(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن خليل، اخبرنا علي بن مسهر، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" بينما ثلاثة نفر ممن كان قبلكم يمشون إذ اصابهم مطر فاووا إلى غار فانطبق عليهم، فقال: بعضهم لبعض إنه والله يا هؤلاء لا ينجيكم إلا الصدق فليدع كل رجل منكم بما يعلم انه قد صدق فيه، فقال: واحد منهم اللهم إن كنت تعلم انه كان لي اجير عمل لي على فرق من ارز فذهب وتركه، واني عمدت إلى ذلك الفرق فزرعته فصار من امره اني اشتريت منه بقرا وانه اتاني يطلب اجره، فقلت له: اعمد إلى تلك البقر فسقها، فقال لي: إنما لي عندك فرق من ارز، فقلت له: اعمد إلى تلك البقر فإنها من ذلك الفرق فساقها فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا فانساحت عنهم الصخرة، فقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم انه كان لي ابوان شيخان كبيران، فكنت آتيهما كل ليلة بلبن غنم لي فابطات عليهما ليلة فجئت وقد رقدا واهلي وعيالي يتضاغون من الجوع فكنت لا اسقيهم حتى يشرب ابواي، فكرهت ان اوقظهما وكرهت ان ادعهما فيستكنا لشربتهما، فلم ازل انتظر حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا فانساحت عنهم الصخرة حتى نظروا إلى السماء، فقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم انه كان لي ابنة عم من احب الناس إلي واني راودتها عن نفسها فابت إلا ان آتيها بمائة دينار، فطلبتها حتى قدرت فاتيتها بها فدفعتها إليها فامكنتني من نفسها فلما قعدت بين رجليها، فقالت: اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه فقمت وتركت المائة دينار فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا ففرج الله عنهم فخرجوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلَاءِ لَا يُنْجِيكُمْ إِلَّا الصِّدْقُ فَليَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ، فَقَالَ: وَاحِدٌ مِنْهُمُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ، وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَسُقْهَا، فَقَالَ لِي: إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزٍّ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الْفَرَقِ فَسَاقَهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، فَكُنْتُ آتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلَبَنِ غَنَمٍ لِي فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِمَا لَيْلَةً فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا وَأَهْلِي وَعِيَالِي يَتَضَاغَوْنَ مِنَ الْجُوعِ فَكُنْتُ لَا أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبَوَايَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا، فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمٍّ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ إِلَّا أَنْ آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا فَأَمْكَنَتْنِي مِنْ نَفْسِهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، فَقَالَتْ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ الْمِائَةَ دِينَارٍ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا".
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر نے، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو، تو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی۔ اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں (یہ سنتے ہی) کھڑا ہو گیا اور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو، تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, "Once three persons (from the previous nations) were traveling, and suddenly it started raining and they took shelter in a cave. The entrance of the cave got closed while they were inside. They said to each other, 'O you! Nothing can save you except the truth, so each of you should ask Allah's Help by referring to such a deed as he thinks he did sincerely (i.e. just for gaining Allah's Pleasure).' So one of them said, 'O Allah! You know that I had a laborer who worked for me for one Faraq (i.e. three Sas) of rice, but he departed, leaving it (i.e. his wages). I sowed that Faraq of rice and with its yield I bought cows (for him). Later on when he came to me asking for his wages, I said (to him), 'Go to those cows and drive them away.' He said to me, 'But you have to pay me only a Faraq of rice,' I said to him, 'Go to those cows and take them, for they are the product of that Faraq (of rice).' So he drove them. O Allah! If you consider that I did that for fear of You, then please remove the rock.' The rock shifted a bit from the mouth of the cave. The second one said, 'O Allah, You know that I had old parents whom I used to provide with the milk of my sheep every night. One night I was delayed and when I came, they had slept, while my wife and children were crying with hunger. I used not to let them (i.e. my family) drink unless my parents had drunk first. So I disliked to wake them up and also disliked that they should sleep without drinking it, I kept on waiting (for them to wake) till it dawned. O Allah! If You consider that I did that for fear of you, then please remove the rock.' So the rock shifted and they could see the sky through it. The (third) one said, 'O Allah! You know that I had a cousin (i.e. my paternal uncle's daughter) who was most beloved to me and I sought to seduce her, but she refused, unless I paid her one-hundred Dinars (i.e. gold pieces). So I collected the amount and brought it to her, and she allowed me to sleep with her. But when I sat between her legs, she said, 'Be afraid of Allah, and do not deflower me but legally. 'I got up and left the hundred Dinars (for her). O Allah! If You consider that I did that for fear of you than please remove the rock. So Allah saved them and they came out (of the cave)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 671
