(مرفوع) حدثنا الفضل بن ابي طالب البغدادي، وغير واحد , قالوا: حدثنا عثمان بن زفر، حدثنا محمد بن زياد، عن محمد بن عجلان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بجنازة رجل ليصلي عليه فلم يصل عليه، فقيل: يا رسول الله ما رايناك تركت الصلاة على احد قبل هذا؟ قال: " إنه كان يبغض عثمان فابغضه الله ". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، ومحمد بن زياد صاحب ميمون بن مهران ضعيف في الحديث جدا، ومحمد بن زياد صاحب ابي هريرة هو بصري ثقة , ويكنى: ابا الحارث، ومحمد بن زياد الالهاني صاحب ابي امامة ثقة , يكنى: ابا سفيان شامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الْبَغْدَادِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ زُفَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةِ رَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْنَاكَ تَرَكْتَ الصَّلَاةَ عَلَى أَحَدٍ قَبْلَ هَذَا؟ قَالَ: " إِنَّهُ كَانَ يَبْغَضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَهُ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ صَاحِبُ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ جِدًّا، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ صَاحِبُ أَبِي هُرَيْرَةَ هُوَ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ , وَيُكْنَى: أَبَا الْحَارِثِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ صَاحِبُ أَبِي أُمَامَةَ ثِقَةٌ , يُكْنَى: أَبَا سُفْيَانَ شَامِيٌّ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں تو آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس سے پہلے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی پر جنازہ کی نماز نہ پڑھی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا، تو اللہ نے اسے مبغوض کر دیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- میمون بن مہران کے شاگرد محمد بن زیادہ حدیث میں بہت ضعیف گردانے جاتے ہیں ۱؎، اور محمد بن زیاد جو ابوہریرہ رضی الله عنہ کے شاگرد ہیں یہ بصریٰ ہیں اور ثقہ ہیں، ان کی کنیت ابوحارث ہے اور محمد بن زیاد الہانی جو ابوامامہ کے شاگرد ہیں، ثقہ ہیں، ان کی کنیت ابوسفیان ہے، یہ شامی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2943) (موضوع) (سند میں محمد بن زیاد الیشکری الطحان کذاب ہے)»
وضاحت: ۱؎: اور اس سند میں یہی محمد بن زیاد ہیں، ان کی نسبت ہی میمونی ہے۔
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (1967) // ضعيف الجامع الصغير (2073) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3709) موضوع محمد بن زياد الطحان كذبوه (تق: 5890) قال أحمد: ”كان أعور كذابًا خبيثًا يضع الأحاديث“ (الجرح والتعديل 258/7 وسنده صحيح)
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي موسى الاشعري، قال: انطلقت مع النبي صلى الله عليه وسلم فدخل حائطا للانصار فقضى حاجته، فقال لي: " يا ابا موسى املك علي الباب فلا يدخلن علي احد إلا بإذن "، فجاء رجل يضرب الباب , فقلت: من هذا؟ فقال: ابو بكر، فقلت: يا رسول الله، هذا ابو بكر يستاذن، قال: " ائذن له وبشره بالجنة "، فدخل وبشرته بالجنة، وجاء رجل آخر فضرب الباب , فقلت: من هذا؟ فقال: عمر، فقلت: يا رسول الله هذا عمر يستاذن، قال: " افتح له وبشره بالجنة "، ففتحت الباب ودخل وبشرته بالجنة، فجاء رجل آخر فضرب الباب , فقلت: من هذا؟ قال: عثمان، فقلت: يا رسول الله هذا عثمان يستاذن، قال: " افتح له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح وقد روي من غير وجه عن ابي عثمان النهدي، وفي الباب عن جابر، وابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، فَقَالَ لِي: " يَا أَبَا مُوسَى أَمْلِكْ عَلَيَّ الْبَابَ فَلَا يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنٍ "، فَجَاءَ رَجُلٌ يَضْرِبُ الْبَابَ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: " ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ "، فَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: " افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ "، فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: " افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ”ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے“، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو“، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: عمر ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عمر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو“، چنانچہ میں نے دروازہ کھول دیا، وہ اندر آ گئے، اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک تیسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: عثمان ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عثمان اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ان کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو، ساتھ ہی ایک آزمائش کی جو انہیں پہنچ کر رہے گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی ابوعثمان نہدی سے آئی ہے، ۳- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی الله عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا، نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور یہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
