(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا محمد بن ابي حميد، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عمر بن الخطاب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم بخيار امرائكم وشرارهم خيارهم؟ الذين تحبونهم ويحبونكم وتدعون لهم ويدعون لكم، وشرار امرائكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعنونكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن ابي حميد، ومحمد يضعف من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِ أُمَرَائِكُمْ وَشِرَارِهِمْ خِيَارُهُمْ؟ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَتَدْعُونَ لَهُمْ وَيَدْعُونَ لَكُمْ، وَشِرَارُ أُمَرَائِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، وَمُحَمَّدٌ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے اچھے حکمرانوں اور برے حکمرانوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ اچھے حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو گے اور وہ تم سے محبت کریں گے، تم ان کے لیے دعائیں کرو گے اور وہ تمہارے لیے دعائیں کریں گے، تمہارے برے حکمراں وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو گے اور وہ تم سے نفرت کریں گے تم ان پر لعنت بھیجو گے اور وہ تم پر لعنت بھیجیں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف محمد بن ابوحمید کی روایت سے جانتے ہیں، اور محمد بن ابوحمید حافظے کے تعلق سے ضعیف قرار دیے گئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10399) (صحیح) (سند میں محمد بن ابی حمید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحة رقم: 907)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کچھ ایسے حکمراں ہوں گے جو عدل و انصاف سے کام لیں گے، ان کے اور تمہارے درمیان محبت قائم ہو گی وہ تمہارے خیرخواہ اور تم ان کے خیرخواہ ہو گے، اور کچھ ایسے حکمراں ہوں گے جو ظلم و زیادتی میں بےمثال ہوں گے، ان میں شر کا پہلو زیادہ غالب ہو گا، اسی لیے تم ان سے اور وہ تم سے بغض رکھیں گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (907)
قال الشيخ زبير على زئي: (2264) إسناده ضعيف محمد بن أبى حميد ضعيف (تق:5836) و روي مسلم (1855) عن عوف بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم ويصلون عليكم و تصلون عليهم و شرار أئمتكم الذين تبغضونهم و يبغضونكم وتلعنونهم ويلعنونكم . . . إلخ وهو صحيح و الحمد لله
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا هشام بن حسان، عن الحسن، عن ضبة بن محصن، عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إنه سيكون عليكم ائمة تعرفون وتنكرون، فمن انكر فقد بريء، ومن كره فقد سلم، ولكن من رضي وتابع "، فقيل: يا رسول الله، افلا نقاتلهم؟ قال: " لا ما صلوا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ بَرِيءَ، وَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ "، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: " لَا مَا صَلُّوا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمراں ہوں گے جن کے بعض کاموں کو تم اچھا جانو گے اور بعض کاموں کو برا جانو گے، پس جو شخص ان کے برے اعمال پر نکیر کرے وہ مداہنت اور نفاق سے بری رہا اور جس نے دل سے برا جانا تو وہ محفوظ رہا، لیکن جو ان سے راضی ہو اور ان کی اتباع کرے (وہ ہلاک ہو گیا)“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة (1854)، سنن ابی داود/ السنة 30 (4760) (تحفة الأشراف: 18166)، و مسند احمد (6/295) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: منکر کا انکار اگر زبان سے ہے تو ایسا شخص نفاق سے بری ہے، اور دل سے ناپسند کرنے والا اس منکر کے شر اور وبال سے محفوظ رہے گا، لیکن جو پسند کرے اور اس سے راضی ہو تو وہ منکر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی جس سزا کے وہ مستحق ہوں گے اس سزا کا یہ بھی مستحق ہو گا، منکر انجام دینے والے بادشاہوں سے اگر وہ نماز کے پابند ہوں قتال کرنے سے اس لیے منع کیا گیا تاکہ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں، اور امت اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو، جب کہ نماز کی پابندی نہ کرنے والا تو کافر ہے، اس لیے اس سے قتال جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن سعيد الاشقر، حدثنا يونس بن محمد، وهاشم بن القاسم، قالا: حدثنا صالح المري، عن سعيد الجريري، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان امراؤكم خياركم واغنياؤكم سمحاءكم واموركم شورى بينكم فظهر الارض خير لكم من بطنها، وإذا كان امراؤكم شراركم واغنياؤكم بخلاءكم واموركم إلى نسائكم فبطن الارض خير لكم من ظهرها "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث صالح المري، وصالح المري في حديثه غرائب ينفرد بها لا يتابع عليها، وهو رجل صالح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشْقَرُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ، وَصَالِحٌ الْمُرِّيُّ فِي حَدِيثِهِ غَرَائِبُ يَنْفَرِدُ بِهَا لَا يُتَابَعُ عَلَيْهَا، وَهُوَ رَجُلٌ صَالِحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے حکمراں، تمہارے اچھے لوگ ہوں، اور تمہارے مالدار لوگ، تمہارے سخی لوگ ہوں اور تمہارے کام باہمی مشورے سے ہوں تو زمین کی پیٹھ تمہارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے، اور جب تمہارے حکمراں تمہارے برے لوگ ہوں، اور تمہارے مالدار تمہارے بخیل لوگ ہوں اور تمہارے کام عورتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف صالح المری کی روایت سے جانتے ہیں، اور صالح المری کی حدیث میں ایسے غرائب ہیں جن کی روایت کرنے میں وہ منفرد ہیں، کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا، حالانکہ وہ بذات خود نیک آدمی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13620) (ضعیف) (سند میں صالح بن بشیر المری ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5368 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (646) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2266) إسناده ضعيف صالح بن بشير المري: ضعيف (تقدم: 2133)
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني، حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إنكم في زمان من ترك منكم عشر ما امر به هلك، ثم ياتي زمان من عمل منكم بعشر ما امر به نجا "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث نعيم بن حماد، عن سفيان بن عيينة، قال: وفي الباب عن ابي ذر، وابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ مَنْ تَرَكَ مِنْكُمْ عُشْرَ مَا أُمِرَ بِهِ هَلَكَ، ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ بِعُشْرِ مَا أُمِرَ بِهِ نَجَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ نُعَيْمِ بْنِ حَمَّادٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایسے زمانہ میں ہو کہ جو اس کا دسواں حصہ چھوڑ دے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ ہلاک ہو جائے گا، پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے جو اس کے دسویں حصہ پر عمل کرے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ نجات پا جائے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف نعیم بن حماد کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوذر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13721) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”نعیم بن حماد“ حافظہ کے سخت ضعیف ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم: 2510، وتراجع الالبانی224)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس وقت جب کہ دین کا غلبہ ہے اس کے معاونین کی کثرت ہے ایسے وقت میں شرعی امور میں سے دسویں حصہ کا ترک کرنا اور اسے چھوڑ دینا باعث ہلاکت ہے، لیکن وہ زمانہ جو فسق و فجور سے بھرا ہوا ہو گا، اسلام کمزور اور کفر غالب ہو گا، اس وقت دین کے معاونین قلت میں ہوں گے تو ایسے وقت میں احکام شرعیہ کے دسویں حصہ پر عمل کرنے والا بھی کامیاب و کامران ہو گا، لیکن اس دسویں حصہ میں ارکان اربعہ ضرور شامل ہوں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (684)، المشكاة (179)، الروض النضير (1076) // ضعيف الجامع الصغير (2038) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2267) إسناده ضعيف سفيان بن عيينة عنعن (تقدم: 1778)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر فقال: " هاهنا ارض الفتن، واشار إلى المشرق، يعني حيث يطلع جذل الشيطان، او قال: قرن الشيطان "، هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: " هَاهُنَا أَرْضُ الْفِتَنِ، وَأَشَارَ إِلَى الْمَشْرِقِ، يَعْنِي حَيْثُ يَطْلُعُ جِذْلُ الشَّيْطَانِ، أَوْ قَالَ: قَرْنُ الشَّيْطَانِ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”فتنے کی سر زمین وہاں ہے اور آپ نے مشرق (پورب) کی طرف اشارہ کیا یعنی جہاں سے شیطان کی شاخ یا سینگ نکلتی ہے“۱؎۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکے گی یہاں تک کہ (فلسطین کے شہر) ایلیاء میں یہ نصب کیے جائیں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14289) (ضعیف الإسناد) (سند میں رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6420) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2269) إسناده ضعيف رشيدين بن سعد: ضعيف (تقدم: 54) ضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 66/5)