(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا علي بن حسين بن واقد، حدثني ابي، حدثني عبد الله بن بريدة، قال: سمعت ابي بريدة، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطبنا إذ جاء الحسن والحسين عليهما قميصان احمران يمشيان ويعثران , فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم من المنبر فحملهما , ووضعهما بين يديه , ثم قال: " صدق الله إنما اموالكم واولادكم فتنة سورة التغابن آية 15 فنظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران , فلم اصبر حتى قطعت حديثي ورفعتهما ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، إنما نعرفه من حديث الحسين بن واقد.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ , فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا , وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: " صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 فَنَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ , فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین رضی الله عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة»۱؎”تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کر سکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 233 (1109)، سنن النسائی/الجمعة 30 (1414)، والعیدین 27 (1586)، سنن ابن ماجہ/اللباس 20 (3600) (تحفة الأشراف: 1958)، و مسند احمد (5/354) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: التغابن: ۱۵۔
۲؎: جہاں یہ بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال شفقت کی دلیل ہے، وہیں حسن اور حسین رضی الله عنہما کے آپ کے نزدیک مقام و مرتبہ کی بھی بات ہے۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن سعيد بن راشد، عن يعلى بن مرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حسين مني وانا من حسين , احب الله من احب حسينا، حسين سبط من الاسباط ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وإنما نعرفه من حديث عبد الله بن عثمان بن خثيم، وقد رواه غير واحد عن عبد الله بن عثمان بن خثيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ , أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ.
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۱؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن عثمان بن خثیم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (144) (تحفة الأشراف: 11850)، و مسند احمد (4/172) (حسن) (تراجع الالبانی 375) الصحیحہ 1227)»
وضاحت: ۱؎: بقول قاضی عیاض: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم من جانب اللہ مطلع کر دیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے اس لیے آپ نے پیشگی بیان کر دیا کہ ”حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں“۔
۲؎: یعنی: حسین رضی الله عنہ کی بہت ہی زیادہ اولاد ہو گی، یعنی ان کی نسل خوب پھیلے گی کہ قبائل بن جائیں گے، سو ایسا ہی ہوا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن ابي جحيفة، قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان الحسن بن علي يشبهه ". هذا حسن صحيح، قال: وفي الباب عن ابي بكر الصديق، وابن عباس، وابن الزبير.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ ". هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حسن بن علی رضی الله عنہما ان سے مشابہت رکھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2826 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (2828 و 2829) // هذا رقم الدعاس وهو عندنا برقم (2266 / 2995، 2996) //
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی الله عنہ کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کا ذکر حسن سے کیا جاتا ہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے)۱؎۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ جملہ اس نے حسین رضی الله عنہ کے حسن اور آپ کی خوبصورتی سے متعلق طعن و استہزاء کے طور پر کہا تھا، اسی لیے انس بن مالک نے اسے جواب دیا۔
۲؎: اس سے پہلے حدیث رقم ۳۷۸۶ کے تحت زہری کی ایک روایت انس رضی الله عنہ سے گزری ہے، اس میں ہے کہ حسن بن علی رضی الله عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور اس روایت میں یہ ہے کہ حسین بن علی رضی الله عنہما سب سے زیادہ مشابہ تھے، بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض پایا جا رہا ہے، علماء نے دونوں روایتوں میں تطبیق کی جو صورت نکالی ہے وہ یہ ہے: (۱) زہری کی روایت میں جو مذکور ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب حسن رضی الله عنہ باحیات تھے اور اس وقت وہ اپنے بھائی حسین بن علی کے بہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انس رضی الله عنہ کی اس روایت میں جو مذکور ہے یہ حسن رضی الله عنہ کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے۔ (۲) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حسین بن علی رضی الله عنہما کو جن لوگوں نے اللہ کے رسول سے مشابہ قرار دیا ہے تو ان لوگوں نے حسن کو مستثنیٰ کر کے یہ بات کہی ہے۔ (۳) یہ بھی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں اللہ کے رسول سے مشابہ تھے (دیکھئیے اگلی روایت)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6170 / التحقيق الثاني)
