیا ہے کہ تمہارا حق ضائع کیا جائے، تم ہمارے پاس آ جاؤ، ہم تمہارے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں گے۔ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور امتحان آ گیا۔ میں نے اس خط کو تنور میں جلا دیا۔ ان پچاس دنوں میں سے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی میرے پاس آئے اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوں یا پھر مجھے کیا کرنا چاہئیے؟ انہوں نے بتایا کہ نہیں صرف ان سے جدا ہو، ان کے قریب نہ جاؤ میرے دونوں ساتھیوں کو (جنہوں نے میری طرح معذرت کی تھی) بھی یہی حکم آپ نے بھیجا تھا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب اپنے میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ نہ کر دے۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ (جن کا مقاطعہ ہوا تھا) کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اور کمزور ہیں، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے، کیا اگر میں ان کی خدمت کر دیا کروں تو آپ ناپسند فرمائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف وہ تم سے صحبت نہ کریں۔ انہوں نے عرض کی۔ اللہ کی قسم! وہ تو کسی چیز کے لیے حرکت بھی نہیں کر سکتے۔ جب سے یہ خفگی ان پر ہوئی ہے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے۔ میرے گھر کے بعض لوگوں نے کہا کہ جس طرح ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی ہے، آپ بھی اسی طرح کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے لیجئے۔ میں نے کہا نہیں، اللہ کی قسم! میں اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں لوں گا، میں جوان ہوں، معلوم نہیں جب سے اجازت لینے جاؤں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں۔ اس طرح دس دن اور گزر گئے اور جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اس کے پچاس دن پورے ہو گئے۔ پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ چکا اور اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا، اس طرح جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے، میرا دم گھٹا جا رہا تھا اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود میرے لیے تنگ ہوتی جا رہی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جبل سلع پر چڑھ کر کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا، اے کعب بن مالک! تمہیں بشارت ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب فراخی ہو جائے گی۔ فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان کر دیا تھا۔ لوگ میرے یہاں بشارت دینے کے لیے آنے لگے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی جا کر بشارت دی۔ ایک صاحب (زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ) اپنا گھوڑا دوڑائے آ رہے تھے، ادھر قبیلہ اسلم کے ایک صحابی نے پہاڑی پر چڑھ کر (آواز دی) اور آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی۔ جن صحابی نے (سلع پہاڑی پر سے) آواز دی تھی، جب وہ میرے پاس بشارت دینے آئے تو اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس بشارت کی خوشی میں، میں نے انہیں دے دئیے۔ اللہ کی قسم کہ اس وقت ان دو کپڑوں کے سوا (دینے کے لائق) اور میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی۔ پھر میں نے (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جوق در جوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے تھے اور مجھے توبہ کی قبولیت پر بشارت دیتے جاتے تھے، کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت مبارک ہو۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، آخر میں مسجد میں داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ چاروں طرف صحابہ کا مجمع تھا۔ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ دوڑ کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! (وہاں موجود) مہاجرین میں سے کوئی بھی ان کے سوا، میرے آنے پر کھڑا نہیں ہوا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا: (چہرہ مبارک خوشی اور مسرت دمک اٹھا تھا) اس مبارک دن کے لیے تمہیں بشارت ہو جو تمہاری عمر کا سب سے مبارک دن ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے؟ فرمایا نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک روشن ہو جاتا تھا، ایسا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو۔ آپ کی مسرت ہم تو چہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے۔ پھر جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں، میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لو، یہ زیادہ بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لوں گا۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤں گا۔ پس اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنا نوازا ہو، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں۔ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا، پھر آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت (ہمارے بارے میں) نازل کی تھی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کی اس کے ارشاد «وكونوا مع الصادقين‏» تک اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے لیے ہدایت کے بعد، میری نظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سچ بولنے سے بڑھ کر اللہ کا مجھ پر اور کوئی انعام نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور اس طرح اپنے کو ہلاک نہیں کیا۔ جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہو گئے تھے۔ نزول وحی کے زمانہ میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اتنی شدید وعید فرمائی جتنی شدید کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی ہو گی۔ فرمایا ہے «سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم‏» ارشاد «فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين‏» تک۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ چنانچہ ہم تین، ان لوگوں کے معاملے سے جدا رہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھا لی تھی اور آپ نے ان کی بات مان بھی لی تھی، ان سے بیعت بھی لی تھی اور ان کے لیے طلب مغفرت بھی فرمائی تھی۔ ہمارا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏» سے یہی مراد ہے کہ ہمار ا مقدمہ ملتوی رکھا گیا اور ہم ڈھیل میں ڈال دئیے گئے۔ یہ نہیں مراد ہے کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھا کر اپنے عذر بیان کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Ka`b bin Malik: Who, from among Ka`b's sons, was the guide of Ka`b when he became blind: I heard Ka`b bin Malik narrating the story of (the Ghazwa of) Tabuk in which he failed to take part. Ka`b said, "I did not remain behind Allah's Apostle in any Ghazwa that he fought except the Ghazwa of Tabuk, and I failed to take part in the Ghazwa of Badr, but Allah did not admonish anyone who had not participated in it, for in fact, Allah's Apostle had gone out in search of the caravan of Quraish till Allah made them (i.e. the Muslims) and their enemy meet without any appointment. I witnessed the night of Al-`Aqaba (pledge) with Allah's Apostle when we pledged for Islam, and I would not exchange it for the Badr battle although the Badr battle is more popular amongst the people than it (i.e. Al-`Aqaba pledge). As for my news (in this battle of Tabuk), I had never been stronger or wealthier than I was when I remained behind the Prophet in that Ghazwa. By Allah, never had I two she-camels before, but I had then at the time of this Ghazwa. Whenever Allah's Apostle wanted to make a Ghazwa, he used to hide his intention by apparently referring to different Ghazwa till it was the time of that Ghazwa (of Tabuk) which Allah's Apostle fought in severe heat, facing, a long journey, desert, and the great number of enemy. So the Prophet announced to the Muslims clearly (their destination) so that they might get prepared for their Ghazwa. So he informed them clearly of the destination he was going to. Allah's Apostle was accompanied by a large number of Muslims who could not be listed in a book namely, a register." Ka`b added, "Any man who intended to be absent would think that the matter would remain hidden unless Allah revealed it through Divine Revelation. So Allah's Apostle fought that Ghazwa at the time when the fruits had ripened and the shade looked pleasant. Allah's Apostle and his companions prepared for the battle and I started to go out in order to get myself ready along with them, but I returned without doing anything. I would say to myself, 'I can do that.' So I kept on delaying it every now and then till the people got ready and Allah's Apostle and the Muslims along with him departed, and I had not prepared anything for my departure, and I said, I will prepare myself (for departure) one or two days after him, and then join them.' In the morning following their departure, I went out to get myself ready but returned having done nothing. Then again in the next morning, I went out to get ready but returned without doing anything. Such was the case with me till they hurried away and the battle was missed (by me). Even then I intended to depart to take them over. I wish I had done so! But it was not in my luck. So, after the departure of Allah's Apostle, whenever I went out and walked amongst the people (i.e, the remaining persons), it grieved me that I could see none around me, but one accused of hypocrisy or one of those weak men whom Allah had excused. Allah's Apostle did not remember me till he reached Tabuk. So while he was sitting amongst the people in Tabuk, he said, 'What did Ka`b do?' A man from Banu Salama said, 'O Allah's Apostle! He has been stopped by his two Burdas (i.e. garments) and his looking at his own flanks with pride.' Then Mu`adh bin Jabal said, 'What a bad thing you have said! By Allah! O Allahs Apostle! We know nothing about him but good.' Allah's Apostle kept silent." Ka`b bin Malik added, "When I heard that he (i.e. the Prophet ) was on his way back to Medina. I got dipped in my concern, and began to think of false excuses, saying to myself, 'How can I avoid his anger tomorrow?' And I took the advice of wise member of my family in this matter. When it was said that Allah's Apostle, had come near all the evil false excuses abandoned from my mind and I knew well that I could never come out of this problem by forging a false statement. Then I decided firmly to speak the truth. So Allah's Apostle arrived in the morning, and whenever he returned from a journey., he used to visit the Mosque first of all and offer a two-rak`at prayer therein and then sit for the people. So when he had done all that (this time), those who had failed to join the battle (of Tabuk) came and started offering (false) excuses and taking oaths before him. They were something over eighty men; Allah's Apostle accepted the excuses they had expressed, took their pledge of allegiance asked for Allah's Forgiveness for them, and left the secrets of their hearts for Allah to judge. Then I came to him, and when I greeted him, he smiled a smile of an angry person and then said, 'Come on.' So I came walking till I sat before him. He said to me, 'What stopped you from joining us. Had you not purchased an animal For carrying you?' I answered, "Yes, O Allah's Apostle! But by Allah, if I were sitting before any person from among the people of the world other than you, I would have avoided his anger with an excuse. By Allah, I have been bestowed with the power of speaking fluently and eloquently, but by Allah, I knew well that if today I tell you a lie to seek your favor, Allah would surely make you angry with me in the near future, but if I tell you the truth, though you will get angry because of it, I hope for Allah's Forgiveness. Really, by Allah, there was no excuse for me. By Allah, I had never been stronger or wealthier than I was when I remained behind you.' Then Allah's Apostle said, 'As regards this man, he has surely told the truth. So get up till Allah decides your case.' I got up, and many men of Banu Salama followed me and said to me. 