(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا زمعة بن صالح، عن سلمة بن وهرام، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم حامل الحسن بن علي على عاتقه، فقال رجل: نعم المركب ركبت يا غلام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ونعم الراكب هو". قال: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه , وزمعة بن صالح قد ضعفه بعض اهل الحديث من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَزَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن علی رضی الله عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- زمعہ بن صالح کی بعض محدثین نے ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6096) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6163)
قال الشيخ زبير على زئي: (3784) إسناده ضعيف زمعة: ضعيف (تقدم: 3616) وللحديث شواهد ضعيفة
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن كثير النواء، عن ابي إدريس، عن المسيب بن نجبة، قال: قال علي بن ابي طالب، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن كل نبي اعطي سبعة نجباء , او نقباء، واعطيت انا اربعة عشر"، قلنا: من هم؟ قال:" انا , وابناي , وجعفر , وحمزة , وابو بكر , وعمر , ومصعب بن عمير , وبلال , وسلمان , والمقداد , وحذيفة , وعمار , وعبد الله بن مسعود". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث عن علي موقوفا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ كَثِيرٍ النَّوَّاءِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ نَجَبَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ , أَوْ نُقَبَاءَ، وَأُعْطِيتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ"، قُلْنَا: مَنْ هُمْ؟ قَالَ:" أَنَا , وَابْنَايَ , وَجَعْفَرُ , وَحَمْزَةُ , وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ , وَبِلَالٌ , وَسَلْمَانُ , وَالْمِقْدَادُ , وَحُذَيْفَةُ , وَعَمَّارٌ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کو اللہ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں، اور مجھے چودہ“، ہم نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں، میرے دونوں نواسے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہم۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث علی رضی الله عنہ سے موقوفاً بھی آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10280) (ضعیف) (سند میں مسیب بن نجبہ لین الحدیث اور کثیر النواء ضعیف اور ابو ادریس المرہبی شیعی ہیں، اور حدیث میں تشیع واضح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6246 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1912) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3785) إسناده ضعيف كثير: ضعيف (تقدم:3670)
(مرفوع) حدثنا نصر بن عبد الرحمن الكوفي، حدثنا زيد بن الحسن هو الانماطي، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول:" يا ايها الناس إني قد تركت فيكم ما إن اخذتم به لن تضلوا، كتاب الله وعترتي اهل بيتي". قال: وفي الباب عن ابي ذر، وابي سعيد، وزيد بن ارقم، وحذيفة بن اسيد، قال: وهذا حسن غريب هذا الوجه، قال: وزيد بن الحسن قد روى عنه سعيد بن سليمان وغير واحد من اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ الْأَنْمَاطِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي". قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَى عَنْهُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری «عترت» یعنی اہل بیت ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- زید بن حسن سے سعید بن سلیمان اور متعدد اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوذر، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور حذیفہ بن اسید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: اہل بیت کا عقیدہ اور منہج جو صحیح سند سے ثابت ہو وہ ہدایت کا ضامن ہی ہے، کیونکہ یہ نفوس قدسیہ بزبان رسالت مآب ہدایت ہیں، اس سے شیعوں کا اپنی شیعیت پر استدلال بالکل درست نہیں کیونکہ صحیح روایات سے اہل بیت سے منقول عقیدہ و منہج موجودہ شیعیت کے بالکل مخالف ہے اہل بیت کیا، کیا شیعہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہونے کے دعویدار نہیں؟ مگر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور تفہیم شیعوں کے طریقے سے آئی ہے کیا وہ صد فی صد ان دونوں کے صحیح مفاہیم کے خلاف نہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ صحیح سند سے سلف کے فہم کے مطابق منقول عقیدہ و منہج ہی ہدایت کا ضامن ہے۔ اور وہ اہل السنہ و الجماعہ اہل حدیث کے پاس ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6143 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (3786) إسناده ضعيف زيد بن الحسن الأنماطي ضعيف (تق:2127) وحديث مسلم (2408) و ابن ماجه (1558) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا محمد بن سليمان الاصبهاني، عن يحيى بن عبيد، عن عطاء بن ابي رباح، عن عمر بن ابي سلمة ربيب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: نزلت هذه الآية على النبي صلى الله عليه وسلم إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا سورة الاحزاب آية 33 في بيت ام سلمة، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة , وحسنا , وحسينا فجللهم بكساء , وعلي خلف ظهره فجلله بكساء، ثم قال:" اللهم هؤلاء اهل بيتي فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا"، قالت ام سلمة: وانا معهم يا نبي الله؟ قال:" انت على مكانك وانت إلى خير". قال: وفي الباب عن ام سلمة، ومعقل بن يسار، وابي الحمراء، وانس، قال: وهذا غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ , وَحَسَنًا , وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ , وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا"، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ". قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، وَأَنَسٍ، قَالَ: وَهَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے «ربيب»(پروردہ) عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا»”اے اہل بیت النبوۃ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (کفر و شرک) کی گندگی دور کر دے، اور تمہاری خوب تطہیر کر دے“[ الاحزاب: ۳۳ ] ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی الله عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی رضی الله عنہ آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپا لیا، پھر فرمایا: «اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا»”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرما دے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے“، ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ، معقل بن یسار، ابوحمراء اور انس رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3205 (صحیح)»
وضاحت: ۲؎: اس آیت کے سیاق و سباق اور سبب نزول سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ”اہل البیت“ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات مراد ہیں یا اس حدیث سے ازواج مطہرات کے علاوہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی الله عنہم کے بھی ”اہل بیت“ میں ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے، اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن المنذر الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، قال: حدثنا الاعمش، عن عطية، عن ابي سعيد , والاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن زيد بن ارقم رضي الله عنهما، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي، احدهما اعظم من الآخر، كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الارض، وعترتي اهل بيتي , ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما". قال: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي , وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ان دونوں سے ثابت عقیدہ و منہج پر عمل کرنے میں تم کیا کرتے ہو، ان کے مطابق عمل کرتے ہو یا مخالف پہلے یہ بات گزری کہ اہل بیت سے صحیح سند سے ثابت عقیدہ و منہج ہدایت کا ضامن ہے، اور اس شیعیت کا کوئی تعلق نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6144)، الروض النضير (977 - 978)، الصحيحة (4 / 356 - 357)
