(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي، حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن زيد هو ابن ابي انيسة، عن ابي إسحاق، عن ابي عبد الرحمن السلمي، قال: لما حصر عثمان اشرف عليهم فوق داره , ثم قال: اذكركم بالله هل تعلمون ان حراء حين انتفض، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثبت حراء فليس عليك إلا نبي , او صديق , او شهيد "، قالوا: نعم، قال: اذكركم بالله هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في جيش العسرة: " من ينفق نفقة متقبلة والناس مجهدون معسرون فجهزت ذلك الجيش "، قالوا: نعم، ثم قال: اذكركم بالله هل تعلمون ان بئر رومة لم يكن يشرب منها احد إلا بثمن فابتعتها , فجعلتها للغني , والفقير , وابن السبيل، قالوا: اللهم نعم، واشياء عددها. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب هذا الوجه من حديث ابي عبد الرحمن السلمي، عن عثمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ , ثُمَّ قَالَ: أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ حِرَاءَ حِينَ انْتَفَضَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ , أَوْ صِدِّيقٌ , أَوْ شَهِيدٌ "، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ: " مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً وَالنَّاسُ مُجْهَدُونَ مُعْسِرُونَ فَجَهَّزْتُ ذَلِكَ الْجَيْشَ "، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ بِئْرَ رُومَةَ لَمْ يَكُنْ يَشْرَبُ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُهَا , فَجَعَلْتُهَا لِلْغَنِيِّ , وَالْفَقِيرِ , وَابْنِ السَّبِيلِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، وَأَشْيَاءَ عَدَّدَهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ.
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ جب عثمان رضی الله عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے مکان کے کوٹھے سے جھانک کر بلوائیوں کو دیکھا پھر کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد دلاتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ حرا پہاڑ سے جس وقت وہ ہلا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”حرا ٹھہرے رہو! کیونکہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں؟“، ان لوگوں نے کہا: ہاں، پھر عثمان رضی الله عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد لاتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سلسلے میں فرمایا تھا: ”کون (اس غزوہ کا) خرچ دے گا جو اللہ کے نزدیک مقبول ہو گا (اور لوگ اس وقت پریشانی اور تنگی میں تھے)“ تو میں نے (خرچ دے کر) اس لشکر کو تیار کیا؟، لوگوں نے کہا: ہاں، پھر عثمان رضی الله عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر یاد دلاتا ہوں: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بئررومہ کا پانی بغیر قیمت کے کوئی پی نہیں سکتا تھا تو میں نے اسے خرید کر غنی، محتاج اور مسافر سب کے لیے وقف کر دیا؟، لوگوں نے کہا: ہاں، ہمیں معلوم ہے اور اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں انہوں نے گنوائیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوعبدالرحمٰن کی روایت سے جسے وہ عثمان سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 33 (تعلیقاً)، سنن النسائی/الاحباس 4 (3639) (تحفة الأشراف: 9814)، و مسند احمد (1/59) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں مذکور تینوں باتیں اسلام کی عظیم ترین خدمت ہیں جن کو عثمان رضی الله عنہ نے انجام دیئے، یہ آپ کی اسلام میں عظیم مقام و مرتبے کی بات ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو داود، حدثنا السكن بن المغيرة ويكنى ابا محمد مولى لآل عثمان، حدثنا الوليد بن ابي هشام، عن فرقد ابي طلحة، عن عبد الرحمن بن خباب، قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحث على جيش العسرة، فقام عثمان بن عفان فقال: يا رسول الله علي مائة بعير باحلاسها واقتابها في سبيل الله، ثم حض على الجيش، فقام عثمان بن عفان , فقال: يا رسول الله علي مائتا بعير باحلاسها , واقتابها في سبيل الله، ثم حض على الجيش، فقام عثمان بن عفان فقال: يا رسول الله علي ثلاث مائة بعير باحلاسها , واقتابها في سبيل الله، فانا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر وهو يقول: " ما على عثمان ما عمل بعد هذه ما على عثمان ما عمل بعد هذه ". قال ابو عيسى: هذا غريب هذا الوجه لا نعرفه إلا من حديث السكن بن المغيرة، وفي الباب عن عبد الرحمن بن سمرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَيُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ مَوْلًى لِآلِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ فَرْقَدٍ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحُثُّ عَلَى جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ مِائَةُ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا , وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ ثَلَاثُ مِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا , وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: " مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ السَّكَنِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ.
عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ ”اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف سکن بن مغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا الحسن بن واقع الرملي، حدثنا ضمرة بن ربيعة، عن عبد الله بن شوذب، عن عبد الله بن القاسم، عن كثير مولى عبد الرحمن بن سمرة، عن عبد الرحمن بن سمرة، قال: جاء عثمان إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالف دينار، قال الحسن بن واقع: وكان في موضع آخر من كتابي في كمه حين جهز جيش العسرة فينثرها في حجره، قال عبد الرحمن: فرايت النبي صلى الله عليه وسلم يقلبها في حجره ويقول: " ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم مرتين ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: جَاءَ عُثْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَلْفِ دِينَارٍ، قَالَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ: وَكَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِي فِي كُمِّهِ حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا فِي حِجْرِهِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَلِّبُهَا فِي حِجْرِهِ وَيَقُولُ: " مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے، (حسن بن واقع جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں: دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے)، جس وقت انہوں نے جیش عسرہ کو تیار کیا، اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھا اور یہ کہتے سنا کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا“، ایسا آپ نے دو بار فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو زرعة، حدثنا الحسن بن بشر، حدثنا الحكم بن عبد الملك، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ببيعة الرضوان كان عثمان بن عفان رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة، قال: فبايع الناس، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن عثمان في حاجة الله وحاجة رسوله "، فضرب بإحدى يديه على الاخرى، فكانت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم لعثمان خيرا من ايديهم لانفسهم. قال: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، قَالَ: فَبَايَعَ النَّاسَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِهِ "، فَضَرَبَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى، فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيهِمْ لِأَنْفُسِهِمْ. قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعت رضوان ۱؎ کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد بن کر اہل مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے، جب آپ نے لوگوں سے بیعت لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ جسے آپ نے عثمان کے لیے استعمال کیا لوگوں کے ہاتھوں سے بہتر تھا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1155) (ضعیف) (سند میں حکم بن عبد الملک ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: بیعت رضوان وہ بیعت ہے جو صلح حدیبیہ کے سال ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی، یہ بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ خبر اڑ گئی کہ کفار مکہ نے عثمان کو قتل کر دیا ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا ہے، اس پر سب لوگوں سے بیعت لی گئی کہ کفار مکہ سے اس پر جنگ کی جائے گی، سب لوگ اس عہد پر جمے رہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6065)
قال الشيخ زبير على زئي: (3702) إسناده ضعيف الحكم بن عبدالملك: ضعيف (تق:1451) وحديث أبى داود (2726) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، وعباس بن محمد الدوري، وغير واحد المعنى واحد، قالوا: حدثنا سعيد بن عامر، قال عبد الله: اخبرنا سعيد بن عامر، عن يحيى بن ابي الحجاج المنقري، عن ابي مسعود الجريري، عن ثمامة بن حزن القشيري، قال: شهدت الدار حين اشرف عليهم عثمان فقال: ائتوني بصاحبيكم اللذين الباكم علي، قال: فجيء بهما فكانهما جملان , او كانهما حماران، قال: فاشرف عليهم عثمان , فقال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة وليس بها ماء يستعذب غير بئر رومة، فقال: " من يشتري بئر رومة فيجعل دلوه مع دلاء المسلمين بخير له منها في الجنة؟ "، فاشتريتها من صلب مالي فانتم اليوم تمنعوني ان اشرب حتى اشرب من ماء البحر، قالوا: اللهم نعم، قال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان المسجد ضاق باهله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من يشتري بقعة آل فلان فيزيدها في المسجد بخير منها في الجنة " فاشتريتها من صلب مالي، فانتم اليوم تمنعوني ان اصلي فيها ركعتين، قالوا: اللهم نعم، قال: انشدكم بالله والإسلام، هل تعلمون اني جهزت جيش العسرة من مالي؟ قالوا: اللهم نعم، ثم قال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان على ثبير مكة ومعه ابو بكر , وعمر , وانا فتحرك الجبل حتى تساقطت حجارته بالحضيض، قال: فركضه برجله وقال: اسكن ثبير فإنما عليك نبي , وصديق , وشهيدان، قالوا: اللهم نعم، قال: الله اكبر شهدوا لي ورب الكعبة اني شهيد. قال ابو عيسى: هذا حسن وقد روي من غير وجه عن عثمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، وغير واحد المعنى واحد، قَالُوا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ الْمَنْقَرِيِّ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ: ائْتُونِي بِصَاحِبَيْكُمُ اللَّذَيْنِ أَلَّبَاكُمْ عَلَيَّ، قَالَ: فَجِيءَ بِهِمَا فَكَأَنَّهُمَا جَمَلَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا حِمَارَانِ، قَالَ: فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ , فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ، فَقَالَ: " مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلَ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ "، فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ " فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي، فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيضِ، قَالَ: فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ , وَصِدِّيقٌ , وَشَهِيدَانِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عُثْمَانَ.
ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان رضی الله عنہ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو عثمان رضی الله عنہ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئررومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟“، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟“، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے، پھر انہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر رضی الله عنہما تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ”ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی اور نہیں“، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور عثمان سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الصنعاني، ان خطباء قامت بالشام وفيهم رجال من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام آخرهم رجل يقال له: مرة بن كعب، فقال: لولا حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قمت، وذكر الفتن فقربها، فمر رجل مقنع في ثوب فقال: " هذا يومئذ على الهدى "، فقمت إليه , فإذا هو عثمان بن عفان، قال: فاقبلت عليه بوجهه , فقلت: هذا، قال: نعم. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وفي الباب عن ابن عمر، وعبد الله بن حوالة، وكعب بن عجرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، أَنَّ خُطَبَاءَ قَامَتْ بِالشَّامِ وَفِيهِمْ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ آخِرُهُمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ، فَقَالَ: لَوْلَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ، وَذَكَرَ الْفِتَنَ فَقَرَّبَهَا، فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ فَقَالَ: " هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الْهُدَى "، فَقُمْتُ إِلَيْهِ , فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ , فَقُلْتُ: هَذَا، قَالَ: نَعَمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوَالَةَ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ.
