صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4317
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، سمع البراء وساله رجل من قيس:" افررتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين؟" فقال:" لكن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يفر، كانت هوازن رماة، وإنا لما حملنا عليهم انكشفوا فاكببنا على الغنائم، فاستقبلنا بالسهام، ولقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته البيضاء، وإن ابا سفيان بن الحارث آخذ بزمامها وهو يقول: انا النبي لا كذب"، قال إسرائيل وزهير: نزل النبي صلى الله عليه وسلم عن بغلته.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعَ الْبَرَاءَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ:" أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟" فَقَالَ:" لَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرَّ، كَانَتْ هَوَازِنُ رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمُ انْكَشَفُوا فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنَائِمِ، فَاسْتُقْبِلْنَا بِالسِّهَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِزِمَامِهَا وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ"، قَالَ إِسْرَائِيلُ وَزُهَيْرٌ: نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَغْلَتِهِ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، انہوں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنا اور ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ حنین میں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے کہا: لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیرانداز تھے، جب ان پر ہم نے حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے پھر ہم لوگ مال غنیمت میں لگ گئے۔ آخر ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب‏» میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر نے بیان کیا کہ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu 'Is-haq: That he heard Al-Bara narrating when a man from Qais (tribe) asked him "Did you flee leaving Allah's Apostle on the day (of the battle) of Hunain?" Al-Bara' replied, "But Allah's Apostle did not flee. The people of Hawazin were good archers, and when we attacked them, they fled. But rushing towards the booty, we were confronted by the arrows (of the enemy). I saw the Prophet riding his white mule while Abu Sufyan was holding its reins, and the Prophet was saying "I am the Prophet undoubtedly." (Israil and Zuhair said, "The Prophet dismounted from his Mule.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 607


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4318
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب. ح وحدثني إسحاق، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن اخي ابن شهاب، قال محمد بن شهاب، وزعم عروة بن الزبير، ان مروان، والمسور بن مخرمة، اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي، وإما المال، وقد كنت استانيت بكم"، وكان انظرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، فإن إخوانكم قد جاءونا تائبين، وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل"، فقال الناس: قد طيبنا ذلك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا لا ندري من اذن منكم في ذلك ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم"، فرجع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا هذا الذي بلغني عن سبي هوازن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ، وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ، وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ"، وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ"، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ"، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن شہاب نے) بیان کیا کہ محمد بن شہاب نے کہا کہ ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رخصت دینے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے (قبیلے کے قیدی) انہیں واپس دے دئیے جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو، میرے ساتھ کتنے اور لوگ بھی ہیں اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے تم لوگ ایک ہی چیز پسند کر لو یا تو اپنے قیدی لے لو یا مال لے لو۔ میں نے تم ہی لوگوں کے خیال سے (قیدیوں کی تقسیم میں) تاخیر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپس ہو کر تقریباً دس دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم اپنے (قبیلے کے) قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تمہارے بھائی (قبیلہ ہوازن کے لوگ) توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں، مسلمان ہو کر اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اس لیے جو شخص (بلا کسی دنیاوی صلہ کے) انہیں اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے یہ بہتر ہے اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں، ان کا حق قائم رہے گا۔ وہ یوں کر لیں کہ اس کے بعد جو سب سے پہلے غنیمت اللہ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلہ دے دیں گے تو وہ ان کے قیدی واپس کر دیں۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: یا رسول اللہ! ہم خوشی سے (بلا کسی بدلہ کے) واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہمیں اس کا علم نہیں ہو گا کہ کس نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہے اور کس نے نہیں، اس لیے سب لوگ جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب واپس آ گئے اور ان کے چودھریوں نے ان سے گفتگو کی پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب نے خوشی اور فراخ دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا یہی ہے وہ حدیث جو مجھے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق پہنچی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegate of Hawazin came to Allah's Apostle declaring their conversion to Islam and asked him to return their properties and captives, Allah's Apostle got up and said to them, "There Is involved in this matter, the people whom you see with me, and the most