قال الشيخ زبير على زئي: (3788) إسناده ضعيف عطية العوفي ضعيف (تقدم: 477) و سليمان الأعمش عنعن (تقدم:169) وحديث مسلم (2408) والطحاوي (مشكل الآثار 13/5ح 1760) يغني عنه وانظر المطالب العالية (3943)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6291) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلیمان نوفلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی صورت میں اور یہاں متابعت نہیں ہے، اس لیے لین الحدیث یعنی ضعیف الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج فقه السيرة (23) // ضعيف الجامع الصغير (176) //
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا حميد بن عبد الرحمن، عن داود العطار، عن معمر، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارحم امتي بامتي ابو بكر، واشدهم في امر الله عمر، واصدقهم حياء عثمان، واعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، وافرضهم زيد بن ثابت، واقرؤهم ابي بن كعب، ولكل امة امين وامين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح". قال: هذا حسن غريب نعرفه من حديث قتادة إلا من هذا الوجه، وقد رواه ابو قلابة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، والمشهور حديث ابي قلابة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ دَاوُدَ الْعَطَّارِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ بْنُ كَعْبٍ، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَالْمَشْهُورُ حَدِيثُ أَبِي قِلَابَةَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان بن عفان ہیں، اور حلال و حرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں، اور فرائض (میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں ۲- اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: امین یوں تو سارے صحابہ تھے، مگر ابوعبیدہ رضی الله عنہ اس بات میں ممتاز تھے، اس لیے ان کو «امين الامة»(آج کل کی اصطلاح میں پوری امت کا جنرل سیکریٹری) کا لقب دیا، اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس صفت میں ممتاز قرار دیا، جیسے حیاء میں عثمان، قضاء میں علی، میراث میں زید بن ثابت اور قراءت میں ابی بن کعب، وغیرہم رضی الله عنہم، (دیکھیے اگلی حدیث)۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي، حدثنا خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارحم امتي بامتي ابو بكر، واشدهم في امر الله عمر، واصدقهم حياء عثمان، واقرؤهم لكتاب الله ابي بن كعب، وافرضهم زيد بن ثابت، واعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، الا وإن لكل امة امينا وإن امين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح". هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا وَإِنَّ أَمِينَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ". هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض (میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔“
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي بن كعب:" إن الله امرني ان اقرا عليك لم يكن الذين كفروا قال: وسماني، قال:" نعم"، فبكى. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي عن ابي بن كعب، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: فذكر نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا قَالَ: وَسَمَّانِي، قَالَ:" نَعَمْ"، فَبَكَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں «لم يكن الذين كفروا»۱؎ پڑھ کر سناؤں، انہوں نے عرض کیا: کیا اس نے میرا نام لیا ہے، آپ نے فرمایا: ”ہاں (یہ سن کر) وہ رو پڑے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔“
وضاحت: ۱؎: سورۃ البینۃ: ۱۔ ۲؎: یہ بات اللہ کے نزدیک ابی بن کعب کے مقام و مرتبہ کی دلیل ہے، اور وہ بھی خاص قراءت قرآن میں «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء»(الجمعة: ۴)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن عاصم، قال: سمعت زر بن حبيش يحدث، عن ابي بن كعب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له:" إن الله امرني ان اقرا عليك فقرا عليه لم يكن الذين كفروا من اهل الكتاب فقرا فيها: إن ذات الدين عند الله الحنيفية المسلمة لا اليهودية , ولا النصرانية، من يعمل خيرا فلن يكفره، وقرا عليه: ولو ان لابن آدم واديا من مال لابتغى إليه ثانيا، ولو كان له ثانيا لابتغى إليه ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير هذا الوجه رواه عبد الله بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لابي بن كعب:" إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن". وقد روى قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لابي:" إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَال: سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقَرَأَ فِيهَا: إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ , وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ، مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ، وَقَرَأَ عَلَيْهِ: وَلَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَى إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ". وَقَدْ رَوَى قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُبَيٍّ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ".
ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں“، پھر آپ نے انہیں «لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب» پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ۱؎ «إن ذات الدين عند الله الحنيفية المسلمة لا اليهودية ولا النصرانية من يعمل خيرا فلن يكفره»”بیشک دین والی ۲؎ اللہ کے نزدیک تمام ادیان و ملل سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہو جانے والی مسلمان عورت ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی عورت جو کوئی نیکی کا کام کرے تو وہ ہرگز اس کی ناقدری نہ کرے“، اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ۳؎ «ولو أن لابن آدم واديا من مال لابتغى إليه ثانيا ولو كان له ثانيا لابتغى إليه ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب الله على من تاب»”اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی ۴؎، اور جو توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور انہوں نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں“، ۴- قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا کہ ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں۔“
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ حدیث ارشاد فرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ۲؎: یعنی: شادی کے لیے عورتوں کا انتخاب میں جو «فاظفر بذات الدین» کا حکم نبوی آیا ہے اس «ذات الدین» سے مراد ایسی ہی عورت ہے۔ ۳؎: یعنی: یہ حدیث ارشاد فرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ۴؎: یعنی: موت کے بعد مٹی میں دفن ہو جانے پر ہی یہ خواہش ختم ہو پائے گی۔