سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
27. باب مِنْهُ
27. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2461
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن ابي ثور، قال: سمعت ابن عباس يقول: اخبرني عمر بن الخطاب , قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فإذا هو متكئ على رمل حصير فرايت اثره في جنبه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وفي الحديث قصة طويلة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ فَرَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کا نشان آپ کے پہلو پر اثر کر گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، (وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 25 (2468)، والنکاح 83 (5191)، واللباس 31 (5843)، صحیح مسلم/الطلاق 5 (1479)، سنن ابن ماجہ/الزہد 11 (4153) (کلہم في سیاق طویل في سیاق إیلاء النبی ﷺ نسائہ) (ویأتي برقم 2318) (تحفة الأشراف: 10507)، و مسند احمد (1/301، 391) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
28. باب مِنْهُ
28. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2462
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، ويونس , عن الزهري، ان عروة بن الزبير اخبره، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان عمرو بن عوف وهو حليف بني عامر بن لؤي وكان شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث ابا عبيدة بن الجراح فقدم بمال من البحرين، وسمعت الانصار بقدوم ابي عبيدة فوافوا صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف، فتعرضوا له، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآهم , ثم قال: " اظنكم سمعتم ان ابا عبيدة قدم بشيء "، قالوا: اجل يا رسول الله، قال: " فابشروا واملوا ما يسركم، فوالله ما الفقر اخشى عليكم ولكني اخشى ان تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها فتهلككم كما اهلكتهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَيُونُسَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، وَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ , ثُمَّ قَالَ: " أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ "، قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجزیہ 1 (3158)، والمغازي 12 (4015)، والرقاق 7 (6425)، صحیح مسلم/الزہد 1 (2961)، سنن ابن ماجہ/الفتن 18 (3997) (تحفة الأشراف: 10784) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و اسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقر و تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں، لیکن افسوس صد افسوس مال و اسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کر دیا، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا، حالانکہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3997)
29. باب مِنْهُ
29. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2463
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، وابن المسيب، ان حكيم بن حزام , قال: " سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم قال: " يا حكيم , إن هذا المال خضرة حلوة فمن اخذه بسخاوة نفس بورك له فيه ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى "، فقال حكيم: فقلت: يا رسول الله , والذي بعثك بالحق لا ارزا احدا بعدك شيئا حتى افارق الدنيا، فكان ابو بكر يدعو حكيما إلى العطاء فيابى ان يقبله، ثم إن عمر دعاه ليعطيه فابى ان يقبل منه شيئا، فقال عمر: إني اشهدكم يا معشر المسلمين على حكيم اني اعرض عليه حقه من هذا الفيء فياب ان ياخذه، فلم يرزا حكيم احدا من الناس شيئا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي , قال: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ , قَالَ: " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: " يَا حَكِيمُ , إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى "، فَقَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: حکیم! بیشک یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لے گا تو اسے اس میں برکت نصیب ہو گی، اور جو اسے حریص بن کر لے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہو گی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے، حکیم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں، پھر ابوبکر رضی الله عنہ، حکیم رضی الله عنہ کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے، ان کے بعد عمر رضی الله عنہ نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکیم رضی الله عنہ نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 50 (1472)، والوصایا 9 (2750)، وفرض الخمس 19 (3143)، والرقاق 11 (6441)، صحیح مسلم/الزکاة 32 (1035)، سنن النسائی/الزکاة 50 (2532)، و 93 (2602-2604) (تحفة الأشراف: 3426)، وحإ (3/402، 434)، وسنن الدارمی/الزکاة 22 (1660) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حکیم بن حزام رضی الله عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کا بھی انکار کر دیا جو ان کا حق بنتا تھا، یہ دنیا سے بے رغبتی کی اعلی مثال ہے، عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایا تاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم رضی الله عنہ کے انکار کی حقیقت کو عمر رضی الله عنہ نہ جان سکے، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
30. باب مِنْهُ
30. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2464
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو صفوان، عن يونس، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الرحمن بن عوف قال: " ابتلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالضراء فصبرنا، ثم ابتلينا بالسراء بعده فلم نصبر " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: " ابْتُلِينَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالضَّرَّاءِ فَصَبَرْنَا، ثُمَّ ابْتُلِينَا بِالسَّرَّاءِ بَعْدَهُ فَلَمْ نَصْبِرْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکلیف اور تنگی میں آزمائے گئے تو اس پر ہم نے صبر کیا، پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کر سکے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9719) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب ہم بے انتہا مشقت و پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے تو اس وقت ہم نے صبر سے کام لیا، لیکن آپ کے بعد جب ہمارے لیے مال و اسباب کی کثرت ہو گئی تو ہم گھمنڈ و تکبر میں مبتلا ہو گئے اور اترا گئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (2464) إسناده ضعيف
الزهري مدلس وعنعن (تقدم:440) وللحديث شواهد ضعيفه
حدیث نمبر: 2465
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن الربيع بن صبيح، عن يزيد بن ابان وهو الرقاشي، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت الآخرة همه جعل الله غناه في قلبه، وجمع له شمله، واتته الدنيا وهي راغمة، ومن كانت الدنيا همه جعل الله فقره بين عينيه، وفرق عليه شمله ولم ياته من الدنيا إلا ما قدر له ".(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ وَهُوَ الرَّقَاشِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء و بےنیازی پیدا کر دیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ۱؎، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1674) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جس کی نیت طلب آخرت ہو گی اللہ رب العالمین اسے معمولی زندگی پر بھی صابر و قانع بنا دے گا تاکہ وہ دنیا کا حریص اور اس کا طالب بن کر نہ رہے، اس کے پراگندہ دنیاوی خیالات کو جمع کر دے گا، اسے دل جمعی نصیب ہو گی، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح (947 - 948)

