(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا حيوة، اخبرنا كعب بن علقمة، سمع عبد الرحمن بن جبير، انه سمع عبد الله بن عمرو، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي، فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله وارجو ان اكون انا هو، ومن سال لي الوسيلة حلت عليه الشفاعة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، قال محمد: عبد الرحمن بن جبير هذا قرشي مصري مدني، وعبد الرحمن بن جبير بن نفير شامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ هَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ۱؎ پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس سند میں مذکور عبدالرحمٰن بن جبیر قرشی، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمٰن بن جبیر شامی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (348)، سنن ابی داود/ الصلاة 36 (523)، سنن النسائی/الأذان 37 (679) (تحفة الأشراف: 8871)، و مسند احمد (2/168) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سوائے «حي على الصلاة، حي على الفلاح» کے اس جواب میں کہا جائے گا، «لا حول ولا قوة إلا بالله» مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ و فلاح کے لیے پکار رہا ہے، تو اس پکار کا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطا کردہ طاقت و توفیق کے نہیں دے سکتے، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضر ہو سکتے جب تک کہ اللہ کی مدد اور توفیق نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (242)، التعليق على بداية السول (20 / 52)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن جدعان، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما من نبي يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وانا اول من تنشق عنه الارض ولا فخر ". قال ابو عيسى: وفي الحديث قصة وهذا حسن صحيح، وقد روي بهذا الإسناد عن ابي نضرة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہو گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہو گی، اور سب سے پہلے قبر سے میں اٹھوں گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے، ۲- اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے، وہ اسے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3148 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ تمام باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر انبیاء پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ گھمنڈ اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کے خاص فضل و انعام سے ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4308)
قال الشيخ زبير على زئي: (3615) إسناده ضعيف / تقدم:3148
(مرفوع) حدثنا علي بن نصر بن علي الجهضمي، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا زمعة بن صالح، عن سلمة بن وهرام، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: جلس ناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ينتظرونه، قال: فخرج حتى إذا دنا منهم سمعهم يتذاكرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم: عجبا إن الله عز وجل اتخذ من خلقه خليلا اتخذ إبراهيم خليلا، وقال آخر: ماذا باعجب من كلام موسى كلمه تكليما، وقال آخر: فعيسى كلمة الله وروحه، وقال آخر: آدم اصطفاه الله، فخرج عليهم، فسلم، وقال: قد سمعت كلامكم وعجبكم: " إن إبراهيم خليل الله وهو كذلك، وموسى نجي الله وهو كذلك، وعيسى روح الله وكلمته وهو كذلك، وآدم اصطفاه الله وهو كذلك، الا وانا حبيب الله ولا فخر، وانا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وانا اول شافع واول مشفع يوم القيامة ولا فخر، وانا اول من يحرك حلق الجنة فيفتح الله لي فيدخلنيها ومعي فقراء المؤمنين ولا فخر، وانا اكرم الاولين والآخرين ولا فخر ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلًا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلَامِ مُوسَى كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ: " إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِي فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ وَلَا فَخْرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے، کہتے ہیں: پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا، آپ نے ان کی باتیں سنیں، کوئی کہہ رہا تھا، تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا، دوسرے نے کہا: موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے، اور ایک نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اور ایک دوسرے نے کہا: آدم کو اللہ نے تو چن لیا ہے، تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا: ”میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کو بھی، واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے اللہ کے نجی اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں، سن لو! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہو گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت (سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت (سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گا تو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا، پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6095) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5762) // ضعيف الجامع الصغير (4077) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3616) إسناده ضعيف زمعة: ضعيف و حديثه عند مسلم مقرون (تق:2035) وقال الهيثمي: وقد ضعفه الجمهور . (مجمع الزوائد 98/5 وانظر 83/8) وقال العراقي: ضعفه الجمهور . (تخريج الأحياء 341/3) و قال البوصيري: وقد ضعفه الجمهور . (زوائد سنن ابن ماجه:501)
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا: حجرہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5336) (ضعیف) (سند میں عثمان بن ضحاک ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: اس معنی کی کئی احادیث وارد ہیں، مگر سب پر کلام ہے، اور مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، تو پینتالیس زندہ رہ کر جب وفات پائیں گے تو قبر نبوی کے پاس دفن ہوں گے، «واللہ اعلم» ۔