'By Allah, we never witnessed you doing any sin before this. Surely, you failed to offer excuse to Allah's Apostle as the others who did not join him, have offered. The prayer of Allah's Apostle to Allah to forgive you would have been sufficient for you.' By Allah, they continued blaming me so much that I intended to return (to the Prophet) and accuse myself of having told a lie, but I said to them, 'Is there anybody else who has met the same fate as I have?' They replied, 'Yes, there are two men who have said the same thing as you have, and to both of them was given the same order as given to you.' I said, 'Who are they?' They replied, Murara bin Ar-Rabi Al- Amri and Hilal bin Umaiya Al-Waqifi.' By that they mentioned to me two pious men who had attended the Ghazwa (Battle) of Badr, and in whom there was an example for me. So I did not change my mind when they mentioned them to me. Allah's Apostle forbade all the Muslims to talk to us, the three aforesaid persons out of all those who had remained behind in that Ghazwa. So we kept away from the people and they changed their attitude towards us till the very land (where I lived) appeared strange to me as if I did not know it. We remained in that condition for fifty nights. As regards my two fellows, they remained in their houses and kept on weeping, but I was the youngest of them and the firmest of them, so I used to go out and witness the prayers along with the Muslims and roam about in the markets, but none would talk to me, and I would come to Allah's Apostle and greet him while he was sitting In his gathering after the prayer, and I would wonder whether the Prophet did move his lips in return to my greetings or not. Then I would offer my prayer near to him and look at him stealthily. When I was busy with my prayer, he would turn his face towards me, but when I turned my face to him, he would turn his face away from me. When this harsh attitude of the people lasted long, I walked till I scaled the wall of the garden of Abu Qatada who was my cousin and dearest person to me, and I offered my greetings to him. By Allah, he did not return my greetings. I said, 'O Abu Qatada! I beseech you by Allah! Do you know that I love Allah and His Apostle?' He kept quiet. I asked him again, beseeching him by Allah, but he remained silent. Then I asked him again in the Name of Allah. He said, "Allah and His Apostle know it better.' Thereupon my eyes flowed with tears and I returned and jumped over the wall." Ka`b added, "While I was walking in the market of Medina, suddenly I saw a Nabati (i.e. a Christian farmer) from the Nabatis of Sham who came to sell his grains in Medina, saying, 'Who will lead me to Ka`b bin Malik?' The people began to point (me) out for him till he came to me and handed me a letter from the king of Ghassan in which the following was written: "To proceed, I have been informed that your friend (i.e. the Prophet ) has treated you harshly. Anyhow, Allah does not let you live at a place where you feel inferior and your right is lost. So join us, and we will console you." When I read it, I said to myself, 'This is also a sort of a test.' Then I took the letter to the oven and made a fire therein by burning it. When forty out of the fifty nights elapsed, behold ! There came to me the messenger of Allah's Apostle and said, 'Allah's Apostle orders you to keep away from your wife,' I said, 'Should I divorce her; or else! what should I do?' He said, 'No, only keep aloof from her and do not cohabit her.' The Prophet sent the same message to my two fellows. Then I said to my wife. 'Go to your parents and remain with them till Allah gives His Verdict in this matter." Ka`b added, "The wife of Hilal bin Umaiya came to Apostle and said, 'O Allah's Apostle! Hilal bin Umaiya is a helpless old man who has no servant to attend on him. Do you dislike that I should serve him? ' He said, 'No (you can serve him) but he should not come near you.' She said, 'By Allah, he has no desire for anything. By, Allah, he has never ceased weeping till his case began till this day of his.' (continued...) (continuing... 1): -5.702:... ... On that, some of my family members said to me, 'Will you also ask Allah's Apostle to permit your wife (to serve you) as he has permitted the wife of Hilal bin Umaiya to serve him?' I said, 'By Allah, I will not ask the permission of Allah's Apostle regarding her, for I do not know What Allah's Apostle would say if I asked him to permit her (to serve me) while I am a young man.' Then I remained in that state for ten more nights after that till the period of fifty nights was completed starting from the time when Allah's Apostle prohibited the people from talking to us. When I had offered the Fajr prayer on the 50th morning on the roof of one of our houses and while I was sitting in the condition which Allah described (in the Qur'an) i.e. my very soul seemed straitened to me and even the earth seemed narrow to me for all its spaciousness, there I heard the voice of one who had ascended the mountain of Sala' calling with his loudest voice, 'O Ka`b bin Malik! Be happy (by receiving good tidings).' I fell down in prostration before Allah, realizing that relief has come. Allah's Apostle had announced the acceptance of our repentance by Allah when he had offered the Fajr prayer. The people then went out to congratulate us. Some bringers of good tidings went out to my two fellows, and a horseman came to me in haste, and a man of Banu Aslam came running and ascended the mountain and his voice was swifter than the horse. When he (i.e. the man) whose voice I had heard, came to me conveying the good tidings, I took off my garments and dressed him with them; and by Allah, I owned no other garments than them on that day. Then I borrowed two garments