قال الشيخ زبير على زئي: (2465) إسناده ضعيف
يزيد بن أبان زاهد ضعيف (تقدم: 1398)
حدیث نمبر: 2466
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن عمران بن زائدة بن نشيط، عن ابيه، عن ابي خالد الوالبي، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله تعالى يقول: " يا ابن آدم تفرغ لعبادتي املا صدرك غنى واسد فقرك، وإلا تفعل ملات يديك شغلا ولم اسد فقرك " , قال: هذا حديث حسن غريب، وابو خالد الوالبي اسمه: هرمز.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: " يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ: هُرْمُزُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہو جا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 2 (4107) (تحفة الأشراف: 14881) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4107)
31. باب مِنْهُ
31. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2467
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندنا شطر من شعير فاكلنا منه ما شاء الله، ثم قلت للجارية: كيليه فكالته، فلم يلبث ان فني، قالت: فلو كنا تركناه لاكلنا منه اكثر من ذلك " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، ومعنى قولها شطر تعني شيئا.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَنَا شَطْرٌ مِنْ شَعِيرٍ فَأَكَلْنَا مِنْهُ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قُلْتُ لِلْجَارِيَةِ: كِيلِيهِ فَكَالَتْهُ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ فَنِيَ، قَالَتْ: فَلَوْ كُنَّا تَرَكْنَاهُ لَأَكَلْنَا مِنْهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهَا شَطْرٌ تَعْنِي شَيْئًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جو تھی، پھر جتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا، پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا، تو اس نے تولا، پھر بقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہو گئے، لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہاں عائشہ رضی الله عنہا کے قول «شطر» کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17227) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار نے والوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اہل دنیا اور ان کو میسر آسائشوں کی طرف نہ دیکھیں، بلکہ رسول اور ازواج مطہرات کی زندگیوں کو سامنے رکھیں، اور فقر و فاقہ کی زندگی کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے پینے کی چیزوں کو بلا تولے ناپے استعمال کیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے، اور جس حدیث میں طعام کے تولنے کے بارے میں ہے کہ تولنے سے برکت ہوتی ہے وہ طعام بیچنے کے موقع سے ہے، کیونکہ اس وقت دو آدمیوں کے اپنے اپنے حقوق کی جانکاری کی بات ہے۔
32. باب مِنْهُ
32. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2468
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن داود بن ابي هند، عن عزرة، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري، عن سعد بن هشام، عن عائشة، قالت: كان لنا قرام ستر فيه تماثيل على بابي، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " انزعيه فإنه يذكرني الدنيا "، قالت: وكان لنا سمل قطيفة تقول علمها من حرير كنا نلبسها , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ لَنَا قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ عَلَى بَابِي، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " انْزَعِيهِ فَإِنَّهُ يُذَكِّرُنِي الدُّنْيَا "، قَالَتْ: وَكَانَ لَنَا سَمَلُ قَطِيفَةٍ تَقُولُ عَلَمُهَا مِنْ حَرِيرٍ كُنَّا نَلْبَسُهَا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں، پردہ میرے دروازے پر لٹک رہا تھا، جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: اس کو یہاں سے دور کر دو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتا ہے، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 26 (2107/88)، سنن النسائی/الزینة 111 (5355)، انظر أیضا: صحیح البخاری/المظالم 32 (2479)، واللباس 91 (5954)، والأدب 75 (6109)، وسنن النسائی/القبلة 12 (762) (تحفة الأشراف: 16101)، و مسند احمد (6/49، 241) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (136)
حدیث نمبر: 2469
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة , عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كانت وسادة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي يضطجع عليها من ادم حشوها ليف " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَتْ وِسَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَضْطَجِعُ عَلَيْهَا مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چمڑے کا ایک تکیہ (بستر) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 6 (2082) (تحفة الأشراف: 17064) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ اس ذات گرامی کی سادہ زندگی کا حال تھا جو سید المرسلین تھے، آج کی پرتکلف زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سادہ زندگی سے کس قدر مختلف ہے، کاش ہم مسلمان آپ کی اس سادگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں، اور اسے اختیار کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (282)
33. باب مِنْهُ
33. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2470
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي ميسرة، عن عائشة، انهم ذبحوا شاة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما بقي منها؟ " قالت: ما بقي منها إلا كتفها، قال: " بقي كلها غير كتفها " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وابو ميسرة هو الهمداني اسمه: عمرو بن شرحبيل.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَقِيَ مِنْهَا؟ " قَالَتْ: مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلَّا كَتِفُهَا، قَالَ: " بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ هُوَ الْهَمْدَانِيُّ اسْمُهُ: عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس میں سے کچھ باقی ہے؟ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے، آپ نے فرمایا: دستی کے سوا سب کچھ باقی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17419) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ ذبح کی گئی بکری کا جتنا حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہی صدقہ کیا ہوا مال درحقیقت باقی ہے، رہا وہ حصہ جو تمہارے پاس ہے وہ باقی نہیں ہے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ رب العالمین کے اس فرمان کی طرف ہے، «ماعندكم ينفد وما عند الله باق» جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے، اور رب العالمین کے پاس جو کچھ ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2544)

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.