ابوسہلہ کا بیان ہے کہ عثمان رضی الله عنہ نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس عہد سے مراد یہ ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ”اللہ تعالیٰ تم کو ایک کرتا پہنائے گا، لوگ اس کو تم سے اتروانا چاہیں گے، تو مت اتارنا“، (اس سے خلافت کا کرتا مراد ہے) اسی لیے عثمان شہید رضی الله عنہ ہو گئے مگر خلافت سے دستبردار نہیں ہوئے کیونکہ آپ بفرمان رسالت مآب حق پر تھے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن يزيد الرشك، عن مطرف بن عبد الله، عن عمران بن حصين، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا , واستعمل عليهم علي بن ابي طالب فمضى في السرية , فاصاب جارية , فانكروا عليه , وتعاقد اربعة من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالوا: إذا لقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرناه بما صنع علي، وكان المسلمون إذا رجعوا من السفر بدءوا برسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلموا عليه , ثم انصرفوا إلى رحالهم، فلما قدمت السرية سلموا على النبي صلى الله عليه وسلم , فقام احد الاربعة , فقال: يا رسول الله الم تر إلى علي بن ابي طالب صنع كذا وكذا، فاعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قام الثاني فقال مثل مقالته، فاعرض عنه، ثم قام الثالث فقال مثل مقالته , فاعرض عنه، ثم قام الرابع فقال مثل ما قالوا، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم والغضب يعرف في وجهه فقال: " ما تريدون من علي , ما تريدون من علي , ما تريدون من علي، إن عليا مني وانا منه , وهو ولي كل مؤمن بعدي ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث جعفر بن سليمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا , وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَمَضَى فِي السَّرِيَّةِ , فَأَصَابَ جَارِيَةً , فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ , وَتَعَاقَدَ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: إِذَا لَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ بِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا رَجَعُوا مِنَ السَّفَرِ بَدَءُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ , ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى رِحَالِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِيَّةُ سَلَّمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَامَ أَحَدُ الْأَرْبَعَةِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَنَعَ كَذَا وَكَذَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِي فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ: " مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ , مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ , مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ، إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ , وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی رضی الله عنہ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کر لیا ۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۱؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 10861)، و مسند احمد (4/437-438) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی، تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں، اس لیے یہ مال غنیمت میں خردبرد کے ضمن میں آتا ہے، یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہو جائے، اور علی رضی الله عنہ نے ایسا نہیں کیا ہے، یہ بات تو علی رضی الله عنہ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم (رحم کی صفائی) سے پہلے لونڈی سے ہمبستری کر بیٹھیں، ہوا یہ ہو گا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہو گی، تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔
۲؎: اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی الله عنہ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیونکہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپ نے یہی جملہ کہا ہے، مثلاً جلیبیب کے متعلق آپ نے فرمایا: ” «ہذا منی و أنا منہ»“ اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپ نے فرمایا: ” «فہم منی و أنا منہم»“ یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، مسند احمد میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا: «أنا منہم وہم منی» ۔ نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ”علی مجھ سے ہیں“ کا مطلب ہے: علی آپ کی ذات ہی میں سے ہیں، اس سے مراد ہے: نسب۔