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن عبد الرحمن حدثه، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" بينما امراة ترضع ابنها إذ مر بها راكب وهي ترضعه، فقالت: اللهم لا تمت ابني حتى يكون مثل هذا، فقال: اللهم لا تجعلني مثله ثم رجع في الثدي ومر بامراة تجرر ويلعب بها، فقالت: اللهم لا تجعل ابني مثلها، فقال: اللهم اجعلني مثلها، فقال: اما الراكب فإنه كافر واما المراة فإنهم يقولون: لها تزني، وتقول: حسبي الله، ويقولون: تسرق، وتقول: حسبي الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بَيْنَمَا امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنَهَا إِذْ مَرَّ بِهَا رَاكِبٌ وَهِيَ تُرْضِعُهُ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتِ ابْنِي حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ هَذَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ثُمَّ رَجَعَ فِي الثَّدْيِ وَمُرَّ بِامْرَأَةٍ تُجَرَّرُ وَيُلْعَبُ بِهَا، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا، فَقَالَ: أَمَّا الرَّاكِبُ فَإِنَّهُ كَافِرٌ وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَإِنَّهُمْ يَقُولُونَ: لَهَا تَزْنِي، وَتَقُولُ: حَسْبِيَ اللَّهُ، وَيَقُولُونَ: تَسْرِقُ، وَتَقُولُ: حَسْبِيَ اللَّهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ ایک سوار ادھر سے گزرا، وہ اس وقت بھی بچے کو دودھ پلا رہی تھی (سوار کی شان دیکھ کر) عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ اس سوار جیسا نہ ہو جائے۔ اسی وقت (بقدرت الہٰی) بچہ بول پڑا۔ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ اور پھر وہ دودھ پینے لگا۔ اس کے بعد ایک عورت کو ادھر سے لے جایا گیا، اسے لے جانے والے اسے گھسیٹ رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ماں نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو اس عورت جیسا نہ کرنا، لیکن بچے نے کہا کہ اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دینا (پھر تو ماں نے پوچھا، ارے یہ کیا معاملہ ہے؟ اس بچے نے بتایا کہ سوار تو کافر و ظالم تھا اور عورت کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ تو زنا کراتی ہے تو وہ جواب دیتی «حسبي الله»(اللہ میرے لیے کافی ہے، وہ میری پاک دامنی جانتا ہے) لوگ کہتے کہ تو چوری کرتی ہے تو وہ جواب دیتی «حسبي الله»(اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہ میری پاک دامنی جانتا ہے)۔
Narrated Abu Huraira: That he heard Allah's Apostle saying, "While a lady was nursing her child, a rider passed by and she said, 'O Allah! Don't let my child die till he becomes like this (rider).' The child said, 'O Allah! Don't make me like him,' and then returned to her breast (sucking it). (After a while) they passed by a lady who was being pulled and teased (by the people). The child's mother said, 'O Allah! Do not make my child like her.' The child said, 'O Allah! Make me like her.' Then he said, 'As for the rider, he is an infidel, while the lady is accused of illegal sexual intercourse (falsely) and she says: Allah is sufficient for me (He knows the truth).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 672
(مرفوع) حدثنا سعيد بن تليد، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني جرير بن حازم، عن ايوب، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" بينما كلب يطيف بركية كاد يقتله العطش إذ راته بغي من بغايا بني إسرائيل فنزعت موقها فسقته فغفر لها به".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَمَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهِ".
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے جریر بن حازم نے خبر دی، انہیں ایوب نے اور انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ”ایک کتا ایک کنویں کے چاروں طرف چکر کاٹ رہا تھا جیسے پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جانے والی ہو کہ بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت نے اسے دیکھ لیا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتار کر کتے کو پانی پلایا اور اس کی مغفرت اسی عمل کی وجہ سے ہو گئی۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "While a dog was going round a well and was about to die of thirst, an Israeli prostitute saw it and took off her shoe and watered it. So Allah forgave her because of that good deed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 673
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، انه سمع معاوية بن ابي سفيان عام حج على المنبر فتناول قصة من شعر وكانت في يدي حرسي، فقال: يا اهل المدينة اين علماؤكم سمعت النبي صلى الله عليه وسلم" ينهى عن مثل هذه، ويقول: إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذها نساؤهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ وَكَانَتْ فِي يَدَيْ حَرَسِيٍّ، فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ، وَيَقُولُ: إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے سنا ایک سال جب وہ حج کے لیے گئے ہوئے تھے تو منبرنبوی پر کھڑے ہو کر انہوں نے پیشانی کے بالوں کا ایک کچھا لیا جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا اور فرمایا: اے مدینہ والو! تمہارے علماء کدھر گئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح (بال جوڑنے کی) ممانعت فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل پر بربادی اس وقت آئی جب (شریعت کے خلاف) ان کی عورتوں نے اس طرح بال سنوارنے شروع کر دیئے تھے۔
Narrated Humaid bin `Abdur-Rahman: That he heard Muawiya bin Abi Sufyan (talking) on the pulpit in the year when he performed the Hajj. He took a tuft of hair that was in the hand of an orderly and said, "O people of Medina! Where are your learned men? I heard the Prophet forbidding such a thing as this (i.e. false hair) and he used to say, 'The Israelis were destroyed when their ladies practiced this habit (of using false hair to lengthen their locks).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 674
