صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4364
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثني عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء رضي الله عنه، قال:" آخر سورة نزلت كاملة براءة، وآخر سورة نزلت خاتمة سورة النساء: يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176".(موقوف) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ كَامِلَةً بَرَاءَةٌ، وَآخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ خَاتِمَةُ سُورَةِ النِّسَاءِ: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176".
مجھ سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سب سے آخری سورۃ جو پوری اتری وہ سورۃ برات (توبہ) تھی اور آخری آیت جو اتری وہ سورۃ نساء کی یہ آیت ہے «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة‏» ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Bara: The last Sura which was revealed in full was Baraa (i.e. Sura-at-Tauba), and the last Sura (i.e. part of a Sura) which was revealed was the last Verses of Sura-an-Nisa':-- "They ask you for a legal decision. Say: Allah directs (thus) About those who have No descendants or ascendants As heirs." (4.177)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 650


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
68. بَابُ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ:
68. باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان۔
(68) Chapter. The delegation of Bani Tamim.
حدیث نمبر: 4365
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ابي صخرة، عن صفوان بن محرز المازني، عن عمران بن حصين رضي الله عنهما، قال: اتى نفر من بني تميم النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اقبلوا البشرى يا بني تميم"، قالوا: يا رسول الله، قد بشرتنا فاعطنا، فرئي ذلك في وجهه، فجاء نفر من اليمن، فقال:" اقبلوا البشرى، إذ لم يقبلها بنو تميم"، قالوا: قد قبلنا يا رسول الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي صَخْرَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى نَفَرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا، فَرُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، فَجَاءَ نَفَرٌ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ:" اقْبَلُوا الْبُشْرَى، إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ"، قَالُوا: قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے ابوصخرہ نے، ان سے صفوان بن محرز مازنی نے اور ان سے عمران بن حصین نے بیان کیا کہ بنو تمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Imran bin Hussein: A delegation from Banu Tamim came to the Prophet . The Prophet said, "Accept the good tidings, O Banu Tamim!" They said, "O Allah's Apostle! You have given us good tidings, so give us (something)." Signs of displeasure appeared on his face. Then another delegation from Yemen came and he said (to them), "Accept the good tidings, for Banu Tamim refuses to accept them." They replied, "We have accepted them, O Allah's Apostle!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 651


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
69. بَابٌ:
69. باب:۔۔۔
(69) Chapter.
حدیث نمبر: Q4366
Save to word اعراب English
قال ابن إسحاق: غزوة عيينة بن حصن بن حذيفة بن بدر بني العنبر من بني تميم، بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إليهم، فاغار واصاب منهم ناسا، وسبى منهم نساء.قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: غَزْوَةُ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ بَنِي الْعَنْبَرِ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَأَغَارَ وَأَصَابَ مِنْهُمْ نَاسًا، وَسَبَى مِنْهُمْ نِسَاءً.
‏‏‏‏ محمد بن اسحاق نے کہا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی شاخ بنو العنبر کی طرف بھیجا تھا، اس نے ان کو لوٹا اور کئی آدمیوں کو قتل کیا اور ان کی کئی عورتوں کو قید کیا۔
حدیث نمبر: 4366
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: لا ازال احب بني تميم بعد ثلاث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها فيهم:" هم اشد امتي على الدجال"، وكانت فيهم سبية عند عائشة، فقال:" اعتقيها، فإنها من ولد إسماعيل"، وجاءت صدقاتهم، فقال:" هذه صدقات قوم او قومي".(مرفوع) حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ بَعْدَ ثَلَاثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا فِيهِمْ:" هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ"، وَكَانَتْ فِيهِمْ سَبِيَّةٌ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ:" أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ"، وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ:" هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمٍ أَوْ قَوْمِي".
