صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
The Book of Partnership
حدیث نمبر: 2492
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا بشر بن محمد، اخبرنا عبد الله اخبرنا سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من اعتق شقيصا من مملوكه فعليه خلاصه في ماله، فإن لم يكن له مال قوم المملوك قيمة عدل، ثم استسعي غير مشقوق عليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا مِنْ مَمْلُوكِهِ فَعَلَيْهِ خَلَاصُهُ فِي مَالِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ قُوِّمَ الْمَمْلُوكُ قِيمَةَ عَدْلٍ، ثُمَّ اسْتُسْعِيَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ".
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سعید بن ابی عروبہ نے خبر دی، انہیں قتادہ نے، انہیں نضر بن انس نے، انہیں بشیر بن نہیک نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلا دے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے۔ پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود کما کر ادا کر لے۔ لیکن غلام پر اس کے لیے کوئی دباو نہ ڈالا جائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Whoever manumits his share of a jointly possessed slave, it is imperative for him to get that slave manumitted completely by paying the remaining price, and if he does not have sufficient money to manumit him, then the price of the slave should be estimated justly, and he is to be allowed to work and earn the amount that will manumit him (without overburdening him)".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 672


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
6. بَابُ هَلْ يُقْرَعُ فِي الْقِسْمَةِ وَالاِسْتِهَامِ فِيهِ:
6. باب: کیا تقسیم میں قرعہ ڈالا جا سکتا ہے؟
(6) Chapter. Can one draw lots for divisions and shares?
حدیث نمبر: 2493
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" مثل القائم على حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة فاصاب بعضهم اعلاها وبعضهم اسفلها، فكان الذين في اسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم، فقالوا: لو انا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا، فإن يتركوهم وما ارادوا هلكوا جميعا، وإن اخذوا على ايديهم نجوا ونجوا جميعا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے، کہا میں نے عامر بن شعبہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں (دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated An-Nu`man bin Bashir: The Prophet said, "The example of the person abiding by Allah's order and restrictions in comparison to those who violate them is like the example of those persons who drew lots for their seats in a boat. Some of them got seats in the upper part, and the others in the lower. When the latter needed water, they had to go up to bring water (and that troubled the others), so they said, 'Let us make a hole in our share of the ship (and get water) saving those who are above us from troubling them. So, if the people in the upper part left the others do what they had suggested, all the people of the ship would be destroyed, but if they prevented them, both parties would be safe."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 673


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
7. بَابُ شَرِكَةِ الْيَتِيمِ وَأَهْلِ الْمِيرَاثِ:
7. باب: یتیم کا دوسرے وارثوں کے ساتھ شریک ہونا۔
(7) Chapter. The partnership of orphans and other inheritors.
حدیث نمبر: 2494
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله العامري الاويسي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، اخبرني عروة، انه سال عائشة رضي الله عنها. وقال الليث: حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير،" انه سال عائشة رضي الله عنها عن قول الله تعالى: وإن خفتم الا تقسطوا إلى ورباع سورة النساء آية 3، فقالت: يا ابن اختي، هي اليتيمة تكون في حجر وليها تشاركه في ماله فيعجبه مالها وجمالها، فيريد وليها ان يتزوجها بغير ان يقسط في صداقها، فيعطيها مثل ما يعطيها غيره، فنهوا ان ينكحوهن إلا ان يقسطوا لهن ويبلغوا بهن اعلى سنتهن من الصداق، وامروا ان ينكحوا ما طاب لهم من النساء سواهن". قال عروة: قالت عائشة: ثم إن الناس استفتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الآية، فانزل الله ويستفتونك في النساء إلى قوله وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127، والذي ذكر الله انه يتلى عليكم في الكتاب الآية الاولى التي قال فيها وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء سورة النساء آية 3، قالت عائشة: وقول الله في الآية الاخرى: وترغبون ان تنكحوهن سورة النساء آية 127 يعني هي رغبة احدكم ليتيمته التي تكون في حجره حين تكون قليلة المال والجمال، فنهوا ان ينكحوا ما رغبوا في مالها وجمالها من يتامى النساء، إلا بالقسط من اجل رغبتهم عنهن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ الْأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ،" أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا إِلَى وَرُبَاعَ سورة النساء آية 3، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا تُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يُنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ". قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ إِلَى قَوْلِهِ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَى الَّتِي قَالَ فِيهَا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الْآيَةِ الْأُخْرَى: وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 يَعْنِي هِيَ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ لِيَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ، إِلَّا بِالْقِسْطِ مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ عامری اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تھا (دوسری سند) اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے (سورۃ نساء میں) اس آیت کے بارے میں پوچھا «وإن خفتم‏» سے «ورباع‏» اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو جو عورتیں پسند آئیں دو دو تین تین چار چار نکاح میں لاؤ انہوں نے کہا میرے بھانجے یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہو کر اس سے نکاح کر لینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کر دیا گیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کر سکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کر سکتے ہیں۔ عروہ بن زبیر نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا، پھر لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد (ایسی لڑکیوں سے نکاح کی اجازت کے بارے میں) مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويستفتونك في النساء‏» اور آپ سے عورتوں کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں۔ آگے فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو۔ یہ جو اس آیت میں ہے اور جو قرآن میں تم پر پڑھا جاتا ہے اس سے مراد پہلی آیت ہے یعنی اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ ہو سکنے کا ڈر ہو تو دوسری عورتیں جو بھلی لگیں ان سے نکاح کر لو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ جو اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اس سے یہ غرض ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اور مال اور جمال کم رکھتی ہو اس سے تو تم نفرت کرتے ہو، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال اور جمال میں تم کو رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا مہر ادا کرو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: That he had asked `Aisha about the meaning of the Statement of Allah: "If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (Other) women of your choice Two or three or four." (4.3) She said, "O my nephew! This is about the orphan girl who lives with her guardian and shares his property. Her wealth and beauty may tempt him to marry her without giving her an adequate Mahr (bridal-money) which might have been given by another suitor. So, such guardians were forbidden to marry such orphan girls unless they treated them justly and gave them the most suitable Mahr; otherwise they were ordered to marry any other woman." `Aisha further said, "After that verse the people again asked the Prophet (about the marriage with orphan 'girls), so Allah revealed the following verses:-- 'They ask your instruction Concerning the women. Say: Allah Instructs you about them And about what is Recited unto you In the Book, concerning The orphan girls to whom You give not the prescribed portions and yet whom you Desire to marry..." (4.127) What is meant by Allah's Saying:-- 'And about what is Recited unto you is the former verse which goes:-- 'If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (other) women of your choice.' (4.3) `Aisha said, "Allah's saying in the other verse:--'Yet whom you desire to marry' (4.127) means the desire of the guardian to marry an orphan girl under his supervision when she has not much property or beauty (in which case he should treat her justly). The guardians were forbidden to marry their orphan girls possessing property and beauty without being just to them, as they generally refrain from marrying them (when they are neither beautiful nor wealthy).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 674


