(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا تليد بن سليمان، عن ابي الجحاف، عن عطية، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من نبي إلا له وزيران من اهل السماء ووزيران من اهل الارض، فاما وزيراي من اهل السماء: فجبريل وميكائيل، واما وزيراي من اهل الارض: فابو بكر وعمر ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وابو الجحاف اسمه: داود بن ابي عوف، ويروى عن سفيان الثوري، حدثنا ابو الجحاف وكان مرضيا , وتليد بن سليمان يكنى: ابا إدريس وهو شيعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا تَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَوَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ: فَجِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ: فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ: دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ، وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا , وَتَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ يكنى: أبا إدريس وهو شيعي.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور ابوالجحاف کا نام داود بن ابوعوف ہے، سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اور وہ ایک پسندیدہ شخص تھے) ۳- اور تلید بن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ۱؎۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7655)، و مسند احمد (2/65) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6036 / التحقيق الثانى)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا خارجة بن عبد الله هو الانصاري، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه " , وقال ابن عمر: ما نزل بالناس امر قط فقالوا فيه، وقال: فيه عمر , او قال: ابن الخطاب فيه شك خارجة إلا نزل فيه القرآن على نحو ما قال عمر، وفي الباب عن الفضل بن العباس، وابي ذر، وابي هريرة. قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح غريب هذا الوجه، وخارجة بن عبد الله الانصاري هو ابن سليمان بن زيد بن ثابت وهو ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ " , وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيهِ، وَقَالَ: فِيهِ عُمَرُ , أَوْ قَالَ: ابْنُ الْخَطَّابِ فِيهِ شَكَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلَى نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ، وَفِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَخَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ ثِقَةٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے“۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے (راوی خارجہ کو شک ہو گیا ہے) بھی رائے دی ہو، مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر رضی الله عنہ کی اپنی رائے کے موافق نہ اترا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- خارجہ بن عبداللہ انصاری کا پورا نام خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان بن زید بن ثابت ہے اور یہ ثقہ ہیں، ۳- اس باب میں فضل بن عباس، ابوذر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7656)، و مسند احمد (2/53، 95) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسی لیے آپ کو «ملہم» یا «محدث» کہا جاتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يونس بن بكير، عن النضر ابي عمر، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اللهم اعز الإسلام بابي جهل ابن هشام , او بعمر "، قال: فاصبح فغدا عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاسلم. قال ابو عيسى: هذا غريب هذا الوجه، وقد تكلم بعضهم في النضر ابي عمر وهو يروي مناكير.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ النَّضْرِ أَبِي عُمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَبِي جَهْلِ ابْنِ هِشَامٍ , أَوْ بِعُمَرَ "، قَالَ: فَأَصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي النَّضْرِ أَبِي عُمَرَ وَهُوَ يَرْوِي مَنَاكِيرَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسلام کو ابوجہل بن ہشام یا عمر کے ذریعہ قوت عطا فرما“، پھر صبح ہوئی تو عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اسلام لے آئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- بعض محدثین نے نضر ابوعمر کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور یہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ (لیکن حدیث رقم: (۳۶۹۰) سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6223) (ضعیف جداً) (سند میں نضر بن عبدالرحمن ابو عمر الخزاز متروک راوی ہے، امام ترمذی نے بھی اسی سبب ضعف کا ذکر کر دیا ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، المشكاة (6036)
قال الشيخ زبير على زئي: (3683) إسناده ضعيف النضر بن عبدالرحمن الخزاز متروك (تق:7144) والحديث السابق(الأصل:3681) يغني عنه
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر نے ابوبکر رضی الله عنہما سے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر انسان! اس پر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: سنو! اگر تم ایسا کہہ رہے ہو تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عمر سے بہتر کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس کی سند قوی نہیں ہے، ۲- اس باب میں ابو الدرداء رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6589) (موضوع) (سند میں عبد الرحمن ابن اخی محمد بن منکدر اور عبد اللہ بن داود ابو محمد التمار دونوں ضعیف راوی ہیں، اور دونوں کی متابعت نہیں کی جائے گی، حدیث کو ابن الجوزی اور ذہبی اور البانی نے موضوع کہا ہے، اور اس کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ قطعی طور پر صحیح اور ثابت حدیث کے مخالف ہے کہ سب سے بہتر جن پر سورج طلوع ہوا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء ورسل ہیں، اس کے بعد ابوبکر ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا: انبیاء ورسل کے بعد کسی پر سورج کا وغروب نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو، الضعیفة: 1357)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (1357) // ضعيف الجامع الصغير (5097) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3684) إسناده ضعيف عبدالله بن داود الوسطي: ضعيف (تق:3298) والحديث ضعفه الذهبي جدًا بقوله: ”والحديث شبه موضوع“ (تلخيص المستدرك 90/3 ح 4508