beloved talk to me, is the true one. So choose one of two alternatives: Either the captives or the properties. I have been waiting for you (i.e. have not distributed the booty)." Allah's Apostle had delayed the distribution of their booty over ten nights after his return from Ta'if. So when they came to know that Allah's Apostle was not going to return to them but one of the two, they said, "We prefer to have our captives." So Allah's Apostle got up amongst the Muslims, and praising Allah as He deserved, said, "To proceed! Your brothers have come to you with repentance and I see (it logical) to return their captives. So, whoever of you likes to do that as a favor then he can do it. And whoever of you likes to stick to his share till we give him from the very first booty which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We do that (i.e. return the captives) willingly as a favor, 'O Allah's Apostle!" Allah's Apostle said, "We do not know which of you have agreed to it and which have not; so go back and let your chiefs forward us your decision." They went back and their chief's spoke to them, and they (i.e. the chiefs) returned to Allah's Apostle and informed him that all of them had agreed (to give up their captives) with pleasure, and had given their permission (i.e. that the captives be returned to their people). (The sub-narrator said, "That is what has reached me about the captives of Hawazin tribe.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 608


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4319
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب. ح وحدثني إسحاق، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن اخي ابن شهاب، قال محمد بن شهاب، وزعم عروة بن الزبير، ان مروان، والمسور بن مخرمة، اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي، وإما المال، وقد كنت استانيت بكم"، وكان انظرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، فإن إخوانكم قد جاءونا تائبين، وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل"، فقال الناس: قد طيبنا ذلك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا لا ندري من اذن منكم في ذلك ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم"، فرجع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا هذا الذي بلغني عن سبي هوازن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ، وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ، وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ"، وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ"، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ"، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن شہاب نے) بیان کیا کہ محمد بن شہاب نے کہا کہ ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رخصت دینے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے (قبیلے کے قیدی) انہیں واپس دے دئیے جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو، میرے ساتھ کتنے اور لوگ بھی ہیں اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے تم لوگ ایک ہی چیز پسند کر لو یا تو اپنے قیدی لے لو یا مال لے لو۔ میں نے تم ہی لوگوں کے خیال سے (قیدیوں کی تقسیم میں) تاخیر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپس ہو کر تقریباً دس دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم اپنے (قبیلے کے) قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تمہارے بھائی (قبیلہ ہوازن کے لوگ) توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں، مسلمان ہو کر اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اس لیے جو شخص (بلا کسی دنیاوی صلہ کے) انہیں اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے یہ بہتر ہے اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں، ان کا حق قائم رہے گا۔ وہ یوں کر لیں کہ اس کے بعد جو سب سے پہلے غنیمت اللہ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلہ دے دیں گے تو وہ ان کے قیدی واپس کر دیں۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: یا رسول اللہ! ہم خوشی سے (بلا کسی بدلہ کے) واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہمیں اس کا علم نہیں ہو گا کہ کس نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہے اور کس نے نہیں، اس لیے سب لوگ جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب واپس آ گئے اور ان کے چودھریوں نے ان سے گفتگو کی پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب نے خوشی اور فراخ دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا یہی ہے وہ حدیث جو مجھے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق پہنچی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegate of Hawazin came to Allah's Apostle declaring their conversion to Islam and asked him to return their properties and captives, Allah's Apostle got up and said to them, "There Is involved in this matter, the people whom you see with me, and the most beloved talk to me, is the true one. So choose one of two alternatives: Either the captives or the properties. I have been waiting for you (i.e. have not distributed the booty)." Allah's Apostle had delayed the distribution of their booty over ten nights after his return from Ta'if. So when they came to know that Allah's Apostle was not going to return to them but one of the two, they said, "We prefer to have our captives." So Allah's Apostle got up amongst the Muslims, and praising Allah as He deserved, said, "To proceed! Your brothers have come to you with repentance and I see (it logical) to return their captives. So, whoever of you likes to do that as a favor then he can do it. And whoever of you likes to stick to his share till we give him from the very first booty which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We do that (i.e. return the captives) willingly as a favor, 'O Allah's Apostle!" Allah's Apostle said, "We do not know which of you have agreed to it and which have not; so go back and let your chiefs forward us your decision." They went back and their chief's spoke to them, and they (i.e. the chiefs) returned to Allah's Apostle and informed him that all of them had agreed (to give up their captives) with pleasure, and had given their permission (i.e. that the captives be returned to their people). (The sub-narrator said, "That is what has reached me about the captives of Hawazin tribe.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 608


