(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، عن الشعبي، اخبرنا عدي بن حاتم، قال: لما نزلت حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر سورة البقرة آية 187، قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " إنما ذاك بياض النهار من سواد الليل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَخْبَرَنَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187، قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا ذَاكَ بَيَاضُ النَّهَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّيْلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اس سے مراد رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی (روشنی) کا نمودار ہو جانا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مجالد، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصوم، فقال: " حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود سورة البقرة آية 187 قال: فاخذت عقالين، احدهما ابيض، والآخر اسود، فجعلت انظر إليهما، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يحفظه سفيان، قال: إنما هو الليل والنهار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ: " حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187 قَالَ: فَأَخَذْتُ عِقَالَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَبْيَضُ، وَالْآخَرُ أَسْوَدُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمَا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ سُفْيَانُ، قَالَ: إِنَّمَا هُوَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: «حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود»”یہاں تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے“ تو میں نے دو ڈوریاں لیں۔ ایک سفید تھی دوسری کالی، میں انہیں کو دیکھ کر (سحری کے وقت ہونے یا نہ ہونے کا) فیصلہ کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کچھ باتیں کہیں (ابن ابی عمر کہتے ہیں: میرے استاد) سفیان انہیں یاد نہ رکھ سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے مراد رات اور دن ہے“۔
(موقوف) حدثنا حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الضحاك بن مخلد، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن ابي حبيب، عن اسلم ابي عمران التجيبي، قال: كنا بمدينة الروم فاخرجوا إلينا صفا عظيما من الروم، فخرج إليهم من المسلمين مثلهم او اكثر، وعلى اهل مصر عقبة بن عامر، وعلى الجماعة فضالة بن عبيد، فحمل رجل من المسلمين على صف الروم حتى دخل فيهم، فصاح الناس وقالوا: سبحان الله يلقي بيديه إلى التهلكة، فقام ابو ايوب الانصاري، فقال: " يا ايها الناس، إنكم تتاولون هذه الآية هذا التاويل، وإنما انزلت هذه الآية فينا معشر الانصار لما اعز الله الإسلام وكثر ناصروه، فقال: بعضنا لبعض سرا دون رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اموالنا قد ضاعت وإن الله قد اعز الإسلام وكثر ناصروه فلو اقمنا في اموالنا فاصلحنا ما ضاع منها، فانزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم يرد علينا ما قلنا: وانفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بايديكم إلى التهلكة سورة البقرة آية 195 فكانت التهلكة الإقامة على الاموال وإصلاحها وتركنا الغزو فما زال ابو ايوب شاخصا في سبيل الله حتى دفن بارض الروم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ، قَالَ: كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَكْثَرُ، وَعَلَى أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى صَفِّ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ، فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ، فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ، وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، فَقَالَ: بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 فَكَانَتِ التَّهْلُكَةُ الْإِقَامَةَ عَلَى الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْكَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
اسلم ابوعمران تجیبی کہتے ہیں کہ ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر رضی الله عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے (حمایتی) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا: «وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة»”اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو“(البقرہ: ۱۹۵)، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا هشيم، اخبرنا مغيرة، عن مجاهد، قال: قال كعب بن عجرة: " والذي نفسي بيده لفي انزلت هذه الآية وإياي عنى بها فمن كان منكم مريضا او به اذى من راسه ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية ونحن محرمون، وقد حصرنا المشركون وكانت لي وفرة فجعلت الهوام تساقط على وجهي، فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كان هوام راسك تؤذيك، قال: قلت: نعم، قال: فاحلق، ونزلت هذه الآية "، قال مجاهد: الصيام ثلاثة ايام، والطعام لستة مساكين، والنسك شاة فصاعدا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَفِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِيَّايَ عَنَى بِهَا فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِكُونَ وَكَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتِ الْهَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلَى وَجْهِي، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَأَنَّ هَوَامَّ رَأْسِكَ تُؤْذِيكَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، قَالَ مُجَاهِدٌ: الصِّيَامُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَالطَّعَامُ لِسِتَّةِ مَسَاكِينَ، وَالنُّسُكُ شَاةٌ فَصَاعِدًا ".
مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی الله عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك»”البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے“(البقرہ: ۱۹۶)، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس سے ہوا (ہمیں دیکھ کر) آپ نے فرمایا: ”لگتا ہے تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”سر لو مونڈ ڈالو“، پھر یہ آیت (مذکورہ) اتری۔ مجاہد کہتے ہیں: روزے تین دن ہیں، کھانا چھ مسکینوں ۱؎ کو کھلانا ہے۔ اور قربانی (کم از کم) ایک بکری، اور اس سے زیادہ بھی ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن كعب بن عجرة، قال: " اتى علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اوقد تحت قدر والقمل يتناثر على جبهتي، او قال: حاجبي، فقال: اتؤذيك هوام راسك، قال: قلت: نعم، قال: فاحلق راسك وانسك نسيكة، او صم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين، قال ايوب: لا ادري بايتهن بدا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: " أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى جَبْهَتِي، أَوْ قَالَ: حَاجِبَيَّ، فَقَالَ: أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ رَأْسَكَ وَانْسُكْ نَسِيكَةً، أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، قَالَ أَيُّوبُ: لَا أَدْرِي بِأَيَّتِهِنَّ بَدَأَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میری پیشانی یا بھوؤں پر بکھر رہی تھیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”اپنا سر مونڈ ڈالو اور بدلہ میں قربانی کر دو، یا تین دن روزہ رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو“۔ ایوب (راوی) کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں رہا کہ (میرے استاذ نے) کون سی چیز پہلے بتائی۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن سفيان الثوري، عن بكير بن عطاء، عن عبد الرحمن بن يعمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الحج عرفات الحج عرفات الحج عرفات، ايام منى ثلاث، فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تاخر فلا إثم عليه سورة البقرة آية 203، ومن ادرك عرفة قبل ان يطلع الفجر فقد ادرك الحج "، قال ابن ابي عمر، قال سفيان بن عيينة: وهذا اجود حديث رواه 63 الثوري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ورواه شعبة، عن بكير بن عطاء، ولا نعرفه إلا من حديث بكير بن عطاء.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ سورة البقرة آية 203، وَمَنْ أَدْرَكَ عَرَفَةَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ "، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ 63 الثَّوْرِيُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ.
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے، منیٰ (میں قیام) کے دن تین ہیں۔ مگر جو جلدی کر کے دو دنوں ہی میں واپس ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو تین دن پورے کر کے گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۲؎ اور جو طلوع فجر سے پہلے عرفہ پہنچ گیا، اس نے حج کو پا لیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ نے کہا: یہ ثوری کی سب سے عمدہ حدیث ہے، جسے انہوں نے روایت کی ہے، ۳- اسے شعبہ نے بھی بکیر بن عطاء سے روایت کیا ہے، ۴- اس حدیث کو ہم صرف بکیر بن عطاء کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 889 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں ارشاد باری تعالیٰ: «واذكروا الله في أيام معدودات فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه» کی طرف اشارہ ہے (البقرہ: ۲۰۳)۔
۲؎: یعنی: بارہ ذی الحجہ ہی کو رمی جمار کر کے واپس ہو جائے یا تین دن مکمل قیام کر کے تیرہ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی (کنکری مار) کر کے واپس ہو جائے حاجی کو اختیار ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابغض الرجال إلى الله الالد الخصم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ اشارہ ہے ارشاد باری: «ومن الناس من يعجبك قوله في الحياة الدنيا ويشهد الله على ما في قلبه وهو ألد الخصام»(البقرہ: ۲۰۴) کی طرف، یعنی ”لوگوں میں سے بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی بات آپ کو اچھی لگے گی جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ جو اس کے دل میں ہے گواہ بنا رہا ہوتا ہے، حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہوتا ہے“۔