براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب سے فرمایا: ”تم صورت اور سیرت دونوں میں میرے مشابہ ہو“، اور اس حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے والد نے اسرائیل کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
وضاحت: ؎: قصہ یہ ہے کہ «عمرۃ القضاء» کے موقع سے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بچی کی کفالت کے لیے: جعفر، علی اور زید بن خارجہ رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف ہوا، سب نے اپنا اپنا حق جتایا، لیکن بچی کی خالہ کے جعفر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں ہو نے کی وجہ سے آپ ﷺ نے بچی کو جعفر کے حوالہ کر دیا۔
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ابو يحيى التيمي، حدثنا إبراهيم ابو إسحاق المخزومي، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: " إن كنت لاسال الرجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن الآيات من القرآن انا اعلم بها منه، ما اساله إلا ليطعمني شيئا، فكنت إذا سالت جعفر بن ابي طالب لم يجبني حتى يذهب بي إلى منزله، فيقول لامراته: يا اسماء اطعمينا شيئا، فإذا اطعمتنا اجابني، وكان جعفر يحب المساكين , ويجلس إليهم , ويحدثهم ويحدثونه، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكنيه بابي المساكين ". قال ابو عيسى: هذا غريب، وابو إسحاق المخزومي هو إبراهيم بن الفضل المدني، وقد تكلم فيه بعض اهل الحديث من قبل حفظه وله غرائب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَبُو إِسْحَاق الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " إِنْ كُنْتُ لَأَسْأَلُ الرَّجُلَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْآيَاتِ مِنَ الْقُرْآنِ أَنَا أَعْلَمُ بِهَا مِنْهُ، مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيُطْعِمَنِي شَيْئًا، فَكُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ لَمْ يُجِبْنِي حَتَّى يَذْهَبَ بِي إِلَى مَنْزِلِهِ، فَيَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: يَا أَسْمَاءُ أَطْعِمِينَا شَيْئًا، فَإِذَا أَطْعَمَتْنَا أَجَابَنِي، وَكَانَ جَعْفَرٌ يُحِبُّ الْمَسَاكِينَ , وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ , وَيُحَدِّثُهُمْ وَيُحَدِّثُونَهُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْنِيهِ بِأَبِي الْمَسَاكِينِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، وَأَبُو إِسْحَاق الْمَخْزُومِيُّ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَدَنِيُّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَلَهُ غَرَائِبُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں قرآن کی آیتوں کے سلسلہ میں صحابہ سے پوچھا کرتا تھا، چاہے میں اس کے بارے ان سے زیادہ واقف ہوتا ایسا اس لیے کرتا تاکہ وہ مجھے کچھ کھلائیں، چنانچہ جب میں جعفر بن ابی طالب سے پوچھتا تو وہ مجھے جواب اس وقت تک نہیں دیتے جب تک مجھے اپنے گھر نہ لے جاتے اور اپنی بیوی سے یہ نہ کہتے کہ اسماء ہمیں کچھ کھلاؤ، پھر جب وہ ہمیں کھلا دیتیں تب وہ مجھے جواب دیتے، جعفر رضی الله عنہ مسکینوں سے بہت محبت کرتے تھے، ان میں جا کر بیٹھتے تھے ان سے باتیں کرتے تھے، اور ان کی باتیں سنتے تھے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ابوالمساکین کہا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابواسحاق مخزومی کا نام ابراہیم بن فضل مدنی ہے اور بعض محدثین نے ان کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور ان سے غرائب حدیثیں مروی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 7 (4125) (تحفة الأشراف: 12942) (ضعیف جداً) (سند میں ابراہیم بن الفضل ابواسحاق متروک ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، المشكاة (6152 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (3766) إسناده ضعيف / جه 4125 مختصرًا إبراهيم المخزومي: متروك (تقدم:2687)
(موقوف) حدثنا حدثنا ابو احمد حاتم بن سياه المروزي، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن عجلان، عن يزيد بن قسيط، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " كنا ندعو جعفر بن ابي طالب رضي الله عنه ابا المساكين، فكنا إذا اتيناه قربنا إليه ما حضر فاتيناه يوما، فلم يجد عنده شيئا فاخرج جرة من عسل فكسرها فجعلنا نلعق منها ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَاتِمُ بْنُ سِيَاهٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كُنَّا نَدْعُو جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَبَا الْمَسَاكِينِ، فَكُنَّا إِذَا أَتَيْنَاهُ قَرَّبَنَا إِلَيْهِ مَا حَضَرَ فَأَتَيْنَاهُ يَوْمًا، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُ شَيْئًا