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4320
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، ان عمر، قال: يا رسول الله. ح حدثني محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا معمر، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" لما قفلنا من حنين سال عمر النبي صلى الله عليه وسلم عن نذر كان نذره في الجاهلية اعتكاف، فامره النبي صلى الله عليه وسلم بوفائه"، وقال بعضهم: حماد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ورواه جرير بن حازم، وحماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ. ح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا قَفَلْنَا مِنْ حُنَيْنٍ سَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَذْرٍ كَانَ نَذَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ اعْتِكَافٍ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَفَائِهِ"، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَاهُ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ہم غزوہ حنین سے واپس ہو رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ایک نذر کے متعلق پوچھا جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں اعتکاف کی مانی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسے پوری کرنے کا حکم دیا اور بعض (احمد بن عبدہ ضبی) نے حماد سے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے۔ اور اس روایت کو جریر بن حازم اور حماد بن سلمہ نے ایوب سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: When we returned from (the battle of) Hunain, `Umar asked the Prophet about a vow which he had made during the Pre-lslamic period of Ignorance that he would perform I`tikaf. The Prophet ordered him to fulfill his vow.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 609


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4321
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، فرايت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، فضربته من ورائه على حبل عاتقه بالسيف، فقطعت الدرع واقبل علي، فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم ادركه الموت، فارسلني فلحقت عمر بن الخطاب، فقلت: ما بال الناس، قال: امر الله عز وجل، ثم رجعوا وجلس النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه"، فقلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، قال: ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم مثله، فقمت، فقلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، قال: ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم مثله، فقمت، فقال:" ما لك يا ابا قتادة؟" فاخبرته، فقال رجل: صدق، وسلبه عندي فارضه مني، فقال ابو بكر: لاها الله إذا لا يعمد إلى اسد من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، فيعطيك سلبه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" صدق، فاعطه"، فاعطانيه، فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ، قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ"، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، فَقُمْتُ، فَقَالَ:" مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟" فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: صَدَقَ، وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنِّي، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُعْطِيَكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ، فَأَعْطِهِ"، فَأَعْطَانِيهِ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بن کثیر بن افلح نے، انہیں قتادہ کے مولیٰ ابو محمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے لیے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ جب جنگ ہوئی تو مسلمان ذرا ڈگمگا گئے (یعنی آگے پیچھے ہو گئے)۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپر غالب ہو رہا ہے، میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ ڈالی۔ اب وہ مجھ پر پلٹ پڑا اور مجھے اتنی زور سے بھینچا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی، آخر وہ مر گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، یہی اللہ عزوجل کا حکم ہے۔ پھر مسلمان پلٹے اور (جنگ ختم ہونے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کے لیے کوئی گواہ بھی رکھتا ہو تو اس کا تمام سامان و ہتھیار اسے ہی ملے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ بیان کیا کہ پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ اس مرتبہ پھر میں نے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ اور پھر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا فرمان دہرایا تو میں اس مرتبہ کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ فرمایا کیا بات ہے، اے ابوقتادہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور ان کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں (کہ سامان مجھ سے نہ لیں) اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حق تمہیں ہرگز نہیں دے سکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، تم سامان ابوقتادہ کو دے دو۔ انہوں نے سامان مجھے دے دیا۔ میں نے اس سامان سے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اسلام کے بعد یہ میرا پہلا مال تھا، جسے میں نے حاصل کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qatada: We set out along with the Prophet during the year of (the battle of) Hunain, and when we faced the enemy, the Muslims (with the exception of the Prophet and some of his companions) retreated (before the enemy). I saw one of the pagans over-powering one of the Muslims, so I struck the pagan from behind his neck causing his armor to be cut off. The pagan headed towards me and pressed me so forcibly that I felt as if I was dying. Then death took him over and he released me. Afterwards I followed `Umar and said to him, "What is wrong with the people?" He said, "It is the Order of Allah." Then the Muslims returned (to the battle after the flight) and (after overcoming the enemy) the Prophet sat and said, "Whoever had killed an Infidel and has an evidence to this issue, will have the Salb (i.e. the belonging of the deceased e.g. clothes, arms, horse, etc)." I (stood up) and said, "Who will be my witness?" and then sat down. Then the Prophet repeated his question. Then the Prophet said the same (for the third time). I got up and said, "Who will be my witness?" and then sat down. The Prophet asked his former question again. So I got up. The Prophet said, What is the matter, O Abu Qatada?" So I narrated the whole story; A man said, "Abu Qatada has spoken the truth, and the Salb of the deceased is with me, so please compensate Abu Qatada on my behalf." Abu Bakr said, "No! By Allah, it will never happen that the Prophet will leave a Lion of Allah who fights for the Sake of Allah and His Apostle and give his spoils to you." The Prophet said, "Abu Bakr has spoken the truth. Give it (the spoils) back to him (O man)!" So he gave it to me and I bought a garden in (the land of) Banu Salama with it (i.e. the spoils) and that was the first property I got after embracing Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 610


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4322
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال الليث: حدثني يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، ان ابا قتادة، قال: لما كان يوم حنين نظرت إلى رجل من المسلمين يقاتل رجلا من المشركين وآخر من المشركين يختله من ورائه ليقتله، فاسرعت إلى الذي يختله، فرفع يده ليضربني واضرب يده فقطعتها، ثم اخذني فضمني ضما شديدا حتى تخوفت، ثم ترك فتحلل ودفعته، ثم قتلته، وانهزم المسلمون وانهزمت معهم، فإذا بعمر بن الخطاب في الناس، فقلت له: ما شان الناس؟ قال: امر الله، ثم تراجع الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اقام بينة على قتيل قتله فله سلبه"، فقمت لالتمس بينة على قتيلي، فلم ار احدا يشهد لي، فجلست، ثم بدا لي فذكرت امره لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل من جلسائه: سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي فارضه منه، فقال ابو بكر: كلا لا يعطه اصيبغ من قريش، ويدع اسدا من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاداه إلي، فاشتريت منه خرافا، فكان اول مال تاثلته في الإسلام.(مرفوع) وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ نَظَرْتُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَآخَرُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَخْتِلُهُ مِنْ وَرَائِهِ لِيَقْتُلَهُ، فَأَسْرَعْتُ إِلَى الَّذِي يَخْتِلُهُ، فَرَفَعَ يَدَهُ لِيَضْرِبَنِي وَأَضْرِبُ يَدَهُ فَقَطَعْتُهَا، ثُمَّ أَخَذَنِي فَضَمَّنِي ضَمًّا شَدِيدًا حَتَّى تَخَوَّفْتُ، ثُمَّ تَرَكَ فَتَحَلَّلَ وَدَفَعْتُهُ، ثُمَّ قَتَلْتُهُ، وَانْهَزَمَ الْمُسْلِمُونَ وَانْهَزَمْتُ مَعَهُمْ، فَإِذَا بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ تَرَاجَعَ النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَقَامَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ"، فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي، فَجَلَسْتُ، ثُمَّ بَدَا لِي فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا، فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ.
اور لیث بن سعد نے بیان کیا، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا تھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qatada: When it was the day of (the battle of) Hunain, I saw a Muslim man fighting with one of the pagans and another pagan was hiding himself behind the Muslim in order to kill him. So I hurried towards the pagan who was hiding behind the Muslim to kill him, and he raised his hand to hit me but I hit his hand and cut it off. That man got hold of me and pressed me so hard that I was afraid (that I would die), then he knelt down and his grip became loose and I pushed him and killed him. The Muslims (excepting the Prophet and some of his companions) started fleeing and I too, fled with them. Suddenly I met `Umar bin Al-Khattab amongst the people and I asked him, "What is wrong with the people?" He said, "It is the order of Allah" Then the people returned to Allah's Apostle (after defeating the enemy). Allah's Apostle said, "Whoever produces a proof that he has killed an infidel, will have the spoils of the killed man." So I got up to look for an evidence to prove that I had killed an infidel, but I could not find anyone to bear witness for me, so I sat down. Then it came to my mind (that I should speak of it) and I mentioned the case to Allah's Apostle. A man from the persons who were sitting with him (i.e. the Prophet), said, "The arms of the deceased one whom he ( i.e. Abu Qatada) has mentioned, are with me, so please compensate him for it (i.e. the spoils)," Abu Bakr said, "No, Allah's Apostle will not give it (i.e. the spoils) to a weak humble person from Quraish and leave one of Allah's Lions who fights on behalf of Allah and His Apostle." Allah's Apostle then got up and gave that (spoils) to me, and I bought with it, a garden which was the first property I got after embracing Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 611


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
56. بَابُ غَزَاةِ أَوْطَاسٍ:
56. باب: غزوہ اوطاس کا بیان۔
(56) Chapter. The Ghazwa of Autas.
