ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (ابتداء اسلام میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم (حدیث) لکھ لینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ہمیں لکھنے کی اجازت نہ دی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی زید بن اسلم کے واسطہ سے آئی ہے، اور اسے ہمام نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 16 (3004) (بلفظ ”لاتکتبوا عني، ومن کتب عني غیر القرآن فلیمحہ“) (تحفة الأشراف: 4167) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا: «لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج»(صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو، اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹا دے، البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان: «بلغوا عني ولو آية» کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن الخليل بن مرة، عن يحيى بن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: كان رجل من الانصار يجلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فيسمع من النبي صلى الله عليه وسلم الحديث، فيعجبه ولا يحفظه، فشكا ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إني اسمع منك الحديث فيعجبني ولا احفظه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استعن بيمينك واوما بيده للخط " , وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ليس بذلك القائم، وسمعت محمد بن إسماعيل يقول: الخليل بن مرة منكر الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْمَعُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ، فَيُعْجِبُهُ وَلَا يَحْفَظُهُ، فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُنِي وَلَا أَحْفَظُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ " , وفي الباب عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَلِكَ الْقَائِمِ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَقُولُ: الْخَلِيلُ بْنُ مُرَّةَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ آپ کی حدیثیں سنتا اور یہ حدیثیں اسے بہت پسند آتی تھیں، لیکن وہ انہیں یاد نہیں رکھ پاتا تھا تو اس نے اپنے یاد نہ رکھ پانے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کی حدیثیں سنتا ہوں اور وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں (مگر) میں انہیں یاد نہیں رکھ پاتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو (اور یہ کہتے ہوئے) آپ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا ”۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند قوی و مستحکم نہیں ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا: خلیل بن مرہ منکر الحدیث ہے، ۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14814) (ضعیف) (سند میں خلیل بن مرہ ضعیف راوی ہیں، اور یحییٰ بن ابی صالح مجہول راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2761) // ضعيف الجامع الصغير (813) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2666) إسناده ضعيف خليل بن مرة: ضعيف وقال الهيثمي: وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 158/10) وشيخه يحيي بن أبى صالح: مجهول (تق: 7569،1757)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، ومحمود بن غيلان , قالا: حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب فذكر القصة في الحديث، قال ابو شاه: اكتبوا لي يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكتبوا لابي شاه " , وفي الحديث قصة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى شيبان، عن يحيى بن ابي كثير مثل هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو شَاهٍ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ " , وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور دوران خطبہ آپ نے کوئی قصہ (کوئی واقعہ) بیان کیا تو ابو شاہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیجئیے (یعنی کسی سے لکھا دیجئیے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) کہا ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔ حدیث میں پورا واقعہ مذکور ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر تخریج حدیث رقم 1405 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث نہ لکھنے کا حکم بعد میں منسوخ ہو گیا گویا یہ حدیث اللہ کے رسول کی احادیث لکھ لینے کے جواز پر صریح دلیل ہے۔ اسی طرح درج ذیل حدیث اور احادیث کی کتب میں درج بیسویں احادیث مبارکہ منکرین حدیث پر روزِ روشن کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ”کتابت حدیث کا مبارک عمل“ نبی ختم الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ہو گیا تھا اور یہ کہ ہماری تحقیق کے مطابق ساداتنا عبداللہ بن عمرو بن العاص، وائل بن حجر، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن ابی اوفی، عبداللہ بن عباس، انس بن مالک اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سمیت بیس صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین ایسے اصحاب واجبات تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارک کو لکھا، ان اصحاب کی لکھی ہوئی احادیث کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے، اور پھر ابوہریرہ رضی الله عنہ جیسے جو اصحاب لکھ نہیں سکتے تھے اپنے ہاتھوں بلکہ انہوں نے احادیث مبارکہ کو لفظ بلفظ یاد رکھا اور پھر یہی احادیث اپنے شاگردوں کو لکھوا دیں ان کی تعداد مزید کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے، اور ہمارے اندازے کے مطابق کتب احادیث میں موجود تمام احادیث کا ایک بڑا حصہ عہد صحابہ میں لکھا جا چکا تھا، (مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب ”مقدمۃ الحدیث“ کی پہلی جلد میں پہلے باب اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ خاں کی «الوثائق السیاسیة فی عہد…» کا مطالعہ کریں، ابویحییٰ)۔
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن وهب بن منبه، عن اخيه وهو همام بن منبه، قال: سمعت ابا هريرة , يقول: " ليس احد من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اكثر حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مني إلا عبد الله بن عمرو، فإنه كان يكتب وكنت لا اكتب " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ووهب بن منبه عن اخيه هو همام بن منبه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ وَهُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: " لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَوَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ عَنْ أَخِيهِ هُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ.
