(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عبيد الله بن عمر، عن ثابت البناني، عن انس بن مالك، قال: كان رجل من الانصار يؤمهم في مسجد قباء، فكان كلما افتتح سورة يقرا لهم في الصلاة فقرا بها افتتح ب قل هو الله احد حتى يفرغ منها، ثم يقرا بسورة اخرى معها، وكان يصنع ذلك في كل ركعة، فكلمه اصحابه فقالوا: إنك تقرا بهذه السورة ثم لا ترى انها تجزيك حتى تقرا بسورة اخرى، فإما ان تقرا بها وإما ان تدعها وتقرا بسورة اخرى، قال: ما انا بتاركها، إن احببتم ان اؤمكم بها فعلت، وإن كرهتم تركتكم، وكانوا يرونه افضلهم وكرهوا ان يؤمهم غيره، فلما اتاهم النبي صلى الله عليه وسلم اخبروه الخبر فقال: " يا فلان، ما يمنعك مما يامر به اصحابك وما يحملك ان تقرا هذه السورة في كل ركعة "، فقال: يا رسول الله، إني احبها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن حبها ادخلك الجنة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح من هذا الوجه من حديث عبيد الله بن عمر، عن ثابت.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ، فَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ لَهُمْ فِي الصَّلَاةِ فَقَرَأَ بِهَا افْتَتَحَ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ثُمَّ يَقْرَأُ بِسُورَةٍ أُخْرَى مَعَهَا، وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، فَكَلَّمَهُ أَصْحَابُهُ فَقَالُوا: إِنَّكَ تَقْرَأُ بِهَذِهِ السُّورَةِ ثُمَّ لَا تَرَى أَنَّهَا تُجْزِيكَ حَتَّى تَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَى، فَإِمَّا أَنْ تَقْرَأَ بِهَا وَإِمَّا أَنْ تَدَعَهَا وَتَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَى، قَالَ: مَا أَنَا بِتَارِكِهَا، إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ أَؤُمَّكُمْ بِهَا فَعَلْتُ، وَإِنْ كَرِهْتُمْ تَرَكْتُكُمْ، وَكَانُوا يَرَوْنَهُ أَفْضَلَهُمْ وَكَرِهُوا أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ، فَلَمَّا أَتَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ فَقَالَ: " يَا فُلَانُ، مَا يَمْنَعُكَ مِمَّا يَأْمُرُ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ أَنْ تَقْرَأَ هَذِهِ السُّورَةَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُحِبُّهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ حُبَّهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ثَابِتٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مسجد قباء میں ایک انصاری شخص ان کی امامت کرتا تھا، اور اس کی عادت یہ تھی کہ جب بھی وہ ارادہ کرتا کہ کوئی سورت نماز میں پڑھے تو اسے پڑھتا لیکن اس سورت سے پہلے «قل هو الله أحد» پوری پڑھتا، پھر اس کے ساتھ دوسری سورت پڑھتا، اور وہ یہ عمل ہر رکعت میں کرتا تھا۔ تو اس کے ساتھیوں (نمازیوں) نے اس سے (اس موضوع پر) بات کی، انہوں نے کہا: آپ یہ سورت پڑھتے ہیں پھر آپ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو آپ کے لیے کافی نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری سورت (بھی) پڑھتے ہیں، تو آپ یا تو صرف اسے پڑھیں، یا اسے چھوڑ دیں اور کوئی دوسری سورت پڑھیں، تو انہوں نے کہا: میں اسے چھوڑنے والا نہیں، اگر آپ لوگ پسند کریں کہ میں اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ امامت کروں تو امامت کروں گا اور اگر آپ لوگ اس کے ساتھ امامت کرنا پسند نہیں کرتے تو میں آپ لوگوں (کی امامت) کو چھوڑ دوں گا۔ اور لوگوں کا حال یہ تھا کہ انہیں اپنوں میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور ناپسند کرتے تھے کہ ان کے سوا کوئی دوسرا ان کی امامت کرے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے فرمایا: ”اے فلاں! تمہارے ساتھی جو بات کہہ رہے ہیں، اس پر عمل کرنے سے تمہیں کیا چیز روک رہی ہے اور تمہیں کیا چیز مجبور کر رہی ہے کہ ہر رکعت میں تم اس سورت کو پڑھو؟“، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اسے پسند کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے اور یہ عبیداللہ بن عمر کی روایت سے ہے جسے وہ ثابت سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 106 (774/م) (تعلیقاً بقولہ: قال عبید اللہ بن عمر، عن ثابت، عن أنس) (تحفة الأشراف: 457) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 224)، صفة الصلاة (85)
(مرفوع) وروى مبارك بن فضالة، عن ثابت، عن انس، ان رجلا، قال: يا رسول الله، إني احب هذه السورة " قل هو الله احد " فقال: " إن حبك إياها يدخلك الجنة "، حدثنا بذلك ابو داود سليمان بن الاشعث، حدثنا ابو الوليد، حدثنا مبارك بن فضالة، بهذا.(مرفوع) وَرَوَى مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " فَقَالَ: " إِنَّ حُبَّكَ إِيَّاهَا يُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، بِهَذَا.
انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس سورت کو پسند کرتا ہوں یعنی «قل هو الله أحد» کو آپ نے فرمایا: ”تمہاری اس کی یہی محبت و چاہت ہی تو تمہیں جنت میں پہنچائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 464/الف) (صحیح) (سند میں مبارک بن فضالہ تدلیس تسویہ کیا کرتے تھے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 224)، صفة الصلاة (85)
12. باب مَا جَاءَ فِي الْمُعَوِّذَتَيْنِ
12. باب: معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کی فضیلت کا بیان۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، اخبرني قيس بن ابي حازم، عن عقبة بن عامر الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قد انزل الله علي آيات لم ير مثلهن قل اعوذ برب الناس إلى آخر السورة و قل اعوذ برب الفلق إلى آخر السورة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو حازم ابو قيس بن حازم يسمى عبد عوف، وقد راى النبي وروى عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، أَخْبَرَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ آيَاتٍ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَازِمٍ أَبُو قَيْسٍ بْنِ حَازِمٍ يُسَمَّى عَبْدُ عَوْفٍ، وَقَدْ رَأَى النَّبِيِّ وَرَوَى عَنْهُ.
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل کی ہیں جیسی (کبھی) نہیں دیکھی گئی ہیں، وہ یہ ہیں: «قل أعوذ برب الناس» آخر سورۃ تک اور «قل أعوذ برب الفلق» آخر سورۃ تک“۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا شعبة، وهشام، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الذي يقرا القرآن وهو ماهر به مع السفرة الكرام البررة، والذي يقرؤه " قال هشام: " وهو شديد عليه "، قال شعبة: " وهو عليه شاق، فله اجران "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَهِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ مَاهِرٌ بِهِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ " قَالَ هِشَامٌ: " وَهُوَ شَدِيدٌ عَلَيْهِ "، قَالَ شُعْبَةُ: " وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، فَلَهُ أَجْرَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنے میں مہارت رکھتا ہے وہ بزرگ پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے پڑھ پاتا ہے، پڑھنا اسے بہت شاق گزرتا ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر 79 (4937)، صحیح مسلم/المسافرین 38 (798)، سنن ابی داود/ الصلاة 349 (1454)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3779) (تحفة الأشراف: 16102)، و مسند احمد (6/48، 94، 110، 192)، وسنن الدارمی/فضائل القرآن 11 (3411) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قرآن پڑھنے میں مہارت رکھنے والا ہو یعنی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ قرآن کو تجوید اور اچھی آواز سے پڑھنے والا ہو، ایسا شخص نیکوکار بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو مشقت کے ساتھ اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے قرآن پڑھنے کا ذوق و شوق ہے تو اسے اس مشقت کی وجہ سے دگنا اجر ملے گا۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا حفص بن سليمان، عن كثير بن زاذان، عن عاصم بن ضمرة، عن علي بن ابي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قرا القرآن واستظهره فاحل حلاله وحرم حرامه ادخله الله به الجنة، وشفعه في عشرة من اهل بيته كلهم قد وجبت له النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وليس إسناده بصحيح وحفص بن سليمان يضعف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ وَحَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس کی سند صحیح نہیں ہے، ۳- حفص بن سلیمان حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (216) (تحفة الأشراف: 10146) (ضعیف جداً) (سند میں حفص بن سلیمان ابو عمر قاری کوفی صاحب عاصم ابن ابی النجود قراءت میں امام ہیں، اور حدیث میں متروک)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (216) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (38)، المشكاة (2141)، ضعيف الجامع الصغير (5761) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2905) إسناده ضعيف جدًا / جه 216 حفص بن سليمان: متروك الحديث مع إمامته فى القراءة وشيخه كثير بن زاذان مجهول (تق: 1405،5609) وقال الهيثمى فى حفص بن سليمان: وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 163/10)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا حسين بن علي الجعفي، قال: سمعت حمزة الزيات، عن ابي المختار الطائي، عن ابن اخي الحارث الاعور، عن الحارث، قال: مررت في المسجد فإذا الناس يخوضون في الاحاديث، فدخلت على علي، فقلت: يا امير المؤمنين، الا ترى ان الناس قد خاضوا في الاحاديث، قال: وقد فعلوها؟