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
8. بَابُ الشَّرِكَةِ فِي الأَرَضِينَ وَغَيْرِهَا:
8. باب: زمین مکان وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
(8) Chapter. Sharing land, etc.
حدیث نمبر: 2495
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" إنما جعل النبي صلى الله عليه وسلم الشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زبیری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ایسے اموال (زمین جائیداد وغیرہ) میں دیا تھا جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet established the right of Shu'fa (i.e. Preemption) in joint properties; but when the land is divided and the ways are demarcated, then there is no pre-emption.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 675


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
9. بَابُ إِذَا اقْتَسَمَ الشُّرَكَاءُ الدُّورَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَيْسَ لَهُمْ رُجُوعٌ وَلاَ شُفْعَةٌ:
9. باب: جب شریک لوگ گھروں وغیرہ کو تقسیم کر لیں تو اب اس سے پھر نہیں سکتے اور نہ ان کو شفعہ کا حق رہے گا۔
(9) Chapter. If partners divide the houses, etc., none of them has the right of backing out or the right of pre-emption.
حدیث نمبر: 2496
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:"قضى النبي صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جائیداد میں شفعہ کا حق دیا تھا جس کی شرکاء میں ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن اگر حد بندی ہو جائے اور راستے الگ ہو جائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "The right of preemption is valid in every joint property, but when the land is divided and the way is demarcated, then there is no right of pre-emption."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 676


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
10. بَابُ الاِشْتِرَاكِ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمَا يَكُونُ فِيهِ الصَّرْفُ:
10. باب: سونے، چاندی اور ان تمام چیزوں میں شرکت جن میں بیع صرف ہوتی ہے۔
(10) Chapter. Sharing gold, silver and other articles used in money exchange.
حدیث نمبر: 2497
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن علي، حدثنا ابو عاصم، عن عثمان يعني ابن الاسود، قال: اخبرني سليمان بن ابي مسلم، قال: سالت ابا المنهال عن الصرف يدا بيد، فقال: اشتريت انا وشريك لي شيئا يدا بيد ونسيئة، فجاءنا البراء بن عازب فسالناه، فقال: فعلت انا وشريكي زيد بن ارقم، وسالنا النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" ما كان يدا بيد فخذوه، وما كان نسيئة فذروه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ عَنِ الصَّرْفِ يَدًا بِيَدٍ، فَقَالَ: اشْتَرَيْتُ أَنَا وَشَرِيكٌ لِي شَيْئًا يَدًا بِيَدٍ وَنَسِيئَةً، فَجَاءَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ: فَعَلْتُ أَنَا وَشَرِيكِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَخُذُوهُ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَذَرُوهُ".
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عثمان نے جو اسود کے بیٹے ہیں، کہا کہ مجھے سلیمان بن ابی مسلم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالمنہال سے بیع صرف نقد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز (سونے اور چاندی کی) خریدی نقد پر بھی اور ادھار پر بھی۔ پھر ہمارے یہاں براء بن عازب رضی اللہ عنہ آئے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sulaiman bin Abu Muslim: I asked Abu Minhal about money exchange from hand to hand. He said, "I and a partner of mine bought something partly in cash and partly on credit." Al-Bara' bin `Azib passed by us and we asked about it. He replied, "I and my partner Zaid bin Al-Arqam did the same and then went to the Prophet and asked him about it. He said, 'Take what was from hand to hand and leave what was on credit.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 677