ہمام بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سوائے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے اور میرے اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کے درمیان یہ فرق تھا کہ وہ (احادیث) لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور روایت میں «وهب بن منبه، عن أخيه» جو آیا، تو «أخيه» سے مراد ہمام بن منبہ ہیں۔
وضاحت: ۱؎: ابوہریرہ بن عبدالرحمٰن بن صخر رضی الله عنہ کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی تھی کہ آپ کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے علم میں خیر و برکت کی دعا تھی جس سے آپ رضی الله عنہ کا سینہ بذات خود حفظ و تحفیظ کا دفتر بنا گیا تھا، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ”سیرأعلام النبلاء“(الجزء الثانی ص ۵۹۴ اور ۵۹۵) میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے درج کیا ہے: «كان حفظ أبي هريرة رضي الله عنه الخارق من معجزات النبوة...»”ابوہریرہ رضی الله عنہ کا حافظ … احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ اور قرآن کو یاد کر لینے کا ملکہ … نبوت کے معجزات میں سے خرق عادت ایک معجزہ تھا، اور پھر اس عبارت کو بطور عنوان اختیار کر کے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابونعیم کی «الحلیة» میں درج احادیث کو نقل کیا ہے، اور اس پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے «رجالہ ثقات» ان احادیث میں سے ایک یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ سے پوچھا: ”ابوہریرہ! غنیمتوں کے اموال میں سے تم مجھ سے کچھ نہیں مانگتے جن میں سے تیرے ساتھی مانگتے رہتے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: «أسألك أن تعلمني مما علمك الله» میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن و سنت والا علم سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے (جتنا زیادہ ممکن ہو) سکھا دیجئیے، تو میری اس درخواست پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر والی سفید اور کالی دھار یوں والی چادر کو مجھ سے اتار لیا اور اسے ہمارے دونوں کے درمیان پھیلا دیا، اس قدر خوب تن کر اس چادر کو پھیلایا گویا میں اس پر چلنے والی چیونٹی کو بھی صاف دیکھ رہا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے احادیث بیان کرنا شروع فرما دیں حتیٰ کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حدیث مبارکہ حاصل کر لی تو آپ نے فرمایا: «إجمحها فصرها إليك» اس چادر کو اکٹھی کر کے اپنی طرف پلٹا لو“، (یعنی اپنے اوپر اوڑھ لو۔) چنانچہ میں نے ایسا کر لیا اور پھر تو میں حافظے کے اعتبار سے ایسا ہو گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی اپنی حدیث مبارک مجھ سے بیان فرماتے اس سے ایک حرف بھی مجھ سے ساقط نہیں ہوتا تھا، ابوہریرہ رضی الله عنہ کے الفاظ «فاصبحت لا أسقط حرفا حدثنی»(دیکھئیے: الحلۃ: ۱/۳۸۱) بالکل اسی معنی کی احادیث صحیح البخاری / کتاب البیوع اور کتاب الحرث والمزرعۃ حدیث ۲۳۵۰ اور صحیح مسلم / کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی ہریرۃ رضی الله عنہ الدوسی حدیث ۲۴۹۲ میں بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے «مجموعة الوقائق السیاسیة للعہدالنبوی والخلافة الراشدة» میں ثابت کیا ہے کہ جناب ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کے ہاتھ کا مخطوطہٰ احادیث آج بھی دنیا کی ایک معروف لائبریری میں موجود ہے، اور پھر اس مخطوطہٰ کو حیدرآباد دکن سے شائع بھی کیا گیا ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے بیان کرو، ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹ کی نسبت کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے علم کی حد تک ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ قرآن و حدیث کا جو بھی علم اسے حاصل ہو اسے لوگوں تک پہنچائے، یہاں تک کہ اگر کسی ایک حکم الٰہی سے ہی آگاہ ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کرے، بنی اسرائیل سے متعلق صرف وہ باتیں بیان کی جائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سندوں سے ثابت ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (582)، تخريج العلم لأبي خيثمة (119 / 45)
