صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
حدیث نمبر: 3396
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وذكر النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به، فقال: موسى آدم طوال كانه من رجال شنوءة، وقال: عيسى جعد مربوع وذكر مالكا خازن النار وذكر الدجال".(مرفوع) وَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، فَقَالَ: مُوسَى آدَمُ طُوَالٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَقَالَ: عِيسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ وَذَكَرَ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَذَكَرَ الدَّجَّالَ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام گندم گوں اور دراز قد تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے قبیلہ شنوہ کے کوئی صاحب ہوں اور فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بال والے اور میانہ قد کے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داروغہ جہنم مالک کا بھی ذکر فرمایا اور دجال کا بھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

The Prophet mentioned the night of his Ascension and said, "The prophet Moses was brown, a tall person as if from the people of the tribe of Shanu'a. Jesus was a curly-haired man of moderate height." He also mentioned Malik, the gate-keeper of the (Hell) Fire, and Ad-Dajjal.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 608


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3397
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا ايوب السختياني، عن ابن سعيد بن جبير، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" لما قدم المدينة وجدهم يصومون يوما يعني عاشوراء، فقالوا: هذا يوم عظيم وهو يوم نجى الله فيه موسى واغرق آل فرعون فصام موسى شكرا لله، فقال: انا اولى بموسى منهم فصامه وامر بصيامه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا يَعْنِي عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ وَهُوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ، فَقَالَ: أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن جبیر کے صاحبزادے (عبداللہ) نے اپنے والد سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: When the Prophet came to Medina, he found (the Jews) fasting on the day of 'Ashura' (i.e. 10th of Muharram). They used to say: "This is a great day on which Allah saved Moses and drowned the folk of Pharaoh. Moses observed the fast on this day, as a sign of gratitude to Allah." The Prophet said, "I am closer to Moses than they." So, he observed the fast (on that day) and ordered the Muslims to fast on it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 609


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
25. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي} إِلَى قَوْلِهِ: {وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ}:
25. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ کیا پھر اس میں دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا اور اس طرح ان کے رب کی میعاد چالیس راتیں پوری کر دیں۔“ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری غیر موجودگی میں میری قوم میں میرے خلیفہ رہو۔ اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنا اور مفسدوں کے راستے پر مت چلنا۔ پھر جب موسیٰ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت پر (ایک چلہ کے) بعد آئے اور ان کے رب نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے عرض کیا: میرے پروردگار! مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وأنا أول المؤمنين‏» تک۔
(25) Chapter. The Statement of Allah: “And We appointed for Musa (Moses) thirty nights... (up to)... And I am the first of the believers’ (V.7:142,143)
حدیث نمبر: Q3398
Save to word اعراب English
يقال دكه زلزله فدكتا سورة الحاقة آية 14 فدككن جعل الجبال كالواحدة كما قال الله عز وجل ان السموات والارض كانتا رتقا سورة الانبياء آية 30ولم يقل كن رتقا ملتصقتين واشربوا سورة البقرة آية 93 ثوب مشرب مصبوغ، قال ابن عباس فانبجست سورة الاعراف آية 160 انفجرت وإذ نتقنا الجبل سورة الاعراف آية 171 رفعنا.يُقَالُ دَكَّهُ زَلْزَلَهُ فَدُكَّتَا سورة الحاقة آية 14 فَدُكِكْنَ جَعَلَ الْجِبَالَ كَالْوَاحِدَةِ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا سورة الأنبياء آية 30وَلَمْ يَقُلْ كُنَّ رَتْقًا مُلْتَصِقَتَيْنِ وَأُشْرِبُوا سورة البقرة آية 93 ثَوْبٌ مُشَرَّبٌ مَصْبُوغٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَانْبَجَسَتْ سورة الأعراف آية 160 انْفَجَرَتْ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ سورة الأعراف آية 171 رَفَعْنَا.
‏‏‏‏ عرب لوگ بولتے ہیں «دكه» یعنی اسے ہلا دیا۔ اسی سے ہے (سورۃ الحاقہ میں) «فدكتا‏» «دكه» واحدۃ تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ‘ قاعدے کے موافق یوں ہونا تھا «فدككن» بصیغہ جمع۔ اس کی مثال وہ ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ «أن السموات والأرض كانتا رتقا‏» اور یوں نہیں فرمایا «كن‏.‏ رتقابه» صیغہ جمع (حالانکہ قیاس یہی چاہتا تھا) «رتقا» کے معنی جڑے ہوئے ملے ہوئے۔ «أشربوا‏» (جو سورۃ البقرہ میں ہے) اس «شرب» سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے عرب لوگ کہتے ہیں «ثوب» «مشرب» یعنی رنگا ہوا کپڑا (سورۃ الاعراف میں) «نتقنا» کا معنی ہم سے اٹھا لیا۔
حدیث نمبر: 3398
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الناس يصعقون يوم القيامة فاكون اول من يفيق فإذا انا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا ادري افاق قبلي ام جوزي بصعقة الطور".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُوزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے ان کے والد یحییٰ بن عمارہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے ‘ پھر سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا اور دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں گے یا (بیہوش ہی نہیں کئے گئے ہوں گے بلکہ) انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کا بدلہ ملا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id: The Prophet said, 'People will be struck unconscious on the Day of Resurrection and I will be the first to regain consciousness, and behold! There I will see Moses holding one of the pillars of Allah's Throne. I will wonder whether he has become conscious before me of he has been exempted, because of his unconsciousness at the Tur (mountain) which he received (on the earth).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 610