ابوسریحہ یا زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 3299)، و3667)، و مسند احمد (4/368، 372) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: ” «من کنت مولاہ فعلی مولاہ»“ کا ایک خاص سبب ہے، کہا جاتا ہے کہ اسامہ رضی الله عنہ نے جب علی رضی الله عنہ سے یہ کہا: ” «لست مولای إنما مولای رسول الله صلى الله عليه وسلم»“ یعنی میرے مولی تم نہیں ہو بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” «من کنت مولاہ فعليّ مولاہ»“ کہا، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہاں ولی سے مراد «ولاء الإسلام» یعنی اسلامی دوستی اور بھائی چارگی ہے، اس لیے شیعہ حضرات کا اس جملہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ علی رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اصل خلافت کے حقدار تھے، صحیح نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1750)، الروض النضير (171)، المشكاة (6082)
(مرفوع) حدثنا ابو الخطاب زياد بن يحيى البصري، حدثنا ابو عتاب سهل بن حماد، حدثنا المختار بن نافع، حدثنا ابو حيان التيمي، عن ابيه، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رحم الله ابا بكر زوجني ابنته , وحملني إلى دار الهجرة , واعتق بلالا من ماله، رحم الله عمر يقول الحق , وإن كان مرا تركه الحق , وما له صديق، رحم الله عثمان تستحييه الملائكة، رحم الله عليا اللهم ادر الحق معه حيث دار ". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، والمختار بن نافع شيخ بصري كثير الغرائب، وابو حيان التيمي اسمه: يحيى بن سعيد بن حيان التيمي كوفي وهو ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَحِمَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ , وَحَمَلَنِي إِلَى دَارِ الْهِجْرَةِ , وَأَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ يَقُولُ الْحَقَّ , وَإِنْ كَانَ مُرًّا تَرَكَهُ الْحَقُّ , وَمَا لَهُ صَدِيقٌ، رَحِمَ اللَّهُ عُثْمَانَ تَسْتَحْيِيهِ الْمَلَائِكَةُ، رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ، وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ التَّيْمِيُّ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنی لڑکی سے میری شادی کر دی اور مجھے دارلہجرۃ (مدینہ) لے کر آئے اور بلال کو اپنے مال سے (خرید کر) آزاد کیا، اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے وہ حق بات کہتے ہیں، اگرچہ وہ کڑوی ہو، حق نے انہیں ایسے حال میں چھوڑا ہے کہ (اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ) ان کا کوئی دوست نہیں، اللہ عثمان پر رحم کرے ان سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں، اللہ علی پر رحم فرمائے، اے اللہ! حق کو ان کے ساتھ پھیر جہاں وہ پھریں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- مختار بن نافع کثیر الغرائب اور بصریٰ شیخ ہیں، ۳- ابوحیان تیمی کا نام یحییٰ بن سعید بن حیان تیمی ہے اور یہ کوفی ہیں اور ثقہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10107) (ضعیف) (سند میں مختار بن نافع ضعیف اور ساقط راوی ہیں، الضعیفة 2094)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، الضعيفة (2094)، المشكاة (6125) // ضعيف الجامع الصغير (3095) بأتم من هنا //
قال الشيخ زبير على زئي: (3714) إسناده ضعيف المختار بن نافع: ضعيف (تق:6525)
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن شريك، عن منصور، عن ربعي بن حراش، حدثنا علي بن ابي طالب، بالرحبة، قال: لما كان يوم الحديبية خرج إلينا ناس من المشركين فيهم سهيل بن عمرو، واناس من رؤساء المشركين، فقالوا: يا رسول الله خرج إليك ناس من ابنائنا , وإخواننا , وارقائنا وليس لهم فقه في الدين , وإنما خرجوا فرارا من اموالنا وضياعنا , فارددهم إلينا، قال: فإن لم يكن لهم فقه في الدين سنفقههم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا معشر قريش لتنتهن او ليبعثن الله عليكم من يضرب رقابكم بالسيف على الدين، قد امتحن الله قلبه على الإيمان "، قالوا: من هو يا رسول الله؟ فقال له ابو بكر: من هو يا رسول الله؟ وقال عمر: من هو يا رسول الله؟ قال: " هو خاصف النعل وكان اعطى عليا نعله يخصفها، ثم التفت إلينا علي "، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث ربعي عن علي، قال: وسمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول: لم يكذب ربعي بن حراش في الإسلام كذبة، واخبرني محمد بن إسماعيل، عن عبد الله بن ابي الاسود، قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: منصور بن المعتمر اثبت اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، بِالرَّحَبَةِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إِلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فِيهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَأُنَاسٌ مِنْ رُؤَسَاءِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ إِلَيْكَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا , وَإِخْوَانِنَا , وَأَرِقَّائِنَا وَلَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ , وَإِنَّمَا خَرَجُوا فِرَارًا مِنْ أَمْوَالِنَا وَضِيَاعِنَا , فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ بِالسَّيْفِ عَلَى الدِّينِ، قَدِ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ عَلَى الْإِيمَانِ "، قَالُوا: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَقَالَ عُمَرُ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ وَكَانَ أَعْطَى عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ "، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ رِبْعِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً، وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب رضی الله عنہ نے «رحبیہ»(مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا، حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے، ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آ کر کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آ گئے ہیں، انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں، آپ انہیں واپس کر دیجئیے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ قریش! تم اپنی نفسیانیت سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو بھیجے گا جو تمہاری گردنیں اسی دین کی خاطر تلوار سے اڑائے گا، اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے جانچ لیا ہے، لوگوں نے عرض کیا: وہ کون شخص ہے؟ اللہ کے رسول! اور آپ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی پوچھا: وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ اور عمر رضی الله عنہ نے بھی کہ وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: ”وہ جوتی ٹانکنے والا ہے، اور آپ نے علی رضی الله عنہ کو اپنا جوتا دے رکھا تھا، وہ اسے ٹانک رہے تھے، (راوی کہتے ہیں) پھر علی رضی الله عنہ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو میرے اوپر جھوٹ باندھے اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ربعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- میں نے جارود سے سنا وہ کہہ رہے تھے: میں نے وکیع کو کہتے ہوئے سنا کہ ربعی بن حراش نے اسلام میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا، ۳- اور مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبر دی اور وہ عبداللہ بن ابی اسود سے روایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو کہتے سنا: منصور بن معتمر اہل کوفہ میں سب سے ثقہ آدمی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجھاد 136 (2700)، وانظر أیضا حدیث رقم 2660 (تحفة الأشراف: 10088) (ضعیف الإسناد) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا آخری لفظ ”من کذب …“ دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر (2660، اور 2659، اور 2661)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، لكن الجملة الأخيرة منه صحيحة متواترة انظر الحديث (2796) // صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - (2141 / 2809)، وصحيح سنن النسائي - باختصار السند - 2141 - 2809) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3715) إسناده ضعيف / د 2700 شريك القاضي عنعن (تقدم:112) وجاء تصريح سماعه فى فضائل الصحابة لاحمد (1105) وسنده ضعيف جدًا ولبعض الحديث شواهد وقول منصور وقول وكيع صحيحان عنهما
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی سے فرمایا: ”تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور اس حدیث میں ایک واقعہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي، ولیس في بعض النسخ) (صحیح)»
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ابي هارون، عن ابي سعيد الخدري، قال: " إنا كنا لنعرف المنافقين نحن معشر الانصار ببغضهم علي بن ابي طالب ". قال ابو عيسى: هذا غريب، إنما نعرفه من حديث ابي هارون، وقد تكلم شعبة في ابي هارون , وقد روي هذا عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي هَارُونَ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم گروہ انصار، منافقوں کو علی رضی الله عنہ سے ان کے بغض رکھنے کی وجہ سے خوب پہچانتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور شعبہ نے ابوہارون کے سلسلہ میں کلام کیا ہے، ۲- یہ حدیث اعمش سے بھی روایت کی گئی ہے، جسے انہوں نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے۔
قال الشيخ الألباني: (حديث أبو سعيد) ضعيف الإسناد جدا، (حديث المساور الحميري عن أمه) ضعيف (حديث المساور الحميري عن أمه)، المشكاة (6091) // ضعيف الجامع الصغير (6330) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1/3717) إسناده ضعيف جدًا أبو هارون: متروك (تقدم:1950)
مساور حمیری اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی تو میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”علی سے کوئی منافق دوستی نہیں کرتا اور نہ کوئی مومن ان سے بغض رکھتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- عبداللہ بن عبدالرحمٰن سے مراد ابونصر وراق ہیں اور ان سے سفیان ثوری نے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4264) (ضعیف) (سند میں مساور حمیری اور اس کی ماں دونوں مجہول راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: (حديث أبو سعيد) ضعيف الإسناد جدا، (حديث المساور الحميري عن أمه) ضعيف (حديث المساور الحميري عن أمه)، المشكاة (6091) // ضعيف الجامع الصغير (6330) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3717 ب) سنده حسن مساور الحميري وأمه وثقهما الترمذي والحاكم (173/4 ح 7328) والذهبي فالسند حسن