سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کے مناقب و فضائل
Chapters on The Virtues of the Qur'an
1. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ منه
1. باب: سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2875
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على ابي بن كعب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابي وهو يصلي فالتفت ابي ولم يجبه وصلى ابي فخفف ثم انصرف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: السلام عليك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وعليك السلام ما منعك يا ابي ان تجيبني إذ دعوتك، فقال: يا رسول الله، إني كنت في الصلاة، قال: افلم تجد فيما اوحى الله إلي ان استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24، قال: بلى، ولا اعود إن شاء الله، قال: اتحب ان اعلمك سورة لم ينزل في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، قال: نعم، يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف تقرا في الصلاة، قال: فقرا ام القرآن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده ما انزلت في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، وإنها سبع من المثاني، والقرآن العظيم الذي اعطيته "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب، عن انس بن مالك، وفيه عن ابي سعيد بن المعلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أُبَيُّ وَهُوَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيٌّ وَلَمْ يُجِبْهُ وَصَلَّى أُبَيٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ مَا مَنَعَكَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَمْ تَجِدْ فِيمَا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ أَنِ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، قَالَ: بَلَى، وَلَا أَعُودُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، قَالَ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب رضی الله عنہ کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے فرمایا: اے ابی (سنو) وہ (آواز سن کر) متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا، نماز جلدی جلدی پوری کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: السلام علیک یا رسول اللہ! (اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: وعلیک السلام (تم پر بھی سلامتی ہو) ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: (اب تک) جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیا یہ آیت نہیں ملی «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم» اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں (انفال ۲۴)، انہوں نے کہا: جی ہاں، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہو گی۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! (ضرور سکھائیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں تم (قرآن) کیسے پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تورات میں، انجیل میں، زبور میں (حتیٰ کہ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہی سبع مثانی ۲؎ (سات آیتیں) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس بن مالک اور ابوسعید بن معلی رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14070) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حکم ربانی کی بنا پر صحابہ پر واجب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کا جواب دیں خواہ نماز ہی میں کیوں نہ ہو، لیکن ان صحابی نے یہ سمجھا تھا کہ یہ حکم نماز سے باہر کے لیے ہے، اس لیے جواب نہیں دیا تھا۔
۲؎: چونکہ اس میں سات آیتیں ہیں اس لیے اسے سبع کہا گیا، اور ہر نماز میں یہ سورت دہرائی جاتی ہے، اس لیے اسے مثانی کہا گیا، یا مثانی اس لیے کہا گیا کہ اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ایک مکہ میں دوسرا مدینہ میں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1310)، المشكاة (2142 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (2 / 216)
2. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآيَةِ الْكُرْسِيِّ
2. باب: سورۃ البقرہ اور آیت الکرسی کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2876
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا ابو اسامة، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، عن سعيد المقبري، عن عطاء مولى ابي احمد، عن ابي هريرة، قال: " بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا وهم ذو عدد فاستقراهم، فاستقرا كل رجل منهم ما معه من القرآن، فاتى على رجل منهم من احدثهم سنا، فقال: ما معك يا فلان؟ قال: معي كذا وكذا وسورة البقرة، قال: امعك سورة البقرة؟ فقال: نعم، قال: فاذهب فانت اميرهم، فقال رجل من اشرافهم: والله يا رسول الله، ما منعني ان اتعلم سورة البقرة إلا خشية الا اقوم بها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تعلموا القرآن واقرءوه، فإن مثل القرآن لمن تعلمه فقراه وقام به، كمثل جراب محشو مسكا يفوح ريحه في كل مكان، ومثل من تعلمه فيرقد وهو في جوفه، كمثل جراب وكئ على مسك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد رواه الليث بن سعد، عن سعيد المقبري، عن عطاء مولى ابي احمد، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا نحوه، حدثنا قتيبة، عن الليث بن سعد، عن سعيد المقبري، عن عطاء مولي ابي احمد عن النبي صلي الله عليه وسلم مرسلا نحوه بمعناه، ولم يذكر فيه عن ابي هريرة وفي الباب عن ابي ابن كعب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ، فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ، فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، فَقَالَ: مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ؟ قَالَ: مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ، قَالَ: أَمَعَكَ سورة البقرة؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سورة البقرة إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوهُ، فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ، كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى أَبِي أَحْمَدَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا نَحْوَهَ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنِ اللَّيْثِ بنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الَمْقُبرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ مَوْلَي أبِي أَحْمَدَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّيَ الله عليه وسَلَم مرسَلا نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وفي الباب عن أبِّي ابن كَعْبٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورۃ البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہیں سورۃ البقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ تم ان سب کے امیر ہو۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورۃ البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (نماز تہجد میں) برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کر دی گئی ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس حدیث کو لیث بن سعد نے سعید مقبری سے، اور سعید نے ابواحمد کے آزاد کردہ غلام عطا سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس روایت میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (217) (تحفة الأشراف: 14242) (ضعیف) (سند میں عطاء مولی ابی احمد لین الحدیث راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (217) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (39)، المشكاة (2143)، ضعيف الجامع الصغير (2452) //
حدیث نمبر: 2877
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تجعلوا بيوتكم مقابر، وإن البيت الذي تقرا فيه البقرة لا يدخله الشيطان "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ الْبَقَرَةُ لَا يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 29 (280)، سنن ابی داود/ المناسک 100 (الشق الأول فحسب، وفي سیاق آخر) (تحفة الأشراف: 12722) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحكام الجنائز (212)
حدیث نمبر: 2878
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، عن حكيم بن جبير، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لكل شيء سنام، وإن سنام القرآن سورة البقرة، وفيها آية هي سيدة آي القرآن هي آية الكرسي "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث حكيم بن جبير، وقد تكلم شعبة في حكيم بن جبير وضعفه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ وَضَعَّفَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے ۱؎ اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے، اس سورۃ میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف حکیم بن جبیر کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- حکیم بن جبیر کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے اور انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12313) (ضعیف) (سند میں حکیم بن جبیر ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس میں کوئی چیز نمایاں ہوتی ہے جو کوہان کی حیثیت رکھتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1348)، التعليق الرغيب (2 / 218) // ضعيف الجامع الصغير (4725) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2878) إسناده ضعيف
حكيم بن جبير: ضعيف (تقدم: 155)
حدیث نمبر: 2879
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن المغيرة ابو سلمة المخزومي المدني، حدثنا ابن ابي فديك، عن عبد الرحمن بن ابي بكر المليكي، عن زرارة بن مصعب، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قرا " حم المؤمن إلى إليه المصير "، وآية الكرسي حين يصبح، حفظ بهما حتى يمسي، ومن قراهما حين يمسي حفظ بهما حتى يصبح "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وقد تكلم بعض اهل العلم في عبد الرحمن بن ابي بكر بن ابي مليكة المليكي من قبل حفظه، وزرارة بن مصعب هو ابن عبد الرحمن بن عوف، وهو جد ابي مصعب المدني.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ أَبُو سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ مُصْعَبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَرَأَ " حم الْمُؤْمِنَ إِلَى إِلَيْهِ الْمَصِيرُ "، وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ، حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُمْسِيَ، وَمَنْ قَرَأَهُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُصْبِحَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْمُلَيْكِيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَزُرَارَةُ بْنُ مُصْعَبٍ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ جَدُّ أَبِي مُصْعَبٍ الْمَدَنِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورۃ مومن کی (ابتدائی تین آیات) «حم» سے «إليه المصير» تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح (بیدار ہونے کے بعد ہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی، اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا تو ان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- بعض اہل علم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن ابی ملیکہ کے حافظے کے سلسلے میں کلام کیا ہے،
۳- زرارہ بن مصعب کا پورا نام زرارہ بن مصعب بن عبدالرحمٰن بن عوف ہے، اور وہ ابومصعب مدنی کے دادا ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1495) (ضعیف) (سند میں عبد الرحمن ملیکی ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2144 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (5769) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2879) إسناده ضعيف
عبدالرحمن المليكي: ضعيف (تق: 3813)
3. باب مِنْهُ
3. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2880