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3399
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد الجعفي، حدثنا عبد الرزاق اخبرنا معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم، ولولا حواء لم تخن انثى زوجها الدهر".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی آدم علیہ السلام سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Were it not for Bani Israel, meat would not decay; and were it not for Eve, no woman would ever betray her husband."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 611


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
26. بَابُ طُوفَانٍ مِنَ السَّيْلِ:
26. باب: (سورۃ الاعراف میں) طوفان سے مراد سیلاب کا طوفان ہے۔
(26) Chapter. Torrential flood. (Explanation of few Arabic words not translated).
حدیث نمبر: Q3400
Save to word اعراب English
يقال للموت الكثير طوفان القمل الحمنان يشبه صغار الحلم حقيق سورة الاعراف آية 105 حق سقط سورة الاعراف آية 149 كل من ندم فقد سقط في يده.يُقَالُ لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ طُوفَانٌ الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ حَقِيقٌ سورة الأعراف آية 105 حَقٌّ سُقِطَ سورة الأعراف آية 149 كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ.
‏‏‏‏ بکثرت اموات کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ «القمل» اس چیچڑی کو کہتے ہیں جو چھوٹی جوں کے مشابہ ہوتی ہے۔ «حقيق‏» بمعنی «حق‏» لازم۔ «سقط‏» بمعنی نادم ہوا۔ جو شخص شرمندہ ہوتا ہے اس کے لیے عرب لوگ کہتے ہیں «سقط في يده‏.‏» تو (گویا) وہ اپنے ہاتھ میں گر پڑا۔
27. بَابُ حَدِيثِ الْخَضِرِ مَعَ مُوسَى- عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ-:
27. باب: خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعات۔
(27) Chapter. The story of Al-Khidr with Musa (Moses).
حدیث نمبر: 3400
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، ان عبيد الله بن عبد الله، اخبره، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه، قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك، قال: لا فاوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسال موسى السبيل إليه فجعل له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان يتبع الحوت في البحر، فقال: لموسى فتاه ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، فقال موسى: ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا فكان من شانهما الذي قص الله في كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ، قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ: لَا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ فَجُعِلَ لَهُ الْحُوتُ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ فَكَانَ يَتْبَعُ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ: لِمُوسَى فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، فَقَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے عمر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا اختلاف ہوا۔ پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ‘ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں ‘ ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کے طور پر بتایا گیا اور کہا گیا کہ جب مچھلی گم ہو جائے (تو جہاں گم ہوئی ہو وہاں) واپس آ جانا وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام دریا میں (سفر کے دوران) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان سے ان کے رفیق سفر نے کہا کہ آپ نے خیال نہیں کیا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Al-Hur bin Qais Al-Fazari regarding the companion of Moses. Ibn `Abbas said that he was Al-Khadir. Meanwhile Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him saying, "My friend and I have differed regarding Moses' companion whom Moses asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle mentioning something about him?" He said, "Yes, I heard Allah's Apostle saying, 'While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked (him), 'Do you know anyone who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So, Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave, Khadir (is more learned than you).' Moses asked how to meet him (i.e. Khadir). So, the fish, was made, as a sign for him, and he was told that when the fish was lost, he should return and there he would meet him. So, Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant boy of Moses said to him, 'Do you know that when we were sitting by the side of the rock, I forgot the fish, and t was only Satan who made me forget to tell (you) about it.' Moses said, That was what we were seeking after,' and both of them returned, following their footmarks and found Khadir; and what happened further to them, is mentioned in Allah's Book."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 612