and wore them and went to Allah's Apostle. The people started receiving me in batches, congratulating me on Allah's Acceptance of my repentance, saying, 'We congratulate you on Allah's Acceptance of your repentance." Ka`b further said, "When I entered the Mosque. I saw Allah's Apostle sitting with the people around him. Talha bin Ubaidullah swiftly came to me, shook hands with me and congratulated me. By Allah, none of the Muhajirin (i.e. Emigrants) got up for me except him (i.e. Talha), and I will never forget this for Talha." Ka`b added, "When I greeted Allah's Apostle he, his face being bright with joy, said "Be happy with the best day that you have got ever since your mother delivered you." Ka`b added, "I said to the Prophet 'Is this forgiveness from you or from Allah?' He said, 'No, it is from Allah.' Whenever Allah's Apostle became happy, his face would shine as if it were a piece of moon, and we all knew that characteristic of him. When I sat before him, I said, 'O Allah's Apostle! Because of the acceptance of my repentance I will give up all my wealth as alms for the Sake of Allah and His Apostle. Allah's Apostle said, 'Keep some of your wealth, as it will be better for you.' I said, 'So I will keep my share from Khaibar with me,' and added, 'O Allah's Apostle! Allah has saved me for telling the truth; so it is a part of my repentance not to tell but the truth as long as I am alive. By Allah, I do not know anyone of the Muslims whom Allah has helped fortelling the truth more than me. Since I have mentioned that truth to Allah's Apostle till today, I have never intended to tell a lie. I hope that Allah will also save me (from telling lies) the rest of my life. So Allah revealed to His Apostle the Verse:-- "Verily, Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin (i.e. Emigrants (up to His Saying) And be with those who are true (in word and deed)." (9.117-119) By Allah, Allah has never bestowed upon me, apart from His guiding me to Islam, a Greater blessing than the fact that I did not tell a lie to Allah's Apostle which would have caused me to perish as those who have told a lie perished, for Allah described those who told lies with the worst description He ever attributed to anybody else. Allah said:-- "They (i.e. the hypocrites) will swear by Allah to you when you return to them (up to His Saying) Certainly Allah is not pleased with the rebellious people-- " (9.95-96) Ka`b added, "We, the three persons, differed altogether from those whose excuses Allah's Apostle accepted when they swore to him. He took their pledge of allegiance and asked Allah to forgive them, but Allah's Apostle left our case pending till Allah gave His Judgment about it. As for that Allah said):-- And to the three (He did for give also) who remained behind." (9.118) What Allah said (in this Verse) does not indicate our failure to take part in the Ghazwa, but it refers to the deferment of making a decision by the Prophet about our case in contrast to the case of those who had taken an oath before him and he excused them by accepting their excuses.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 702


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
81. بَابُ نُزُولُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحِجْرَ:
81. باب: بستی حجر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرنا۔
(81) Chapter. The dismounting of the Prophet at (the place called) Al-Hijr.
حدیث نمبر: 4419
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد الجعفي، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: لما مر النبي صلى الله عليه وسلم بالحجر، قال:" لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا انفسهم ان يصيبكم ما اصابهم إلا ان تكونوا باكين"، ثم قنع راسه واسرع السير حتى اجاز الوادي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحِجْرِ، قَالَ:" لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ"، ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَهُ وَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى أَجَازَ الْوَادِيَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کی بستیوں سے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، جب گزرنا ہو تو روتے ہوئے ہی گزرو، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے، یہاں تک کہ اس وادی سے نکل آئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: When the Prophet passed by Al-Hijr, he said, "Do not enter the dwelling places of those people who were unjust to themselves unless you enter in a weeping state lest the same calamity as of theirs should befall you." Then he covered his head and made his speed fast till he crossed the valley.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 703


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4420
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحاب الحجر:" لا تدخلوا على هؤلاء المعذبين إلا ان تكونوا باكين ان يصيبكم مثل ما اصابهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْن بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِ الْحِجْرِ:" لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْمُعَذَّبِينَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا کہ اس «معذب» قوم کی بستی سے جب تمہیں گزرنا ہی ہے تو تم روتے ہوئے گزرو، کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو ان پر آیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said to his companions who were at Al-Hijr, "Do not enter upon these people who are being punished, except in a weeping state, lest the same calamity as of theirs should befall you..."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 704


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    46    47    48    49    50    51    52    53    54    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.