حدیث نمبر: 4323
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن بريد بن عبد الله، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين، بعث ابا عامر على جيش إلى اوطاس، فلقي دريد بن الصمة فقتل دريد، وهزم الله اصحابه، قال ابو موسى: وبعثني مع ابي عامر، فرمي ابو عامر في ركبته رماه جشمي بسهم، فاثبته في ركبته، فانتهيت إليه، فقلت: يا عم من رماك؟ فاشار إلى ابي موسى، فقال: ذاك قاتلي الذي رماني، فقصدت له فلحقته، فلما رآني ولى فاتبعته، وجعلت اقول له: الا تستحيي، الا تثبت؟ فكف، فاختلفنا ضربتين بالسيف، فقتلته، ثم قلت لابي عامر: قتل الله صاحبك، قال: فانزع هذا السهم، فنزعته، فنزا منه الماء، قال: يا ابن اخي، اقرئ النبي صلى الله عليه وسلم السلام، وقل له: استغفر لي، واستخلفني ابو عامر على الناس، فمكث يسيرا ثم مات، فرجعت، فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في بيته على سرير مرمل وعليه فراش قد اثر رمال السرير بظهره وجنبيه، فاخبرته بخبرنا وخبر ابي عامر، وقال: قل له استغفر لي، فدعا بماء فتوضا، ثم رفع يديه، فقال:" اللهم اغفر لعبيد ابي عامر"، ورايت بياض إبطيه، ثم قال:" اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس"، فقلت: ولي، فاستغفر، فقال:" اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه، وادخله يوم القيامة مدخلا كريما"، قال ابو بردة: إحداهما لابي عامر، والاخرى لابي موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ، بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ، فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ فَقُتِلَ دُرَيْدٌ، وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ، قَالَ أَبُو مُوسَى: وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ، فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ جُشَمِيٌّ بِسَهْمٍ، فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ؟ فَأَشَارَ إِلَى أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: ذَاكَ قَاتِلِي الَّذِي رَمَانِي، فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى فَاتَّبَعْتُهُ، وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ: أَلَا تَسْتَحْيِي، أَلَا تَثْبُتُ؟ فَكَفَّ، فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ بِالسَّيْفِ، فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ قُلْتُ لِأَبِي عَامِرٍ: قَتَلَ اللَّهُ صَاحِبَكَ، قَالَ: فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ، فَنَزَعْتُهُ، فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَقْرِئْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: اسْتَغْفِرْ لِي، وَاسْتَخْلَفَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، فَمَكُثَ يَسِيرًا ثُمَّ مَاتَ، فَرَجَعْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ، وَقَالَ: قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ"، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ"، فَقُلْتُ: وَلِي، فَاسْتَغْفِرْ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا"، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: إِحْدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ، وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک دستے کے ساتھ ابوعامر رضی اللہ عنہ کو وادی اوطاس کی طرف بھیجا۔ اس معرکہ میں درید ابن الصمہ سے مقابلہ ہوا۔ درید قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو شکست دے دی۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی بھیجا تھا۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں تیر آ کر لگا۔ بنی جعشم کے ایک شخص نے ان پر تیر مارا تھا اور ان کے گھٹنے میں اتار دیا تھا۔ میں ان کے پاس پہنچا اور کہا:چچا! یہ تیر آپ پر کس نے پھینکا؟ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارے سے بتایا کہ وہ جعشمی میرا قاتل ہے جس نے مجھے نشانہ بنایا ہے۔ میں اس کی طرف لپکا اور اس کے قریب پہنچ گیا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ بھاگ پڑا میں نے اس کا پیچھا کیا اور میں یہ کہتا جاتا تھا، تجھے شرم نہیں آتی، تجھ سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ آخر وہ رک گیا اور ہم نے ایک دوسرے پر تلوار سے وار کیا۔ میں نے اسے قتل کر دیا اور ابوعامر رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ اللہ نے آپ کے قاتل کو قتل کروا دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے (گھٹنے میں سے) تیر نکال لے، میں نے نکال دیا تو اس سے پانی جاری ہو گیا پھر انہوں نے فرمایا: بھتیجے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچانا اور عرض کرنا کہ میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے لوگوں پر مجھے اپنا نائب بنا دیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہے اور شہادت پائی۔ میں واپس ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ آپ اپنے گھر میں بانوں کی ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہیں تھا اور بانوں کے نشانات آپ کی پیٹھ اور پہلو پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے اپنے اور ابوعامر رضی اللہ عنہ کے واقعات بیان کئے اور یہ کہ انہوں نے دعا مغفرت کے لیے درخواست کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور وضو کیا پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اے اللہ! عبید ابوعامر کی مغفرت فرما۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل میں سفیدی (جب آپ دعا کر رہے تھے) دیکھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، اے اللہ! قیامت کے دن ابوعامر کو اپنی بہت سی مخلوق سے بلند تر درجہ عطا فرمائیو۔ میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی اللہ سے مغفرت کی دعا فرما دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ کے گناہوں کو بھی معاف فرما اور قیامت کے دن اچھا مقام عطا فرمائیو۔ ابوبردہ نے بیان کیا کہ ایک دعا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے لیے تھی اور دوسری ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے لیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa: When the Prophet had finished from the battle of Hunain, he sent Abu Amir at the head of an army to Autas He (i.e. Abu Amir) met Duraid bin As Summa and Duraid was killed and Allah defeated his companions. The Prophet sent me with Abu 'Amir. Abu Amir was shot at his knee with an arrow which a man from Jushm had shot and fixed into his knee. I went to him and said, "O Uncle! Who shot you?" He pointed me out (his killer) saying, "That is my killer who shot me (with an arrow)." So I headed towards him and overtook him, and when he saw me, he fled, and I followed him and started saying to him, "Won't you be ashamed? Won't you stop?" So that person stopped, and we exchanged two hits with the swords and I killed him. Then I said to Abu 'Amir. "Allah has killed your killer." He said, "Take out this arrow" So I removed it, and water oozed out of the wound. He then said, "O son of my brother! Convey my compliments to the Prophet and request him to ask Allah's Forgiveness for me." Abu Amir made me his successor in commanding the people (i.e. troops). He survived for a short while and then died. (Later) I returned and entered upon the Prophet at his house, and found him lying in a bed made of stalks of date-palm leaves knitted with ropes, and on it there was bedding. The strings of the bed had their traces over his back and sides. Then I told the Prophet about our and Abu Amir's news and how he had said "Tell him to ask for Allah's Forgiveness for me." The Prophet asked for water, performed ablution and then raised hands, saying, "O Allah's Forgive `Ubaid, Abu Amir." At that time I saw the whiteness of the Prophet's armpits. The Prophet then said, "O Allah, make him (i.e. Abu Amir) on the Day of Resurrection, superior to many of Your human creatures." I said, "Will you ask Allah's Forgiveness for me?" (On that) the Prophet said, "O Allah, forgive the sins of `Abdullah bin Qais and admit him to a nice entrance (i.e. paradise) on the Day of Resurrection." Abu Burda said, "One of the prayers was for Abu 'Amir and the other was for Abu Musa (i.e. `Abdullah bin Qais).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 612


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
57. باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
(57) Chapter. The Ghazwa of At-Ta’if was in the month of Shawwal, during the 8th year (of Al-Hijrah).