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إنه قد كان فيما مضى قبلكم من الامم محدثون وإنه إن كان في امتي هذه منهم فإنه عمر بن الخطاب".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّهُ قَدْ كَانَ فِيمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ وَإِنَّهُ إِنْ كَانَ فِي أُمَّتِي هَذِهِ مِنْهُمْ فَإِنَّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گزشتہ امتوں میں محدث لوگ ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Amongst the people preceding you there used to be 'Muhaddithun' (i.e. persons who can guess things that come true later on, as if those persons have been inspired by a divine power), and if there are any such persons amongst my followers, it is `Umar bin Al-Khattab."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 675
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، عن شعبة، عن قتادة، عن ابي الصديق الناجي، عن ابي سعيد الخدري رضي الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" كان في بني إسرائيل رجل قتل تسعة وتسعين إنسانا ثم خرج يسال فاتى راهبا فساله، فقال له: هل من توبة؟، قال: لا، فقتله فجعل يسال، فقال له: رجل ائت قرية كذا وكذا فادركه الموت فناء بصدره نحوها فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فاوحى الله إلى هذه ان تقربي، واوحى الله إلى هذه ان تباعدي، وقال: قيسوا ما بينهما فوجد إلى هذه اقرب بشبر فغفر له".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ يَسْأَلُ فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ؟، قَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ يَسْأَلُ، فَقَالَ لَهُ: رَجُلٌ ائْتِ قَرْيَةَ كَذَا وَكَذَا فَأَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي، وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي، وَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا ان سے شعبہ نے ان سے قتادہ نے ان سے ابوصدیق ناجی بکر بن قیس نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر وہ نادم ہو کر) مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک درویش کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کیا اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سن کر اس نے اس درویش کو بھی قتل کر دیا (اور سو خون پورے کر دئیے) پھر وہ (دوسروں سے) پوچھنے لگا۔ آخر اس کو ایک درویش نے بتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا) (وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھا کہ) اس کی موت واقع ہو گئی۔ مرتے مرتے اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا۔ آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔ (کہ کون اسے لے جائے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو (جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اب دونوں کا فاصلہ دیکھو اور (جب ناپا تو) اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا) ایک بالشت نعش سے نزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیا گیا۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said, "Amongst the men of Bani Israel there was a man who had murdered ninety-nine persons. Then he set out asking (whether his repentance could be accepted or not). He came upon a monk and asked him if his repentance could be accepted. The monk replied in the negative and so the man killed him. He kept on asking till a man advised to go to such and such village. (So he left for it) but death overtook him on the way. While dying, he turned his chest towards that village (where he had hoped his repentance would be accepted), and so the angels of mercy and the angels of punishment quarrelled amongst themselves regarding him. Allah ordered the village (towards which he was going) to come closer to him, and ordered the village (whence he had come), to go far away, and then He ordered the angels to measure the distances between his body and the two villages. So he was found to be one span closer to the village (he was going to). So he was forgiven."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 676
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح ثم اقبل على الناس، فقال:" بينا رجل يسوق بقرة إذ ركبها فضربها، فقالت: إنا لم نخلق لهذا إنما خلقنا للحرث، فقال: الناس سبحان الله بقرة تكلم، فقال: فإني اومن بهذا انا وابو بكر وعمر وما هما ثم وبينما رجل في غنمه إذ عدا الذئب فذهب منها بشاة فطلب حتى كانه استنقذها منه، فقال له: الذئب هذا استنقذتها مني فمن لها يوم السبع يوم لا راعي لها غيري، فقال: الناس سبحان الله ذئب يتكلم، قال: فإني اومن بهذا انا وابو بكر وعمر وما هما ثم، وحدثنا علي، حدثنا سفيان، عن مسعر، عن سعد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ:" بَيْنَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً إِذْ رَكِبَهَا فَضَرَبَهَا، فَقَالَتْ: إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهَذَا إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحَرْثِ، فَقَالَ: النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ بَقَرَةٌ تَكَلَّمُ، فَقَالَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَمَا هُمَا ثَمَّ وَبَيْنَمَا رَجُلٌ فِي غَنَمِهِ إِذْ عَدَا الذِّئْبُ فَذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ فَطَلَبَ حَتَّى كَأَنَّهُ اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ: الذِّئْبُ هَذَا اسْتَنْقَذْتَهَا مِنِّي فَمَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي، فَقَالَ: النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ ذِئْبٌ يَتَكَلَّمُ، قَالَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَمَا هُمَا ثَمَّ، وحَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ”ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا۔ اس گائے نے (بقدرت الہیٰ) کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے۔“ لوگوں نے کہا سبحان اللہ! گائے بات کرتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نے بکری کو بھیڑئیے سے چھڑا لیا۔ اس پر بھیڑیا (بقدرت الہیٰ) بولا، آج تو تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت) اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا؟ لوگوں نے کہا، سبحان اللہ! بھیڑیا باتیں کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے مسعر سے، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ابوسلمہ سے روایت کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی۔
