سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا: ”اے عبداللہ! تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کرتا تھا پھر اس نے رات کا اٹھنا اور نماز پڑھنا ترک کر دیا تھا۔“
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات کو اٹھے اور کہے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اس کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ ہی کے لیے ہر طرح کی تعریف ہے اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اور اللہ بہت بڑا ہے اور طاقت و قوت کسی میں نہیں مگر اللہ کی مدد سے۔“ اس کے بعد کہے: ”اے اللہ! میرے گناہ معاف کر دے۔“ یا کوئی دعا کرے تو اس کی دعا قبول کر لی جائے گی، پھر اگر وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز مقبول ہو گی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: ”تمہارا بھائی (عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ) لغویات نہیں کہتا (کہ دیکھو وہ ان اشعار میں کیسے سچے مضامین بیان کر رہا ہے): ”ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو اسی کی کتاب پڑھ کر ہمیں سناتے ہیں جب صبح کی پو پھٹتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے، اسی نے رستہ بتلا دیا۔ بات ہے اس کی یقینی جو کہ دل میں اتر جاتی ہے۔ رات کو رکھتا ہے پہلو اپنے بستر سے الگ اور کافروں کے خواب گاہ کو نیند بھاری کرتی ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں، میں نے یہ (خواب) دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ایک استبرق (ریشمی کپڑے) کا ایک ٹکڑا ہے تو گویا میں جنت کے جس مقام میں جانا چاہتا ہوں وہ مجھے وہاں لے کر اڑ جاتا ہے اور میں نے یہ دیکھا گویا کہ دو شخص میرے پاس آئے۔ بقیہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھئیے کتاب: تہجد کی نماز کا بیان۔۔۔ باب: نماز شب یعنی تہجد کی فضیلت۔۔۔)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کی تعلیم فرمایا کرتے تھے (اور اس اہتمام کے ساتھ کہ) جس طرح ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی کسی سورت کی تعلیم فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا قصد کرے تو اسے چاہیے کہ نماز فرض کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھے اور (نماز کے بعد) کہے: ”اے اللہ! میں تیرے علم سے طلب خیر کرتا ہوں اور تیری قدرت سے طاقت مانگتا ہوں اور تجھ سے تیرا فضل عظیم چاہتا ہوں، بیشک تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، تو چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین اور دنیا میں اور میرے کام کے آغاز اور انجام میں بہتر ہے تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے اور اس کو میرے لیے آسان کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے نقصان دہ ہے، میرے لیے دین میں یا دنیا میں اور میرے کام کے آغاز میں اور انجام میں تو اس کو مجھ سے علیحدہ کر دے اور مجھ کو اس سے علیحدہ کر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو وہ میرے لیے مقدر کر دے اور اس سے مجھ کو خوش کر دے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور اپنی حاجت کو (اللہ سے) عرض کر دے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل نماز کا اتنا التزام نہیں فرماتے تھے جتنا کہ فجر کی دو رکعتوں (سنتوں) کا (اہتمام فرماتے تھے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں رکعتوں کو جو نماز فجر سے پہلے پڑھی جاتی ہیں بہت ہلکی پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں (اپنے دل میں) کہتی تھی کہ (شاید) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) بھی پڑھی ہے یا نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے میرے جانی دوست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے میں انھیں نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ مر جاؤں وہ تین باتیں یہ ہیں (1) ہر مہینے میں تین روزے رکھنا (2) نماز چاشت کا پڑھنا (3) وتر پڑھ کر سونا۔
سیدنا عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مغرب کی نماز سے پہلے نفل پڑھو۔“(یہی تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور تیسری بار یہ فرمایا: ”جو شخص چاہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو اچھا نہ سمجھا کہ لوگ اس کو سنت سمجھ لیں (لہٰذا اختیار دے دیا کہ جس کا دل چاہے پڑھے اور جس کا دل چاہے نہ پڑھے)۔