مجھ سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس وقت سے ہمیشہ بنو تمیم سے محبت رکھتا ہوں جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کی تین خوبیاں میں نے سنی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ بنو تمیم دجال کے حق میں میری امت کے سب سے زیادہ سخت لوگ ثابت ہوں گے اور بنو تمیم کی ایک قیدی خاتون عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے اور ان کے یہاں سے زکوٰۃ وصول ہو کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک قوم کی یا (یہ فرمایا کہ) یہ میری قوم کی زکوٰۃ ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I have not ceased to like Banu Tamim ever since I heard of three qualities attributed to them by Allah's Apostle (He said): They, out of all my followers, will be the strongest opponent of Ad-Dajjal; `Aisha had a slave-girl from them, and the Prophet told her to manumit her as she was from the descendants of (the Prophet) Ishmael; and, when their Zakat was brought, the Prophet said, "This is the Zakat of my people."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 652


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4367
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إبراهيم بن موسى، حدثنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم، عن ابن ابي مليكة، ان عبد الله بن الزبير اخبرهم: انه قدم ركب من بني تميم على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر:" امر القعقاع بن معبد بن زرارة"، قال عمر:" بل امر الاقرع بن حابس"، قال ابو بكر:" ما اردت إلا خلافي"، قال عمر:" ما اردت خلافك"، فتماريا حتى ارتفعت اصواتهما، فنزل في ذلك: يايها الذين آمنوا لا تقدموا سورة الحجرات آية 1 حتى انقضت.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُم: أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ"، قَالَ عُمَرُ:" بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي"، قَالَ عُمَرُ:" مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ"، فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا سورة الحجرات آية 1 حَتَّى انْقَضَتْ.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارا کوئی امیر منتخب کر دیجئیے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قعقاع بن معبد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو امیر منتخب کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بلکہ آپ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر منتخب فرما دیجئیے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میری غرض مخالفت کی نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کی آواز بلند ہو گئی۔ اسی پر سورۃ الحجرات کی یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا‏» آخر آیت تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: `Abdullah bin Az-Zubair said that a group of riders belonging to Banu Tamim came to the Prophet, Abu Bakr said (to the Prophet ), "Appoint Al-Qa'qa bin Mabad bin Zurara as (their) ruler." `Umar said (to the Prophet). "No! But appoint Al-Aqra bin H`Abis." Thereupon Abu Bakr said (to `Umar). "You just wanted to oppose me." `Umar replied. "I did not want to oppose you." So both of them argued so much that their voices became louder, and then the following Divine Verses were revealed in that connection:-- "O you who believe ! Do not be forward in the presence of Allah and His Apostle..." (till the end of Verse)...(49.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 653


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
70. بَابُ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ:
70. باب: وفد عبدالقیس کا بیان۔
(70) Chapter. The delegation of Abdul-Qais.
حدیث نمبر: 4368
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق، اخبرنا ابو عامر العقدي، حدثنا قرة، عن ابي جمرة، قلت لابن عباس رضي الله عنهما: إن لي جرة ينتبذ لي نبيذ فاشربه حلوا في جر، إن اكثرت منه، فجالست القوم، فاطلت الجلوس خشيت ان افتضح، فقال: قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" مرحبا بالقوم غير خزايا ولا الندامى"، فقالوا: يا رسول الله، إن بيننا وبينك المشركين من مضر، وإنا لا نصل إليك إلا في اشهر الحرم، حدثنا بجمل من الامر إن عملنا به دخلنا الجنة، وندعو به من وراءنا، قال:" آمركم باربع، وانهاكم عن اربع: الإيمان بالله، هل تدرون ما الإيمان بالله؟ شهادة ان لا إله إلا الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وان تعطوا من المغانم الخمس، وانهاكم عن اربع: ما انتبذ في الدباء، والنقير، والحنتم، والمزفت".