ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عمر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر اس شخص کو جس کے پاس قربانی نہ ہو۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دور جاہلیت میں قریش عاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف فرما ہوئے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورے کا روزہ چھوڑ دیا جس کا جی چاہا اس نے عاشورے کا روزہ رکھا لیا اور جس نے چاہا اس نے نہ رکھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورے کے دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: ”یہ کیا (وجہ ہے کہ تم عاشورے کا روزہ رکھتے ہو؟)۔“ انھوں نے کہا کہ یہ ایک عمدہ دن ہے، یہ وہ دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی لہٰذا موسیٰ علیہ السلام اس دن روزہ رکھتے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کا حقدار ہوں۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