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن ابن ابي ليلى، عن اخيه عيسى، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابي ايوب الانصاري، " انه كانت له سهوة فيها تمر فكانت تجيء الغول فتاخذ منه، قال: فشكا ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فاذهب فإذا رايتها، فقل: بسم الله اجيبي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاخذها، فحلفت ان لا تعود فارسلها، فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما فعل اسيرك، قال: حلفت ان لا تعود، فقال: كذبت وهي معاودة للكذب، قال: فاخذها مرة اخرى فحلفت ان لا تعود فارسلها، فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما فعل اسيرك؟ قال: حلفت ان لا تعود، فقال: كذبت وهي معاودة للكذب، فاخذها فقال: ما انا بتاركك حتى اذهب بك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إني ذاكرة لك شيئا، آية الكرسي اقراها في بيتك فلا يقربك شيطان ولا غيره، قال: فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما فعل اسيرك؟ قال: فاخبره بما قالت: قال: صدقت، وهي كذوب "، قال: هذا حديث حسن غريب، وفي الباب، عن ابي بن كعب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، " أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ سَهْوَةٌ فِيهَا تَمْرٌ فَكَانَتْ تَجِيءُ الْغُولُ فَتَأْخُذُ مِنْهُ، قَالَ: فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَاذْهَبْ فَإِذَا رَأَيْتَهَا، فَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَخَذَهَا، فَحَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ فَأَرْسَلَهَا، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ، قَالَ: حَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ، فَقَالَ: كَذَبَتْ وَهِيَ مُعَاوِدَةٌ لِلْكَذِبِ، قَالَ: فَأَخَذَهَا مَرَّةً أُخْرَى فَحَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ فَأَرْسَلَهَا، فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟ قَالَ: حَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ، فَقَالَ: كَذَبَتْ وَهِيَ مُعَاوِدَةٌ لِلْكَذِبِ، فَأَخَذَهَا فَقَالَ: مَا أَنَا بِتَارِكِكِ حَتَّى أَذْهَبَ بِكِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي ذَاكِرَةٌ لَكَ شَيْئًا، آيَةَ الْكُرْسِيِّ اقْرَأْهَا فِي بَيْتِكَ فَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ وَلَا غَيْرُهُ، قَالَ: فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟ قَالَ: فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَتْ: قَالَ: صَدَقَتْ، وَهِيَ كَذُوبٌ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کا اپنا ایک احاطہٰ تھا اس میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔ جن آتا تھا اور اس میں سے اٹھا لے جاتا تھا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: جاؤ جب دیکھو کہ وہ آیا ہوا ہے تو کہو: بسم اللہ (اللہ کے نام سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان، ابوذر رضی الله عنہ نے اسے پکڑ لیا تو وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو، دوبارہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا، چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا، تمہارے قیدی نے کیا کیا؟! انہوں نے کہا: اس نے قسمیں کھائیں کہ اب وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے گا۔ آپ نے فرمایا: اس نے جھوٹ کہا: وہ جھوٹ بولنے کا عادی ہے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے اسے دوبارہ پکڑا، اس نے پھر قسمیں کھائیں کہ اسے چھوڑ دو، وہ دوبارہ نہ آئے گا تو انہوں نے اسے (دوبارہ) چھوڑ دیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا: تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: اس نے قسم کھائی کہ وہ پھر لوٹ کر نہ آئے گا۔ آپ نے فرمایا: اس نے جھوٹ کہا، وہ تو جھوٹ بولنے کا عادی ہے۔ (پھر جب وہ آیا) تو انہوں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا: اب تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں ایک چیز یعنی آیت الکرسی بتا رہا ہوں۔ تم اسے اپنے گھر میں پڑھ لیا کرو۔ تمہارے قریب شیطان نہ آئے گا اور نہ ہی کوئی اور آئے گا، پھر ابوذر رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ تو انہوں نے آپ کو وہ سب کچھ بتایا جو اس نے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بات تو صحیح کہی ہے، لیکن وہ ہے پکا جھوٹا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابی بن کعب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3473)، وانظر مسند احمد (5/423) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 220)

قال الشيخ زبير على زئي: (2880) إسناده ضعيف
محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلي ضعيف (تقدم: 1949) وسفيان الثوري عنعن (تقدم: 746) وللحديث شواهد ضعيفة عند الحاكم (458/3،459) والطبراني وغيرهما وحديث البخاري (2311) يغني عنه
4. باب مَا جَاءَ فِي آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
4. باب: سورۃ البقرہ کی آخری آیات کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2881
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن منصور بن المعتمر، عن إبراهيم بن يزيد، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن ابي مسعود الانصاري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قرا الآيتين من آخر سورة البقرة في ليلة كفتاه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رات میں سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہو گئیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 10 (5009)، صحیح مسلم/المسافرین 43 (807)، سنن ابی داود/ الصلاة 326 (1397)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 183 (1369) (تحفة الأشراف: 9999)، و مسند احمد (4/118)، سنن الدارمی/الصلاة 170 (1528) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ دونوں آیتیں ہر برائی اور شیطان کے شر سے اس کی حفاظت کریں گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1263)
حدیث نمبر: 2882