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّ لِي جَرَّةً يُنْتَبَذُ لِي نَبِيذٌ فَأَشْرَبُهُ حُلْوًا فِي جَرٍّ، إِنْ أَكْثَرْتُ مِنْهُ، فَجَالَسْتُ الْقَوْمَ، فَأَطَلْتُ الْجُلُوسَ خَشِيتُ أَنْ أَفْتَضِحَ، فَقَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا النَّدَامَى"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ مُضَرَ، وَإِنَّا لَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحُرُمِ، حَدِّثْنَا بِجُمَلٍ مِنَ الْأَمْرِ إِنْ عَمِلْنَا بِهِ دَخَلْنَا الْجَنَّةَ، وَنَدْعُو بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، قَالَ:" آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: الْإِيمَانِ بِاللَّهِ، هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ؟ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغَانِمِ الْخُمُسَ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: مَا انْتُبِذَ فِي الدُّبَّاءِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعامر عقدی نے خبر دی، کہا ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میرے پاس ایک گھڑا ہے جس میں میرے لیے نبیذ یعنی کھجور کا شربت بنایا جاتا ہے۔ میں وہ میٹھے رہنے تک پیا کرتا ہوں۔ بعض وقت بہت پی لیتا ہوں اور لوگوں کے پاس دیر تک بیٹھا رہتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں فضیحت نہ ہو۔ (لوگ کہنے لگیں کہ یہ نشہ باز ہے) اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے آئے نہ ذلیل ہوئے، نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہو گئے نہ ہوتے تو ذلت اور شرمندگی حاصل ہوتی) انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے اور آپ کے درمیان میں مشرکین کے قبائل پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینے ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں وہ احکام و ہدایات سنا دیں کہ اگر ہم ان پر عمل کرتے رہیں تو جنت میں داخل ہوں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں انہیں بھی وہ ہدایات پہنچا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ پر ایمان لانے کا، تمہیں معلوم ہے اللہ پر ایمان لانا کسے کہتے ہیں؟ اس کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، نماز قائم کرنے کا، زکٰوۃ دینے کا، رمضان کے روزے رکھنے اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کرنے کا حکم دیتا ہوں اور میں تمہیں چار چیزوں سے روکتا ہوں یعنی کدو کے تونبے میں اور کریدی ہوئی لکڑی کے برتن میں اور سبز لاکھی برتن میں اور روغنی برتن میں نبیذ بھگونے سے منع کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Jamra: I said to Ibn `Abbas, "I have an earthenware pot containing Nabidh (i.e. water and dates or grapes) for me, and I drink of it while it is sweet. If I drink much of it and stay with the people for a long time, I get afraid that they may discover it (for I will appear as if I were drunk). Ibn `Abbas said, "A delegation of `Abdul Qais came to Allah's Apostle and he said, "Welcome, O people! Neither will you have disgrace nor will you regret." They said, "O Allah's Apostle! There are the Mudar pagans between you and us, so we cannot come to you except in the sacred Months. So please teach us some orders on acting upon which we will enter Paradise. Besides, we will preach that to our people who are behind us." The Prophet said, "I order you to do four things and forbid you from four things (I order you): To believe in Allah...Do you know what is to believe in Allah? That is to testify that None has the right to be worshipped except Allah: (I order you also to offer prayers perfectly to pay Zakat; and to fast the month of Ramadan and to give the Khumus (i.e. one-fifth of the booty) (for Allah's Sake). I forbid you from four other things (i.e. the wine that is prepared in) Ad-Dubba, An-Naquir, Az-Hantam and Al-Muzaffat. (See Hadith No. 50 Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 654


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4369
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ابي جمرة، قال: سمعت ابن عباس، يقول: قدم وفد عبد القيس على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إنا هذا الحي من ربيعة وقد حالت بيننا وبينك كفار مضر، فلسنا نخلص إليك إلا في شهر حرام، فمرنا باشياء ناخذ بها وندعو إليها من وراءنا، قال:" آمركم باربع، وانهاكم عن اربع: الإيمان بالله، شهادة ان لا إله إلا الله وعقد واحدة، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وان تؤدوا لله خمس ما غنمتم، وانهاكم عن: الدباء، والنقير، والحنتم، والمزفت".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ وَقَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، فَلَسْنَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَشْيَاءَ نَأْخُذُ بِهَا وَنَدْعُو إِلَيْهَا مَنْ وَرَاءَنَا، قَالَ:" آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: الْإِيمَانِ بِاللَّهِ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَقَدَ وَاحِدَةً، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا لِلَّهِ خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَاكُم عَنْ: الدُّبَّاءِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کے قبائل پڑتے ہیں۔ ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں میں ہی حاضر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ چند ایسی باتیں بتلا دیجئیے کہ ہم بھی ان پر عمل کریں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں، انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں (میں تمہیں حکم دیتا ہوں) اللہ پر ایمان لانے کا یعنی اس کی گواہی دینے کا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی انگلی سے) ایک اشارہ کیا، اور نماز قائم کرنے کا، زکٰوۃ دینے کا اور اس کا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کرتے رہنا اور میں تمہیں دباء، نقیر، مزفت اور حنتم کے برتنوں کے استعمال سے روکتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: The delegation of `Abdul Qais came to the Prophet and said, "O Allah's Apostle We belong to the tribe of Rabi`a. The infidels of Mudar tribe intervened between us and you so that we cannot come to you except in the Sacred Months, so please order us some things we may act on and invite those left behind to act on. The Prophet said, "I order you to observe four things and forbid you from four things: (I order you) to believe in Allah, i.e. to testify that None has the right to be worshipped except Allah." The Prophet pointed with finger indicating one and added, "To offer prayers perfectly: to give Zakat, and to give one-fifth of the booty you win (for Allah's Sake). I forbid you to use Ad-Dubba', An-Naquir, Al-Hantam and Al-Muzaffat, (Utensils used for preparing alcoholic liquors and drinks).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 655


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4370
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن سليمان، حدثني ابن وهب، اخبرني عمرو، وقال بكر بن مضر، عن عمرو بن الحارث، عن بكير، ان كريبا مولى ابن عباس حدثه، ان ابن عباس، وعبد الرحمن بن ازهر، والمسور بن مخرمة، ارسلوا إلى عائشة رضي الله عنها، فقالوا: اقرا عليها السلام منا جميعا وسلها عن الركعتين بعد العصر، وإنا اخبرنا انك تصليها، وقد بلغنا ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنها، قال ابن عباس: وكنت اضرب مع عمر الناس عنهما، قال كريب: فدخلت عليها وبلغتها ما ارسلوني، فقالت: سل ام سلمة فاخبرتهم، فردوني إلى ام سلمة بمثل ما ارسلوني إلى عائشة، فقالت ام سلمة: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عنهما، وإنه صلى العصر ثم دخل علي وعندي نسوة من بني حرام من الانصار فصلاهما، فارسلت إليه الخادم، فقلت: قومي إلى جنبه، فقولي: تقول ام سلمة: يا رسول الله، الم اسمعك تنهى عن هاتين الركعتين، فاراك تصليهما، فإن اشار بيده فاستاخري، ففعلت الجارية، فاشار بيده، فاستاخرت عنه، فلما انصرف، قال:" يا بنت ابي امية، سالت عن الركعتين بعد العصر، إنه اتاني اناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم، فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، وَقَالَ بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرٍ، أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَرْسَلُوا إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا وَسَلْهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَإِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّيهَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكُنْتُ أَضْرِبُ مَعَ عُمَرَ النَّاسَ عَنْهُمَا، قَالَ كُرَيْبٌ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا وَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ فَأَخْبَرْتُهُمْ، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا، وَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَصَلَّاهُمَا، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْخَادِمَ، فَقُلْتُ: قُومِي إِلَى جَنْبِهِ، فَقُولِي: تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَمْ أَسْمَعْكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ، فَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا، فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي، فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ، فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، سَأَلْتِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِنَّهُ أَتَانِي أُنَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَشَغَلُونِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا مجھ کو عمرو بن حارث نے خبر دی اور بکر بن مضر نے یوں بیان کیا کہ عبداللہ بن وہب نے عمرو بن حارث سے روایت کیا، ان سے بکیر نے اور ان سے کریب (ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام) نے بیان کیا کہ ابن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ نے انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ام المؤمنین سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق ان سے پوچھنا اور یہ کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ انہیں پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھنے سے روکا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ان دو رکعتوں کے پڑھنے پر عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) لوگوں کو مارا کرتا تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ پھر میں ام المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کا پیغام پہنچایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس کے متعلق ام سلمہ سے پوچھو، میں نے ان حضرات کو آ کر اس کی اطلاع دی تو انہوں نے مجھ کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا، وہ باتیں پوچھنے کے لیے جو عائشہ سے انہوں نے پچھوائی تھیں۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتوں سے منع کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی، پھر میرے یہاں تشریف لائے، میرے پاس اس وقت قبیلہ بنو حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ یہ دیکھ کر میں نے خادمہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا اور اسے ہدایت کر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑی ہو جانا اور عرض کرنا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ہے: یا رسول اللہ! میں نے تو آپ سے ہی سنا تھا اور آپ نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کے پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن میں آج خود آپ کو دو رکعت پڑھتے دیکھ رہی ہوں۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کریں تو پھر پیچھے ہٹ جانا۔ خادمہ نے میری ہدایت کے مطابق کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوامیہ کی بیٹی! عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق تم نے سوال کیا ہے، وجہ یہ ہوئی تھی کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ میرے یہاں اپنی قوم کا اسلام لے کر آئے تھے اور ان کی وجہ سے ظہر کے بعد کی دو رکعتیں میں نہیں پڑھ سکا تھا یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Bukair: That Kuraib, the freed slave of Ibn `Abbas told him that Ibn `Abbas, `Abdur-Rahman bin Azhar and Al-Miswar bin Makhrama sent him to `Aisha saying, "Pay her our greetings and ask her about our offering of the two-rak`at after `Asr Prayer, and tell her that we have been informed that you offer these two rak`at while we have heard that the Prophet had forbidden their offering." Ibn `Abbas said, "I and `Umar used to beat the people for their offering them." Kuraib added, "I entered upon her and delivered their message to her.' She said, 'Ask Um Salama.' So, I informed them (of `Aisha's answer) and they sent me to Um Salama for the same purpose as they sent me to `Aisha. Um Salama replied, 'I heard the Prophet forbidding the offering of these two rak`at. Once the Prophet offered the `Asr prayer, and then came to me. And at that time some Ansari women from the Tribe of Banu Haram were with me. Then (the Prophet ) offered those two rak`at, and I sent my (lady) servant to him, saying, 'Stand beside him and say (to him): Um Salama says, 'O Allah's Apostle! Didn't I hear you forbidding the offering of these two rak`at (after the `Asr prayer yet I see you offering them?' And if he beckons to you with his hand, then wait behind.' So the lady slave did that and the Prophet beckoned her with his hand, and she stayed behind, and when the Prophet finished his prayer, he said, 'O the daughter of Abu Umaiya (i.e. Um Salama), You were asking me about these two rak`at after the `Asr prayer. In fact, some people from the tribe of `Abdul Qais came to me to embrace Islam and busied me so much that I did not offer the two rak`at which were offered after Zuhr compulsory prayer, and these two rak`at (you have seen me offering) make up for those."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 656


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4371
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد الجعفي، حدثنا ابو عامر عبد الملك، حدثنا إبراهيم هو ابن طهمان، عن ابي جمرة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" اول جمعة جمعت بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجد عبد القيس بجواثى" يعني قرية من البحرين.(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَوَّلُ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى" يَعْنِي قَرْيَةً مِنَ الْبَحْرَيْنِ.
مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، (یہ طہمان کے بیٹے ہیں۔) ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: The first Friday (i.e. Jumua) prayer offered after the Friday Prayer offered at the Mosque of Allah's Apostle was offered at the mosque of `Abdul Qais situated at Jawathi, that is a village at Al Bahrain .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 657


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
71. بَابُ وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ، وَحَدِيثِ ثُمَامَةَ بْنِ أُثَالٍ:
71. باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کا بیان۔
(71) Chapter. The delegation of Banu Hanifa and the narration of Thumama bin Uthal.
حدیث نمبر: 4372
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة، يقال له: ثمامة بن اثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" ما عندك يا ثمامة؟" فقال: عندي خير يا محمد، إن تقتلني تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم على شاكر، وإن كنت تريد المال، فسل منه ما شئت، فترك حتى كان الغد، ثم قال له:" ما عندك يا ثمامة؟" قال: ما قلت لك: إن تنعم تنعم على شاكر، فتركه حتى كان بعد الغد، فقال:" ما عندك يا ثمامة؟" فقال: عندي ما قلت لك، فقال:" اطلقوا ثمامة"، فانطلق إلى نجل قريب من المسجد فاغتسل، ثم دخل المسجد، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا رسول الله، يا محمد والله ما كان على الارض وجه ابغض إلي من وجهك، فقد اصبح وجهك احب الوجوه إلي، والله ما كان من دين ابغض إلي من دينك، فاصبح دينك احب الدين إلي، والله ما كان من بلد ابغض إلي من بلدك، فاصبح بلدك احب البلاد إلي، وإن خيلك اخذتني وانا اريد العمرة، فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وامره ان يعتمر، فلما قدم مكة، قال له قائل: صبوت، قال: لا، ولكن اسلمت مع محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا والله لا ياتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى ياذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" فَقَالَ: عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ، إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ، فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتُرِكَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ، فَقَالَ:" أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ"، فَانْطَلَقَ إِلَى نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَى؟ فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ، فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: صَبَوْتَ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑ کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا؟) انہوں نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرے پاس خیر ہے (اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا: ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے؟ انہوں نے کہا، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا: اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا «أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأشهد أن محمدا رسول الله» اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لیے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لیے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور اللہ کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet sent some cavalry towards Najd and they brought a man from the tribe of Banu Hanifa who was called Thumama bin Uthal. They fastened him to one of the pillars of the Mosque. The Prophet went to him and said, "What have you got, O Thumama?" He replied," I have got a good thought, O Muhammad! If you should kill me, you would kill a person who has already killed somebody, and if you should set me free, you would do a favor to one who is grateful, and if you want property, then ask me whatever wealth you want." He was left till the next day when the Prophet said to him, "What have you got, Thumama? He said, "What I told you, i.e. if you set me free, you would do a favor to one who is grateful." The Prophet left him till the day after, when he said, "What have you got, O Thumama?" He said, "I have got what I told you. "On that the Prophet said, "Release Thumama." So he (i.e. Thumama) went to a garden of date-palm trees near to the Mosque, took a bath and then entered the Mosque and said, "I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and also testify that Muhammad is His Apostle! By Allah, O Muhammad! There was no face on the surface of the earth most disliked by me than yours, but now your face has become the most beloved face to me. By Allah, there was no religion most disliked by me than yours, but now it is the most beloved religion to me. By Allah, there was no town most disliked by me than your town, but now it is the most beloved town to me. Your cavalry arrested me (at the time) when I was intending to perform the `Umra. And now what do you think?" The Prophet gave him good tidings (congratulated him) and ordered him to perform the `Umra. So when he came to Mecca, someone said to him, "You have become a Sabian?" Thumama replied, "No! By Allah, I have embraced Islam with Muhammad, Apostle of Allah. No, by Allah! Not a single grain of wheat will come to you from Jamaica unless the Prophet gives his permission."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 658


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    41    42    43    44    45    46    47    48    49    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.