- ([إنكم] اصبحتم في زمان كثير فقهاؤه، قليل خطباؤه، قليل سؤاله، كثير معطوه، العمل فيه خير من العلم. وسياتي زمان قليل فقهاؤه، كثير خطباؤه، كثير سؤاله، قليل معطوه، العلم فيه خيرمن العمل).- ([إنكم] أصبحتُم في زمانٍ كثيرٍ فقهاؤُه، قليلٍ خطباؤُه، قليلٍ سُؤّاله، كثيرٍ معطوهُ، العملُ فيه خيرٌ من العِلمِ. وسيأتي زمانٌ قليلٌ فقهاؤُه، كثيرٌ خطباؤُه، كثيرٌ سُؤّاله، قليلٌ مُعطوهُ، العلمُ فيه خيرٌمن العمل).
حرام بن حکیم اپنے چچا سیدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(آج) تم ایسے زمانہ میں ہو کہ جس میں فقہا زیادہ اور خطبا کم ہیں اور سوال کرنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں، اس زمانے میں علم سے بہتر عمل ہے، لیکن عنقریب ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ اس میں فقہا کم اور خطبا زیادہ ہوں گے اور سوال کرنے والے زیادہ اور دینے والے کم ہوں گے، اس زمانے میں عمل سے بہتر علم ہو گا۔“
- (إنما مثل صاحب القرآن: كمثل صاحب الإبل المعقلة؛ إن عاهد عليها امسكها، وإن اطلقها ذهبت).- (إنما مثلُ صاحب القرآن: كمثل صاحب الإبل المُعَقَّلَةِ؛ إن عاهد عليها أمسكها، وإن أطلقها ذهبت).
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک صاحب قرآن کی مثال، رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، اگر وہ اس اونٹ کا خیال رکھتا ہے تو اسے روکے رکھے گا اور اگر اسے کھول دیتا ہے تو وہ چلا جائے گا۔“
- (إنما هلك من كان قبلكم: باختلافهم في الكتاب).- (إنّما هلك من كان قبلكم: باختلافهم في الكتاب).
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں ایک دن دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں، جو ایک آیت کی بابت اختلاف میں پڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے سے غیض و غضب کا پتہ چل رہا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے والے لوگ اس بنا پر ہلاک ہو گئے کہ وہ کتاب میں اختلاف کرتے تھے۔“
- (لا تجادلوا بالقرآن، ولا تكذبوا كتاب الله بعضه ببعض؛ فو الله! إن المؤمن ليجادل بالقرآن فيغلب وإن المنافق ليجادل بالقرآن فيغلب)- (لا تجادلُوا بالقُرْآن، ولا تكذِّبُوا كتابَ اللهِ بعضَه ببعْضٍ؛ فو الله! إنّ المؤمنَ لَيجادلُ بالقرآن فيُغلَبُ وإنّ المنافقَ لَيجادلُ بالقرآن فيَغلِبُ)
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن میں جھگڑا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعض حصے کو دوسرے حصے کی وجہ سے نہ جھٹلاؤ۔ اللہ کی قسم! (بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ جب) مومن قرآن کے ساتھ مجادلہ کرتا ہے تو مغلوب ہو جاتا ہے اور جب منافق قرآن کے ساتھ کٹ حجتی کرتا ہے تو وہ غالب آ جاتا ہے۔“
-" تعلموا القرآن، وسلوا الله به الجنة، قبل ان يتعلمه قوم، يسالون به الدنيا، فإن القرآن يتعلمه ثلاثة: رجل يباهي به، ورجل يستاكل به، ورجل يقراه لله".-" تعلموا القرآن، وسلوا الله به الجنة، قبل أن يتعلمه قوم، يسألون به الدنيا، فإن القرآن يتعلمه ثلاثة: رجل يباهي به، ورجل يستأكل به، ورجل يقرأه لله".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قرآن کی تعلیم حاصل کرو اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو، قبل اس کے کہ ایسے لوگ (پیدا ہوں جو) اس کی تعلیم حاصل کریں گے لیکن اس کے ذریعے دنیا کا سوال کریں گے۔ تین قسم کے افراد قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں: وہ آدمی جو اس کے ذریعے فخر کرتا ہے، وہ آدمی جو اس کے ذریعے کھاتا ہے اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی تلاوت کرتا ہے۔“
-" إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه ان يدل امته على خير ما يعلمه لهم، وينذرهم شر ما يعلمه لهم، وإن امتكم هذه جعل عافيتها في اولها، وسيصيب آخرها بلاء وامور تنكرونها، وتجيء فتنة، فيرقق بعضها بعضا، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هذه هذه، فمن احب ان يزحزح عن النار ويدخل الجنة، فلتاته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليات إلى الناس الذي يحب ان يؤتى إليه، ومن بايع إماما فاعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر".-" إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم، وينذرهم شر ما يعلمه لهم، وإن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها، وسيصيب آخرها بلاء وأمور تنكرونها، وتجيء فتنة، فيرقق بعضها بعضا، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هذه هذه، فمن أحب أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة، فلتأته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليأت إلى الناس الذي يحب أن يؤتى إليه، ومن بايع إماما فأعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر".
سیدنا عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ کہتے ہیں: میں مسجد الحرام میں داخل ہوا، وہاں کعبہ کے سائے میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ارد گرد لوگ جمع تھے، میں ان کے پاس آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا، کوئی اپنے خیمے کو درست کرنے لگ گیا، کوئی تیر اندازی میں مقابلہ کر رہا تھا اور کوئی جانوروں میں مصروف تھا، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے (لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے) یہ آواز دی: «الصلاة جامعة» ۔ سو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی پر حق تھا کہ اپنی امت کو ہر اس خیر و بھلائی کی تعلیم دے، جس کا اسے علم تھا اور اس کو ہر اس شر سے متنبہ کر دے، جس کا اس کو علم تھا، (میں یہی فریضہ ادا کرتے ہوئے کہوں گا کہ) تمہاری اس امت کے ابتدائی دور میں (سلامتی و) عافیت ہے، لیکن بعد والے دور میں (فرزندان امت) آزمائشوں اور ناپسندیدہ امور میں مبتلا ہو جائیں گے، فتنے نمودار ہوں گے اور (ہر بعد والا) فتنہ (اپنی شدت کی وجہ سے پہلے والے) فتنے کی سختی کو کم کر دے گا۔ ایک فتنہ ابھرے گا، اسے دیکھ کر مومن کہے گا: یہ میری ہلاکت گاہ ہو گی، لیکن وہ چھٹ جائے گا۔ دوسرا فتنہ ظاہر ہو گا، مومن اسے دیکھ کر کہے گا: یہ ہے (میری ہلاکت گاہ)، یہ ہے۔ (خلاصہ یہ ہے کہ) جو یہ چاہتا ہو گا کہ اسے جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں سے وہی معاملہ کرتا ہو، جو ان سے اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ جس نے کسی امام کی بیعت کی، اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا اور اس سے پکا عہد کیا اور دل سے اس سے محبت کی، تو وہ حسب استطاعت اس کی اطاعت کرے۔ اگر کوئی دوسرا (خلیفہ) اس سے اختلاف شروع کر کے (بغاوت شروع کر دے) تو اس دوسرے کا سر قلم کر دو۔“ میں (عبدالرحمن) ان کے قریب ہوا اور کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں! کیا تو نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں اور دل کے ساتھ لگایا اور کہا: میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد کیا۔ میں نے کہا: یہ آپ کے چچا زاد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم لوگ اپنا مال باطل طریقے سے کھائیں اور اپنے آپ کو قتل کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے خرید و فروخت ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔“(سورہ نسا: ۲۹) یہ سن کر وہ (عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ) خاموش ہو گئے اور پھر کہا: اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے تو اس کی اطاعت کر اور اللہ کی نافرمانی کی صورت میں اس کی نافرمانی کر۔
- (إنها ستكون فتنة. فقالوا: كيف لنا يا رسول الله؟! او كيف نصنع؟ قال: ترجعون إلى امركم الاول).- (إنَّها ستكونُ فتنةٌ. فقالوا: كيف لنا يا رسول الله؟! أو كيف نصنعُ؟ قال: ترجعون إلى أمْرِكم الأوَّلِ).
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ ہم فرش (یا چٹائی) پر بیٹھے ہوئے تھے: ”بیشک عنقریب فتنہ ہو گا۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ چٹائی کی طرف لمبا کیا اور اس کو پکڑ لیا اور فرمایا: ”اس طرح کرنا۔“ پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک عنقریب فتنہ ہو گا۔“ لیکن اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہ سن سکے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! تم سن نہیں رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیا فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک عنقریب فتنہ ہو گا۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے کیا حکم ہے یا ہم اس وقت کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے پہلے معاملے کی طرف لوٹ آنا۔“
سیدنا عباد ہ بن صامت رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں، حاضر لوگوں کو چاہیے کہ وہ (میری یہ بات) غیر حاضر لوگوں کو پہنچا دیں۔“
ـ (مثل الذي يتعلم العلم ثم لا يحدث به؛ كمثل الذي يكنز الكنز فلا ينفق منه).ـ (مَثَلُ الذي يتعلَّمُ العِلْمَ ثمَّ لا يحدِّثُ به؛ كمَثَلِ الذي يكنِزُ الكنْزَ فلا ينفقُ منه).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی علم حاصل کرتا ہے، لیکن اس کو (لوگوں کے سامنے) بیان نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو خزانہ جمع کرتا رہتا ہے، لیکن اس میں سے خرچ نہیں کرتا۔“