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا حماد بن سلمة، عن اشعث بن عبد الرحمن الجرمي، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الجرمي، عن النعمان بن بشير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله كتب كتابا قبل ان يخلق السموات والارض بالفي عام انزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا يقول في دار ثلاث ليال فيقربها شيطان "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَرْمِيِّ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الْجَرْمِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَلَا يَقُولُ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورۃ البقرہ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آ سکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 279 (967) (تحفة الأشراف: 11644) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (886)، التعليق الرغيب (2 / 219)، المشكاة (2145)
5. باب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ
5. باب: سورۃ آل عمران کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2883
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، اخبرنا هشام بن إسماعيل ابو عبد الملك العطار، حدثنا محمد بن شعيب، حدثنا إبراهيم بن سليمان، عن الوليد بن عبد الرحمن انه حدثهم، عن جبير بن نفير، عن نواس بن سمعان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ياتي القرآن واهله الذين يعملون به في الدنيا تقدمه سورة البقرة، وآل عمران، قال نواس: وضرب لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة امثال، ما نسيتهن بعد، قال: تاتيان كانهما غيابتان وبينهما شرق، او كانهما غمامتان سوداوان، او كانهما ظلة من طير صواف تجادلان عن صاحبهما " وفي الباب، عن بريدة، وابي امامة، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، ومعنى هذا الحديث عند اهل العلم: انه يجيء ثواب قراءته كذا، فسر بعض اهل العلم هذا الحديث وما يشبه هذا من الاحاديث انه يجيء ثواب قراءة القرآن، وفي حديث النواس، عن النبي صلى الله عليه وسلم ما يدل على ما فسروا، إذ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " واهله الذين يعملون به في الدنيا "، ففي هذا دلالة انه يجيء ثواب العمل.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ إِسْمَاعِيل أَبُو عَبْدِ الْمَلِكِ الْعَطَّارِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ نَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَأْتِي الْقُرْآنُ وَأَهْلُهُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِهِ فِي الدُّنْيَا تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، وَآلُ عِمْرَانَ، قَالَ نَوَّاسٌ: وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ، مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ، قَالَ: تَأْتِيَانِ كَأَنَّهُمَا غَيَابَتَانِ وَبَيْنَهُمَا شَرْقٌ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ سَوْدَاوَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا ظُلَّةٌ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُجَادِلَانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا " وَفِي الْبَابِ، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّهُ يَجِيءُ ثَوَابُ قِرَاءَتِهِ كَذَا، فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ وَمَا يُشْبِهُ هَذَا مِنَ الْأَحَادِيثِ أَنَّهُ يَجِيءُ ثَوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَفِي حَدِيثِ النَّوَّاسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا فَسَّرُوا، إِذْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَهْلُهُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِهِ فِي الدُّنْيَا "، فَفِي هَذَا دَلَالَةٌ أَنَّهُ يَجِيءُ ثَوَابُ الْعَمَلِ.
نواس بن سمعان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن اور قرآن والا جو دنیا میں قرآن پر عمل کرتا ہے دونوں آئیں گے ان کی پیشوائی سورۃ البقرہ اور آل عمران کریں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کی تین مثالیں دیں، اس کے بعد پھر میں ان سورتوں کو نہ بھولا۔ آپ نے فرمایا: گویا کہ وہ دونوں چھتریاں ہیں، جن کے بیچ میں شگاف اور پھٹن ہیں، یا گویا کہ وہ دونوں کالی بدلیاں ہیں، یا گویا کہ وہ صف بستہ چڑیوں کا سائبان ہیں، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں کا لڑ جھگڑ کر دفاع و بچاؤ کر رہی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- اس باب میں بریدہ اور ابوامامہ سے بھی روایت ہے،
۳- اس حدیث کا بعض اہل علم کے نزدیک معنی و مفہوم یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب آئے گا۔ اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کی بعض اہل علم نے یہی تفسیر کی ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب آئے گا، نواس رضی الله عنہ کی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، مفسرین کی اس تفسیر کی دلیل اور اس کا ثبوت ملتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول «وأهله الذين يعملون به في الدنيا» میں اشارہ ہے کہ قرآن کے آنے سے مراد ان کے اعمال کا ثواب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 42 (805) (تحفة الأشراف: 11713)، و مسند احمد (4/183) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2884
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، قال: حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان بن عيينة في تفسير حديث عبد الله بن مسعود، قال: " ما خلق الله من سماء، ولا ارض اعظم من آية الكرسي "، قال سفيان: لان آية الكرسي هو كلام الله، وكلام الله اعظم من خلق الله من السماء والارض.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي تَفْسِيرِ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ سَمَاءٍ، وَلَا أَرْضٍ أَعْظَمَ مِنْ آيَةِ الْكُرْسِيِّ "، قَالَ سُفْيَانُ: لِأَنَّ آيَةَ الْكُرْسِيِّ هُوَ كَلَامُ اللَّهِ، وَكَلَامُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ.
سفیان بن عیینہ سے روایت ہے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی اس حدیث «ما خلق الله من سماء ولا أرض أعظم من آية الكرسي» کی تفسیر میں کہتے ہیں: آیت الکرسی کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق یعنی آسمان و زمین سے بڑھ کر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.