(مرفوع) حدثنا نصر بن عبد الرحمن الكوفي، حدثنا احمد بن بشير، عن شبيب بن بشر، عن انس بن مالك، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل يستحمله فلم يجد عنده ما يتحمله، فدله على آخر فحمله، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال: " إن الدال على الخير كفاعله " , وفي الباب عن ابي مسعود البدري، وبريدة , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه من حديث انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يَسْتَحْمِلُهُ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُ مَا يَتَحَمَّلُهُ، فَدَلَّهُ عَلَى آخَرَ فَحَمَلَهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: " إِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ " , وفي الباب عن أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، وَبُرَيْدَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری مانگنے آیا، تو آپ کے پاس اسے کوئی سواری نہ ملی جو اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتی۔ آپ نے اسے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیج دیا، اس نے اسے سواری فراہم کر دی۔ پھر اس نے آ کر آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا: ”بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی انس رضی الله عنہ کی روایت سے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں غریب ہے، ۲- اس باب میں ابومسعود بدری اور بریدہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، انبانا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت ابا عمرو الشيباني يحدث، عن ابي مسعود البدري، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم يستحمله، فقال: إنه قد ابدع بي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ائت فلانا " , فاتاه فحمله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من دل على خير فله مثل اجر فاعله " او قال: " عامله " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عمرو الشيباني اسمه: سعد بن إياس، وابو مسعود البدري اسمه: عقبة بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ أُبْدِعَ بِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْتِ فُلَانًا " , فَأَتَاهُ فَحَمَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ " أَوْ قَالَ: " عَامِلِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ: سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ، وَأَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ اسْمُهُ: عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو.
ابومسعود بدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری مانگنے آیا، اور کہا: میں بے سواری کے ہو گیا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”تم فلاں شخص کے پاس جاؤ“، چنانچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس نے اسے سواری دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور ابومسعود بدری کا نام عقبہ بن عمرو ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 38 (1893)، سنن ابی داود/ الأدب 124 (5129) (تحفة الأشراف: 9986)، و مسند احمد (4/120) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، والحسن بن علي , وغير واحد قالوا: حدثنا ابو اسامة، عن بريد بن عبد الله بن ابي بردة، عن جده ابي بردة، عن ابي موسى الاشعري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اشفعوا ولتؤجروا وليقض الله على لسان نبيه ما شاء " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وبريد يكنى: ابا بردة ايضا هو ابن ابي موسى الاشعري وهو كوفي ثقة في الحديث روى عنه شعبة، والثوري، وابن عيينة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اشْفَعُوا وَلْتُؤْجَرُوا وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا شَاءَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبُرَيْدٌ يُكْنَى: أَبَا بُرْدَةَ أَيْضًا هُوَ ابْنُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَهُوَ كُوفِيٌّ ثِقَةٌ فِي الْحَدِيثِ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شفاعت (سفارش) کرو تاکہ اجر پاؤ، اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات (جس سفارش) کو بھی چاہتا ہے پورا کر دیتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چیز مانگتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ حقیقت میں یہ شخص ضرورت مند ہے تو تم اس کے حق میں سفارش کے طور پر دو کلمہ خیر کہہ دو، تو تمہیں بھی اس کلمہ خیر کہہ دینے کا ثواب ملے گا، لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس میں جس سفارش کی ترغیب دی گئی ہے، وہ ایسے امور کے لیے ہے جو حلال اور مباح ہیں، حرام یا شرعی حد کو ساقط کرنے کے لیے سفارش کی اجازت نہیں ہے۔