(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن خيثمة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، انه مر على قاص يقرا، ثم سال فاسترجع، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من قرا القرآن فليسال الله به فإنه سيجيء اقوام يقرءون القرآن يسالون به الناس "، وقال محمود: وهذا خيثمة البصري الذي روى عنه جابر الجعفي، وليس هو خيثمة بن عبد الرحمن، وخيثمة هذا شيخ بصري يكنى ابا نصر قد روى عن انس بن مالك احاديث، وقد روى جابر الجعفي عن خيثمة هذا ايضا احاديث، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن ليس إسناده بذاك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّهُ مَرَّ عَلَى قَاصٍّ يَقْرَأُ، ثُمَّ سَأَلَ فَاسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْيَسْأَلِ اللَّهَ بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ "، وَقَالَ مَحْمُودٌ: وَهَذَا خَيْثَمَةُ الْبَصْرِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْهُ جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، وَلَيْسَ هُوَ خَيْثَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَخَيْثَمَةُ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ يُكْنَى أَبَا نَصْرٍ قَدْ رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَحَادِيثَ، وَقَدْ رَوَى جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ خَيْثَمَةَ هَذَا أَيْضًا أَحَادِيثَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ رہا تھا (پڑھ کر) وہ مانگنے لگا۔ تو انہوں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے جو قرآن پڑھے تو اسے اللہ ہی سے مانگنا چاہیئے۔ کیونکہ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند ویسی قوی نہیں ہے، ۲- محمود بن غیلان کہتے ہیں: یہ خیثمہ بصریٰ ہیں جن سے جابر جعفی نے روایت کی ہے۔ یہ خیثمہ بن عبدالرحمٰن نہیں ہیں۔ اور خیثمہ شیخ بصریٰ ہیں ان کی کنیت ابونصر ہے اور انہوں نے انس بن مالک سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور جابر جعفی نے بھی خیثمہ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10795)، وانظر مسند احمد (4/432، 436، 439) (حسن) (سند میں کلام ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم 257)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (257)
قال الشيخ زبير على زئي: (2917) إسناده ضعيف سليمان الاعمش والحسن البصيري عنعنا (تقدما: 169،21) وفيه علة أخري
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل الواسطي، حدثنا وكيع، حدثنا ابو فروة يزيد بن سنان، عن ابي المبارك، عن صهيب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما آمن بالقرآن من استحل محارمه "، قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بالقوي، وقد خولف وكيع في روايته، وقال محمد ابو فروة: يزيد بن سنان الرهاوي ليس بحديثه باس إلا رواية ابنه محمد عنه فإنه يروي عنه مناكير، قال ابو عيسى: وقد روى محمد بن يزيد بن سنان، عن ابيه هذا الحديث فزاد في هذا الإسناد عن مجاهد، عن سعيد بن المسيب، عن صهيب، ولا يتابع محمد بن يزيد على روايته وهو ضعيف، وابو المبارك رجل مجهول.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ، عَنْ أَبِي الْمُبَارَكِ، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَقَدْ خُولِفَ وَكِيعٌ فِي رِوَايَتِهِ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ أَبُو فَرْوَةَ: يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ الرُّهَاوِيُّ لَيْسَ بِحَدِيثِهِ بَأْسٌ إِلَّا رِوَايَةَ ابْنِهِ مُحَمَّدٍ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَرْوِي عَنْهُ مَنَاكِيرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ هَذَا الْحَدِيثَ فَزَادَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ صُهَيْبٍ، وَلَا يُتَابَعُ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ عَلَى رِوَايَتِهِ وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَأَبُو الْمُبَارَكِ رَجُلٌ مَجْهُولٌ.
صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال جانا وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے، وکیع کی روایت میں وکیع سے اختلاف کیا گیا ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابوفروہ کہتے ہیں: یزید بن سنان رہاوی کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سوائے اس روایت کے جسے ان کے بیٹے محمد ان سے روایت کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ ان سے مناکیر روایت کرتے ہیں، ۳- محمد بن یزید بن سنان نے اپنے باپ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے اور اس کی سند میں اتنا اضافہ کیا ہے: «عن مجاهد عن سعيد بن المسيب عن صهيب» محمد بن یزید کی روایت کی کسی نے متابعت نہیں کی، وہ ضعیف ہیں، اور ابوالمبارک ایک مجہول شخص ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن كثير بن مرة الحضرمي، عن عقبة بن عامر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة، والمسر بالقرآن كالمسر بالصدقة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ومعنى هذا الحديث: ان الذي يسر بقراءة القرآن افضل من الذي يجهر بقراءة القرآن، لان صدقة السر افضل عند اهل العلم من صدقة العلانية، وإنما معنى هذا عند اهل العلم لكي يامن الرجل من العجب لان الذي يسر العمل، لا يخاف عليه العجب ما يخاف عليه من علانيته.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ الَّذِي يُسِرُّ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَجْهَرُ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، لِأَنَّ صَدَقَةَ السِّرِّ أَفْضَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ صَدَقَةِ الْعَلَانِيَةِ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِكَيْ يَأْمَنَ الرَّجُلُ مِنَ الْعُجْبِ لِأَنَّ الَّذِي يُسِرُّ الْعَمَلَ، لَا يُخَافُ عَلَيْهِ الْعُجْبُ مَا يُخَافُ عَلَيْهِ مِنْ عَلَانِيَتِهِ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا کھلے عام صدقہ دینے والا، اور آہستگی و خاموشی سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چھپا کر صدقہ دینے والا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس حدیث کا معنی و مطلب یہ ہے کہ جو شخص آہستگی سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے، اس لیے کہ اہل علم کے نزدیک چھپا کر صدقہ دینا برسر عام صدقہ دینے سے افضل ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اہل علم کے نزدیک اس سے آدمی عجب (خود نمائی) سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ جو شخص چھپا کر عمل کرتا ہے اس کے عجب میں پڑنے کا اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اس کے کھلے عام عمل کرنے میں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 315 (1333)، سنن النسائی/قیام اللیل 24 (1664)، والزکاة 68 (2560) (تحفة الأشراف: 9949)، و مسند احمد (4/151، 158) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2202 / التحقيق الثاني)، صحيح أبي داود (1204)
(موقوف) حدثنا حدثنا صالح بن عبد الله، حدثنا حماد بن زيد، عن ابي لبابة، قال: قالت عائشة " كان النبي صلى الله عليه وسلم لا ينام على فراشه حتى يقرا بني إسرائيل، والزمر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وابو لبابة شيخ بصري، قد روى عنه حماد بن زيد غير حديث ويقال اسمه مروان، اخبرني بذلك محمد بن إسماعيل في كتاب التاريخ.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي لُبَابَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنَامُ عَلَى فِرَاشِهِ حَتَّى يَقْرَأَ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَالزُّمَرَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو لُبَابَةَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ، قَدْ رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ غَيْرَ حَدِيثٍ وَيُقَالُ اسْمُهُ مَرْوَانُ، أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل فِي كِتَابِ التَّارِيخِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الزمر پڑھ نہ لیتے بستر پر سوتے نہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابولبابہ ایک بصریٰ شیخ ہیں، حماد بن زید نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کا نام مروان ہے، یہ بات مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے کتاب التاریخ میں بتائی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 205 (712)، ویأتي عند المؤلف في الدعوات (برقم 3405) (تحفة الأشراف: 17601) (صحیح)»
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے مسبحات پڑھتے تھے ۱؎ آپ فرماتے تھے: ”ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 107 (5057) (تحفة الأشراف: 9888) (ضعیف) (سند میں بقیة بن الولید مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز عبد اللہ بن أبی بلال الخزاعی الشامی مقبول عندالمتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں اس لیے ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: مسبحات وہ سورتیں ہیں جو سبحان اللہ، سبح اور یسبح سے شروع ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں: بنی اسرائیل، الحدید، الحشر، الجمعہ، الصف، التغابن، اور الاعلیٰ۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا خالد بن طهمان ابو العلاء الخفاف، حدثني نافع بن ابي نافع، عن معقل بن يسار، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال حين يصبح ثلاث مرات اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم، وقرا ثلاث آيات من آخر سورة الحشر، وكل الله به سبعين الف ملك يصلون عليه حتى يمسي، وإن مات في ذلك اليوم مات شهيدا، ومن قالها حين يمسي، كان بتلك المنزلة "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ الْخَفَّافُ، حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي نَافِعٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، وَقَرَأَ ثَلَاثَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ، وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَاتَ شَهِيدًا، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي، كَانَ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