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3401
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت: لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم ان موسى صاحب الخضر ليس هو موسى بني إسرائيل إنما هو موسى آخر، فقال: كذب عدو الله حدثنا ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" ان موسى قام خطيبا في بني إسرائيل فسئل اي الناس اعلم، فقال: انا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فقال له: بلى لي عبد بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب ومن لي به وربما، قال سفيان: اي رب وكيف لي به، قال: تاخذ حوتا فتجعله في مكتل حيثما فقدت الحوت فهو ثم وربما، قال: فهو ثمه واخذ حوتا فجعله في مكتل، ثم انطلق هو وفتاه يوشع بن نون حتى إذا اتيا الصخرة وضعا رءوسهما فرقد موسى واضطرب الحوت فخرج فسقط في البحر فاتخذ سبيله في البحر سربا فامسك الله عن الحوت جرية الماء فصار مثل الطاق، فقال: هكذا مثل الطاق فانطلقا يمشيان بقية ليلتهما ويومهما حتى إذا كان من الغد، قال: لفتاه آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا ولم يجد موسى النصب حتى جاوز حيث امره الله، قال: له فتاه ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره واتخذ سبيله في البحر عجبا فكان للحوت سربا ولهما عجبا، قال: له موسى ذلك ما كنا نبغي فارتدا على آثارهما قصصا رجعا يقصان آثارهما حتى انتهيا إلى الصخرة فإذا رجل مسجى بثوب فسلم موسى فرد عليه، فقال: وانى بارضك السلام، قال: انا موسى، قال موسى بني إسرائيل، قال: نعم، اتيتك لتعلمني مما علمت رشدا، قال: يا موسى إني على علم من علم الله علمنيه الله لا تعلمه وانت على علم من علم الله علمكه الله لا اعلمه، قال: هل اتبعك، قال: إنك لن تستطيع معي صبرا وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا إلى قوله إمرا سورة الكهف آية 68 - 71 فانطلقا يمشيان على ساحل البحر فمرت بهما سفينة كلموهم ان يحملوهم فعرفوا الخضر فحملوه بغير نول فلما ركبا في السفينة جاء عصفور فوقع على حرف السفينة فنقر في البحر نقرة او نقرتين، قال له: الخضر يا موسى ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا مثل ما نقص هذا العصفور بمنقاره من البحر إذ اخذ الفاس فنزع لوحا، قال: فلم يفجا موسى إلا وقد قلع لوحا بالقدوم، فقال: له موسى ما صنعت قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا سورة الكهف آية 72، قال: لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من امري عسرا سورة الكهف آية 73 فكانت الاولى من موسى نسيانا فلما خرجا من البحر مروا بغلام يلعب مع الصبيان فاخذ الخضر براسه فقلعه بيده هكذا واوما سفيان باطراف اصابعه كانه يقطف شيئا، فقال: له موسى اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا سورة الكهف آية 75، قال: إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني عذرا {76} فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض سورة الكهف آية 75-76 مائلا اوما بيده هكذا واشار سفيان كانه يمسح شيئا إلى فوق فلم اسمع سفيان يذكر مائلا إلا مرة، قال: قوم اتيناهم فلم يطعمونا ولم يضيفونا عمدت إلى حائطهم لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا سورة الكهف آية 78، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" وددنا ان موسى كان صبر فقص الله علينا من خبرهما، قال: سفيان، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يرحم الله موسى لو كان صبر لقص علينا من امرهما وقرا ابن عباس امامهم 0 ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا واما الغلام فكان كافرا وكان ابواه مؤمنين 0، ثم قال لي سفيان: سمعته منه مرتين وحفظته منه، قيل لسفيان حفظته قبل ان تسمعه من عمرو او تحفظته من إنسان، فقال: ممن اتحفظه ورواه احد، عن عمرو غيري سمعته منه مرتين او ثلاثا وحفظته منه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ، فَقَالَ: أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: بَلَى لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ وَرُبَّمَا، قَالَ سُفْيَانُ: أَيْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ، قَالَ: تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ وَرُبَّمَا، قَالَ: فَهُوَ ثَمَّهْ وَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ، فَقَالَ: هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ، قَالَ: لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا، قَالَ: لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ مُوسَى فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، قَالَ: يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا إِلَى قَوْلِهِ إِمْرًا سورة الكهف آية 68 - 71 فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ، قَالَ لَهُ: الْخَضِرُ يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا، قَالَ: فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلَّا وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ، فَقَالَ: لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 72، قَالَ: لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا سورة الكهف آية 73 فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا فَلَمَّا خَرَجَا مِنَ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا، فَقَالَ: لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 75، قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا {76} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75-76 مَائِلًا أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلًا إِلَّا مَرَّةً، قَالَ: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا سورة الكهف آية 78، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا، قَالَ: سُفْيَانُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوْ كَانَ صَبَرَ لَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ 0 مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ 0، ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ، قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ، عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے رب العالمین! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا؟ سفیان نے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے کہ اے رب! «وكيف لي به» اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا۔ بعض دفعہ راوی نے (بجائے «فهو ثم» کے) «فهو ثمه» کہا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی (کے متعلق کہنا) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں (چٹان کے قریب) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إمرا‏» تک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لیے بغیر ان کو سوار کر لیا۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (یہ بے صبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لیے) آپ اس چیز کا مجھ سے مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی بات موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے (دھڑ سے) جدا کر دیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے (جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لیے) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا۔ سفیان نے (کیفیت بتانے کے لیے) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں۔ میں نے سفیان سے «مائلا» کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لیے بیان کرتا۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے (مزید واقعات) ہمیں معلوم ہوتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (جمہور کی قرآت «ودرائهم» کے بجائے) «أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» پڑھا ہے۔ اور وہ بچہ (جس کی خضر علیہ السلام نے جان لی تھی) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔ پھر مجھ سے سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی اور انہیں سے (سن کر) یاد کی تھی۔ سفیان نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا یہ حدیث آپ نے عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص سے سن کر (جس نے عمرو بن دینار سے سنی ہو) یاد کی تھی؟ یا (اس کے بجائے یہ جملہ کہا) «تحفظته من إنسان» دو مرتبہ (شک علی بن عبداللہ کو تھا) تو سفیان نے کہا کہ دوسرے کسی شخص سے سن کر میں یاد کرتا ‘ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے؟ میں نے ان سے یہ حدیث دو یا تین مرتبہ سنی اور انہیں سے سن کر یاد کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses." Ibn `Abbas said, "Allah's enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka`b told us that the Prophet said, 'Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, 'I.' Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, 'Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord! How can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.' Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), 'Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, 'Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.' So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, 'That was what we were seeking after.' So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, 'How do people greet each other in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man asked, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.' He said, 'O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.' Moses asked, 'May I follow you?' He said, 'But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?' (Moses said, 'You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.') So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, 'O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.' Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, 'What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.' Al-Khadir replied, 'Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?' Moses replied, 'Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.' So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, "Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing." Al-Khadir said, "Did I not tell you that you could not remain patient with me?' Moses said "If I ask you about anything after this, don't accompany me. You have received an excuse from me.' Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, "These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it." Al-Khadir said, "This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient." The Prophet added, "We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 613