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9966)، و مسند احمد (4/154) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمر رضی الله عنہ نہایت فہم و فراست اور الٰہی الہام سے بہرہ ور ہیں وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، ورنہ کسی اور سے پہلے عمر ہی ہوتے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت كاني اتيت بقدح من لبن , فشربت منه , فاعطيت فضلي عمر بن الخطاب "، قالوا: فما اولته يا رسول الله؟ قال: " العلم ". قال: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ كَأَنِّي أُتِيتُ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ , فَشَرِبْتُ مِنْهُ , فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ "، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْعِلْمَ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچا ہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے دیا“، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی تعبیر علم ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2284 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: میرے بعد دین کا علم عمر کو ہے (رضی الله عنہ) اس میں ابوبکر رضی الله عنہ کی من جملہ فضیلت کی نفی نہیں ہے صرف علم کے سلسلے میں ان کا علم بڑھا ہوا ثابت ہوتا ہے، بقیہ فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل امتی (بعد از نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) ابوبکر ہی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " دخلت الجنة فإذا انا بقصر من ذهب، فقلت: لمن هذا القصر؟ قالوا: لشاب من قريش فظننت اني انا هو، فقلت: ومن هو؟ فقالوا: عمر بن الخطاب ". قال: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِشَابٍّ مِنْ قُرَيْشٍ فَظَنَنْتُ أَنِّي أَنَا هُوَ، فَقُلْتُ: وَمَنْ هُوَ؟ فَقَالُوا: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت کے اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک سونے کے محل میں ہوں، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: قریش کے ایک نوجوان کا ہے، تو میں نے سوچا کہ وہ میں ہی ہوں گا، چنانچہ میں نے پوچھا کہ وہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ عمر بن خطاب ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 590)، و مسند احمد (3/107، 179) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر رضی الله عنہ کو دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دیدی گئی اور کسی مرتد کو جنت کی خوشخبری نہیں دی جا سکتی، (برا ہو آپ سے بغض و نفرت رکھنے والوں کا)۔
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث ابو عمار المروزي، حدثنا علي بن الحسين بن واقد، حدثني ابي، حدثني عبد الله بن بريدة، قال: حدثني ابي بريدة، قال: اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا بلالا، فقال: " يا بلال بم سبقتني إلى الجنة؟ ما دخلت الجنة قط إلا سمعت خشخشتك امامي، دخلت البارحة الجنة فسمعت خشخشتك امامي، فاتيت على قصر مربع مشرف من ذهب، فقلت: لمن هذا القصر؟ فقالوا: لرجل من العرب، فقلت: انا عربي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من قريش، قلت: انا قرشي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من امة محمد، قلت: انا محمد، لمن هذا القصر؟ قالوا: لعمر بن الخطاب "، فقال بلال: يا رسول الله ما اذنت قط إلا صليت ركعتين، وما اصابني حدث قط إلا توضات عندها ورايت ان لله علي ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بهما ". وفي الباب عن جابر، ومعاذ، وانس، وابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " رايت في الجنة قصرا من ذهب، فقلت: لمن هذا؟ فقيل: لعمر بن الخطاب ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، ومعنى هذا الحديث اني دخلت البارحة الجنة يعني رايت في المنام كاني دخلت الجنة، هكذا روي في بعض الحديث، ويروى عن ابن عباس انه قال: رؤيا الانبياء وحي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي بُرَيْدَةَ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا بِلَالًا، فَقَالَ: " يَا بِلَالُ بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، فَأَتَيْتُ عَلَى قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشْرِفٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ فَقَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ، فَقُلْتُ: أَنَا عَرَبِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قُلْتُ: أَنَا قُرَشِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: أَنَا مُحَمَّدٌ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ "، فَقَالَ بِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِهِمَا ". وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَمُعَاذٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ يَعْنِي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ.
بریدہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) صبح کی تو بلال رضی الله عنہ کو بلایا اور پوچھا: ”بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے، میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے“، بلال رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کر لیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں دونوں رکعتوں (یا خصلتوں) کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے“۱؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہا گیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے“، ۳- حدیث کے الفاظ «أني دخلت البارحة الجنة» کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے، ۴- ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء کے خواب وحی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1966)، و مسند احمد (5/354، 360) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، یا ایک خصلت وضو ٹوٹتے وضو کر لینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا، دوسری خصلت: ہر وضو کے بعد دو رکعت بطور تحیۃ الوضو کے پڑھنا، ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضو رہنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے، وہیں اس سے بلال رضی الله عنہ کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر رضی الله عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