معقل بن یسار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صبح کے وقت «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» تین بار پڑھے، اور تین بار سورۃ الحشر کی آخری تین آیتیں پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت مانگنے کے لیے ستر ہزار فرشتے لگا دیتا ہے جو شام تک یہی کام کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسے دن میں مر جاتا ہے تو شہید ہو کر مرتا ہے، اور جو شخص ان کلمات کو شام کے وقت کہے گا وہ بھی اسی درجہ میں ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11478) (ضعیف جدا) (سند میں موجود نافع بن ابی نافع دراصل نفیع ابوداود الاعمی ہے، جو متروک ہے، بلکہ ابن معین نے تکذیب کی ہے، ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (342)، التعليق الرغيب (2 / 225) // ضعيف الجامع الصغير (5732) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2922) إسناده ضعيف خالد بن طهمان اختلط ولم يثبت أنه حدث به قبل اختلاطه (تقدم:2482)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، انه سال ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم عن قراءة النبي صلى الله عليه وسلم وصلاته، فقالت: ما لكم وصلاته، " كان يصلي ثم ينام قدر ما صلى، ثم يصلي قدر ما نام، ثم ينام قدر ما صلى حتى يصبح، ثم نعتت قراءته فإذا هي تنعت قراءة مفسرة حرفا حرفا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث ليث بن سعد، عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام سلمة، وقد روى ابن جريج هذا الحديث عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان يقطع قراءته "، وحديث ليث اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَاتِهِ، فَقَالَتْ: مَا لَكُمْ وَصَلَاتَهُ، " كَانَ يُصَلِّي ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى، ثُمَّ يُصَلِّي قَدْرَ مَا نَامَ، ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى حَتَّى يُصْبِحَ، ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ "، وَحَدِيثُ لَيْثٍ أَصَحُّ.
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے، انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور آپ کی قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: تمہارا اور آپ کی نماز کا کیا جوڑ؟ آپ نماز پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے، پھر نماز پڑھتے تھے اسی قدر جتنی دیر سوئے ہوئے ہوتے، پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے آپ کے قرأت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طور پر ایک ایک حرف حرف کر کے بیان کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ہم صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک کے واسطہ سے ام سلمہ سے روایت کی، ۳- ابن جریج نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا ہر حرف جدا جدا ہوتا تھا، ۴- لیث کی حدیث (ابن جریج کی حدیث سے) زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 355 (1466) (تحفة الأشراف: 18226) (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک ضعیف ہیں، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث ثابت ہے، دیکھیے آگے حدیث رقم 2927)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (260) // (316 / 1466) //، المشكاة (1210 / التحقيق الثاني)، // ضعيف سنن النسائي برقم (46 / 1022، 100 / 1629) //
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن ابي قيس هو رجل بصري، قال: سالت عائشة عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف كان يوتر من اول الليل او من آخره؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يصنع، ربما اوتر من اول الليل وربما اوتر من آخره، فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، فقلت: كيف كانت قراءته؟ اكان يسر بالقراءة ام يجهر؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، قد كان ربما اسر وربما جهر، قال: فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: فكيف كان يصنع في الجنابة؟ اكان يغتسل قبل ان ينام او ينام قبل ان يغتسل؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، فربما اغتسل فنام وربما توضا فنام، قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِهِ؟ فَقَالَتْ: " كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ، رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ؟ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ؟ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ، قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن ابی قیس بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یا آخری حصے میں؟ انہوں نے کہا: آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: الحمدللہ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت و کشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آواز سے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا: الحمدللہ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت و کشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا: آپ جب جنبی ہو جاتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کیا سونے سے پہلے غسل کر لیتے تھے یا غسل کیے بغیر سو جاتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام ہی کرتے تھے، کبھی تو آپ غسل کر لیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کر کے سو جاتے، میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت و کشادگی رکھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 449 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (222 - 1291)
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «موقف»(عرفات) میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتے تھے: ”ہے کوئی جو مجھے اپنی قوم میں لے چلے، کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام (قرآن) کی تبلیغ سے روک دیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 22 (4734)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (201) (تحفة الأشراف: 2241) (صحیح)»
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: جس کو قرآن نے میری یاد نے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا۔ میں اسے اس سے زیادہ دوں گا جتنا میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں، اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے سارے کلام پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی اپنی ساری مخلوقات پر ہے“۔