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3402
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سعيد الاصبهاني، اخبرنا ابن المبارك، عن معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما سمي الخضر انه جلس على فروة بيضاء فإذا هي تهتز من خلفه خضراء".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَصْبِهَانِيِّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرَ أَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ".
ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خضر علیہ السلام کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین (جہاں سبزی کا نام بھی نہ تھا) پر بیٹھے۔ لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Al-Khadir was named so because he sat over a barren white land, it turned green with plantation after (his sitting over it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 614


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
28. بَابٌ:
28. باب:۔۔۔
(28) Chapter.
حدیث نمبر: 3403
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام بن منبه، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قيل لبني إسرائيل ادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة فبدلوا فدخلوا يزحفون على استاههم وقالوا حبة في شعرة".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ وَقَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ و رکوع کرتے ہوئے داخل ہوں اور یہ کہتے ہوئے کہ یا اللہ! ہم کو بخش دے۔ لیکن انہوں نے اس کو الٹا کیا اور اپنے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے «حبة في شعرة» (یعنی بالیوں میں دانے خوب ہوں) داخل ہوئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "It was said to Bani Israel, Enter the gate (of the town) with humility (prostrating yourselves) and saying: "Repentance", but they changed the word and entered the town crawling on their buttocks and saying: "A wheat grain in the hair."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 615


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.