حدیث نمبر: Q4324
Save to word اعراب English
قاله موسى بن عقبةقَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ
‏‏‏‏ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ہے۔
حدیث نمبر: 4324
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، سمع سفيان، حدثنا هشام، عن ابيه، عن زينب بنت ابي سلمة، عن امها ام سلمة رضي الله عنها: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وعندي مخنث، فسمعته يقول لعبد الله بن ابي امية:" يا عبد الله، ارايت إن فتح الله عليكم الطائف غدا، فعليك بابنة غيلان، فإنها تقبل باربع، وتدبر بثمان"، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يدخلن هؤلاء عليكن"، قال ابن عيينة: وقال ابن جريج: المخنث هيت.حدثنا محمود، حدثنا ابو اسامة، عن هشام بهذا، وزاد: وهو محاصر الطائف يومئذ.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، سَمِعَ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي مُخَنَّثٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الطَّائِفَ غَدًا، فَعَلَيْكَ بِابْنَةِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ، وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ"، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَدْخُلَنَّ هَؤُلَاءِ عَلَيْكُنَّ"، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: الْمُخَنَّثُ هِيتٌ.حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا، وَزَادَ: وَهُوَ مُحَاصِرُ الطَّائِفِ يَوْمَئِذٍ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم نے سفیان بن عیینہ سے سنا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ان کی والدہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میرے پاس ایک مخنث بیٹھا ہوا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ عبداللہ بن امیہ سے کہہ رہا تھا کہ اے عبداللہ! دیکھو اگر کل اللہ تعالیٰ نے طائف کی فتح تمہیں عطا فرمائی تو غیلان بن سلمہ کی بیٹی (بادیہ نامی) کو لے لینا وہ جب سامنے آتی ہے تو پیٹ پر چار بل اور پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو آٹھ بل دکھائی دیتے ہیں (یعنی بہت موٹی تازہ عورت ہے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ اب تمہار ے گھر میں نہ آیا کریں۔ ابن عیینہ نے بیان کیا کہ ابن جریج نے کہا، اس مخنث کا نام ہیت تھا۔ ہم سے محمود نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے اسی طرح بیان کیا اور یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت طائف کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Um Salama: The Prophet came to me while there was an effeminate man sitting with me, and I heard him (i.e. the effeminate man) saying to `Abdullah bin Abi Umaiya, "O `Abdullah! See if Allah should make you conquer Ta'if tomorrow, then take the daughter of Ghailan (in marriage) as (she is so beautiful and fat that) she shows four folds of flesh when facing you, and eight when she turns her back." The Prophet then said, "These (effeminate men) should never enter upon you (O women!)." Ibn Juraij said, "That effeminate man was called Hit." Narrated Hisham: The above narration and added extra, that at that time, the Prophet, was besieging Taif.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 613


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4325
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابي العباس الشاعر الاعمى، عن عبد الله بن عمر، قال: لما حاصر رسول الله صلى الله عليه وسلم الطائف، فلم ينل منهم شيئا، قال:" إنا قافلون إن شاء الله"، فثقل عليهم، وقالوا: نذهب ولا نفتحه، وقال مرة: نقفل، فقال:" اغدوا على القتال"، فغدوا، فاصابهم جراح، فقال:" إنا قافلون غدا إن شاء الله"، فاعجبهم، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم، وقال سفيان مرة: فتبسم، قال: قال الحميدي: حدثنا سفيان الخبر كله.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الشَّاعِرِ الْأَعْمَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّائِفَ، فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، قَالَ:" إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، فَثَقُلَ عَلَيْهِمْ، وَقَالُوا: نَذْهَبُ وَلَا نَفْتَحُهُ، وَقَالَ مَرَّةً: نَقْفُلُ، فَقَالَ:" اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ"، فَغَدَوْا، فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ:" إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، فَأَعْجَبَهُمْ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: فَتَبَسَّمَ، قَالَ: قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْخَبَرَ كُلَّهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس نابینا شاعر نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن کا کچھ بھی نقصان نہیں کیا۔ آخر آپ نے فرمایا کہ اب ان شاءاللہ ہم واپس ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کے لیے ناکام لوٹنا بڑا شاق گزرا۔ انہوں نے کہا کہ واہ بغیر فتح کے ہم واپس چلے جائیں (راوی نے) ایک مرتبہ «نذهب» کے بجائے «نقفل» کا لفظ استعمال کیا یعنی ہم۔۔۔ لوٹ جائیں اور طائف کو فتح نہ کریں (یہ کیونکر ہو سکتا ہے) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر صبح سویرے میدان میں جنگ کے لیے آ جاؤ۔ پس وہ صحابہ سویرے ہی آ گئے لیکن ان کی بڑی تعداد زخمی ہو گئی۔ اب پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاءاللہ ہم کل واپس چلیں گے۔ صحابہ نے اسے بہت پسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس پڑے۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے۔ حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے یہ پوری خبر بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Amr: When Allah's Apostle besieged Taif and could not conquer its people, he said, "We will return (to Medina) If Allah wills." That distressed the Companions (of the Prophet and they said, "Shall we go away without conquering it (i.e. the Fort of Taif)?" Once the Prophet said, "Let us return." Then the Prophet said (to them), "Fight tomorrow." They fought and (many of them) got wounded, whereupon the Prophet said, "We will return (to Medina) tomorrow if Allah wills." That delighted them, whereupon the Prophet smiled. The sub-narrator, Sufyan said once, "(The Prophet) smiled."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 615


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    36    37    38    39    40    41    42    43    44    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.