، قلت: نعم، قال: اما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الا إنها ستكون فتنة، فقلت: ما المخرج منها يا رسول الله؟ قال: كتاب الله فيه نبا ما كان قبلكم، وخبر ما بعدكم، وحكم ما بينكم، وهو الفصل ليس بالهزل، من تركه من جبار قصمه الله، ومن ابتغى الهدى في غيره اضله الله، وهو حبل الله المتين، وهو الذكر الحكيم، وهو الصراط المستقيم، هو الذي لا تزيغ به الاهواء ولا تلتبس به الالسنة، ولا يشبع منه العلماء ولا يخلق على كثرة الرد، ولا تنقضي عجائبه، هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا: إنا سمعنا قرءانا عجبا {1} يهدي إلى الرشد سورة الجن آية 1 ـ 2، من قال به صدق، ومن عمل به اجر، ومن حكم به عدل، ومن دعا إليه هدى إلى صراط مستقيم " خذها إليك يا اعور، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وإسناده مجهول وفي الحارث مقال.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، قَال: سَمِعْتُ حَمْزَةَ الزَّيَّاتَ، عَنْ أَبِي الْمُخْتَارِ الطَّائِيِّ، عَنِ ابْنِ أَخِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَرَرْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِي الْأَحَادِيثِ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِيٍّ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تَرَى أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِي الْأَحَادِيثِ، قَالَ: وَقَدْ فَعَلُوهَا؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ، فَقُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ، وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ، مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ، وَمَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ، وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ، وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ، وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ، هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ، وَلَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ، وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ، هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا {1} يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ سورة الجن آية 1 ـ 2، مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ، وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ " خُذْهَا إِلَيْكَ يَا أَعْوَرُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ وَفِي الْحَارِثِ مَقَالٌ.
حارث اعور کہتے ہیں کہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں علی رضی الله عنہ کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: مگر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا“، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو (خواہ کتنا ہی اسے پڑھیں) آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا (اور بے مزہ) نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی (و قیمتی) باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب (انوکھا) قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس کی سند مجہول ہے، ۳- حارث کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10057) (ضعیف) (سند میں حارث الأعور ضعیف راوی ہے، اور ابن أخی الحارث مجہول)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2138 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (2906) إسناده ضعيف الحارث الأعور:ضعيف (تقدم:282)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، انبانا شعبة، اخبرني علقمة بن مرثد، قال: سمعت سعد بن عبيدة يحدث، عن ابي عبد الرحمن، عن عثمان بن عفان، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " خيركم من تعلم القرآن وعلمه "، قال ابو عبد الرحمن: فذاك الذي اقعدني مقعدي هذا، وعلم القرآن في زمن عثمان حتى بلغ الحجاج بن يوسف، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ "، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَذَاكَ الَّذِي أَقْعَدَنِي مَقْعَدِي هَذَا، وَعَلَّمَ الْقُرْآنَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ حَتَّى بَلَغَ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے“، ابوعبدالرحمٰن سلمی (راوی حدیث) کہتے ہیں: یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے اپنی اس نشست گاہ (مسند) پر بٹھا رکھا ہے، عثمان کے زمانہ میں قرآن کی تعلیم دینی شروع کی (اور دیتے رہے) یہاں تک حجاج بن یوسف کے زمانہ میں یہ سلسلہ چلتا رہا“۔