(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف البصري، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ثابت، عن انس بن مالك، قال: " لما كان اليوم الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اضاء منها كل شيء، فلما كان اليوم الذي مات فيه اظلم منها كل شيء، ولما نفضنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الايدي وإنا لفي دفنه حتى انكرنا قلوبنا ". قال ابو عيسى: هذا غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِي وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے پہل) مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہو گئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار العبدي، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا ابي، قال: سمعت محمد بن إسحاق يحدث، عن المطلب بن عبد الله بن قيس بن مخرمة، عن ابيه، عن جده، قال: " ولدت انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل، وسال عثمان بن عفان قباث بن اشيم اخا بني يعمر بن ليث: اانت اكبر ام رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم اكبر مني، وانا اقدم منه في الميلاد، ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل، ورفعت بي امي على الموضع، قال: ورايت خذق الفيل اخضر محيلا ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاق يُحَدِّثُ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: " وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ: أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنِّي، وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلَادِ، وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ، قَالَ: وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
قیس بن مخرمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں واقعہ فیل ۱؎ کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں ۲؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہو گئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الفضل بن سهل ابو العباس الاعرج البغدادي، حدثنا عبد الرحمن بن غزوان ابو نوح، اخبرنا يونس بن ابي إسحاق، عن ابي بكر بن ابي موسى , عن ابيه، قال: " خرج ابو طالب إلى الشام، وخرج معه النبي صلى الله عليه وسلم في اشياخ من قريش، فلما اشرفوا على الراهب هبطوا، فحلوا رحالهم , فخرج إليهم الراهب وكانوا قبل ذلك يمرون به , فلا يخرج إليهم ولا يلتفت، قال: فهم يحلون رحالهم فجعل يتخللهم الراهب حتى جاء فاخذ بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: هذا سيد العالمين , هذا رسول رب العالمين يبعثه الله رحمة للعالمين، فقال له اشياخ من قريش: ما علمك؟ فقال: إنكم حين اشرفتم من العقبة لم يبق شجر ولا حجر إلا خر ساجدا، ولا يسجدان إلا لنبي , وإني اعرفه بخاتم النبوة اسفل من غضروف كتفه مثل التفاحة، ثم رجع فصنع لهم طعاما فلما اتاهم به وكان هو في رعية الإبل , قال: ارسلوا إليه , فاقبل وعليه غمامة تظله، فلما دنا من القوم وجدهم قد سبقوه إلى فيء الشجرة، فلما جلس مال فيء الشجرة عليه، فقال: انظروا إلى فيء الشجرة مال عليه، قال: فبينما هو قائم عليهم وهو يناشدهم ان لا يذهبوا به إلى الروم، فإن الروم إذا راوه عرفوه بالصفة فيقتلونه، فالتفت , فإذا بسبعة قد اقبلوا من الروم فاستقبلهم، فقال: ما جاء بكم؟ قالوا: جئنا إن هذا النبي خارج في هذا الشهر , فلم يبق طريق إلا بعث إليه باناس , وإنا قد اخبرنا خبره بعثنا إلى طريقك هذا، فقال: هل خلفكم احد هو خير منكم؟ قالوا: إنما اخبرنا خبره بطريقك هذا، قال: افرايتم امرا اراد الله ان يقضيه هل يستطيع احد من الناس رده؟ قالوا: لا، قال: فبايعوه واقاموا معه، قال: انشدكم بالله ايكم وليه، قالوا: ابو طالب فلم يزل يناشده حتى رده ابو طالب، وبعث معه ابو بكر بلالا وزوده الراهب من الكعك والزيت ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى , عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا، فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ , فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِهِ , فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ , هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُكَ؟ فَقَالَ: إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ , وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَكَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ , قَالَ: أَرْسِلُوا إِلَيْهِ , فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوهُ إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْءُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوا إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَيْهِمْ وَهُوَ يُنَاشِدُهُمْ أَنْ لَا يَذْهَبُوا بِهِ إِلَى الرُّومِ، فَإِنَّ الرُّومَ إِذَا رَأَوْهُ عَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ فَيَقْتُلُونَهُ، فَالْتَفَتَ , فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنَ الرُّومِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكُمْ؟ قَالُوا: جِئْنَا إِنَّ هَذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي هَذَا الشَّهْرِ , فَلَمْ يَبْقَ طَرِيقٌ إِلَّا بُعِثَ إِلَيْهِ بِأُنَاسٍ , وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بُعِثْنَا إِلَى طَرِيقِكَ هَذَا، فَقَالَ: هَلْ خَلْفَكُمْ أَحَدٌ هُوَ خَيْرٌ مِنْكُمْ؟ قَالُوا: إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِيقِكَ هَذَا، قَالَ: أَفَرَأَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَهُ هَلْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ رَدَّهُ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَبَايَعُوهُ وَأَقَامُوا مَعَهُ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَيُّكُمْ وَلِيُّهُ، قَالُوا: أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْكَعْكِ وَالزَّيْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطالب شام کی طرف (تجارت کی غرض سے) نکلے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش کے بوڑھوں میں ان کے ساتھ نکلے، جب یہ لوگ بحیرہ راہب کے پاس پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے، تو راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر ان کے پاس آیا حالانکہ اس سے پہلے یہ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تھے، لیکن وہ کبھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اور نہ ان کے پاس آتا تھا، کہتے ہیں: تو یہ لوگ اپنی سواریاں ابھی کھول ہی رہے تھے کہ راہب نے ان کے بیچ سے گھستے ہوئے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا: یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے رب کے رسول ہیں، اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا، تو اس سے قریش کے بوڑھوں نے پوچھا: تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ تو اس نے کہا: جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو، اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں، اور میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو شانہ کی ہڈی کے سرے کے نیچے سیب کے مانند ہے، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا، جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ چرانے گئے تھے تو اس نے کہا: کسی کو بھیج دو کہ ان کو بلا کر لائے، چنانچہ آپ آئے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے قریب ہوئے تو انہیں درخت کے سایہ میں پہلے ہی سے بیٹھے پایا، پھر جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا اس پر راہب بول اٹھا: دیکھو! درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا ہے، پھر راہب ان کے سامنے کھڑا رہا اور ان سے قسم دے کر کہہ رہا تھا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ اس لیے کہ روم کے لوگ دیکھتے ہی انہیں ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور انہیں قتل کر ڈالیں گے، پھر وہ مڑا تو دیکھا کہ سات آدمی ہیں جو روم سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور پوچھا آپ لوگ کیوں آئے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا: ہم اس نبی کے لیے آئے ہیں جو اس مہینہ میں آنے والا ہے، اور کوئی راستہ ایسا باقی نہیں بچا ہے جس کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ نہ بھیجے گئے ہوں، اور جب ہمیں تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم تمہاری اس راہ پر بھیجے گئے، تو اس نے پوچھا: کیا تمہارے پیچھے کوئی اور ہے جو تم سے بہتر ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہمیں تو تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم اس پر ہو لیے اس نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ جس امر کا فیصلہ فرما لے کیا لوگوں میں سے اسے کوئی ٹال سکتا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا: پھر تم اس سے بیعت کرو، اور اس کے ساتھ رہو، پھر وہ عربوں کی طرف متوجہ ہو کر بولا: میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے اس کا ولی کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوطالب، تو وہ انہیں برابر قسم دلاتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے انہیں واپس مکہ لوٹا دیا اور ابوبکر رضی الله عنہ نے آپ کے ساتھ بلال رضی الله عنہ کو بھی بھیج دیا اور راہب نے آپ کو کیک اور زیتون کا توشہ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9141) (صحیح) (لیکن اس واقعہ میں بلال کا تذکرہ صحیح نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح فقه السيرة، دفاع عن الحديث النبوى (62 - 72)، المشكاة (5918)، لكن ذكر بلال فيه منكر كما قيل
قال الشيخ زبير على زئي: (3620) إسناده ضعيف عبدالرحمن بن غزوان أبو نوح: ثقة له أفراد (تق: 3977) وهذا الحديث أنكر عليه فالحديث معلول والله أعلم
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی گئی تو آپ چالیس سال کے تھے، پھر آپ مکہ میں تیرہ سال تک رہے اور مدینہ میں دس سال تک، اور آپ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ (۶۳) سال کے تھے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن هشام، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " قبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن خمس وستين سنة ". قال ابو عيسى: وهكذا حدثنا محمد بن بشار، وروى عنه محمد بن إسماعيل مثل ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ سَنَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَرَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مِثْلَ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح سے ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ہے اور ان سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہی بات شاذ ہے، محفوظ بات یہ ہے کہ آپ ترسٹھ سال کے تھے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے، ممکن ہے کسی نے پیدائش کے سال اور وفات کے سال کو پورا پورا ایک سال جوڑ لیا ہو، اور اس طرح پینسٹھ بتا دیا ہو؟
قال الشيخ الألباني: شاذ المصدر نفسه // مختصر الشمائل (320)، وسيأتي (751 / 3912) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3622) شاذ هشام بن حسان عنعن (تقدم: 460) والحديث شاذ مخالف للروايات الصحيحة
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس. ح وحدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن , انه سمع انسا يقول: " لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالطويل البائن ولا بالقصير المتردد، ولا بالابيض الامهق، ولا بالآدم، وليس بالجعد القطط ولا بالسبط، بعثه الله على راس اربعين سنة، فاقام بمكة عشر سنين، وبالمدينة عشر سنين، وتوفاه الله على راس ستين سنة وليس في راسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. ح وَحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّهُ سَمِعَ أنَسًا يَقُولُ: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ، وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت لمبے قد والے تھے نہ بہت ناٹے اور نہ نہایت سفید، نہ بالکل گندم گوں، آپ کے سر کے بال نہ گھنگرالے تھے نہ بالکل سیدھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیسویں سال کے شروع میں مبعوث فرمایا، پھر مکہ میں آپ دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس اور ساٹھویں برس ۱؎ کے شروع میں اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں رہے ہوں گے۔
وضاحت: ۱؎: جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ ساٹھ (۶۰) برس کے تھے ان لوگوں نے کسور عدد کو چھوڑ کر صرف دہائیوں کے شمار پر اکتفا کیا ہے، اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ آپ پینسٹھ سال کے تھے تو ان لوگوں نے سن وفات اور سن پیدائش کو بھی شمار کر لیا ہے، لیکن سب سے صحیح قول ان لوگوں کا ہے جو ترسٹھ (۶۳) برس کے قائل ہیں، کیونکہ ترسٹھ برس والی روایت زیادہ صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل رقم (1)، وقد مضى شطره الأول (1823)