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حسن رضی الله عنہ سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین رضی الله عنہ اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10302) (ضعیف) (سند میں ہانی بن ہانی مجہول الحال راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6161)
قال الشيخ زبير على زئي: (3779) إسناده ضعيف أبو إسحاق عنعن (تقدم:107)
(موقوف) حدثنا حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، قال: " لما جيء براس عبيد الله بن زياد , واصحابه نضدت في المسجد في الرحبة , فانتهيت إليهم وهم يقولون: قد جاءت قد جاءت، فإذا حية قد جاءت تخلل الرءوس حتى دخلت في منخري عبيد الله بن زياد , فمكثت هنيهة , ثم خرجت , فذهبت حتى تغيبت، ثم قالوا: قد جاءت قد جاءت، ففعلت ذلك مرتين او ثلاثا. هذا حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: " لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ , وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ , فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ , فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً , ثُمَّ خَرَجَتْ , فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا. هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۱؎ اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہو گیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حسن اور حسین رضی الله عنہما کے مناقب میں اس حدیث کو لا کر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی الله عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک، آنکھ اور منہ پر مارا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (عبداللہ بن زیاد کو مختار ثقفی کے فرستادہ ابراہیم بن اشتر نے سن چھیاسٹھ میں مقام جازر میں جو موصل سے پانچ فرسخ پر ہے قتل کیا تھا)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3780) إسناده ضعيف الأعمش مدلس عنعن (تقدم:169) وله شاهد ضعيف فى تاريخ دمشق (341/39) ومع تدليس الأعمش، صححه الذهبي (سير أعلام النبلاء 549/3)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، وإسحاق بن منصور , قالا: اخبرنا محمد بن يوسف، عن إسرائيل، عن ميسرة بن حبيب، عن المنهال بن عمرو، عن زر بن حبيش، عن حذيفة، قال: سالتني امي متى عهدك؟ تعني بالنبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما لي به عهد منذ كذا وكذا، فنالت مني، فقلت لها: دعيني آتي النبي صلى الله عليه وسلم فاصلي معه المغرب واساله ان يستغفر لي ولك، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فصليت معه المغرب فصلى حتى صلى العشاء، ثم انفتل فتبعته , فسمع صوتي , فقال: " من هذا حذيفة "، قلت: نعم، قال: " ما حاجتك غفر الله لك ولامك؟ قال: إن هذا ملك لم ينزل الارض قط قبل هذه الليلة استاذن ربه ان يسلم علي , ويبشرني بان فاطمة سيدة نساء اهل الجنة، وان الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة ". قال: هذا حسن غريب هذا الوجه، لا نعرفه إلا من حديث إسرائيل.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ؟ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، فَنَالَتْ مِنِّي، فَقُلْتُ لَهَا: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ , فَسَمِعَ صَوْتِي , فَقَالَ: " مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ؟ قَالَ: إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ , وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: ”کون ہو؟ حذیفہ؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: «ما حاجتك غفر الله لك ولأمك»”کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو“(پھر) آپ نے فرمایا: ”یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی الله عنہما کو دیکھا تو فرمایا: «اللهم إني أحبهما فأحبهما»”اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، قال: سمعت البراء بن عازب يقول: رايت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا الحسن بن علي على عاتقه، وهو يقول: " اللهم إني احبه فاحبه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو اصح من حديث الفضيل بن مرزوق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَال: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعًا الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْفُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی رضی الله عنہما کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے: «اللهم إني أحبه فأحبه»”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ فضیل بن مرزوق کی (مذکورہ) روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جس روایت میں صرف حسن کو کندھے پر اٹھائے ہونے کا تذکرہ ہے وہ اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ حسن و حسین رضی الله عنہما دونوں کو اٹھائے ہوئے تھے، حالانکہ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں، اور دونوں کے لیے یہ بات کہے جانے میں کوئی تضاد بھی نہیں۔