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2498
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن علي، حدثنا ابو عاصم، عن عثمان يعني ابن الاسود، قال: اخبرني سليمان بن ابي مسلم، قال: سالت ابا المنهال عن الصرف يدا بيد، فقال: اشتريت انا وشريك لي شيئا يدا بيد ونسيئة، فجاءنا البراء بن عازب فسالناه، فقال: فعلت انا وشريكي زيد بن ارقم، وسالنا النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" ما كان يدا بيد فخذوه، وما كان نسيئة فذروه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ عَنِ الصَّرْفِ يَدًا بِيَدٍ، فَقَالَ: اشْتَرَيْتُ أَنَا وَشَرِيكٌ لِي شَيْئًا يَدًا بِيَدٍ وَنَسِيئَةً، فَجَاءَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ: فَعَلْتُ أَنَا وَشَرِيكِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَخُذُوهُ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَذَرُوهُ".
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عثمان نے جو اسود کے بیٹے ہیں، کہا کہ مجھے سلیمان بن ابی مسلم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالمنہال سے بیع صرف نقد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز (سونے اور چاندی کی) خریدی نقد پر بھی اور ادھار پر بھی۔ پھر ہمارے یہاں براء بن عازب رضی اللہ عنہ آئے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sulaiman bin Abu Muslim: I asked Abu Minhal about money exchange from hand to hand. He said, "I and a partner of mine bought something partly in cash and partly on credit." Al-Bara' bin `Azib passed by us and we asked about it. He replied, "I and my partner Zaid bin Al-Arqam did the same and then went to the Prophet and asked him about it. He said, 'Take what was from hand to hand and leave what was on credit.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 677


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
11. بَابُ مُشَارَكَةِ الذِّمِّيِّ وَالْمُشْرِكِينَ فِي الْمُزَارَعَةِ:
11. باب: مسلمان کا مشرکین اور ذمیوں کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی کرنا۔
(11) Chapter. Partnership with a Dhimmi (A Jew or a Christian under the protection of a Muslim Government and Al-Mushirkun (polytheist, idolaters, pagans) in share-cropping.
حدیث نمبر: 2499
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية بن اسماء، عن نافع، عن عبد الله رضي الله عنه، قال:" اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر اليهود ان يعملوها ويزرعوها، ولهم شطر ما يخرج منها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ الْيَهُودَ أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر دے دی تھی کہ وہ اس میں محنت کریں اور بوئیں جوتیں۔ پیداوار کا آدھا حصہ انہیں ملا کرے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: Allah's Apostle rented the land of Khaibar to the Jews on the condition that they would work on it and cultivate it and take half of its yield.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 678


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
12. بَابُ قِسْمَةِ الْغَنَمِ وَالْعَدْلِ فِيهَا:
12. باب: بکریوں کو انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا۔
(12) Chapter. Distribution of sheep and dividing them justly.
حدیث نمبر: 2500
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اعطاه غنما يقسمها على صحابته ضحايا، فبقي عتود، فذكره لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ضح به انت".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ ضَحَايَا، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ أَنْتَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دی تھیں کہ قربانی کے لیے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دیں۔ پھر ایک سال کا بکری کا بچہ بچ گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ سے فرمایا تو اس کی قربانی کر لے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Uqba bin 'Amir: that Allah's Apostle gave him some sheep to distribute among his companions in order to sacrifice them and a kid was left. He told the Prophet about it and the Prophet said to him, "Sacrifice it on your behalf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 679


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
13. بَابُ الشَّرِكَةِ فِي الطَّعَامِ وَغَيْرِهِ:
13. باب: اناج وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
(13) Chapter. The sharing of food, etc.
حدیث نمبر: Q2501
Save to word اعراب English
ويذكر ان رجلا ساوم شيئا فغمزه آخر، فراى عمر ان له شركة.وَيُذْكَرُ أَنَّ رَجُلًا سَاوَمَ شَيْئًا فَغَمَزَهُ آخَرُ، فَرَأَى عُمَرُ أَنَّ لَهُ شَرِكَةً.
اور منقول ہے کہ ایک شخص نے کوئی چیز چکائی، دوسرے نے اس کو آنکھ سے اشارہ کیا، تب اس نے مول لے لیا، اس سے عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھ لیا کہ وہ شریک ہے۔

Previous    1    2    3    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.