فَأَخْرَجَ جَرَّةً مِنْ عَسَلٍ فَكَسَرَهَا فَجَعَلْنَا نَلْعَقُ مِنْهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم جعفر بن ابی طالب کو ابوالمساکین کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ جب ہم ان کے پاس آتے تو وہ جو کچھ موجود ہوتا ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتے، تو ایک دن ہم ان کے پاس آئے اور جب انہیں کوئی چیز نہیں ملی، (جو ہمیں پیش کرتے) تو انہوں نے شہد کا ایک گھڑا نکالا اور اسے توڑا تو ہم اسی کو چاٹنے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوسلمہ کی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (حاتم بن سیاہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجودگی میں، ورنہ لین الحدیث یعنی ضعیف، اور یزید بن قسیط یہ یزید بن عبداللہ بن قسیط لیثی ثقہ راوی ہیں)»
قال الشيخ زبير على زئي: (3767) إسناده ضعيف ابن عجلان مدلس وعنعن (تقدم: 1084) وحديث البخاري (5432) يغني عنه
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4134)، و مسند احمد (3/3، 22، 64، 80) (صحیح) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 796)»
وضاحت: ۱؎: ”جنت میں جوانوں کے سردار“ اس کے محدثین نے کئی معانی بیان کئے ہیں، (۱) جو لوگ جوانی کی حالت میں وفات پائے (اور جنتی ہیں) ان کے سردار یہ دونوں ہوں گے، اس بیان کے وقت وہ دونوں جوان تھے، شہادت جوانی کے بعد حالت کہولت میں ہوئی، لیکن جوانی کی حالت میں وفات پانے والوں کے سردار بنا دیئے گئے ہیں (۲) جنت میں سبھی لوگ جوانی کی عمر میں کر دیئے جائیں گے، اس لیے مراد یہ ہے کہ انبیاء اور خلفائے راشدین کے سوا دیگر لوگوں کے سردار یہ دونوں ہوں گے (۳) اس زمانہ کے (جب یہ دونوں جوان تھے) ان جوانوں کے یہ سردار ہیں جو مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے، واللہ اعلم۔
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین رضی الله عنہما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا: ”یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے“۔
عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ ۱؎ تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہا ہے! حالانکہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کو قتل کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حسن اور حسین رضی الله عنہما یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے، ۳- ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھر مارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیا تھا، ہو سکتا ہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کر دی ہو، سیاق و سباق کے لحاظ سے صحیح صورت حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6155)، الصحيحة (564)
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، حدثنا رزين، قال: حدثتني سلمى، قالت: دخلت على ام سلمة وهي تبكي، فقلت: ما يبكيك؟ قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم تعني في المنام، وعلى راسه ولحيته التراب، فقلت: ما لك يا رسول الله؟ قال: " شهدت قتل الحسين آنفا ". قال: هذا غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا ". قَالَ: هَذَا غَرِيبٌ.
سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: ”میں حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا عقبة بن خالد، حدثني يوسف بن إبراهيم، انه سمع انس بن مالك يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي اهل بيتك احب إليك؟ قال: " الحسن والحسين "، وكان يقول لفاطمة: " ادعي لي ابني " , فيشمهما ويضمهما إليه. قال: هذا غريب هذا الوجه من حديث انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ "، وَكَانَ يَقُولُ لِفَاطِمَةَ: " ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ " , فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ. قَالَ: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”حسن اور حسین“(رضی الله عنہما)، آپ فاطمہ رضی الله عنہا سے فرماتے: ”میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: انس کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1706) (ضعیف) (سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6158)
قال الشيخ زبير على زئي: (3772) إسناده ضعيف يوسف بن إبراهيم:ضعيف (تق:7855)
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور «ابني هذا» سے مراد حسن بن علی ہیں رضی الله عنہما۔
وضاحت: ۱؎: یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی الله عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی الله عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے «جزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (923)، الإرواء (1597)