Narrated Abu Huraira: Once Allah's Apostle; offered the morning prayer and then faced the people and said, "While a man was driving a cow, he suddenly rode over it and beat it. The cow said, "We have not been created for this, but we have been created for sloughing." On that the people said astonishingly, "Glorified be Allah! A cow speaks!" The Prophet said, "I believe this, and Abu Bakr and `Umar too, believe it, although neither of them was present there. While a person was amongst his sheep, a wolf attacked and took one of the sheep. The man chased the wolf till he saved it from the wolf, where upon the wolf said, 'You have saved it from me; but who will guard it on the day of the wild beasts when there will be no shepherd to guard them except me (because of riots and afflictions)? ' " The people said surprisingly, "Glorified be Allah! A wolf speaks!" The Prophet said, "But I believe this, and Abu Bakr and `Umar too, believe this, although neither of them was present there." (See the Foot-note of page No. 10 Vol.5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 677
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اشترى رجل من رجل عقارا له فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب، فقال له: الذي اشترى العقار خذ ذهبك مني إنما اشتريت منك الارض ولم ابتع منك الذهب، وقال: الذي له الارض إنما بعتك الارض وما فيها فتحاكما إلى رجل، فقال: الذي تحاكما إليه الكما ولد، قال: احدهما لي غلام، وقال: الآخر لي جارية، قال: انكحوا الغلام الجارية وانفقوا على انفسهما منه وتصدقا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ: الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ، وَقَالَ: الَّذِي لَهُ الْأَرْضُ إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ: الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ أَلَكُمَا وَلَدٌ، قَالَ: أَحَدُهُمَا لِي غُلَامٌ، وَقَالَ: الْآخَرُ لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایک شخص نے دوسرے شخص سے مکان خریدا اور مکان کے خریدار کو اس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سے وہ مکان اس نے خریدا تھا اس سے اس نے کہا بھائی گھڑا لے جا۔ کیونکہ میں نے تم سے گھر خریدا ہے سونا نہیں خریدا تھا۔ لیکن پہلے مالک نے کہا کہ میں نے گھر کو ان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جو اس کے اندر موجود ہوں۔ یہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرے ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور سونا انہیں پر خرچ کر دو اور خیرات بھی کر دو۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "A man bought a piece of and from another man, and the buyer found an earthenware jar filled with gold in the land. The buyer said to the seller. 'Take your gold, as I have bought only the land from you, but I have not bought the gold from you.' The (former) owner of the land said, "I have sold you the land with everything in it.' So both of them took their case before a man who asked, 'Do you have children?' One of them said, "I have a boy.' The other said, "I have a girl.' The man said, 'Marry the girl to the boy and spend the money on both of them and give the rest of it in charity.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 678
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني مالك، عن محمد بن المنكدر، وعن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، انه سمعه يسال اسامة بن زيد ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون، فقال: اسامة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الطاعون رجس ارسل على طائفة من بني إسرائيل او على من كان قبلكم فإذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه، قال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ، فَقَالَ: أُسَامَةُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا يُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر اور عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابوالنضر نے، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا اور انہوں نے (عامر نے) اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے یہ پوچھتے سنا تھا کہ طاعون کے بارے میں آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ ابوالنضر نے کہا یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو۔
Narrated Usama bin Zaid: Allah's Apostle said, "Plague was a means of torture sent on a group of Israelis (or on some people before you). So if you hear of its spread in a land, don't approach it, and if a plague should appear in a land where you are present, then don't leave that land in order to run away from it (i.e. plague).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 679
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا داود بن ابي الفرات، حدثنا عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:" سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون فاخبرني انه عذاب يبعثه الله على من يشاء، وان الله جعله رحمة للمؤمنين ليس من احد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم انه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل اجر شهيد".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے داؤد بن ابی فرات نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن یعمر نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) I asked Allah's Apostle about the plague. He told me that it was a Punishment sent by Allah on whom he wished, and Allah made it a source of mercy for the believers, for if one in the time of an epidemic plague stays in his country patiently hoping for Allah's Reward and believing that nothing will befall him except what Allah has written for him, he will get the reward of a martyr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 680