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر یا تم میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن مہدی اور کئی دوسروں نے اسی طرح بسند «سفيان الثوري عن علقمة بن مرثد عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۳- سفیان اس کی سند میں سعد بن عبیدہ کا ذکر نہیں کرتے ہیں، ۴- یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث بسند «سفيان وشعبة عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی۔ ہم سے بیان کیا اسے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید نے سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے۔
(مرفوع) حدثنا بذلك محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، وشعبة، قال محمد بن بشار: وهكذا ذكره يحيى بن سعيد، عن سفيان، وشعبة غير مرة، عن علقمة بن مرثد، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن، عن عثمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال محمد بن بشار، واصحاب سفيان لا يذكرون فيه، عن سفيان، عن سعد بن عبيدة، قال محمد بن بشار، وهو اصح، قال ابو عيسى: وقد زاد شعبة في إسناد هذا الحديث سعد بن عبيدة، وكان حديث سفيان اصح، قال علي بن عبد الله، قال يحيى بن سعيد: ما احد يعدل عندي شعبة، وإذا خالفه سفيان اخذت بقول سفيان، قال ابو عيسى: سمعت ابا عمار يذكر، عن وكيع، قال: قال شعبة: سفيان احفظ مني، وما حدثني سفيان عن احد بشيء فسالته إلا وجدته كما حدثني، وفي الباب، عن علي وسعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةَ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: وَهَكَذَا ذَكَرَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةَ غير مرة، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَصْحَابُ سُفْيَانَ لَا يَذْكُرُونَ فِيهِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَهُوَ أَصَحُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ زَادَ شُعْبَةُ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ، وَكَأَنَّ حَدِيثَ سُفْيَانَ أَصَحُّ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا أَحَدٌ يَعْدِلُ عِنْدِي شُعْبَةَ، وَإِذَا خَالَفَهُ سُفْيَانُ أَخَذْتُ بِقَوْلِ سُفْيَانَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ يَذْكُرُ، عَنْ وَكِيعٍ، قَالَ: قَالَ شُعْبَةُ: سُفْيَانُ أَحْفَظُ مِنِّي، وَمَا حَدَّثَنِي سُفْيَانُ عَنْ أَحَدٍ بِشَيْءٍ فَسَأَلْتُهُ إِلَّا وَجَدْتُهُ كَمَا حَدَّثَنِي، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ وَسَعْدٍ.
محمد بن بشار کہتے ہیں: ایسا ہی یحییٰ بن سعید نے اس روایت کو سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے، ایک نہیں کئی بار ذکر کیا، اور ان دونوں نے بسند «عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی، ۶- محمد بن بشار کہتے ہیں: اصحاب سفیان اس روایت میں «عن سفيان عن سعد بن عبيدة» کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ محمد بن بشار کہتے ہیں۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے، ۷- شعبہ نے اس حدیث کی سند میں سعد بن عبیدہ کا اضافہ کیا ہے تو ان سفیان کی حدیث (جو شعبہ کے ہم سبق ہیں) زیادہ صحیح ہے۔ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میرے نزدیک شعبہ کے برابر کوئی (ثقہ) نہیں ہے۔ اور جب سفیان ان کی مخالفت کرتے ہیں تو میں سفیان کی بات لے لیتا ہوں، ۸- میں نے ابوعمار کو وکیع کے واسطہ سے ذکر کرتے ہوئے سنا ہے: شعبہ نے کہا: سفیان مجھ سے زیادہ قوی حافظہ والے ہیں۔ (اور اس کی دلیل یہ ہے کہ) مجھ سے سفیان نے کسی شخص سے کوئی چیز روایت کی تو میں نے اس شخص سے وہ چیز (براہ راست) پوچھی تو میں نے ویسا ہی پایا جیسا سفیان مجھ سے بیان کیا تھا، ۹- اس باب میں علی اور سعد سے بھی احادیث آئی ہیں۔