ابواشعث صنعانی سے روایت ہے کہ مقررین ملک شام میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بھی کچھ لوگ تھے، پھر سب سے آخر میں ایک شخص کھڑا ہوا جسے مرہ بن کعب رضی الله عنہ کہا جاتا تھا، اس نے کہا: اگر میں نے ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا، پھر انہوں نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کا ظہور قریب ہے، پھر ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو مرہ نے کہا: یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا: ”یہ اس دن ہدایت پر ہو گا“، تو میں اسے دیکھنے کے لیے اس کی طرف اٹھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ عثمان بن عفان رضی الله عنہ ہیں، پھر میں نے ان کا منہ مرہ کی طرف کر کے کہا: وہ یہی ہیں، انہوں نے کہا: ہاں وہ یہی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲- اس باب میں ابن عمر، عبداللہ بن حوالہ اور کعب بن عجرۃ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا ۱؎ پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا“، اس میں حدیث ایک طویل قصہ ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس کرتے سے مراد خلعت خلافت (خلافت کی چادر) ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیونکہ اس وقت تم حق پر قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے، اللہ کے رسول کے اسی فرمان کے پیش نظر عثمان رضی الله عنہ نے شہادت کا جام پی لیا۔ لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔
(مرفوع) حدثنا صالح بن عبد الله، حدثنا ابو عوانة، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، ان رجلا من اهل مصر حج البيت فراى قوما جلوسا فقال: من هؤلاء؟ قالوا: قريش، قال: فمن هذا الشيخ؟ قالوا: ابن عمر، فاتاه , فقال: إني سائلك عن شيء فحدثني انشدك الله بحرمة هذا البيت، اتعلم ان عثمان فر يوم احد؟ قال: نعم، قال: اتعلم انه تغيب عن بيعة الرضوان فلم يشهدها؟ قال: نعم، قال: اتعلم انه تغيب يوم بدر فلم يشهد؟ قال: نعم، قال: الله اكبر، فقال له ابن عمر: تعال ابين لك ما سالت عنه، اما فراره يوم احد فاشهد ان الله قد عفا عنه وغفر له، واما تغيبه يوم بدر فإنه كانت عنده , او تحته ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لك اجر رجل شهد بدرا وسهمه " , وامره ان يخلف عليها وكانت عليلة، واما تغيبه عن بيعة الرضوان فلو كان احد اعز ببطن مكة من عثمان لبعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم مكان عثمان، بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان إلى مكة وكانت بيعة الرضوان بعد ما ذهب عثمان إلى مكة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده اليمنى: " هذه يد عثمان " , وضرب بها على يده، فقال: " هذه لعثمان , قال له: " اذهب بهذا الآن معك ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالُوا: قُرَيْشٌ، قَالَ: فَمَنْ هَذَا الشَّيْخُ؟ قَالُوا: ابْنُ عُمَرَ، فَأَتَاهُ , فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ فَحَدِّثْنِي أَنْشُدُكَ اللَّهَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَ عَنْهُ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ , أَوْ تَحْتَهُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمُهُ " , وَأَمَرَهُ أَنْ يَخْلُفَ عَلَيْهَا وَكَانَتْ عَلِيلَةً، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَ عُثْمَانَ، بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ إِلَى مَكَّةَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: " هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ " , وَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ، فَقَالَ: " هَذِهِ لِعُثْمَانَ , قَالَ لَهُ: " اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی الله عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، تمہارے انہوں نے کہا: ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا ۱؎، اس پر ابن عمر رضی الله عنہما نے اس سے کہا: آؤ میں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کر دوں: رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا اور بخش دیا ہے ۳؎ اور رہی بدر کے دن، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ”تمہیں اس آدمی کے برابر ثواب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہو گا“، اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان رضی الله عنہ کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ عثمان کا ہاتھ ہے“، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ”یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے“، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے اس سے کہا: اب یہ جواب تو اپنے ساتھ لیتا جا۔
وضاحت: ۱؎: یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی الله عنہ سے بغض رکھتا تھا، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبر کہا، یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تو لوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔
۲؎: یہ اشارہ ہے غزوہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان میں عثمان رضی الله عنہ بھی تھے۔
۳؎: اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی «ولقد عفا الله عنهم إن الله غفور حليم»(سورة آل عمران: 155) پوری آیت اس طرح ہے «إن الذين تولوا منكم يوم التقى الجمعان إنما استزلهم الشيطان ببعض ما كسبوا ولقد عفا الله عنهم إن الله غفور حليم» یعنی: ”تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اور تحمل والا“(آل عمران: 155)۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا“(یہ بات آپ نے عثمان رضی الله عنہ کے متعلق کہی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