ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، حدثنا روح بن اسلم ابو حاتم البصري، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ثابت، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقد اخفت في الله وما يخاف احد، ولقد اوذيت في الله وما يؤذى احد، ولقد اتت علي ثلاثون من بين يوم وليلة وما لي ولبلال طعام ياكله ذو كبد إلا شيء يواريه إبط بلال " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , ومعنى هذا الحديث حين خرج النبي صلى الله عليه وسلم هاربا من مكة ومعه بلال إنما كان مع بلال من الطعام ما يحمله تحت إبطه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَهُ بِلَالٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلَالٍ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُهُ تَحْتَ إِبْطِهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن و رات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والا کھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپا لیتے تھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ـ اس حدیث میں وہ دن مراد ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ سے بیزار ہو کر مکہ سے نکل گئے تھے اور ساتھ میں بلال رضی الله عنہ تھے، ان کے پاس کچھ کھانا تھا جسے وہ بغل میں دبائے ہوئے تھے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے دین کے اظہار کے لیے آپ نے کس قدر جسمانی تکالیف برداشت کی ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلسل کئی کئی دن گزر جاتے اور آپ بھوکے رہتے، ظاہر ہے بلال نے اپنی بغل میں جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ کب تک ساتھ دیتا، اس حدیث میں داعیان حق کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، حدثنا يزيد بن زياد، عن محمد بن كعب القرظي، حدثني من , سمع علي بن ابي طالب , يقول: " خرجت في يوم شات من بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقد اخذت إهابا معطوبا فحولت وسطه فادخلته عنقي وشددت وسطي، فحزمته بخوص النخل وإني لشديد الجوع ولو كان في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم طعام لطعمت منه، فخرجت التمس شيئا، فمررت بيهودي في مال له وهو يسقي ببكرة له فاطلعت عليه من ثلمة في الحائط، فقال: ما لك يا اعرابي، هل لك في كل دلو بتمرة؟ قلت: نعم، فافتح الباب حتى ادخل، ففتح فدخلت فاعطاني دلوه، فكلما نزعت دلوا اعطاني تمرة حتى إذا امتلات كفي ارسلت دلوه، وقلت: حسبي، فاكلتها ثم جرعت من الماء فشربت، ثم جئت المسجد فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ , سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , يَقُولُ: " خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ، هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، وَقُلْتُ: حَسْبِي، فَأَكَلْتُهَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیا بات ہے؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہو گیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود پایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10338) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقر و تنگ دستی سے دو چار تھی، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی، اس فقر و فاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے، اور جو کچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 109 - 110)
قال الشيخ زبير على زئي: (2473) إسناده ضعيف ”من سمع“ مجهول: لم أعرفه
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 12 (4157) (تحفة الأشراف: 13617) (شاذ) (مؤلف اور ابن ماجہ کے یہاں جو متن ہے وہ صحیح بخاری میں اسی سند سے مروی متن سے مختلف ہے، صحیح بخاری میں فی نفر سات سات کھجوریں ملنے کا تذکرہ ہے، دیکھیے: صحیح البخاری/الأطعمة 23 (5411)، و39 (5440)»
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، قال: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن ثلاث مائة نحمل زادنا على رقابنا، ففني زادنا حتى إن كان يكون للرجل منا كل يوم تمرة، فقيل له: يا ابا عبد الله واين كانت تقع التمرة من الرجل؟ فقال: لقد وجدنا فقدها حين فقدناها، واتينا البحر فإذا نحن بحوت قد قذفه البحر، فاكلنا منه ثمانية عشر يوما ما احببنا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن جابر بن عبد الله، ورواه مالك بن انس، عن وهب بن كيسان اتم من هذا واطول.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَأَيْنَ كَانَتْ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا: ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے، ۳- اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے، فقر و تنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی، اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا، کیونکہ وہ صبر و ضبط سے کام لیتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، حدثني يزيد بن زياد، عن محمد بن كعب القرظي، حدثني من , سمع علي بن ابي طالب , يقول: إنا لجلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد إذ طلع علينا مصعب بن عمير ما عليه إلا بردة له مرقوعة بفرو، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكى للذي كان فيه من النعمة، والذي هو اليوم فيه، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف بكم إذا غدا احدكم في حلة وراح في حلة ووضعت بين يديه صحفة ورفعت اخرى وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة؟ " قالوا: يا رسول الله نحن يومئذ خير منا اليوم نتفرغ للعبادة ونكفى المؤنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لانتم اليوم خير منكم يومئذ " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ويزيد بن زياد هو ابن ميسرة وهو مدني، وقد روى عنه مالك بن انس، وغير واحد من اهل العلم، ويزيد بن زياد الدمشقي الذي روى عن الزهري، روى عنه وكيع، ومروان بن معاوية، ويزيد بن ابي زياد كوفي روى عنه سفيان، وشعبة، وابن عيينة، وغير واحد من الائمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ , سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , يَقُولُ: إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ، وَالَّذِي هُوَ الْيَوْمَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ؟ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ مَيْسَرَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ الَّذِي رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، رَوَى عَنْهُ وَكِيعٌ، وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ كُوفِيٌّ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ، وَشُعْبَةُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے؟ ۲؎“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت و مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یزید بن زیاد سے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور (تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف 0التحفة: 10339) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں)»
وضاحت: ۱؎: مصعب بن عمیر رضی الله عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، یہ اپنا سارا مال و متاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، عقبہ ثانیہ کے بعد آپ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا، مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے، زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز و نعمت کی زندگی گزار نے والے تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بے رغبتی ہو گئی۔
۲؎: یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہو جائے گی کہ صبح و شام کپڑے بدلے جائیں گے، قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے، لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے، گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے، جیسا کہ آج کل ہے۔
۳؎: امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کر رہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں: (۱) یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں (۲) یزید بن زیاد مشقی ہیں، (۳) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5366 / التحقيق الثاني)، وانظر الحديث (2591) // ضعيف الجامع الصغير (4293) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2476) إسناده ضعيف / انظر الحديث السابق: 2473
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، حدثني عمر بن ذر، حدثنا مجاهد، عن ابي هريرة، قال: " كان اهل الصفة اضياف اهل الإسلام لا ياوون على اهل ولا مال، والله الذي لا إله إلا هو، إن كنت لاعتمد بكبدي على الارض من الجوع، واشد الحجر على بطني من الجوع، ولقد قعدت يوما على طريقهم الذي يخرجون فيه، فمر بي ابو بكر فسالته عن آية من كتاب الله ما اساله إلا لتستتبعني، فمر ولم يفعل، ثم مر بي عمر، فسالته عن آية من كتاب الله ما اساله إلا ليستتبعني فمر ولم يفعل، ثم مر ابو القاسم صلى الله عليه وسلم: فتبسم حين رآني، وقال: ابا هريرة، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: الحق، ومضى فاتبعته ودخل منزله فاستاذنت فاذن لي فوجد قدحا من لبن، فقال: من اين هذا اللبن لكم، قيل: اهداه لنا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابا هريرة، قلت: لبيك، فقال: الحق إلى اهل الصفة فادعهم وهم اضياف الإسلام لا ياوون على اهل ولا مال إذا اتته صدقة بعث بها إليهم ولم يتناول منها شيئا، وإذا اتته هدية ارسل إليهم فاصاب منها واشركهم فيها، فساءني ذلك وقلت: ما هذا القدح بين اهل الصفة وانا رسوله إليهم، فسيامرني ان اديره عليهم، فما عسى ان يصيبني منه وقد كنت ارجو ان اصيب منه ما يغنيني، ولم يكن بد من طاعة الله وطاعة رسوله، فاتيتهم فدعوتهم، فلما دخلوا عليه فاخذوا مجالسهم، فقال ابا هريرة: خذ القدح واعطهم فاخذت القدح، فجعلت اناوله الرجل فيشرب حتى يروى، ثم يرده، فاناوله الآخر حتى انتهيت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد روى القوم كلهم، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم القدح فوضعه على يديه ثم رفع راسه، فتبسم , فقال: ابا هريرة اشرب، فشربت، ثم قال: اشرب، فلم ازل اشرب ويقول: اشرب حتى قلت: والذي بعثك بالحق ما اجد له مسلكا، فاخذ القدح فحمد الله وسمى ثم شرب " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ، وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ، فَمَرَّ بِي أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِتَسْتَتْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيَسْتَتْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، وَقَالَ: أَبَا هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْحَقْ، وَمَضَى فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ، قِيلَ: أَهْدَاهُ لَنَا فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبَا هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ، فَقَالَ: الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ وَهُمْ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَاءَنِي ذَلِكَ وَقُلْتُ: مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَا رَسُولُهُ إِلَيْهِمْ، فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ، فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي، وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ، فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ: خُذْ الْقَدَحَ وَأَعْطِهِمْ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّهُ، فَأُنَاوِلُهُ الْآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَى الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَتَبَسَّمَ , فَقَالَ: أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ، فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ: اشْرَبْ، فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ وَيَقُولُ: اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى ثُمَّ شَرِبَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل و عیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزرگاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر رضی الله عنہ گزرے تو میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر رضی الله عنہ گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا: ”ابوہریرہ!“ میں نے کہا: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”ساتھ چلو“ اور آپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہو لیا، آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا: ”یہ دودھ کہاں سے ملا؟“ عرض کیا گیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ!“ میں نے کہا: حاضر ہوں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ اہل صفہ کو بلا لاؤ“، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھربار تھا نہ کوئی مال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی صدقہ آتا تھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلا بھیجتے، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے دودھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گزرا اور میں نے (دل میں) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جو کچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالانکہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان سب کو بلا لایا، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اور اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دے دو“، چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کو دینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہو جاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا، ساری قوم سیر ہو چکی تھی (یا سب لوگ سیر ہو چکے تھے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکرا کر فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ دودھ پیو“، چنانچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اسے پیو“ میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجا ہے اب میں پینے کی گنجائش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دودھ پیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل و عیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھا جائے، اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے، آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے، دودھ کی کثرت یہ آپ کے معجزہ کی دلیل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیئے، اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہو کر کھانا پینا بھی جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله القرشي، حدثنا يحيى البكاء، عن ابن عمر، قال: تجشا رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: " كف عنا جشاءك فإن اكثرهم شبعا في الدنيا اطولهم جوعا يوم القيامة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وفي الباب عن ابي جحيفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْبَكَّاءُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " كُفَّ عَنَّا جُشَاءَكَ فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وفي الباب عن أَبِي جُحَيْفَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: ڈکار عموماً زیادہ کھانے سے آتی ہے، اس لیے آپ نے اس آدمی سے یہ فرمایا اور اگر ڈکار گیس کی بیماری کی وجہ سے آئے تو اس ڈکار پر یہ حدیث صادق نہیں آئے گی، کیونکہ یہ تو مجبوری کی حالت میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3350 - 3351)
قال الشيخ زبير على زئي: (2478) إسناده ضعيف / جه 3350 يحيي بن مسلم البكاء ضعيف (تقدم: 195،196) وللحديث شواهد ضعيفة
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن ابي بردة بن ابي موسى , عن ابيه، قال: " يا بني لو رايتنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم واصابتنا السماء لحسبت ان ريحنا ريح الضان " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، ومعنى هذا الحديث انه كان ثيابهم الصوف فإذا اصابهم المطر يجيء من ثيابهم ريح الضان.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى , عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " يَا بُنَيَّ لَوْ رَأَيْتَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصَابَتْنَا السَّمَاءُ لَحَسِبْتَ أَنَّ رِيحَنَا رِيحُ الضَّأْنِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ ثِيَابَهُمُ الصُّوفُ فَإِذَا أَصَابَهُمُ الْمَطَرُ يَجِيءُ مِنْ ثِيَابِهِمْ رِيحُ الضَّأْنِ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اگر تم ہمیں اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمیں بارش نصیب ہوتی تھی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے کپڑے اون کے ہوتے تھے، جب اس پر بارش کا پانی پڑتا تو اس سے بھیڑ کی جیسی بو آنے لگتی تھی ۱؎۔
ابوحمزہ سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں: گھر مکان سب کا سب ہر عمارت باعث وبال ہے، میں نے کہا: اس مکان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جسے بنائے بغیر چارہ نہیں انہوں نے کہا: نہ اس میں کوئی اجر ہے اور نہ کوئی گناہ۔